سعد الاسود

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت سعد الاسودؓ
معلومات شخصیت

نام ونسب[ترمیم]

سعد نام تھا، بہت سیاہ اورکم رو تھے اس لیے "اسود" سیاہ کہلاتے تھے، لیکن نسبابنی سہم کے ممتاز رکن تھے۔

اسلام[ترمیم]

ان کے اسلام کا زمانہ متعین نہیں،اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا میری سیاہ روئی اوربد صورتی مجھ کو جنت کے داخلہ سے روکے گی ،فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے نہیں روکے گی، بشرطیکہ خدا سے ڈرو اور اس چیز پر جسے رسول اللہ لائے ہیں ایمان لاؤ، یہ خوش خبری سن کر انھوں نے کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہدان محمد عبدہ ورسولہ کلمۂ شہادت پڑھ کر پوچھا میرے کیا حقوق ہیں فرمایا تمھارے وہی حقوق ہیں جو اورمسلمانوں کے ہیں اور تم پر وہی فرائض ہیں جو دوسرے مسلمانوں پر ہیں اور تم ان کے بھائی ہو۔

شادی[ترمیم]

ظاہری شکل وصورت سے محروم تھے،اس لیے کوئی شخص ان کے ساتھ عقدِ مناکحت پر تیار نہ ہوتا تھا، قبولِ اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا جو لوگ یہاں موجود ہیں اور جو نہیں ہیں میں نے سب کو شادی کا پیام دیا، لیکن میری سیاہی اوربد روئی کی وجہ سے کوئی اس رشتہ پر آمادہ نہیں ہوتا، گو سعد ظاہری آب ورنگ سے محروم تھے، لیکن دل نور ایمان سے منور ہو چکا تھا، اس کے بعد ظاہری حسن وجمال کی ضرورت نہ تھی، اس لیے ان کی درخواست پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عمر یا عمرو بن وہب (عمر بن وہب قبیلہ ثقیف کے ایک درشت مزاج نو مسلم تھے) کے پاس جاکر ان کا دروازہ کھٹکھٹاؤ اورسلام کے بعد ان سے کہو کہ اللہ کے نبی نے تمھاری لڑکی میرے ساتھ بیاہ دی ،عمرو بن وہب کی نوخیز حسین وجمیل اور ذکی و ذہین لڑکی تھی،سعد نے ان کے گھر جاکر دروازہ کھٹکھٹایا گھروالوں نے دروازہ کھولا تو سعد نے انھیں رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنایا، ان لوگوں نے سعد کی صورت دیکھ کر انھیں سختی سے واپس کر دیا اتنے میں لڑکی آواز سن کر خود نکل آئی اور سعد کو آواز دی کہ بندۂ خدا لوٹ آؤ اگر رسول اللہ ﷺ نے تمھاری ساتھ میری شادی کردی ہے تو میں اسے منظور کرتی ہوں اوراس چیز پر رضا مند ہوں، جس سے خدا اوراس کا رسول راضی ہے،پھر اپنے باپ سے کہا کہ قبل اس کے کہ وحی الہی آپ کو رسوا کرے آپ اپنی نجات کی کوشش کیجئے یہ فوراً دوڑے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے آپ نے پوچھا تم ہی نے میرے فرستادہ کو لوٹایا تھا؟ عرض کیا ہاں لیکن یہ غلطی لا علمی میں ہوئی ہم کو اس شخص کی بات کا اعتبار نہ تھا، اب آپ سے مغفرت چاہتے ہیں ہم نے لڑکی بیاہ دی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سعد سے فرمایا اب اپنی بیوی کے پاس جاؤ وہ یہاں سے اٹھ کر بیوی کے واسطے تحائف خریدنے کے لیے بازار گئے یہاں انھوں نے ایک منادی کی آواز سنی یا خلیل اللہ ارکبی وبالجنۃ البشری خدا کے شہ سوار وجہاد کے لیے سوار ہوجاؤ اور جنت کی بشارت لو، اس آواز کا سننا تھا کہ سارے ولولے اورجذبات سرد پڑ گئے اورجہاد فی سبیل اللہ کا خون رگوں میں دوڑنے لگا، نو عروس کے لیے تحائف کا خیال چھوڑدیا اورجہاد کے لیے تلوار،نیزہ اورگھوڑا خریدا اور عمامہ باندھ کر مہاجرین کی جماعت میں پہنچے، کسی نے ان کو نہ پہچانا،رسول اللہ ﷺ نے بھی دیکھا مگر نہ پہچان سکے ،میدانِ جنگ میں نہایت جوش وخروش سے لڑے، گھوڑا اڑا تو پیدل آستین چڑھا کر لڑنے لگے، اس وقت آنحضرتﷺ نے ہاتھون کی سیاہی سے پہچان کر آواز دی سعد! مگر یہ وارفتگی کے عالم میں تھے کوئی خبر نہ ہوئی اورلڑتے لڑتے شہید ہو گئے، اورنو عروس کے آغوش کی بجائے تیغ عروس کے گلے مل کر ابدی و سرمدی زندگی حاصل کی،آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو ان کی لاش کے پاس تشریف لاکر ان کا سر گود میں رکھ لیا اوران کے اسلحہ اورگھوڑا ان کی بیوہ نوعروس کے پاس بھجوادیا اور ان کے سسرال والوں کے پاس کہلا بھیجا کہ خدا نے تمھاری لڑکیوں سے بہتر لڑکی کے ساتھ ان کی شادی کردی۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اسد الغابہ:1/668)