عمیر بن وہب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عمیر بن وہب
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب الاسلام
اولاد وہب بن عمير

عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ کو قتل کے اردے سے آئے اور حلقہ اسلام میں داخل ہو گئے۔عمیر اسلام کے بڑے دشمن تھے۔غزوہ بدر کی شکست کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (نعوذباللہ) قتل کے ارادہ سے نکلے تھے۔مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کر لیا۔پھر غزوہ احد سمیت دیگر تمام غزوات میں شریک ہوئے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی ۔

نام و نسب[ترمیم]

عمیرنام، ابوامیہ کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے، عمیر بن وہب بن خلف ابن وہب بن حذافہ بن جمح، ماں کا نام ام سخیلہ تھا، نانہالی نسب نامہ یہ ہے ام سخیلہ بنت ہاشم بن سعید بن سہم قرشی۔

قبل اسلام[ترمیم]

عمیر قریش کے سربرآوردہ اور بہادر لوگوں میں تھے، قبول اسلام کے پہلے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سخت دشمن تھے، غزوہ بدر میں مشرکین کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کی قوت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی نکلے تھے، مگر اس غزوہ میں انھوں نے جنگ کو ٹالنے کی بڑی کوشش کی، ابن سعد کا بیان ہے، "وقد کان حریصا علی رد قریش عن رسول اللہ ببدر" ؛لیکن جب اس میں ناکامی ہوئی تو دوسرا طریقہ اختیار کیا کہ قریش سے انصار کی تذلیل کے لیے کہا کہ ان کے چہرے سانپوں کی طرح ہیں، جو پیاس سے بھی نہیں مرتے، ان کی یہ مجال کہ ہمارے مقابلہ میں آکر بدلہ لیں، اس لیے ان روشن و تاباں چہرہ والوں قریش کو ان سے تعارض نہ کرنا چاہیے، انصار نے جواب دیا یہ خیال چھوڑ دو اور اپنے قبیلہ کوجنگ پر آمادہ کرو، جب یہ تدبیر بھی ناکام رہی تو مجبورً لڑنا پڑا۔ [1] جس کا نتیجہ قریش کی شکست کی صورت میں ظاہر ہوا اور ان کا لڑکا وہب مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ [2] هـ.[3]

آنحضرت کے قتل کا ارادہ[ترمیم]

بدر کی شکست سے مشرکین کی آتش انتقام اور تیز ہو گئی اور وہ مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لیے طرح طرح کے منصوبے سوچنے لگے، ایک دن عمیر اور سرخیل مشرکین صفوان بن امیہ آپس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، صفوان نے کہا بدر کے مقتولین کے بعد زندگی بے مزہ ہو گئی، عمیر نے کہا بالکل سچ ہے، واللہ لطف زندگی جاتا رہا، اگر مجھ پر قرض اور اہل و عیال کی پرورش کا بار نہ ہوتا تو میں محمد کے قتل کی کوشش کرتا، صفوان یہ سن کر پھولا نہ سمایا، بولا یہ کونسی بڑی بات ہے، تمھارے قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ لیتا ہوں اور جس طریقہ سے میں اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتا ہوں اسی طرح تمھارے اہل و عیال کی پرورش بھی کروں گا اور عمیر کے لیے ضروری سامان سفر مہیا کر دیا، اس میں ایک سم آلود تلوار بھی تھی اور عمیر یہ ہدایت کرکے کہ ابھی کچھ دنوں میرے حالات پوشیدہ رکھنا مدینہ پہنچے اور مسجد نبوی کے دروازہ پر سواری کھڑی کرکے تلوار لیے ہوئے سیدھے آنحضرت کی طرف چلے، حضرت عمرؓ دیکھ رہے تھے، وہ آنحضرت کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! عمیر کو کسی قیمت پر امان نہ دیجئے گا، فرمایا اچھا ان کو لے آؤ، عمر چند اشخاص کو آنحضرت کی حفاظت کے لیے متعین کرکے خود عمیر کو لانے چلے گئے، وہ تلوار لیے ہوئے داخل ہوئے، اس وقت آنحضرت نے عمر کو ہٹا دیا، عمیر نے سلام علیک کی جگہ "اتعمواصباحا"جاہلیت کا سلام کیا، آنحضرت نے فرمایا، اللہ عزوجل نے تمھارے طریقہ تحیہ سے ہم کو مستغنی کر دیا اورہمارا طریقہ تحیہ سلام متعین کیا ہے، پھر پوچھا کیسے آنا ہوا، عمیر نے کہا اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے، آخر تم بھی تو ہمارے ہی ہم قبیلہ اور ہم خاندان ہو، آنحضرت نے پوچھا، یہ تلوار کیسی گلے میں آویزاں ہے، کہا ان تلواروں کا برا ہو، یہ ہمارے کس کام آئیں، اترتے وقت گلے سے نکالنا بھول گیا تھا، اس لیے لٹکی رہ گئی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، سچ سچ بتاؤ تم کس ارادہ سے آئے ہو، کہا صرف قیدیوں کو چھڑانے کے لیے، فرمایا تم نے صفوان سے کیا شرط کی تھی، اس سوال پر عمیر بہت گھبرائے اور کہا میں نے کیا شرط کی تھی، فرمایا ان ان شرائط کے ساتھ تم نے قتل کا وعدہ کیا تھا۔ [4]

اسلام[ترمیم]

یہ سنتے ہی عمیر کی حالت بدل گئی جس زبان سے (نعوذباللہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا عہد کرکے آئے تھے، اس زبان سے بے اختیار انک رسول اللہ واشہدان لاالہ الا اللہ نکل گیا۔[5] قبول اسلام کے بعد آنحضرت نے مسلمانوں سے فرمایا کہ اپنے بھائی کو آرام پہنچاؤ اوران کے قیدی چھوڑدو، چنانچہ وہب کو بغیر فدیہ کے رہا کر دیا گیا۔ [6]

مکہ کی واپسی اور اشاعت اسلام[ترمیم]

مکہ میں صفوان نہایت بے چینی سے ان کے کام کا انتظار کر رہا تھا اور قریش سے کہتا پھرتا تھا کہ میں تم کو ایسی کامیابی کی خوشخبری سناتا ہوں جس کے بعد بدر کی شکست کا غم بھول جائے گا اور ہر آنے جانے والے سے پوچھتا کہ مدینہ میں کوئی نیا واقعہ تو نہیں پیش آیا آنحضرت کا کام تمام تو نہیں ہوا) ایک دن بالکل خلاف توقع خبر سنی کہ جو شکار کرنے نکلا تھا وہ خود شکار ہو گیا، یعنی عمیر مسلمان ہو گئے، اس خبر سے بہت پیچ وتاب کھایا اور عہد کر لیا کہ اب کبھی عمیر سے نہ بولوں گا اور نہ اس کی کسی قسم کی مدد کروں گا، تمام مشرکین نے عمیر کے اسلام پر اظہار ملامت کیا، اس درمیان میں عمیر نے قرآن کی کچھ تعلیم حاصل کرلی اور آنحضرت سے عرض کیا اگر اجازت ہو تو میں مکہ میں جاکر اشاعت اسلام کا فرض انجام دوں، شاید خدا ان لوگوں کو ہدایت دے، آپ نے منظور فرمایا اور عمیر نے مکہ میں آکر بڑی سرگرمی سے تبلیغ شروع کردی اور ان کی کوششوں سے بڑی تعداد اسلام کے شرف سے بہرہ ور ہوئے۔

ہجرت وغزوات[ترمیم]

مکہ میں عرصہ تک تعلیم وارشاد کا فرض انجام دیتے رہے پھر احد کے قبل ہجرت کرکے مدینہ آ گئے اور غزوہ احد، غزوہ تبوک، فتح مکہ وغیرہ تمام معرکوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور اپنی تلوار کے جوہر دکھائے۔

عہد خلفاء راشدین[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق کے عہدِ خلافت میں مہمات امور میں برابر شریک رہے، حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں جب عمرو بن العاص نے مصر پر چڑھائی کی اورابتدائی فتوحات کے بعد اسکندریہ کی تسخیر میں زیادہ دیر لگی، تو حضرت عمر ؓ نے دس ہزار امدادی فوج چار امرا کی سرکردگی میں بھیجی، ان میں ایک عمیر بھی تھے۔ [7] اور یہ ہدایت کر دی تھی کہ حملہ کے وقت ان چاروں کو آگے آگے رکھنا؛چنانچہ ان ہی چاروں کی کوششوں سے اسکندریہ کی مہم سر ہوئی، اسکندریہ کی فتح کے بعد عمرو بن العاص نے متفرق چھوٹے چھوٹے مقامات کی تسخیر کے لیے علاحدہ علاحدہ افسر متعین کیے تھے، اس سلسلہ میں عمیر نے بہت سے مقامات فتح کیے، تینس،ومیاط، تونہ، ومیرہ، شطا، وقہلہ، بنا اور بوسیر وغیرہ خاص طورسے قابل ذکر ہیں۔

وفات[ترمیم]

عمیر بن وہب نے حضرت عمر فاروق ؓ کے آخر عہدِ خلافت میں وفات پائی۔ [8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الاستيعاب فی معرفۃ الاصحاب 2/437مؤلف: ابو عمر ابن عبد البر بن عاصم النمری ناشر: دار الجيل، بيروت
  2. {{|Q116749659|ج=3|ص=1221|via=المكتبة الشاملة}}
  3. «تاريخ خليفة بن خياط» (ص142)
  4. الطبقات الكبرى: محمد بن سعد البغدادي الزهري، الجزء الثاني-صفحة 15
  5. لاصابہ فی تمييز الصحابہ 5/36مؤلف: ابو الفضل احمد بن علی بن محمد بن احمد بن حجر العسقلانی ناشر: دار الكتب العلمیہ - بيروت
  6. الطبقات الكبير جلد4،ق اول:1142،147مؤلف: محمد بن سعد بن منيع الزہری ناشر: مكتبہ الخانجي القاہرہ
  7. فتوح البلدان220مؤلف: احمد بن يحيى بن جابر بن داود البَلَاذُری، ناشر: مكتبہ الہلال بيروت
  8. «أنساب الأشراف للبلاذري» (10/ 253)