طلیب بن عمیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
طلیب بن عمیر
معلومات شخصیت

طلیب بن عمیر رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک ہونے صحابی ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں پناہ گزین ہونے سے پہلے مشرف باسلام ہوئے۔ہجرت مدینہ کے بعد غزوہ بدر میں شریک ہوئے ، غزوہ بدر سے بعد کے حالات معلوم نہیں۔قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 13ھ میں وفات پائی ۔

نام و نسب[ترمیم]

طلیب نام، ابوعدی کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، طلیب بن عمیر بن وہب بن عبد بن قصی بن کلاب بن مرہ قرشی عبد ری، آپ کی ماں اردی عبد المطلب کی بیٹی اور آنحضرت کی پھوپھی تھیں۔[1]

اسلام[ترمیم]

آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارقم کے گھر میں پناہ گزین ہونے کے بعد دولت اسلام سے بہرہ ورہوئے، قبول اسلام کے بعد گھر آئے اور ماں سے کہا میں خلوص دل سے اسلام لاکر محمد کا پیرو ہو گیا ہوں، ان نیک خاتون نے جواب دیا کہ تمھارے بھائی غیروں سے زیادہ تمھاری مدد کے مستحق ہیں، اگر مجھ میں مردوں جیسی قوت ہوتی تو ان کو کفار کی دراز دستیوں سے بچاتی،ماں کے اس شریفانہ جذبات کو سن کر کہا کہ پھر آپ کو اسلام لانے سے کیا چیز روکتی ہے،آپ کے بھائی حمزہ بھی اسلام لا چکے، بولیں مجھ کو اپنی بہنوں کا انتظار ہے کہ وہ کیا کرتی ہیں، ان کے بعد میں بھی ان ہی کی پیروی کروں گی، طلیب نے اصرار کیا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دلاتا ہوں، آپ محمد کے پاس چلیے اور ان کی رسالت اور اللہ کی توحید کا اقرار کیجئے۔ [2]

ماں کا اسلام[ترمیم]

ان خاتون کا دل شروع سے آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب مائل تھا، اس لیے اس اصرار پر انکار کی ہمت نہ ہوئی اور اسی وقت کلمہ توحید زبان پر جاری ہو گیا۔ اردی عورت تھیں مگر اسلام کے بعد مردانہ ہمت واستقلال کے ساتھ آنحضرت کی امکانی مدد کرتی رہیں، نسائیت کی وجہ سے عملی امداد سے تو مجبور تھیں،مگر زبان سے جو کچھ بن پڑتا تھا کہتی تھیں اور اپنے فرزند کو آنحضرت کی امداد و اعانت پر آمادہ کرتی تھیں۔ [3]

آنحضرت ﷺ کی مدد[ترمیم]

ابتدائے اسلام میں جب آنحضرت پر ظلم و ستم کی بدلیاں گرج گرج کر برستی تھیں،طلیبؓ آنحضرت کی حمایت کرتے تھے،مشرکین نے حضور انور کی ایذارسانی کو اپنا مستقل شیوہ بنالیا تھا، ایک مرتبہ عوف بن صبرہ سہمی آپ کی شان میں ناروا الفاظ استعمال کررہا تھا، طلیبؓ نے اس کو اونٹ کی ہڈی سے مار کر زخمی کر دیا تھا، لوگوں نے ان کی ماں سے شکایت کی ،ان نیک خاتون نے جواب دیا۔ ان طلیبا نصرابن خالہ واساہ فی دمہ ومالہ طلیب نے اپنے ماموں کے بیٹے کی مدد کی اوراس کے خون اوراس کے مال کی غمخواری کی ایک مرتبہ ابواہاب بن عزیز دارمی کو قریش نے آنحضرت کے مارنے پر آمادہ کیا، مگر قبل اس کے کہ وہ یہ ناپاک ارادہ پورا کرتا،حضرت طلیبؓ سے ملاقات ہو گئی، آپ نے اس کے ارادہ فاسد کو اسی کے ساتھ پورا کر دکھایا۔ مشرکین کا سرغنہ ابو لہب جو مسلمانوں کی ایذا رسانی میں سب سے آگے رہتا تھا،ان کا حقیقی ماموں تھا، جب اس نے مسلمانوں کو قید کیا تو طلیبؓ نے اس کو مارنے میں بھی دریغ نہ کیا، اس جرأت پر مشرکین نے ان کو باندھ دیا؛لیکن ابولہب کے بھانجے تھے،اس لیے اس نے خود چھوڑ دیا اور اپنی بہن سے شکایت کی ،انھوں نے جواب دیا کہ طلیب کی زندگی کا بہترین دن وہی ہے،جس میں وہ محمد کی مدد کریں۔ [4]

ہجرت و مواخات[ترمیم]

کفار مکہ کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنا آسان نہ تھا، اس لیے ہجرت ثانیہ میں حبشہ چلے گئے، وہاں سے مدینہ آئے اور عبد اللہ بن سلمہ عجلانی کے مہمان ہوئے۔[5]

غزوہ بدر[ترمیم]

جس شخص نے ظلم و ستم کی گھٹاؤں میں رسول اللہ کی علانیہ مدد کی وہ آزادی ملنے کے بعد کب خاموش رہ سکتا تھا، اس لیے مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے معرکہ بدر عظمیٰ میں شریک ہوکر حق شجاعت ادا کیا۔ [6]

وفات[ترمیم]

بدر کے بعد سے وفات تک کے حالات پردہ میں ہیں؛لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی بھر جہاد میں شریک ہوتے رہے؛چنانچہ اسی سلسلہ میں اجنادین یا یرموک کی جنگ میں جمادی الاولی 13ھ میں شہادت پائی،وفات کے وقت کل 35سال کی عمر تھی، اولاد کوئی نہ تھی۔[7][8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسد الغابہ:3/65
  2. محمد بن سعد البغدادي ، الطبقات الكبرى، تحقيق: محمد عبد القادر عطا (ط. 1)، بيروت: دار الكتب العلمية، ج. 3، ص. 67
  3. (مستدرک حاکم:3/230)
  4. (اصابہ:3/290)
  5. (ابن سعد جزو4،ق1:87)
  6. (استیعاب:1/260)
  7. ابن سعد:3/87،ق اول
  8. اصحاب بدر،صفحہ 99،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور