"قصیدہ معراجیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م درستی املا بمطابق فہرست املا پڑتالگر + ویکائی
1 مآخذ کو بحال کرکے 1 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.8
سطر 45: سطر 45:
== بیرونی روابط ==
== بیرونی روابط ==
* [http://mushahidrazvi.wordpress.com/2013/03/09/tazmeen-br-qaseeda-e-merajiaby-moulana-hassan-asar-badauni-تضمین-بر-قصیدہ-معراجیہ-اعل/comment-page-1/#comment-296 تضمین بر قصیدہ معراجیہ]
* [http://mushahidrazvi.wordpress.com/2013/03/09/tazmeen-br-qaseeda-e-merajiaby-moulana-hassan-asar-badauni-تضمین-بر-قصیدہ-معراجیہ-اعل/comment-page-1/#comment-296 تضمین بر قصیدہ معراجیہ]
* [http://www.alahazratnetwork.org/modules/worksonalahazrat/item.php?page=0&itemid=114 شرح حدائق بخشش]
* [http://www.alahazratnetwork.org/modules/worksonalahazrat/item.php?page=0&itemid=114 شرح حدائق بخشش] {{wayback|url=http://www.alahazratnetwork.org/modules/worksonalahazrat/item.php?page=0&itemid=114 |date=20131029010857 }}
* [http://madani.co/meraj-kalam قصیدہ معراجیہ آڈیو، وڈیو میں]
* [http://madani.co/meraj-kalam قصیدہ معراجیہ آڈیو، وڈیو میں]{{مردہ ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot }}


== مزید دیکھیے ==
== مزید دیکھیے ==

نسخہ بمطابق 09:34، 18 جنوری 2021ء

امام احمد رضا خان کا ایک معروف معراج نامہ، جومعراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے موضوع پر ہے۔ اس کے سڑسٹھ اشعار ہیں۔[1] اس قصیدے کو مولانا احمد رضا خان نےتہنیت شادی اسراء کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس میں روانی وتسلسل اور زبان کی لطافت و پاکیزگی ان کی جودت وجدت طبع کی آئینہ دار ہے۔[2] یہ معراج نامہ اپنے سے پیشتر معراج ناموں سے تیکنیک کے اعتبار سے مختلف ہے۔

مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی

پس منظر

اس قصیدہ کے لکھے جانے کی اصل وجہ تو حبِ احمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہے لیکن اس کا سبب مشہور شاعرسید محمد محسن کاکوروی بنے، انہوں نے بھی ایک معراج نامہ لکھا جو قصیدہ لامیہ کے نام سے موسوم ہے۔۔ اور جو اردو زبان کے معراج ناموں میں ایک بلند مقام رکھتا ہے، وہ قصیدہ لیے مولانا احمد رضا خان کے پاس آ گئے، کہ ان کو سناتا ہوں۔ ظہر کا وقت تھا، مولانا احمد رضا کو بتایا کہ میں کس غرض سے آپ کے پاس آیا ہوں، مولانا احمد رضا نے کہا کہ، عصر کی نماز کے بعد آپ کا قصیدہ سنتے ہیں۔ اسی دوران مولانا احمد رضا خان نے خود یہ قصیدہ معراجیہ لکھ لیا۔ عصر کی نماز کے بعد مولانا احمد رضا نے کہا پہلے میرا قصیدہ سن لو اور اپنا قصیدہ پڑھا، جس کو سن کر محسن کاکوروی نے اپنا قصیدہ سنانے سے انکار کر دیا۔[3]

زبان

اس کی زبان نہایت سادہ، شائستہ اور بامحاورہ ہے۔ روز مرہ کا ہر محل اور مناسب "صرف" قریب قریب ہر شعر میں نظر آتا ہے۔ زبان کی سلاست یہاں تک ملحوظ رکھی گئی ہے کہ آیات قرآنی یا احادیث کی تلمیحات کلام میں نہیں ہیں۔ عربی و فارسی کے نامانوس الفاظ سے بچا گیا ہے۔

حسن کلام

اس کی بندشیں چست اور بر محل شریں الفاظ کا درد بست تشبیہات کی سادگی اور نکھار، استعارات کی جودت، لہجے میں گھلاوٹ اور وارفتگی، طرز ادا مین نفاست، جذبات میں خلوص اور بے ساختگی فکر میں رعنائی اور رفعت خیال کی شادابی اور طہارت، ان ہی عناصر کے امتزاج سے یہ قصیدہ مرصع ہے۔[4] انداز بیان:

یہ جوشش نور کا اثر تھا کہ آب گوہر کمر کمر تھا
صفائے رہ پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
وہ ظل ِرحمت وہ رخ کے جلوے کہ ستارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
اتار کر ان کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے[5]

موسیقی

شعر میں موسیقی کا دارمدار بحر کے انتخاب پر منحصر ہے۔ امام رضا کے مزاج کی نغمگی اس قصیدے میں انتہا پر ہے۔ اس معراج نامے میں کوئی شعر ایسا نہیں جس میں موسیقی کا زیرو بم موجود نہ ہو۔ اس کے سانچے میں جو ہلکے پلکھے خالص اردو الفاظ جوڑے گئے ہیں ایک سیال نغمے میں ڈھل گئے ہیں۔

منظر نگاری

شاعرانہ نکتہ سنجی

اس معراج نامے میں شاعرانہ نکتہ سنجیوں کے ایسے فنکارانہ نمونے نظر آتے ہیں کہ ذوقِجمال جھوم اٹھتا ہے۔ ان کو کسی خیال کی توجیہ شاعرانہ پیش کرنے کا بڑا پاکیزہ سلیقہ آتا ہے:

ستم کیا کیسی مت کٹی تھی قمر وہ خاک ان کے راہگزر کی
اٹھا نہ لایا کہ ملتے ملتے یہ داغ دیکھنا سب مٹے تھے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جمال و جلال کی کیفیت کا پر تو اور اس کے اثرات ملاحظہ ہوں :

نقاب الٹے وہ مہر انور جلال رخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی ٹپکتے انجم کے آبلے تھے

اسی خیال کا عروج

وہ ظل رحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے

لامکانی کی ترجمانی

اسلامی روایات کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کی رات اپنے رب کے قریب ہوئے، جس کا ذکر ‍میں ہے۔ جبرائیل فرشتہ بھی سدرہ کے مقام پر رک گیا، اس لا مکاں کی کیفیت کو معراج ناموں میں پیش کرنا کافی مشکل اور احتیاط طلب مقام سمجھا جاتا ہے۔ اس کیفیت کو امام احمد رضا نے ریاضی و جیومیٹری کی اصطلاحات استعمال کر کے پار کیا ہے، لکھتے ہیں:

خرد سے کہدو کہ سر جھکا لے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے
وہی ہے ا‎وّل، وہی ہے آخر وہی، وہی ہے باطن، وہی ہے ظاہر
اسی کے جلوے، اسی سے ملنے، اسی سے، اس کی طرف گئے تھ

ان نازک مقامات کو اسی کی فکر چھو سکتی ہے جو بحر علم کا شناور بھی ہو وادی عرفاں کامالک بھی اور ساتھ ہی عروس کا ادا شناس بھی۔[6]

شروحات قصیدہ معراجیہ

اردو نعتیہ شاعری میں سب سے زیادہ جس شخص کے کلام کی شروحات آئی ہیں وہ امام احمد رضا ہی ہیں۔

  • شرح حدائق بخشش،شارح مفتی فیض احمد اویسی، (جلد 10میں صرف اسی قصیدہ کی شرح ہے) صفحات 220

بیرونی روابط

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. امام احمد رضا خان، حدائق بخشش، قصیدہ معراجیہ
  2. محمد مظفر عالم جاوید صدیقی، پی ایچ ڈی، اردو میں میلادالنبی529
  3. پروفیسر محمد اکرم رضا، تاجدار ملک سخن، صفحہ 128
  4. مفتی فیض احمد اویسی، شرح حدائق بخشش، جلد 10،، صفحہ11
  5. حدائق بخشش، قصیدہ معراجیہ
  6. شرح حدائق بخشش، جلد 10، صفحہ 18