مندرجات کا رخ کریں

کمیل ابن زیاد نخعی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کمیل ابن زیاد نخعی

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 633ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 701ء (67–68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سر قلم   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ کمیل بن زیاد   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل حجاج بن یوسف   ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں


کمیل ابن زیاد النخعی یا  کُمَیل بن زِیاد بن نَہِیک نَخَعی صُہبانی کوفی الکوفی (پیدائش: 611ء— وفات: 701ء) حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھیوں اور مخلصین میں سے تھے۔ آپ سے دعائے کمیل منسوب ہے۔

سوانح

[ترمیم]

کمیل ابن زیاد کا تعلق قبیلۂ نَخَع سے ہے اور والد کا نام زیاد بن نَہِیک ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ نخع کے لیے دعا فرمائی ہے کہ: اَللّہمَ بارِك فِی النَخَع۔[1][2] کمیل کا سالِ پیدائش کسی قدیمی ماخذ میں موجود نہیں، البتہ خیر الدین الزرکلی (متوفی 25 نومبر 1976ء) نے اپنی تصنیف الاعلام الزرکلی میں سال پیدائش 12ھ مطابق 633ء لکھا ہے۔[3] شارح نہج البلاغہ محمد دستی نے لکھا ہے کہ کوفہ میں طفلان مسلم بن عقیل کا قاتل حارث بن زیاد (جو عبیداللہ ابن زیاد کا ساتھی تھا) کمیل ابن زیاد کا بھائی تھا۔[4]

خلافت علویہ میں

[ترمیم]

کمیل شیعیان اہل بیت میں شمار کیے جاتے ہیں جو حضرت علی کی بیعت کرنے والے پہلے افراد میں سے تھے۔ جنگ صفین (26 جولائی تا 28 جولائی 657ء) میں بھی حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ شریک رہے۔مؤرخ ابن جریر طبری (متوفی 310ھ) نے تاریخ الرسل والملوک میں لکھا ہے کہ: خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کمیل کو شام بھیج دیا تھا۔[5]

بحیثیت حاکم ہیت

[ترمیم]

علی بن ابی طالب نے آپ کو شہر ہیت کا والی مقرر کیا تھا۔[حاشیہ 1] کمیل کو معلوم ہوا کہ معاویہ کا لشکر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں ہیت پر یلغار کا ارادہ رکھتا ہے تو انھوں نے گماں کیا کہ دشمن قرقیسیا میں ہے چنانچہ اپنی فوج کے صرف 50 افراد کو شہر کی حفاظت پر مامور کیا اور باقی افراد کو لے کر قرقیسیا کی جانب عازم ہوئے۔ دشمن کے لشکر نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ہیت پر حملہ کیا جس کی بنا پر ایک مراسلے کے ذریعے حضرت علی کی سرزنش کا نشانہ بنے۔[6] اِس سرزنش کا متن نہج البلاغہ میں موجود ہے کہ:

  • ’’آدمی کا اُس کام کو نظر انداز کر دینا کہ جو اُسے سپرد کیا گیا ہے اور جو کام اُس کی بجائے دوسروں سے متعلق ہے، اُس میں خواہ مخواہ کو گُھسنا ایک کھلی ہوئی کمزوری اور تباہ کن فکر ہے۔ تمھارا اہل قرقیسا پر دھاوا بول دینا اور اپنی سرحدوں کو خالی چھوڑ دینا جبکہ وہاں نہ کوئی حفاظت کرنے والا اور نہ دشمن کی سپاہ کو روکنے والا ہے، ایک پریشان خیالی کا مظاہرہ تھا۔ اِس طرح تم اپنے دشمنوں کے لیے پل بن گئے جو تمھارے دوستوں پر حملہ آور ہونے کا اِرادہ رکھتے ہوں۔ اِس عالم میں کہ نہ تمھارے بازوؤں میں توانائی ہے، نہ تمھارا کچھ رعب و دَبدبہ ہے، نہ تم دشمن کا راستہ روکنے والے ہو،  نہ اُس کا زور توڑنے والے ہو،  نہ اپنے شہر والوں کے کام آنے والے ہو اور نہ اپنے امیر کی طرف سے کوئی کام انجام دینے والے ہو‘‘۔ [7]

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت (21 رمضان 40ھ/ 27 جنوری 661ء) کے بعد آپ امام حسن رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں شامل رہے۔[8]

روایات

[ترمیم]

کمیل نے علی بن ابی طالب سے دعائے خضر کو نقل کیا ہے۔ محمد باقر مجلسی نے بحار الانوار میں علی بن ابی طالب کی متعدد وصیتوں کو کمیل ابن زیاد کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ ابن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں بھی اِن وصایا کو نقل کیا ہے۔[9] اہل سنت منابع میں کمیل کو قلیل الحدیث کہا گیا ہے تاہم محدث یحییٰ بن معین (متوفی 848ء) اور محدث ابن حبان البُستی (متوفی 20 اکتوبر 965ء) نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے جبکہ ابو سعد سمعانی (متوفی 562ھ)نے اِن سے روایت کو ضعیف اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ:

”کمیل نے علی بن ابی طالب، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود (متوفی 650ءابو ہریرہ (متوفی 59ھ) سے روایت کی ہے جبکہ عبد الرحمن بن عابس، ابو اسحاق سبیعی، عباس بن ذریح، عبد اللہ بن یزید صہبانی، اعمش، عبد الرحمن بن جندب وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے“۔[10]

وفات

[ترمیم]

سال شہادت میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ متعدد روایات میں 82ھ، 83ھ اور 88ھ موجود ہے۔[10] مؤرخ خلیفہ بن خیاط نے بھی سال وفات 82ھ لکھا ہے۔ [11] مؤرخین کا اتفاق 82ھ (مطابق 701ء) بیان کیا ہے۔علامہ ابن حجر عسقلانی نے یحییٰ بن معین کا بیان نقل کیا ہے کہ کمیل ابن زیاد کی وفات 88ھ میں ہوئی۔علامہ ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے کہ وقت شہادت آپ کی عمر 70 سال تھی۔مؤرخ اسلام شمس الدین الذہبی نے المدائنی (متوفی 843ء) کا قول نقل کیا ہے کہ آپ کی عمر 90 سال تھی۔[12] آپ کو اُموی والی حجاز و عراق حجاج بن یوسف الثقفی نے قتل کروایا۔حجاج نے کمیل کو بلوایا تو وہ فرار ہو گئے لیکن جب حجاج نے ان کے قبیلے اور اعزاء و اقارب کو تنگ کرنا شروع کیا تو کمیل حجاج کے پاس پہنچے اور مختصر سی گفتگو کے بعد حجاج نے ان کے قتل کا حکم جاری کیا۔[10] شیعی منابع کے مطابق حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب نے کمیل کی شہادت کی خبر دی تھی۔[13][14] کمیل کا مزار نجف اور کوفہ کے راستے میں علاقۂ ثوّیہ (حی الحنانہ) میں مسجد حنانہ کے قریب واقع ہے۔[15]

علما کی آرا

[ترمیم]

علمائے اہل سنت کے اقوال

  • یحیی بن معین نے کہا: «ثقہ»۔[16]
  • ابن سعد نے کہا: «اہلِ کوفہ کے تابعین میں پہلے طبقے کے ہیں۔ انھوں نے علی کے ساتھ صفین میں شرکت کی۔ وہ معزز اور اپنی قوم میں مطیع تھے۔ جب حجاج بن یوسف کوفہ آیا تو اس نے انھیں بلوایا اور قتل کیا۔ وہ ثقہ اور قلیل الحدیث تھے»۔[17]
  • عجلی نے کہا: «کوفی تابعی ثقہ»۔[18]
  • ابن حبان نے کہا: «وہ سخت منکر الحدیث ہے، میں نے اس کی روایت دیکھی وہ قابلِ احتجاج نہیں»۔[حاشیہ 2] [20] اور اپنے دوسری کتاب "الثقات" میں بھی ذکر کیا۔[21]
  • محمد بن عمار موصلی نے کہا: «وہ رافضی[حاشیہ 3] اور علی کے اصحاب میں سے ثقہ اور شیعہ کے سرغنہ اور مصیبتوں میں سے مصیبت تھے»۔[23]
  • ابن حجر عسقلانی : «ثقہ ہیں اور ان پر شیعہ ہونے کا الزام ہے»۔

علمائے اہل تشیع کے اقوال

  • محمد حرز الدین صاحب مراقد المعارف نے کہا: «کمیل رضوان اللہ علیہ عالم اور دین میں ثابت قدم تھے۔۔۔اور وہ عابد، زاہد اور اپنی زبان تلاوتِ قرآن کریم و ذکر اللہ تعالی سے پیچھے نہیں کرتے تھے»۔
  • ابن داود حلی نے کہا: «ان دونوں کے خواص تھے» یعنی علی وحسن کے۔
  • حسن دیلمی نے کہا: «(علی) کے بہترین شیعہ اور محبین میں سے تھے»۔
  • علی البروجردی نے کہ: «وہ ان کے کبار اصحاب میں سے تھے»۔
  • خوئی: «کمیل کی جلالت شان اور امیر المومنین (علی) کے ساتھ ان کا اِختَصاص دو ایسی واضح چیزیں ہیں جن میں شک نہیں کیا جا سکتا»۔[24]

حواشی

[ترمیم]
  1. یہ شہر ہِیت کہلاتا تھا جو شام کی سرحد پر دریائے فرات کے ساحل پر واقع ہے۔ موجودہ زمانے میں عراقی صوبہ الرمادی میں شامل ہے۔ عراق اور سرزمین عرب کے جنوبی علاقوں کے قافلے ہیت کے راستے سے شام کے شہر حلب کا سفر اختیار کرتے تھے۔ ہیت ایک آباد شہر تھا جو مضبوط حصار میں گھرا ہوا تھا۔
  2. شیخ بشار عواد معروف نے کہا: میں نہیں جانتا کہ آخرکار پھر ابن حبان نے اسے اپنی کتاب ثقات میں ذکر کیوں کیا؟[19]
  3. شیخ بشار عواد معروف نے کہا: بھلا ایک رافضی ثقہ کیسے ہوسکتا ہے!؟[22]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ابن اثیر جزری: اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، جلد 1، صفحہ 75۔
  2. ابن سعد بغدادی، الطبقات الكبیر، جلد 1، صفحہ 261۔
  3. خیر الدین الزرکلی: الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء، جلد 5، صفحہ 234۔
  4. محمد دشتی:  ترجمہ نہج البلاغہ، صفحہ 599، مکتوب نمبر 61 کا پاورقی حاشیہ۔مطبوعہ قم، 1379 ہجری شمسی۔
  5. ابن جریر طبری: تاریخ الرسل والملوک، جلد 6، صفحہ 2195 تا 2199۔
  6. احمد بن یحییٰ البلاذری: أنساب الأشراف، جلد 5، صفحہ 517۔
  7. سید شریف رضی: نہج البلاغہ، مکتوب نمبر61، مترجم مفتی جعفر حسین، صفحہ 677۔ مطبوعہ لاہور، 2003ء۔
  8. شیخ طوسی، رجال الطوسی، صفحہ97۔ مطبوعہ قم، 1415ھ۔
  9. ابن شعبہ الحرانی: تحف العقول، صفحہ 171 تا 176۔مطبوعہ قم، 1404ھ۔
  10. ^ ا ب پ علامہ ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمييز الصحابہ، جلد 5، صفحہ 486۔ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1382ھ/ 1962ء
  11. خلیفہ بن خیاط: تاریخ خلیفہ، صفحہ 222، تذکرہ سنہ 82ھ۔ مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان، 1414ھ۔
  12. شمس الدین الذہبی: تاریخ الاسلام، جلد 6، صفحہ 177۔
  13. محمد باقر مجلسی: بحار الانوار، جلد 41، صفحہ 316۔ مطبوعہ مؤسسۃ الوفاء، بیروت، لبنان، 1404ھ۔
  14. ابن شہر آشوب المازندرانی: المناقب آل أبی طالب، جلد 2، صفحہ 271۔ مطبوعہ مؤسسہ انتشارات علامہ، قم، ایران، 1379ھ۔
  15. احمد علوی: راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، مطبوعہ قم، ایران، 1389 شمسی ہجری۔
  16. الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ٧/ ١٧٥ رقم ٩٩٥ ط. طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية
  17. الطبقات الكبرى لابن سعد ٦/ ١٧٩ ط. دار صادر
  18. الثقات للعجلي ٢/ ٢٢٨ ط. الدار
  19. تهذيب الكمال في أسماء الرجال ٢٤/ ٢١٩ ط. مؤسسة الرسالة
  20. المجروحين لابن حبان ٢/ ٢٢٥ ت. حمدي
  21. الثقات لابن حبان ٥/ ٣٤١ ط. دائرة المعارف العثمانية
  22. تهذيب الكمال في أسماء الرجال ٢٤/ ٢١٩ ط. مؤسسة الرسالة
  23. تاريخ دمشق لابن عساكر ٥٠/ ٢٥١ (وسنده صحيح) ط. دار الفكر
  24. "كميل بن زياد النخعي"۔ الشیعة (بزبان عربی)۔ 2014-11-12۔ 01 اکتوبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جنوری 2021