شیر افضل خان مروت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شیر افضل خان مروت
شیر افضل خان مروت
معلومات شخصیت

شیر افضل خان مروت ( انگریزی: Sher Afzal Khan Marwat؛ پیدائش 4 اپریل 1971) ایک پاکستانی وکیل ہیں، جو اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں بطور قانونی پریکٹیشنر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اپنی مدت ملازمت سے قبل وہ پشاور ہائی کورٹ میں سول جج کے معزز عہدے پر فائز تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیر افضل پاکستان کی ایک ممتاز سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی کے ایک لازمی رکن ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر، وہ پارٹی کی قانونی ٹیم کی قیادت کرتے ہیں، جو بہت سے اہم قانونی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔

مروت کی قانونی مہارت خاص طور پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان ، پی ٹی آئی کے رہنما، پارٹی میں شامل بے شمار قانونی مقدمات کو نمٹانے کے لیے مرکزی وکیل کے کردار میں نمایاں ہے۔ عمران خان سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے علاوہ، شیر افضل پی ٹی آئی کے دیگر قابل ذکر عہدیداروں کی نمائندگی کرنے کے لیے اپنی قانونی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں، جن میں علی محمد خان ، شاندانہ گلزار ، شہریار آفریدی، فواد چوہدری اور علی امین گنڈا پور شامل ہیں ۔ [1] [2] [3] [4] [5] [6] [7] [8] [9] [10]

قانونی میدان میں مروت کی شراکت اور پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں ان کا اہم کردار پاکستان میں قانون اور سیاست کے دائروں میں ان کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

سلسلہ مضامین
سیاست و حکومت
پاکستان
آئین

تعلیم[ترمیم]

بہ قول ان کے بھائی خالد لطیف ،[11]

’ان کا خاندان سیاست میں پہلے سے متحرک تھا کیونکہ ان کے والد خود بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں اور ضلعی اور تحصیل کونسل کے چیئرمین رہے ہیں۔‘

شیر افضل کے والد محمد عظیم خان بیگوخیل لکی مروت میں امن کمیٹی میں بھی شامل رہے اور جنوری 2012 میں انتہا پسندوں کی ٹارگٹ کلنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

یاد رہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے قبائلی ان سے ملحقہ علاقوں میں مقامی لوگوں پر مشتمل امن کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔[11]

ابتدائی تعلیم لکی مروت کے ایک گاؤں بیگوخیل سے حاصل کی اور اس کے بعد انھیں ڈیرہ اسماعیل خان میں وینسم کالج میں داخل کروایا گیا تھا جہاں سے انھوں نے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا جس کے بعد انھوں نے لکی مروت کالج سے گریجویشن کی تھی۔

ان کے بھائی کے مطابق وہ اسکول کے وقت سے مختلف تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ یہ مقابلے لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقد ہوتے تھے اور اکثر انھوں نے ان مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

خالد خان نے بتایا کہ ’پشاور یونیورسٹی سے انھوں نے پہلے ایم اے ہسٹری کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد پشاور یونیورسٹی سے ہی ایم جرنلزم بھی کیا ہے۔

’اس دوران انگریزی اخبار بزنس ریکارڈر اور پشاور سے شائع ہونے والے اردو اخبار روزنامہ آج سے بھی منسلک رہے۔ اس دوران انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت کی جانب آ گئے۔‘[11]

شیر افضل کا تعلیمی سفر ان کی ابتدائی تعلیم سے شروع ہوا، جس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ ڈگری کالج لکی مروت ، خیبرپختونخوا سے پولیٹیکل سائنس اور گورنمنٹ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انھوں نے پشاور یونیورسٹی میں ایل ایل بی پروگرام میں داخلہ لیا۔ مزید معلومات کی تلاش میں، اس نے برطانیہ کا سفر کیا، جہاں اس نے کارڈف یونیورسٹی سے کامیابی کے ساتھ ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی، اپنے تعلیمی افق کو وسعت دی اور اپنی قانونی قابلیت کو بڑھایا۔

پیشہ ورانہ دور[ترمیم]

شیر افضل نے 2004 میں پشاور ہائی کورٹ میں سول جج کا کردار سنبھالنے سے پہلے بطور وکیل اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد، پرائیویٹ لیگل پریکٹس میں واپس آئے ۔

شیر افضل مروت نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا لیکن ملازمت اختیار نہیں کی تھی، جس کے بعد انھوں نے 1996 میں جوڈیشری کا امتخان پاس کیا اور سول جج تعینات ہوئے۔

سنہ 2009/10 میں جب جمعیت علما اسلام (ف) حکومت کی اتحادی تھی اور رحمت اللہ کاکڑ وفاقی وزیر ہاؤسنگ تھی تو ڈیپوٹیشن میں اسلام آباد میں ڈائریکٹر جنرل ہاؤسنگ تعینات کیا گیا تھا لیکن وہ چند ماہ ہی تعینات رہے تھے۔

اس کے بعد چونکہ اس وقت کی چیف جسٹس افتخار چوہدری بحال ہو گئے تھے اور انھوں نے تمام ڈیپوٹیشن پر تعینات ججز اور لا آفیسرز کو واپس اپنے عہدوں پر آنے کا کہا جس پر شیر افضل نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

خالد خان نے بتایا کہ شیر افضل مروت 2010 میں انگلیڈ چلے گئے تھے جہاں انھوں نے قانون میں ماسٹر اور ساتھ بار ایٹ لا کی ڈگریاں حاصل کیں اور واپس آ کر وکالت کا پیشہ اختیار کر لیا تھا۔

ان کے بارے میں ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ وہ اچھے مقرر ہونے کی وجہ سے وکالت کے شعبے میں بہت کامیاب رہے اور اسلام آباد میں اہم مقام حاصل کر لیا تھا۔[11]

پی ٹی آئی میں شمولیت[ترمیم]

پرائیویٹ لیگل پریکٹس میں واپس آکر، انھوں نے 2017 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شمولیت اختیار کی، جہاں انھوں نے پارٹی کے قانونی امور کی ذمہ داری سنبھالی۔ [12]

شیر افضل مروت نے جب پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو ابتدا میں تو وہ لکی مروت اور قریبی علاقوں میں جماعت کے امیدواروں کی حمایت کرتے رہے کیونکہ لکی مروت میں بیگو خیل میں ان کے حلقے میں میں ووٹرز کی اچھی تعداد ان کے ساتھ لیں[11]

ان کی خدمات کے اعتراف میں، انھیں پارٹی کی کور کمیٹی میں مقرر کیا گیا۔2018 میں انتخابات میں انھوں نے لکی مروت کی سطح پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت اور ان کے لیے انتخابی مہم میں اہم کردار بھی ادا کیا تھا ۔ 9 مئی 2023 کو ہونے والے المناک واقعات کے نتیجے میں، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے عہدیداروں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا اور متعدد اراکین کے اغوا کے بعد، مروت ایک نمایاں رہنما کے طور پر سامنے آئے۔

جب پی ٹی آئی کے قائدین پر مقدمات قائم کیے گئے تو ابتدا میں تو وہ سابق سپیکر اسد قیصر اور دیگر کے مقدمات میں پیش ہوئے اور ان کی وکالت اور طریقے کو دیکھتے ہوئے پھر وہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر قائم مقدمات کے لیے بھی بطور وکیل پیش ہوتے رہے۔[11]

انھوں نے عمران خان کی بہادری سے نمائندگی کی جب کہ پارٹی رہنما زیر حراست تھے، پی ٹی آئی کاز سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ [13] [14] [15] [16] شیر افضل کا سفر قانونی پیشے اور پی ٹی آئی کی ہنگامہ خیز تاریخ دونوں میں ان کے اہم کردار کی عکاسی کرتا ہے۔

نومبر 2023 میں انھیں پی ٹی آئی کا سینیئر نائب صدر مقرر کر دیا گیا ہے جبکہ ان دنوں میں وہ جماعت کے قائدین کے خلاف قائم مقدمات میں پیش ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر کافی متحرک ہو گئے ہیں اور اسی دوران میں خیبر پختونخوا میں ورکرز کنونشن کے ذریعے جماعت میں ایک نئی روح ڈال دی ہے[11]

تنازع[ترمیم]

27 ستمبر 2023 کو، جاوید چوہدری کی میزبانی میں ایکسپریس نیوز پر ایک لائیو ٹی وی پروگرام کے دوران، شیر افضل مروت کی PML(N) کے سینیٹر افنان اللہ کے ساتھ زبانی تکرار ہوئی۔ [17] [18] [19] تصادم جسمانی جھگڑے تک بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں شیر افضل نے مکے برسائے۔ [20] [21] جہاں شیر افضل نے کھلے عام اپنے اس حرکت کا اعتراف کیا، پی ایم ایل (این) کے سیاست دانوں اور میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کے متضاد اکاؤنٹس تھے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ شیر افضل کو چوٹیں آئی ہیں۔ [22] [23] تاہم، سینیٹر افنان اللہ کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں تصدیق کی گئی ہے کہ انھیں شیر افضل نے مکے مارے تھے۔ [24] [25] [26] اس واقعے نے بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی اور سیاسی اور میڈیا دونوں حلقوں میں بحث چھیڑ دی۔ [27] [28] [29][30]

13 دسمبر کو ان کو مبینہ طور پر لاہور پولیس نے شیر افضل مروت کو ’نقضِ امن کا باعث بننے پر‘ تین ایم پی او کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔[11]

شیر افضل مروت پر سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو اکسانے کے الزام میں رواں سال اکتوبر میں بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پہلے بھی شیر افضل مروت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے علاقے لوئر دیر میں انھیں چکدرہ بائی پاس پر گرفتار کیا گیا تھا تاہم لوئر دیر پولیس نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔[11]

کار ہائے نمایاں[ترمیم]

بہ قول سینیئر صحافی اور ڈان ٹی وی کے اسلام آباد میں بیورو چیف افتخار شیرازی [11]

’جہاں پی ٹی آئی کے بیشتر قائدین اس جرات کا مظاہرہ نہیں کر پائے اور چھپ کر بیٹھ گئے یا گرفتار اور کسی دباؤ کی وجہ سے پارٹی سے علاحدہ ہو گئے ہیں وہیں شیر افضل اسلام آباد سے نوشہرہ رکاوٹیں عبور کر کے پہنچے تھے، اسی طرح باجوڑ میں جب ہر جگہ پولیس تھی تو اس وقت وہ کارکنوں کے ہمراہ پولیس کو چکمہ دے کر کنونشن کے لیے پہنچ گئے تھے اور سوشل میڈیا پر کارکنوں سے پہنچنے کا کہا تو بڑی تعداد میں ورکرز پہنچ گئے تھے اور یہ ان کی بڑی کامیابی تھی۔‘

’جہاں پی ٹی آئی کے بیشتر قائدین اس جرات کا مظاہرہ نہیں کر پائے اور چھپ کر بیٹھ گئے یا گرفتار اور کسی دباؤ کی وجہ سے پارٹی سے علاحدہ ہو گئے ہیں وہیں شیر افضل اسلام آباد سے نوشہرہ رکاوٹیں عبور کر کے پہنچے تھے، اسی طرح باجوڑ میں جب ہر جگہ پولیس تھی تو اس وقت وہ کارکنوں کے ہمراہ پولیس کو چکمہ دے کر کنونشن کے لیے پہنچ گئے تھے اور سوشل میڈیا پر کارکنوں سے پہنچنے کا کہا تو بڑی تعداد میں ورکرز پہنچ گئے تھے اور یہ ان کی بڑی کامیابی تھی۔‘

حوالہ جات[ترمیم]

  1. MM News Staff (2023-07-27)۔ "Ali Mohammad Khan released from jail after 80 days"۔ MM News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  2. "PTI's Ali Muhammad Khan arrested once again"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2023-06-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  3. "PTI's Ali Muhammad Khan taken into custody for sixth time soon after being released"۔ www.geo.tv (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  4. "PTI lawyer blames Police for 'abducting' PTI MNA Shandana Gulzar Khan" (بزبان انگریزی)۔ 2023-08-09۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  5. "PTI leader Shandana Gulzar 'kidnapped at gunpoint by Islamabad Police', says Imran Khan's lawyer"۔ Daily Pakistan Global (بزبان انگریزی)۔ 2023-08-10۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  6. "IHC issues notices to parties in plea against 'abduction' of former PTI MNA Shandana Gulzar" (بزبان انگریزی)۔ 2023-08-11۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  7. "Shehryar Afridi being kept in notorious death cell with AIDS, TB patients: Lawyer" (بزبان انگریزی)۔ 2023-06-15۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  8. Umer Burney (2023-08-15)۔ "IHC issues show-cause notices to Islamabad IG, other officials on PTI leaders' pleas against detention"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  9. "PTI's Shehryar Afridi being kept in death cell, lawyer tells IHC"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2023-05-29۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  10. MM News Staff (2023-07-20)۔ "Fawad Chaudhry apologizes to ECP in contempt case"۔ MM News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  11. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ "شیر افضل مروت: سابق سول جج مشکل وقت میں پاکستان تحریکِ انصاف کا چہرہ کیسے بنے"۔ بی بی سی اردو۔ 15 دسمبر 2023 
  12. استشهاد فارغ (معاونت) 
  13. "Khan's lawyer informs IHC of jail conditions in Attock"۔ www.geo.tv (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  14. استشهاد فارغ (معاونت) 
  15. "Imran Khan's lawyer urges IHC to move his client to Adiala jail"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  16. "IHC informed about Imran's jail conditions"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2023-09-07۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  17. Nadir Guramani | Hasaan Ali Khan (2023-09-30)۔ "PML-N Senator Afnan Ullah lodges FIR against PTI lawyer Sher Afzal after talk show brawl"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  18. India TV News Desk، India TV News (2023-09-29)۔ "Pakistan: Imran Khan's lawyer trades blows with Senator on live TV, video goes viral | WATCH"۔ www.indiatvnews.com (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  19. "Viral video: Pakistani politicians brawl on live TV show amid heated debate"۔ India Today (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  20. "Watch | Pakistan leaders engage in fistfight on live TV during heated debate"۔ WION (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  21. "Case Against Imran Khan's Lawyer After Fistfight During Live TV Debate"۔ NDTV.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  22. Web Desk (Lahore) (2023-09-28)۔ "PTI lawyer Sher Afzal Marwat, PML-N Senator Afnan Ullah get into fight on TV talkshow (VIDEO)"۔ Pakistan Observer (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  23. Web Desk (2023-09-30)۔ "PTI's Sher Afzal Marwat booked for assaulting PML-N's Afnan Ullah"۔ Aaj English TV (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  24. "Case registered against Imran Khan's lawyer for attacking PML-N senator in TV show"۔ www.geo.tv (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  25. "FIR lodged as PML-N senator accuses PTI lawyer of assault on TV"۔ The Express Tribune (بزبان انگریزی)۔ 2023-09-30۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  26. Zulqarnain Haider (2023-09-30)۔ "Talk show brawl: Case registered against PTI's Sher Afzal Marwat"۔ ARY NEWS (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  27. "VIDEO: Imran Khan's lawyer, PML-N politician come to blows during TV talk show"۔ www.thenews.com.pk (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  28. "WATCH: In viral video, Pakistani politicians slap, kick each other during live TV debate over Imran Khan"۔ Firstpost (بزبان انگریزی)۔ 2023-09-29۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  29. Debdutta Chakraborty (2023-09-29)۔ "Imran Khan's lawyer, PML-N leader slap each other on TV. Pakistanis can't stop laughing"۔ ThePrint (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023 
  30. NNPS Desk (2023-09-30)۔ "PTI lawyer booked for assaulting PML-N Senator on TV Show" (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اکتوبر 2023