پیامِ مشرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پیامِ مشرق عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی فلسفیانہ شاعری کی ایک تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی۔

تعارف[ترمیم]

پیامِ مشرق دیوان غربی شرقی کا جواب ہے جو مشہور جرمن شاعر گوئٹے کا کلام ہے۔

جامع تعارف: پیام مشرق، علامہ اقبال کا تیسرا فارسی مجموعہ کلام ہے۔ اس میں علامہ اقبال کا تحریر کردہ مفصل اردو دیباچہ بھی شامل ہے علامہ اقبال، خواجہ حافظ کے اسلوبِ کلام سے بھی متاثر تھے اور گوئٹے کے فکر وفن سے بھی۔ انھیں گوئٹے کے طرزِ احساس میں اپنائیت محسوس ہوئی۔ چنانچہ انھوں نے ایک سو سال بعد "پیام مشرق" کے نام سے اپنا فکر انگیز مجموعہ کلام شائع کیا اور اسے مشرق دنیا کی طرف سے جہانِ مغرب کو ایک تحفہ قرار دیا۔ انتساب: علامہ اقبال دنیا بھر کے مسلمانوں کی حریت فکر اور سیاسی و سماجی سربلندی کی علامت، اپنے مجموعہ کلام کا انتساب امیر امان اللہ خاں والی افغانستان کے نام کیا۔ اس کتاب کے تمہیدی اشعار میں علامہ اقبال نے انھیں بہت خراجِ تحسین پیش کیا

علامہ اقبال نے پیام مشرق کی پانچ عنوانات میں تقسیم کیا ہے،

  1. لالہ طور
  2. افکار
  3. می باقی
  4. نقشِ فرنگ
  5. خُردہ

لالہ طور[ترمیم]

پہلے حصے میں ایک سو تریسٹھ رباعیات ہیں۔ ان رباعیات میں انسانی زندگی کے باطنی پہلو اُجاگر کیے گئے ہیں۔

افکار[ترمیم]

کتاب کا یہ دوسرا حصہ سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ اس میں اکاون نظمیں ہیں۔۔ بیشتر نظموں میں تمثیلی اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی و معنوی کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔

می باقی[ترمیم]

یہ پیام مشرق کا تیسرا حصہ ہے اور پنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان غزلوں کی سب سے بڑی خوبی، ان کی رجائیت اور امید پسندی ہے۔

نقشِ فرنگ[ترمیم]

پیام مشرق کے چوتھے حصے کی نظموں میں مغربی تہذیب و ثقافت اور اقوامِ مغرب کے فلسفہ و فکر کو متعارف کروا کر، فرنگی تمدن کے کمزور پہلووں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ انہی نظموں میں سوشلسٹ انقلاب کے پس منظر میں مزدور اور سرمایہ دار کے موضوعات پر بھی دادِ سخن دی گئی ہے۔ علامہ اقبال کو اس انقلاب کے جس پہلو نے بے حد متاثر کیا تھا، وہ اس کا نظریہ مساوات تھا۔ دوسری طرف یورپ کی اندھی استعماری قوتیں تھیں، جن کے جبر و استبداد سے وہ شدید نفرت کرتے تھے۔

خردہ[ترمیم]

پیام مشرق کے پانچویں اور آخری حصے کا نام خُردہ ہے۔ اس میں مختلف عنوانات کے تحت تیئیس متفرق اشعار شامل ہیں۔ ان اشعار کے مضامین میں نُدرت اور فکر و خیال کی تازگی اور گہرائی کا عنصر کار فرما ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]