مندرجات کا رخ کریں

قتیبہ بن سعید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محدث
قتیبہ بن سعید
معلومات شخصیت
پیدائشی نام قتيبة بن سعيد بن جميل بن طريف بن عبد الله
پیدائش سنہ 767ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغلان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 854ء (86–87 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغلان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات طبعی موت
شہریت خلافت عباسیہ
کنیت ابو رجاء
لقب قتيبة
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
عملی زندگی
طبقہ 10
ابن حجر کی رائے ثقہ
ذہبی کی رائے ثقہ
استاد بہز بن اسد   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل روایت حدیث

ابو رجاء قتیبہ بن سعید ثقفی بلخی (150 هـ - 240 هـ) کا شمار تبع تابعین اور مالکیہ فقہا میں ہوتا ہے۔

نام ونسب

[ترمیم]

بعض کے نزدیک ان کا نام یحییٰ اوربعض کے نزدیک علی تھا اورقتیبہ لقب؛ لیکن صحیح تر قول یہ ہے کہ نام قتیبہ تھا اور ابو رجاء کنیت تھی،نسب نامہ اس طرح ہے قتیبہ بن سعید بن جمیل بن طریف بن عبد اللہ۔ [1] ان کے داد اجمیل بن طریف عراق کے مشہور اموی گورنر حجاج بن یوسف الثقفی کے غلام تھے،حجاج انتہائی ظالم وجابر اورتند مزاج ہونے کے باوجود جمیل کی بڑی تکریم کرتا تھا،انتہا یہ ہے کہ جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھتا تو قتیبہ کے دادا کو اپنے دائیں جانب ایک علاحدہ کرسی پر بٹھادیا کرتا تھا۔ [2] بنو ثقیف کے ساتھ تعلق غلامی کی وجہ سے ثقفی کہے جاتے ہیں۔

ولادت

[ترمیم]

شیخ قتیبہ کی ولادت 150ھ میں ان کے وطن بغلان میں ہوئی(جو بلخ کا ایک گاؤں ہے)ایک روایت میں ان کا سنہ ولادت 148 ھ بتایا گیا ہے،لیکن خود شیخ قتیبہ کے بیان سے اول الذکر ہی کی تائید ہوتی ہے، اس لیے حافظ ابن حجرؒ نے اسی کو اصح قرار دیا ہے[3]ان کا اصل وطن تو بغلان تھا لیکن عراق آکر مستقل سکونت اختیار کرلی اور وہیں آباد ہو گئے تھے، کبھی اپنے وطن جاتے تو ایک دو دن رہ کر چلے آتے تھے؛چنانچہ خود فرماتے ہیں: ماکان مثلی فی بغلان مسکنۃ ولا یمربھا الا علیٰ سفر [4] (ترجمہ)میری طرح بغلان میں کوئی ایسا نہ ہوگا جس کا وطن ہو تو بغلان مگر وہ وہاں آئے مسافر کی طرح۔ میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو! کہ اپنے آپ کو مانند مہماں لے کے آیا ہوں

تعلیم و تربیت

[ترمیم]

شیخ قتیبہ کے والد سعید بن جمیل نہایت نیک اطوار اورخوش خو تھے ایک بار انھوں نے عالمِ خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت کی،آپ ﷺکے دستِ مبارک میں ایک رجسٹر(صحیفہ)تھا،سعیدؒ نے دریافت کیا:"یا رسول اللہ یہ کیا ہے؟ ارشاد ہوا: اس میں علما کے نام درج ہیں، انھوں نے عرض کیا:ذرایہ مجھے مرحمت فرمادیں کہ میں دیکھوں،اس میں میرے لڑکے کا نام ہے یا نہیں؟ دیکھا تو اس میں ان کے فرزند قتیبہؒ کا اسم گرامی بھی شامل ہے[5] ایسے نیک بخت اورحوصلہ مند باپ کے فرزند ہونے کی بنا پر قتیبہ کو اسلامی علوم و فنون کے ساتھ قلبی لگاؤ تھا؛چنانچہ انھوں نے اس ذوق وشوق میں وطن سے نکل کر عراق مدینہ،مکہ،شام اورمصر تک کا سفر کیا اوروہاں کے کبار ائمہ سے سماع کا شرف حاصل کیا۔

شیوخ

[ترمیم]

شیخ قتیبہ کو مختلف امصار وبلاد کے جن ائمہ سے کسبِ فیض کا موقع بہم پہنچا ،ان میں درجِ ذیل نام ملتے ہیں: امام مالک بن انس،لیث بن سعد،ابن لہیعہ ،شریک [6] بکر بن مضر،مفضل بن فضالہ، عبد الوارث بن سعید، حماد بن زید، عبد العزیز بن ابی حازم، حفص بن غیاث ،حمید بن عبد الرحمن الرواسی، عبد الوہاب الثقفی، فضیل بن عیاض، جعفر بن سلیمان الضبعی،ہشیم، ابو عوانہ، یزید بن زریع،اسماعیل بن علیہ، ابن عیینہ، امام وکیع ابن الجراح وغیرہم۔ [7] انھوں نے اپنے علمی سفر کا آغاز صغر سنی ہی میں کر دیا تھا؛چنانچہ جب وہ عراق آئے تو ان کی عمر صرف 23 سال کی تھی،خود ان کا بیان ہے کہ: انحدرت إلى العراق أول خروجي سنة 172 وكنت يومئذ ابن 23 سنة [8] میں جب سب سے پہلی مرتبہ 172ھ میں عراق آیا تھا تو اس وقت میری عمر صرف 23 سال کی تھی۔

علم و فضل

[ترمیم]

تحصیل علم میں ان کی غایت درجہ محنت اوراکابر امت سے استفادہ نے انھیں علم کا سرچشمہ بنادیا تھا، حافظ ذہبی انھیں "الشیخ الحافظ محدث خراسان" لکھتے ہیں اوراس کے بعد فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ عالم، صاحبِ حدیث اورکثرت سے سفر کرنے والے تھے [9] (یعنی تحصیل علم کے لیے)ابن عماد حنبلی رقمطراز ہیں کہ: الیہ المتھی فی الثقۃ [10] ثقاہت میں ان کا آخری درجہ تھا۔

درسِ حدیث

[ترمیم]

امام قتیبہ جہاں بھی تشریف لے جاتے،علم و فضل کا دفتر کھل جاتا ؛چنانچہ بغداد میں تشریف فرما ہوتے تو امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین جیسے ائمہ روزگار نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر حدیث کا درس لیا اور جو لوگ ان سے استفادہ کے موقع کو ضائع کردیتے تھے وہ اس پرکفِ افسوس ملتے تھے، عمر وبن علی الفلاس بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ منی میں حضرت قتیبہ کے پاس سے گذرا تو دیکھا کہ عباسی العنبری ان کے پاس بیٹھے حدیث لکھ رہے تھے، میں اس وقت گذر گیا اور ان سے سماع نہیں کیا، لیکن بعد میں مجھ کو اپنے تساہل پر بڑی ندامت ہوئی۔ [11] [12]

تلامذہ

[ترمیم]

ان کی عظمت وبزرگی کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ان کے حلقہ تلامذہ میں اس عہد کے بڑے بڑے ائمہ حدیث داخل ہیں،کچھ ممتاز اسمائے ابو حاتم الرازی،ان کے علاوہ امام بخاری نے ان کی روایت کی ہوئی تین سو آٹھ 308 اورامام مسلم نے چھ سو اڑ سٹھ احادیث صحیحین میں درج کی ہیں۔ [13] شیخ قتیبہ نے امام احمد بن حنبل اوریحییٰ بن معین کی روایتوں کے لیے اپنے صحیفہ میں الگ الگ علامتیں مقرر کررکھی تھیں؛چنانچہ انھوں نے ایک دفعہ احمد بن محمد بن زیاد الکرمینی سے فرمایا کہ تم کو میری جن روایتوں پر سُرخ نشان ملے سمجھنا کہ میں نے وہ روایتیں امام احمد بن حنبلؒ کے سامنے روایت کی ہیں اورجن روایتوں پر سبز نشان ہے وہ یحییٰ بن معین کی روایت کی ہوئی ہیں۔ [14] لیکن ابو العباس السراج کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نشانیاں دو قسم کی نہیں ؛بلکہ سات قسم کی تھیں،ان سات میں سے دو تو امام احمد بن حنبل اوریحییٰ بن معین کے لیے ہی مخصوص تھیں، باقی پانچ نشانیاں ابو خثیمہ،ابوبکر بن ابی شیبہ،یحییٰ الحمانی،ابو زرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم الرازی اور ابو الحسین مسلم بن الحجاج نیشا پوری کے لیے مخصوص تھیں ۔ [15] عبیداللہ بن سیار بیان کرتے ہیں کہ عراق میں کوئی بڑا امام ایسا نہیں ہے جس نے قتیبہ بن سعید سے روایت نہ کی ہو اوروہ بڑے سچے تھے۔ [16]

کثرتِ حدیث

[ترمیم]

جیسا کہ مذکور ہواشیخ قتیبہ نے حدیث کی جستجو میں ان تمام ملکوں کا سفر کیا تھا جہاں ان کو حدیثوں کے ملنے کی امید ہو سکتی تھی ان سفروں میں انھوں نے احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ فراہم کر لیا کہ ایک مرتبہ انھوں نے اپنے ایک شاگرد سے فرمایا، اگر تم اس موسم سرما میں میرے پاس قیام کرو تو میں تم کو پانچ شخصوں کی روایت کی ہوئی، ایک لاکھ حدیثیں سناؤں گا، شاگرد نے عرض کیا کہ غالباً ان میں ایک بزرگ تو عمر بن ہارون ہوں گے،فرمایا نہیں صرف عمر بن ہارون سے تو میں نے الگ سے تیس ہزار حدیثیں لکھی ہیں، یہ ایک لاکھ حدیثیں تو وکیع بن الجراح عبد الوہاب الثقفی ،جریر الرازی،محمد بن بکر البر ساخی سے منقول ہیں، راوی کا بیان ہے کہ قتیبہ ابن سعید نے پانچویں بزرگ کا بھی نام لیا تھا لیکن میں اس کو بھول گیا۔ [17]

ایک عجیب واقعہ

[ترمیم]

امام قتیبہ کی علمی زندگی کا ایک قابلِ ذکر واقعہ یہ ہے کہ وہ شروع شروع میں قیاسی مسائل کی جستجو میں زیادہ رہتے تھے ایک مرتبہ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک توشہ دان لٹک رہا ہے،لوگ اس کو حاصل کرنے کی کوشش ک رہے ہیں لیکن اس تک پہنچنے سے عاجز ہیں،پھر میں (قتیبہ نے)اس کو لینا چاہا تو میں اپنی سعی میں کامیاب ہو گیا، اب میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تو مجھے مشرق ومغرب کے درمیان کی کل کائنات نظر آگئی ، صبح کے وقت میں ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا، جو خواب کی تعبیر بتانے میں بڑی شہرت رکھتے تھے،میں نے ان سے اپنا خواب بیان کیا،انھوں نے سُن کر فرمایا: بیٹے اب تم روایات وآثار کی طلب میں مشغول ہوجاؤ؛کیونکہ صرف روایات وآثار ہی مشرق ومغرب تک پہنچ سکتی ہیں،قیاسی مسائل میں اس درجہ وسعت کہاں؟

تموّل

[ترمیم]

عام اہلِ علم کے برخلاف شیخ قتیبہ بڑے مالدار تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں:"وکان غنیا متمولا"[18]ان کے پاس کے پاس اونٹ بکریاں گائیں اور گھوڑے وغیرہ بڑی کثرت سے تھے۔ [19]

حلیہ

[ترمیم]

ان کا حلیہ یہ تھامیانہ قد وقامت سر کے بال آگے سے غائب،پُر رونق چہرہ،خوش وضع ڈاڑھی،اخلاق و عادات کے لحاظ سے بڑے مہمان نواز اورخوش خلق تھے۔ [20]

وفات

[ترمیم]

2شعبان 240ھ میں اپنے وطن بغلان میں وفات پائی، اس وقت عمر 91 سال تھی۔ [21]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (تاریخ بغداد:12/464)
  2. (ایضاً:468)
  3. (تہذیب التہذیب:8/360)
  4. (تاریخ بغداد:12/470)
  5. (تاریخ بغداد:12/468)
  6. (تذکرۃ الحفاظ:2/33)
  7. (تہذیب التہذیب:8/359)
  8. (تہذیب التہذیب،باب حرف القاف:8/322)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:2/30)
  10. (شذرات الذہب :2/95)
  11. (تاریخ بغداد:12/468)
  12. الموسوعة المعرفية الشاملة آرکائیو شدہ 2010-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  13. (تہذیب التہذیب:8/361)
  14. (تاریخ بغداد:12/466)
  15. (ایضاً)
  16. (ایضاً)
  17. (ایضاً:469)
  18. (تذکرۃ الحفاظ:2/30)
  19. (تاریخ بغداد:12/468)
  20. (ایضاً)
  21. (تہذیب التہذیب:8/360،وتذکرۃ الحفاظ:2/31)