مندرجات کا رخ کریں

مظفر آباد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مظفر آباد کا ایک خوبصورت منظر
مظفر آباد کا ایک خوبصورت منظر
ملکپاکستان
انتظامی تقسیمآزاد کشمیر
ضلعضلع مظفر آباد
رقبہ
 • کل6,117 کلومیٹر2 (2,362 میل مربع)
بلندی3,000 میل (10,000 فٹ)
آبادی (1998)
 • کل725,000
 • تخمینہ (1999)742,000
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+05:00)
Muzaffarabad Local Government

مظفر آباد ( انگريزی: Muzaffarabad) پاکستان کی ریاست آزاد کشمیر کا دار الحکومت ہے۔ یہ شہر ضلع مظفر آباد میں دریائے نیلم اور دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے۔ یہ ضلع مظفر آباد کا صدر مقام بھی ہے۔مظفرآباد(اردو: مُظفّر آباد) آزاد کشمیر کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کا 60 واں بڑا شہر ہے۔یہ شہر ضلع مظفرآباد میں دریائے جہلم اور نیلم کے سنگم کے قریب واقع ہے۔ اس ضلع کی سرحد مغرب میں پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع مانسہرہ اور ایبٹ آباد، مشرق میں ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے کپواڑہ اور بارہمولہ اضلاع اور شمال میں ضلع نیلم سے ملتی ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی سے اس کا فاصلہ 138 کلومیٹر جبکہ ایبٹ آباد سے اس کا فاصلہ 76 کلومیٹر ہے۔

بیع نامہ امرتسر کے بعد مظفرآباد ، کرناہ اوڑی تحصیل کو وزارت پہاڑ کا نام دیا گیا۔ ولولہ ، بوئی، کلنگ، بیرن گلی اور پٹن کا علاقہ اس میں شامل تھا۔ انگریز قابض ہوئے تو 1849ءمیں ہزارہ کے پہلے ڈپٹی کمشنر جیمز ایبٹ نے اسے ہزارہ میں شامل کر لیا۔ آخری اموری سلطان حسن علی خان کو 25ہزار سالانہ جاگیر دے کر مہاراجا گلاب سنکھ ڈوگرہ نے مظفرآباد پر قبضہ کر لیا۔مظفرآباد کے معروف شخصیات میں حضرت شیر علی خان المعروف حضرت اجی بابا سرکار(انوار شریف)،حضرت سائیں سخی سہیلی سرکار، فرہاداحمدفگار ، احمد عطااللہ،زاہد کلیم، افتخار مغل، ڈاکٹر صابر آفاقی، الطاف قریشی اور نمبردار فرمان علی اہم ہیں۔

معلومات

[ترمیم]

اس کی بلندی 737 میٹر (2,418 فٹ) ہے۔ آبادی (2017ء) میں  149,913ہے۔ کالنگ کوڈ:05822 ہے۔

بولی جانے والی زبانیں:

مردم شماری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اردو آزاد کشمیر کی حکومت کی سرکاری زبان ہے۔اس کے علاوہ کشمیری،ہندکو، پہاڑی، گوجری، پنجابی، کوہستانی، پشتو اور شینا  آزاد کشمیر میں کثرت سے بولی جاتی ہیں۔

تاریخ

[ترمیم]

اس شہر کی تاریخ سکندر اعظم سے بھی قدیم ہے۔ 633 میں یہاں پر ہندو شاہی نے قبضہ کیا۔ یہ علاقہ صدیوں تک رشیوں ،بدھ مت کے ماننے والوں،سیاحوں اور قدیم حملہ آور قوم کا مرکز بنا رہا۔وادی کشمیر میں کامبو جاس، بدھ ازم، شیو ازم، ہندو ازم اور دورِ اسلامی سمیت جتنے بھی ادوار گزرے، اس شہر پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔اولین تاریخ میں اس کا نام"اڈا بانڈا"لکھا گیا ہے۔ جبکہ اس کے بعد اس کا نام "چکرس/چکڑی بہک" تھا۔اس جگہ کو چکرس بہک اس لیے کہتے تھے کہ شہر نقشے پر پیالہ نما ہے اور اس پر چاروں اطراف سے حملے ہوا کرتے تھے۔شہروں دیہی علاقوں اور قصبوں میں رہنے والے خاندان صدیوں سے گرمی کے موسم میں بلند و بالا مقامات جنہیں 'بہک' کہا جاتا ہے، اپنے مویشیوں سمیت رخ کرتے ہیں۔جبکہ عموماً چکڑی بہک مشہور ہے چکڑی کا مطلب ہے کیچڑ والی۔ مظفرآباد کی بنیاد 1646 میں سلطان مظفر خان نے رکھی تھی، جو کشمیر پر حکومت کرنے والے بمبا قبیلے کے سردار تھے۔ خان نے اسی سال لال قلعہ بھی تعمیر کیا تھا تاکہ مغل سلطنت کی دراندازی کو روکا جا سکے۔

2005 کا زلزلہ

[ترمیم]

یہ شہر 2005 کے کشمیر کے زلزلے کے مرکز کے قریب تھا، جس کی شدت 7.6 میگاواٹ تھی۔ زلزلے سے شہر کی تقریباً 50% عمارتیں (بشمول زیادہ تر سرکاری عمارتیں) تباہ ہوگئیں اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ پاکستانی زیر کنٹرول علاقوں میں 80,000 افراد ہلاک ہوئے۔ 8 اکتوبر 2005 تک، پاکستانی حکومت کی سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 87,350 تھی، جبکہ دوسرے اندازوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 100,000 سے زیادہ ہے۔

انتظامی ذیلی تقسیم

[ترمیم]

ضلع مظفرآباد کو انتظامی طور پر 2 تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو 25 یونین کونسلوں میں تقسیم ہیں۔

  • مظفرآباد
  • کہوڑی پٹہکہ (نصیرآباد)

مظفر آباد کا لال قلعہ:

کشمیر کے حکمران چک خاندان نے سنہ 1549 میں اس لال قلعے کی بنیاد رکھی۔ اس کی تکمیل مظفر آباد شہر کے بانی سلطان مظفر کے دورِ حکومت میں سنہ 1646 میں ہوئی۔ڈوگرہ سکھ حکمرانوں مہاراجا گلاب سنگھ اور رنبیر سنگھ کے دور میں سیاسی اور فوجی مقاصد کے تحت قلعے میں توسیع کروائی گئی۔تعمیر کے وقت اس قلعے کا رقبہ انسٹھ کنال تھا اور اس کے تین طرف دریا تھا۔ پہلے سنہ انیس سو بانوے کے سیلاب اور پھر سنہ دو ہزار پانچ کے زلزلے میں اس قلعے کا بہت بڑا حصہ منہدم ہو گیا۔قلعے کے بچ جانے والے حصے میں تین بڑے صحن بھی ہیں۔

قلعے کے اکثر کمرے دریا برد ہو چکے ہیں اور باقی رہ جانے والے چند کمروں کی ایک یا دو دیواریں ہی باقی رہ گئی ہیں۔اس قلعے کا زیادہ تر شمالی حصہ دریا کی تندو تیز لہروں کی نذر ہو چکا ہے۔ دو ہزار دس کے سیلاب میں دریائے نیلم کا بہاؤ قلعے کی جانب ہونے کے بعد اس کے بچاؤ کے لیے ایک حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔لال قلعہ میں کئی قید خانے بھی ہیں جو متعدد کال کوٹھڑیوں پر مشتمل ہیں۔قلعے کے شمالی حصے میں کئی زیرِ زمین کمرے ایسے تھے جن کے بارے میں صرف چند مقامی لوگ ہی جانتے تھے۔قلعے میں جا بہ جا سیاحوں کے لیے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔قلعے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہاں سیاح آتے ہیں لیکن اب ان میں زیادہ تعداد مقامی لوگوں کی ہی ہوتی ہے۔ سیاحوں کا کہنا ہے کہ اب اس قلعے میں دیکھنے کو کچھ رہا ہی نہیں۔

قلعے میں موجود عجائب گھر بھی سنہ دو ہزار پانچ کے زلزلے میں متاثر ہوا جہاں موجود بعض نوادرات چوری کر لیے گئے جبکہ بچ جانے والا سامان ایک کمرے میں بند کسی نئی عمارت کے انتظار میں ہے یہ ٹوٹا پھوٹا مجسمہ کبھی ایک بادشاہ کے لباس میں ایک ہاتھ میں تلوار اور ایک ہاتھ میں مشعل لیے کھڑا تھا۔قلعے کے باہر ایک سرائے بھی موجود تھی۔ جو دو ہزار پانچ میں آئے زلزلے میں تباہ ہونے کے بعد دوبارہ تعمیر نہیں کی گئی۔

قلعہ پلیٹ:

[ترمیم]

دوسرے سکھ حکمران مہاراجا شیر سنگھ نے بانی ئ مظفرآباد کے تعمیر کردہ قلعہ مظفرآباد (پلیٹ والی گڑھی) کی 3481ء؁ میں ازسرِنو مرمت کروائی۔ کہوڑی، گڑھی دوپٹہ، چکار، کرناہ، شلُورہ اور اوڑی کے مقامات پر سکھ عہد حکومت میں نئے قلعے تعمیر کیے گئے۔ ڈوگروں نے بھی یہاں کی اہمیت کو پیش نظر رکھا۔ کوہالہ، دومیل، مظفرآباد شہر کے پُل، کوہالہ، سری نگر، برار کوٹ، مظفرآباد کی پختہ سڑکیں، مظفرآباد فورٹ کی مرمت و توسیع، شہر میں تین مندروں کی تعمیر اور شہر کے بالائی وزیریں حصہ کی رابطہ سنگی سیڑھیاں شہر کی گلیوں کی پختگی، کوہالہ سری نگر روڈ پر برسالہ، دلائی، دومیل گڑھی اور اوڑی کے مقامات پر شان دار ڈاک بنگلوں کی تعمیر اُوڑی کے نزدیک مَہُورہ کے مقام پر وادی کشمیر کے لیے ہائیڈل پاور اسٹیشن کی تعمیر اور مظفرآباد شہر میں بجلی کی فراہمی کے لیے ماکڑی ہائیڈل پاور اسٹیشن کا قیام یہ سب ڈوگرہ عہد کی یادگار ہیں۔

شخصیات

[ترمیم]
  • خواجہ غلام احمد پنڈٹ
  • ڈاکٹر صابر آفاقی
  • ڈاکٹر افتخار مغل
  • ڈاکٹر عبد الکریم خان(پرنسپل پوسٹ گریجوایٹ کالج مظفرآباد)
  • سردار مختار احمد عباسی(سیاست دان)
  • راجا عبد القیوم خان(سابقہ ایم ایل اے )
  • ناز مظفر آبادی(شاعر،ادیب،محقق)
  • ابدال احمد میرزا کاشمیری(اسلامک سکالر،محقق،شاعر،ادیب)
  • فرہاد احمد فگار (ادیب ،شاعر،محقق)
  • سالک محبوب اعوان

مظفرآباد کے مشہور سیاحتی مقامات

[ترمیم]
  • پیر چناسی

پیر چناسی ایک سیاحتی مرکز ہے جو مظفر آباد آزاد کشمیر سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر ہے۔ پیر چناسی سید حسین شاہ بخاری کو کہتے ہیں ان کا مزار پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ مقامی روایت کے مطابق یہ بزرگ بلوچستان کے علاقے سے 350 سال پہلے ہجرت کر کے تبلیغ کے سلسلے میں یہاں آ کر بس گئے تھے۔ یہ مقام 9500 فٹ بلند ہے۔ نزدیکی آبادی بھی خاصی نیچے پائی جاتی ہے۔ اس کے ایک طرف پیر سہار کو راستہ جاتا ہے، جہاں پیدل جانا پڑتا ہے دوسری طرف نیلم کا خوبصورت پہاڑی سلسلہ اور وادی کاغان کے پہاڑ مکڑا کا نظارا ہوتا ہے۔

  • ساتھرہ ہل ویو
  • دریائے نیلم و دریائے جہلم
  • نلوچھی پل
  • ریڈ فورٹ
  • لوہار گلی ویو پوائنٹ
  • سری کوٹ
  • سریاں ویو پوائنٹ
  • شھید گلی
  • اور اس کے علاوہ بھی مختلف پارکس اور خوبصورت مقامات واقع ہیں۔

لال قلعہ مظفرخان نے نہیں بنایا اور نہ کی مظفرخان کی کشمیر میں کسی جگہ حکومت تھی بلکہ مظفرخان قریش النسل عرب بمبہ خاندان سے ہیں عرب میں جب دور حکومت میں بنوامیہ(بمبہ) خاندان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تو بنوامیہ کے خاندان کے لوگ جان بچانے کے لیے عرب سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے مظفرخان بھی جان بچانے کے لیے کچھ عرصہ افغانستان میں مقیم رہے افغانستان میں رہائش کے دوران مظفرخان نے اپنے نام کے ساتھ خان کا اضافہ کر کے اپنی عرب النسل شناخت کو چھپایا پھر مظفرخان افغانستان سے کشمیر میں داخل ہو کر مظفراباد میں ٹھکانہ کیا یہ جگہ عباسیوں سے محفوظ تھی اور آبادی بھی خال خال تھی لہذا مظفرخان نے مظفراباد کو اپنا مسکن بنایا اور مظفراباد میں کی مظفرخان کا انتقال ہوا مظفرخان کی کشمیر میں کسی جگہ حکومت نہیں رہی راجہ ہندستان میں استعمال ہونے والا لفظ ھے مظفرخان جو کہ عرب النسل قریشی خاندان کی ایک شاخ بنوامیہ سے تعلق رکھتے ہیں عرب میں راجہ یا خان کا لفظ استعمال نہیں ہوتا خان راجہ کا تخلص ہندستان کے بادشاہ وغیرہ استعمال کرتے تھے بنوامیہ خاندان کی حضرت معاویہ کے دور سے لیکر یذید کے اقتدار تک حکومت رہی لہذا مظفرخان نے مظفراباد پہنچ کر اپنے سابقہ عرب اقتدار کی وجہ سے یہاں کی مقامی روایات کے مطابق اپنے نام کے ساتھ راجہ کا لفظ استعمال کیا لیکن مظفرخان کی کشمیر کے کسی بھی حصہ پر حکومت یا بادشاھت نہیں رہی راجہ کا لفظ خود اختیاری ھے۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]

1. ^ "شماریاتی سال کی کتاب 2019" (PDF)۔ شماریات آزاد جموں و کشمیر 20 اپریل 2020 کو بازیافت ہوا۔

2. ^ "کشمیر"۔

3۔ ^ رحمان 1996، صفحہ۔ 226.

4. ^ "مظفرآباد"۔ Lexico UK انگریزی ڈکشنری آکسفورڈ یونیورسٹی پریس۔ n.d

5. ^ میر-آت-مصعدی آرکائیویڈ 29-09-2007 کو وے بیک مشین پر

6. ^ احمد، پیرزادہ ارشاد (2003)۔ آزاد جموں و کشمیر پر ایک ہینڈ بک۔ نواب سنز پبلی کیشن۔ آئی ایس بی این 978-969-530-050-3

نگار خانہ

[ترمیم]