حیدرآباد، دکن
حیدرآباد | |
---|---|
میٹرو شہر | |
Clockwise from top left: چار مینار، Skyline at Lanco Hills، حسین ساکر، گولکنڈہ قلع، چومحلہ پیلس اور برلا مندر | |
عرفیت: موتیوں کا شہر | |
ملک | بھارت |
ریاست | تلنگانہ |
علاقہ | دکن |
بھارت کے اضلاع | ضلع حیدر آباد، ضلع رنگاریڈی اور ضلع میدک |
سنہ تاسیس | 1591 ء |
قائم از | محمد قلی قطب شاہ |
حکومت | |
• قسم | میئر کونسل |
• مجلس | عظیم تر بلدیہ حیدرآباد حیدرآباد میٹروپولیٹن ڈیولپمنٹ اتھارٹی |
• MP | بنڈارو دتاترییہاور اسد الدین اویسی |
• میئر | محمد ماجد حسین |
• en:Police commissioner | M Mahender Reddy |
رقبہ | |
• میٹرو شہر | 650 کلومیٹر2 (250 میل مربع) |
• میٹرو | 7,100 کلومیٹر2 (2,700 میل مربع) |
بلندی | 505 میل (1,657 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• میٹرو شہر | 6,809,970 |
• درجہ | 4th |
• کثافت | 18,480/کلومیٹر2 (47,900/میل مربع) |
• میٹرو | 7,749,334 |
• Metro rank | 6th |
نام آبادی | حیدرآبادی |
منطقۂ وقت | IST (UTC+5:30) |
Pincode(s) | 500 xxx, 501 xxx, 502 xxx, 508 xxx, 509 xxx |
ٹیلی فون کوڈ | +91–40، 8413, 8414, 8415, 8417, 8418, 8453, 8455 |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | TS-09, TS-10, TS-11, TS-12, TS-13, TS-14[1] |
Official languages | تیلگو، اردو |
ویب سائٹ | www |
حیدرآباد بھارت کا چوتھا سب سے بڑا شہر ہے۔ اور ریاست تلنگانہ کا صدر مقام ہے۔ ریاست آندھرا پردیش کا بھی دس سال تک یعنی 2024 تک صدر مقام رہے گا۔ حیدرآباد شہر کو بھارت کا دوسرا صدر مقام بھی کہتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ یہاں بھارتی صدر کی دوسری سرکاری رہائش گاہ راشٹراپتی نلیہ (صدر کی رہائش) ہے۔
تعارف
حیدرآباد دکن ہندوستان کی جنوبی ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ کا مشترکہ دار الخلافہ ہے۔ نظام کے دورحکومت میں دار السلطنت رہا ہے۔ حیدرآباد دکن اپنے سنہری تاریخ اور ثقافت کی وجہ سے مشہور ہے۔ حیدرآباد دکن کو موتیوں اور مسلمان نظام بادشاہوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اردو اور تیلگو یہاں کی بولی جانے والی بڑی زبانیں ہیں۔ موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور بایوٹیکنالوجی کا مرکز مانا جاتا ہے۔ حیدرآباد کے انفو ٹیک پارک کو “سائبرآباد“ کے نام سے جانا جاتاہے۔
حيدرآباد دكن برطانوی ہندوستان میں الگ ریاست تھی اور وہاں اس كا اپنا سكہ رائج تھا اور اپنی حكومت تھی، ليكن جب 1947ء میں بھارتی حكومت قائم ہوئی تو اس نے دكن كی حكومت كو 1948ء میں ایک فوجی ایکشن کے ذریعہ ہندوستان میں شامل کر لیا۔ حیدرآباد دکن کو 2010ء میں بھارت کا چھٹا بڑا” گنجان آباد شہر(Populous City )“ اور چھٹا بڑا ”گنجان آباد شہری قصبہ(Populous Urban City)“ کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ آبادی تقریباً 70لاکھ ہے– حیدرآباددکن ،اردو تہذیب، تمدن، روایات ادبی ثقافتی اور مذہبی مرکز ہے۔
ابتدائی تاریخ
ریاستِ حیدرآباد دکن جس کا جغرافیائی نقشہ ہر دور میں بدلتا رہا 17ستمبر، 1948ء تک جب ہندوستانی فوجوں نے نظام کی حکومت کا خاتمہ کیا اس وقت تک بھی ایک عظیم رقبہ پر پھیلا ہوا 86 ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ تھا۔ 1923 ءمیں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچیکہ اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب، افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوشحالی و شان و شوکت کے لحاظ سے ریاست حیدرآباد کو جو بین الاقومی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاستِ حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لیے " مدینہ بلڈنگ " کے نام سے شان دار عمارتیں جو آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لیے وقف تھیں جن کے کرائے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لیے رباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوادی تھیں۔ ریاستِ حیدرآباد جس کی تاریخ 13ویں صدی کے آخر میں علأ الدین خلجی کی آمد سے شروع ہو کر بہمنی' شاہی اور آصفجاہی دور تک بیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہے۔ موجودہ حیدرآباد تقریباً دو ہزار مربع میل پر مشتمل ایک شہر ہے جس کے باقی حصے ریاستِآندھرا پردیش، کرناٹک اور مہا راشٹر میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ ریاست حیدرآباد کی خصوصیت تھی کہ یہ ہمیشہ امن و آشتی کا علمبردار، ہندو مسلم یکجہتی کی مثال اور علم و ادب نوازی کی ایک ایسی مثال تھا جس کو دنیا تمام کے علمأ و دانشور ،مفکرین و مورخین نے آکر اپنی خدمات سے مزید چار چاند لگائے۔[3]
جغرافیہ اور آبادی
حيدرآباد جنوبی ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ کا مشترکہ دار الخلافہ ہے، جس کی آبادی (70) لاکھ[4] ہے–
نظم و نسق
حیدرآباد شہر میں 1870ء میں ہی میونسپلٹی کی طرح نظم و نسق کا آغاز ہوا۔ شہر پر حکمرانی کرنے والے آصف جاہی حکمرانوں نے کچھ علاقوں کو علاحدہ کر کے چادرگھاٹ کو مخصوص میونسپلٹی کی مانند تشکیل دیا۔ موجودہ حیدرآباد سے متعلق مکمل تفصیلات ضلع حیدرآباد آفیشل ویب سائیٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
صنعتیں
انفارمیشن ٹکنالوجی اور بی پی او مرکز کے طورپر شہرت پا رہا ہے۔ غیر ممالک سے آؤٹ سورسنگ صنعتیں آ رہی ہیں۔ ٹکسٹائلز، پلاسٹک، شیشہ سازی وغیرہ کی صنعتیں معروف ہیں۔ پرانے شہر کا زری کا کام قابلِ دید ہے ۔
جامعات
نظامِ ہفتم نواب میر عثمان علی خاں نے 1918ء میں جامعہ عثمانیہ ( عثمانیہ یونیورسٹی ) قائم کی۔ علاوہ ازیں شہر میں کئی مرکزی اور ریاستی یونیورسٹیوں قائم ہیں۔ جن میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی، تلگو یونیورسٹی، جواہر لال نہروٹکنالوجیکل یونیورسٹی، اچاریہ این جی آر ایگریکلچرل یونیورسٹی، انگلش اینڈفارن لینگویج یونیورسٹی وغیرہ شامل ہیں۔
تعمیرات اورسیاحتی مقامات
شہر حیدرآباد میں دیکھنے لائق کئی تعمیرات ہیں، جن میں مشہور چار مینار سب سے اہم ہے۔ چند اور مقامات حسب ذیل ہیں۔
- مکہ مسجد
- سالار جنگ میوزیم
- گولکنڈہ
- چو محلہ پیلس
- گگن محل
- قطب شاہی مقبرے
- جامعہ عثمانیہ
- ہائی کورٹ
- عثمانیہ دوا خانہ
- برلا مندر
- فلک نما پیلس
- نظام دوا خانہ(NIMS)
- حسین ساگر
- نہرو زوالوجیکل پارک
- راموجی فلم سٹی
- باغ عامہ
- ونڈر لا
موسم
حیدرٱباد کا موسم سال بھرمين معتدل مگر قدرےگرم رہتا ہے ·برسات کے مؤسم مین بھی بارش بھت کم مقدار مین پڑھتی ہے·دسمبر کے مہینے مين درجہ حرارت مین تھوڑی سی گراوٹ ہو جاتی ہے·
سانچہ:Hyderabad, India weatherbox
صنعت
انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اہم مرکز ہے۔ حیدرآباد کے انفو ٹیک پارک کو “سائبرآباد“ کے نام سے جانا جاتاہے۔
تجارت
کئی بھارتی شہروں کی طرح حیدرآباد میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ایک اعلی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تہذیب و ثقافت
حیدرآباد اپنی گنگا جمنی تہذیب کے لیے جانا جاتا ہے۔ نظام دکن نے حیدرآباد کے ہندواور مسلمانوں کواپنی دوآنکھوں سے تعبیرکیا تھا۔ حیدرآباد، اردو تہذیب، تمدن، روایات۔ ادبی ثقافتی اور مذہبی مرکز ہے۔
حیدرآباد میں اردو کتب خانے
نگار خانہ
ََ
-
لاڈ بازار کی ایک دکان
-
لاڈ بازار کی ایک چوڑیوں کی دکان۔
-
حیدرآبادی بریانی۔
حوالہ جات
- ↑ "District Codes"۔ Government of Telangana Transport Department۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 ستمبر 2014
- ↑ "Welcome to HMDA"۔ HMDA۔ 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مئی 2013
- ↑ Taemeer News: زوال حیدرآباد کی کہانی
- ↑ http://www.ruaf.org/node/507
بیرونی روابط
Hyderabad کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کے ساتھی منصوبے: | |
لغت و مخزن ویکی لغت سے | |
انبارِ مشترکہ ذرائع ویکی ذخائر سے | |
آزاد تعلیمی مواد و مصروفیات ویکی جامعہ سے | |
آزاد متن خبریں ویکی اخبار سے | |
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے | |
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے | |
آزاد نصابی و دستی کتب ویکی کتب سے |
- کرلی (ڈی موز پر مبنی) پر حیدرآباد، دکن
- A guide to Hyderabad
- Hyderabad Metro
- Hyderabad Map
ویکی ذخائر پر حیدرآباد، دکن سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- جغرافیہ رہنمائی خانہ جات
- 1591ء میں آباد ہونے والے مقامات
- آندھرا پردیش
- ایشیا میں 1591ء کی تاسیسات
- بھارت کے شہر
- بھارت کے میٹروپولیٹن شہر
- بھارتی ریاستوں کے دار الحکومت
- تاریخی اضلاع
- تلنگانہ کے شہر
- جنوبی ایشیا
- حیدر آباد، دکن
- دکن
- سابقہ قومی دار الحکومت
- سابقہ ممالک کے دار الحکومت
- سابقہ ہندوستانی پایۂ تخت
- ضلع حیدرآباد، بھارت کے شہر اور قصبے
- ہندوستان میں 1590ء کی دہائی کی تاسیسات