مندرجات کا رخ کریں

ابو معشر نجیع سندھی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Abu Ma'shar Al-Sindi
ابو معشر نجیع سندھی
Translation into لاطینی زبان of a work of Albumasar De Magnis Coniunctionibus ("Of the great conjunctions"), وینس, 1515.
ذاتی
پیدائش
Sind, Umayyad Caliphate (now پاکستان, سندھ province)
وفات170 AH (786 AD)
بغداد, Abbasid Caliphate
مذہباسلام
نسلیتسندھi
دوراسلامی عہد زریں
دور حکومتخلافت عباسیہ
معتقداتاہل سنت
بنیادی دلچسپیحدیث, سیرت نبوی, فقہ
پیشہعلماء
مرتبہ
متاثر
  • Abu Abdul Malik Sindhi
بسم الله الرحمن الرحيم
الله

مضامین بسلسلہ اسلام :

آپ کی ایک کتاب کا لاطینی ترجمہ وینس اٹلی, 1515.

ابو معشر نجیع سندھی بر صغیر کے اولین محدثین میں سے تھے جو سندھ سے تعلق رکھتے تھے اور عربوں کے ہاتھوں فتح سندھ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ آپ مدینہ میں طویل عرصہ رہے لہذا مدنی بھی کہلاتے ہیں۔ اپنے زمانے میں فن مغازی و سیر کے امام تھے اور مورخین آپ کو ان بزرگان میں شمار کرتے ہیں جنھوں نے اول اول اس فن کی ابتدا کی آپ کی وفات 170ھ میں ہوئی اور کہتے ہیں کہ جنازے میں خلیفہ ہارون رشید بھی شامل ہوئے۔ قاضی عبد الکریم سمعانی نے آپ کا مختصر ذکر اپنی کتاب الانساب میں کیا ہے۔ وہ سندھی الاصل تھے، لیکن ان کے علم و فضل کی بنا پر عرب ہونے کا دھوکا ہوتا تھا؛ چنانچہ خود ان کی زندگی میں ان کے عرب اور غیر عرب ہونے کی بحث چھڑ گئی تھی، ایک مرتبہ کسی نے انھیں یمنی کہا تو فوراً اس کی تردید کی اور فرمایا: ولاء فی بنی ھاشم احب الی من نسبی فی بنی حنظلہ[1] بنو ہاشم کے غلاموں میں ہونا میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ بنو حنظلہ میرا نسب ہو۔

خطیب بغدادی نے خود ان کے صاحبزادے محمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میرے والد سندھی تھے، عرب میں مدت تک رہنے کے باوجود زبان میں سندھیت کا اثر آخر وقت تک باقی رہا؛ چنانچہ وہ بعض عربی حروف کو صحیح طور پر تلفظ کرنے پر قادر نہ تھے، مثلاً کعب کو ہمیشہ قعب کہا کرتے تھے۔ ابو نعیم کہتے ہیں: کان ابو معشر سندیاً وکان رجلاً لکن یقول حدثنا محمد بن قعب یرید ابن کعب۔[2] تلفظ صحیح نہ تھا، وہ حدثنا محمد بن قعب کہتے تھے اور قعب سے کعب مراد ہوتی تھی۔

ابتدائی حالات

[ترمیم]

ابو معشر کے ابتدائی حالات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں،صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ سندھ کی کسی جنگ میں جو مسلمانوں اور سندھیوں میں ہوئی تھی،گرفتار ہوکر حجاز گئے،وہاں بنی مخزوم کی ایک عورت نے خرید کر مکاتب بنالیا،کچھ عرصہ کے بعد خلیفہ مہدی کی ماں نے رقمِ کتابت ادا کرکے آزاد کر دیا [3] مدینہ میں عرصہ تک رہنے کی وجہ سے مدنی بھی مشہور ہیں۔

تحصیلِ علم

[ترمیم]

ابو معشر کی زندگی کا کافی حصہ متعدد خاندانوں میں غلامی کرتے گذرا ،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مالکوں نے انھیں تحصیل علم کے پورے مواقع بہم پہنچائے، اس طرح وہ مدینہ منورہ اوردیگر مقامات کے چشمائے علم سے سیراب ہوئے اور علمِ حدیث مغازی اور فقہ میں کمال پیدا کیا بالخصوص فنِ مغازی میں ان کا پایہ درجہ امامت تک پہنچا ہوا ہے۔ ابو معشر کے شیوخ میں درجِ ذیل ممتاز نام ملتے ہیں۔ محمد بن کعب القرظی،نافع مولیٰ بن عمر،سعید المقبری،محمد بن المکندر،ہشام بن عروہ،ابی بردہ بن ابی موسیٰ،موسیٰ بن یسار، محمد بن قیس [4] حافظ ابن حجر نے مشہور تابعی سعید بن المسیب کو بھی ان کے شیوخ میں شمار کرایا ہے،لیکن یہ صحیح نہیں ہے، ان کے استاذ سعید بن المسیب نہیں،سعید المقبری تھے،علامہ ذہبی نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے۔[5]

تلامذہ

[ترمیم]

ابو معشر کے حلقہ درس سے جو طالبانِ علم فارغ ہوکر نکلے ان کی تعداد بے شمار ہے، جس میں بہت سے جلیل القدر ائمہ اورعلماء کے نام ملتے ہیں،چند مشہور اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں: سفیان ثوری،یزید بن ہارون ،محمد بن عمر الواقدی،محمد بن بکار، عبد الرزاق، ابو نعیم، لیث بن سعد، وکیع بن الجراح،سعید بن منصور۔ [6]

علم و فضل

[ترمیم]

ابو معشر فنِ مغازی وسیر کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی بلند پایہ تھے،خطیب کا قول ہے کہ وہ فنِ مغازی کے سب سے زیادہ واقف کار تھے۔[7] علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ وہ حافظہ کی کمزوری کے باوجود علم کا مخزن تھے [8]بکر بن خلف کا بیان ہے کہ میں نے ان سے زیادہ فصیح آدمی نہیں دیکھا۔

ائمہ کی رائے

[ترمیم]

ابو معشر کے علم و فضل کو تمام ائمہ و علما نے سراہا ہے؛چنانچہ محدِّ ث عمر بن عوف اپنے تلامذہ کے سامنے ابو معشر کے متعلق ہشیم کا یہ قول نقل فرمایا کرتے تھے کہ مارأیت مدنیاً یثبہ ولا الیس منہ میں نے ان کے جیسا فہیم وذکی مدنی نہیں دیکھا۔ ابو حاتم بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ابو معشر کو پسند کرتے تھے اورفنِ مغازی میں ان کی بصیرت کے قائل تھے، میں ان سے روایت کرتے ہوئے ڈرتا تھا،حتیٰ کہ میں نے امام احمد کو ایک شخص کے واسطہ سے ابو معشر سے روایت کرتے دیکھا تو میں نے بھی ان سے روایت حدیث کے بارے میں اپنے مسلک میں وسعت پیدا کرلی [9]سیر و مغازی میں انہماک کی وجہ سے بعض ائمہ نے ان کی تضعیف کی ہے، ابن معین کا قول ہے،وہ ضعیف ہیں، مگر زہد و رقاق کی حدیثیں نقل کی جا سکتی ہیں [10]ابو حاتم سے دریافت کیا گیا کہ کیا ابو معشر ثقہ ہیں؟ فرمایا نیک شخص ہیں،گو روایت حدیث میں کمزور ہیں مگر سچے ہیں۔ امام بخاری ومسلم نے اس ضعف کی بنا پر صحیحین میں ان کی کوئی روایت نہیں لی ہے، امام بخاری نے تاریخ صغیر میں ان کا شمار ضعفاء میں کیا ہے [11]ابوداؤد اورنسائی نے بھی تضعیف کی ہے ،لیکن علامہ نسائی اپنی سنن میں ابو معشر کی روایت سے حجت لائے ہیں [12] لیکن اس کے باوجود ابو معشر پایۂ اعتبار سے بالکل ساقط نہیں ہیں، ابن عدی نے بصراحت بیان کیا ہے کہ ائمہ ثقات نے ان کی روایتیں قبول کی ہیں۔ حدث عنہ الثقات مع ضعفہ یکتب حدیثہ [13] ثقات نے ان سے روایت کی ہے ضعف کے باوجود ان کی حدیثیں لکھی جا سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں عبد الرحمن بن مہدی جو جرح و تعدیل کے شہرہ آفاق امام ہیں،وہ بھی ابو معشر سے روایت کرتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس متن کی حدیث کی یاداشت میں ابو معشر کا حافظ کمزور نہیں ؛بلکہ واقعہ یہ ہے کہ سلسلہ اسناد کے یاد رکھنے میں ان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں پھردوسری بات یہ کہ ان کا حافظہ عمر کے آخری ایام میں کمزور ہوا تھا، جیسا کہ بغدادی نے تصریح کی ہے کہ کان ابو معشر تغیر قبل ان یموت [14] موت سے کچھ پہلے ابو معشر میں تبدیلی آ گئی تھی اس لیے اس نقص کے پیدا ہونے سے قبل کی روایتیں مقبول اورقابلِ حجت ہیں۔

بغداد میں آمد اور وفات

[ترمیم]

خلیفہ مہدی ان کے علم و فضل کا بڑا قدردان تھا،ان سے اس کی انسیت کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ وہ اس کی ماں کے غلام رہ چکے تھے، ایک مرتبہ حج کے موقع پر دونوں کا ساتھ ہو گیا،مہدی نے ان کی قدر افزائی کی اورحکم دیا کہ وہ شاہی خیمہ میں بلائے جائیں اور اس قافلہ کے لوگ ان سے فقہ حاصل کریں ،پھر مہدی نے ان کی خدمت میں ایک ہزار دینار کا تحفہ پیش کیا،اس کے بعد وہ انھیں 160 ھ میں اپنے ہمراہ مدینہ سے بغداد دلایا اور تعلیم کی خدمت ان کے سپرد کی اس کے بعد وہیں مستقل قیام اختیار کر لیا اوررمضان 170 ھ میں رحلت فرمائی [15] خلیفہ وقت ہاروں الرشید نے جو اسی سال تخت نشین ہوا تھا نماز جنازہ پڑھائی بغداد کے مقبرہ کبیر میں مدفون ہوئے۔ [16]

اولاد

[ترمیم]

صرف ایک صاحبزادے محمد بن ابی معشر تھے،اپنے والد کی طرح وہ بھی صاحب علم و فضل تھے اور مشہور محدث ابو ذئب کے محبوب تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا،ترمذی وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے،ابو معشر کی کتاب المغازی انھی کی روایت کی ہوئی ہے، ان کی ثقاہت پر تمام ائمہ متفق ہیں:99 سال کی عمر میں 244 ھ میں وفات پائی۔

تصنیف

[ترمیم]

ابو معشر صاحبِ تصانیف بھی تھے، ابن ندیم نے ولہ من الکتب لکھا ہے جس سے خیال ہوتا ہے کہ ان کی تصنیفات ایک سے زائد ہیں لیکن صرف کتاب المغازی ہی کا پتہ ملتا ہے۔ خلیلی کا بیان ہے کہ ائمہ ان کی تاریخ سے استدلال کرتے ہیں، اس بیان سے بظاہر ایسا خیال ہوتا ہے کہ فنِ تاریخ میں بھی ان کی کوئی تصنیف ہے،لیکن دراصل یہ ایک ہی کتاب ہے جس کو خلیلی تاریخ اورابن ندیم کتاب المغازی کہتے ہیں،متقدمین کے نزدیک مغازی،سیر اورتاریخ ایک ہی فن سمجھے جاتے تھے، ابن ندیم لکھتے ہیں: عارف بالاحداث والسیر واحد المحدثین ولہ من الکتب کتاب المغازی [17] وہ تاریخ وسیر کے عارف اورمحدث تھے ان کی کچھ کتابیں ہیں جن میں سے ایک کتاب المغازی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے مقدمہ سیرت میں ابو معشر کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے: "ابو معشر نجیع المدنی (م 170 ھ) ہشام بن عروہ کے شاگرد تھے،ثوری اورواقدی نے ان سے روایت کی ہے، گومحدثین نے روایتِ شان کا اعتراف کیا ہے،امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ وہ اس فن میں صاحبِ نظر ہیں،ابنِ ندیم نے ان کی کتاب المغازی کا ذکر کیا ہے،کتبِ سیرت میں ان کا نام کثرت سے آتا ہے۔[18]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (تاریخ بغداد:13/428)
  2. (کتاب الانساب:313،ونزہۃ الخواطر:1/45)
  3. (طبقات ابن سعد:5/309)
  4. (تاریخ بغداد:13/427،وتہذیب التہذیب:10/420)
  5. (تذکرۃ الحفاظ:1/212)
  6. (تہذیب التہذیب:1/420،وتاریخ بغداد:3/427)
  7. (ایضاً:429)
  8. (تذکرۃ الحفاظ:1/212)
  9. (تہذیب :10/420)
  10. (ایضاً:421)
  11. (تاریخ صغیر:192)
  12. (تذکرۃ الحفاظ:1/212)
  13. (تہذیب التہذیب:10/420)
  14. (تاریخ بغداد:13/429)
  15. (شذرات الذہب:1/278 ، العبر فی خبر من غبر:1/258)
  16. (الانساب للسمعانی ورق:313 طبع قدیم)
  17. (الفہرست:136)
  18. (سیرت النبی:1/22)