حارثہ بن النعمان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حارثہ بن النعمان
معلومات شخصیت

حارثہ بن نعمان انصاری صحابی رسول، ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی مدینہ کے رہنے والے تھے۔ امام ابوعبدالرحمن نسائی اور علامہ ابونعیم اصبہانی نے حارثہ کو اصحاب صفہ میں شمار کیا ہے ۔[1] نام حارثہ، کنیت ابو عبد اللہ ، والد کانام نعمان بن نفیع ، انصارِ مدینہ سے تعلق رکھتے ہیں۔طبقات ابنِ سعد: 3/ 488، امام ذہبی علیہ الرحمۃ حارثہ کا تعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں ! شہدبدراً والمشاہد، ولانعلم لہ روایۃ وکان دیّنا خیراً،برّاً بأمہ [2] ترجمہ: حارثہ غزوۂ بدر اور دیگر تمام غزوات میں شریک رہے ہیں ان سے کوئی روایت مروی نہیں ہے ، یہ بہت دیندار ، پارسا اور اپنی ماں کی فرماں برداراولاد ہیں ۔

جنت کی بشارت[ترمیم]

عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں داخل ہوا اور قرآن کریم پڑھنے کی آواز سنی، تو میں نے دریافت کیا یہ کون ہے ؟ جواب ملا: یہ خوش بخت حارثہ بن نعمان ہے ! یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کذلک البّر، کذلک البّر،وکان ابّرالناس بأمہ‘‘ واقعی نیکی ایسی ہی ہوتی ہے ، نیکی ایسی ہی ہوتی ہے یعنی نیکی کا پھل ایساہی ہوتاہے ، حارثہ بن نعمان اپنی والدہ کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرنے والا ہے ۔ حارثہ ان 80؍ صحابہ کرام میں ہیں جو غزوۂ حنین میں جمے رہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاساتھ نہیں چھوڑا۔ [3]

جبرئیل علیہ السلام کی دومرتبہ زیارت[ترمیم]

حارثہ کا بیان ہے کہ میں نے جبرائیل علیہ السلام کی دومرتبہ زیارت کی ہے ۔ پہلی مرتبہ صورین- یہ مدینہ منورہ میں جنت البقیع کے پاس ایک جگہ ہے - کے مقام پر جس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنوقریظہ کے محاصرے کے لیے تشریف لے جا رہے تھے ، تو ہمارے پاس سے دحیہ کلبی کی شکل وصورت میں گذرے اور ہتھیار سے لیس ہونے کا حکم دے گئے ۔ دوسری مرتبہ غزوۂ حنین کے شہداء کو دفن کرنے کے مقام میں زیارت کی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذراتو دیکھا کہ وہ آپ سے محوِ گفتگو ہیں ۔ میں نے سلام نہیں کیا، آگے بڑھ گیا، تو جبرئیل نے میرے بارے میں دریافت کیاکہ اے محمد ! یہ کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ حارثہ بن نعمان ہے ! یہ سن کر جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا: یہ ان 80؍ خوش بختوں میں ہیں کہ جو غزوۂ حنین میں اپنی جگہ پرجمے رہے ، اللہ تعالیٰ نے ان کے اور ان کی اولاد کے رزق وروزی کی ذمہ داری جنت میں لے رکھی ہے ۔[4]

وفات[ترمیم]

امیر معاویہ کے عہدِ خلافت میں ان کا انتقال ہوا۔[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. حلیۃ الأولیاء: 1/365
  2. مسندِ أحمد: 5 /433
  3. الإستیعاب : 1/ 283
  4. الثقات : /156، نمبر: (309
  5. الإصابۃ : 1/316