شیریں عبادی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شیریں عبادی
(فارسی میں: شیر ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Shirin Ebadi at the WSIS Conference in Tunis, Tunisia, 18 November 2005.

معلومات شخصیت
پیدائش (1947-06-21) 21 جون 1947 (age 76)[1]
ہمدان، ایران
رہائش لندن، انگلستان
قومیت ایرانی
نسل فارسی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P172) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
عملی زندگی
مادر علمی تہران یونیورسٹی[3]
پیشہ
  • وکیل
  • جج
پیشہ ورانہ زبان فارسی[4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوکریاں جامعہ تہران  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت Defenders of Human Rights Center
اعزازات
Rafto Prize (2001)
نوبل امن انعام (2003)
JPM Interfaith Award (2004)
Legion of Honour (2006)
دستخط
IMDB پر صفحہ  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شیریں عبادی ایران کی معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی ترجمان ہیں،جنہیں نوبل انعام حاصل کرنے والی مسلم دنیا کی پہلی خاتون بننے کا اعزاز حاصل ہے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

21 جون، 1947ء کو ایران کے شہر ہمدان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد محمد علی عبادی شہر کے مصدق الاسناد اور کمرشل لا کے پروفیسر تھے۔ 1948ء میں ان کا خاندان تہران چلا گیا۔ 1965ء میں شیریں نے تہران یونیورسٹی میں شعبہ قانون میں داخلہ لیا۔ 1969ء میں گریجویشن کی اور پھر چھ ماہ تک انٹرن شپ کرنے کے بعد انھوں نے مارچ 1970ء میں بطور جج کیریئر شروع کیا۔ اس دوران انھوں نے تہران یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور 1971ء میں انھوں نے قانون میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے لیجسلیٹو کورٹ کی سربراہی کی۔

دوسرا دور[ترمیم]

1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعد قدامت پسندوں نے اعلان کر دیا کہ اسلام میں خاتون جج نہیں بن سکتی ۔ اس بنا پر شیریں عبادی کو جج کے منصب سے ہٹا کر سیکرٹری لیول کی ایک جگہ پر فائز کر دیا گیا۔ اس جگہ پر وہ پہلے بھی کام کر چکی تھیں۔ انھوں نے دیگر خاتون ججز کے ساتھ مل کر احتجاج کیا ۔ اس صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر شیریں عبادی نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کی کوشش کی لیکن ان کی درخواستیں مسترد کی جاتی رہیں۔ 1993ء تک وہ بطور وکیل پریکٹس بھی جاری نہ رکھ سکیں۔ اس اثناء میں وہ کتب اور مختلف جرائد میں مضامین لکھتی رہیں۔

تدریسی زندگی[ترمیم]

شیریں عبادی ان دونوں یونیورسٹی آف تہران میں لیکچرز دے رہی ہیں جس میں وہ بچوں اور خواتین کے قانونی حقوق پر زور دیتی ہیں۔ یاد رہے کہ 1997ء کے صدارتی انتخابات میں اصلاح پسند محمد خاتمی کی شاندار کامیابی میں خواتین کا کردار کلیدی رہا ۔ بطور وکیل شیریں عبادی کا کردار اہم رہا ہے۔ وہ ان خاندانوں اور افراد کا مقدمہ لڑتی رہیں جو سخت گیر لوگوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے۔ ان کے اس کردار پر سخت گیر طبقہ بہت زیادہ بے چینی محسوس کرتا رہا ۔ چنانچہ شیریں عبادی کو آزمائشوں سے گزارا گیا ۔ ان پر مختلف مقدمات قائم کیے گئے ۔ انھیں پانچ برس تک قید و بند کی سزا سنائی گئی جو بعد ازاں منسوخ کر دی گئی۔ انھوں نے دو این جی اوز بھی قائم کیں جن کا مقصد بنیادی طور پر انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ انھوں نے بچوں پر زیادتی کے خلاف ایک ڈرافٹ تیار کیا جو 2002ء میں ایرانی پارلیمنٹ نے منظور بھی کر لیا۔

تصانیف[ترمیم]

شیریں عبادی کی تصانیف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام، جمہوریت اور انسانی مساوات کی قائل ہیں۔ وہ مغرب کی دلدادہ نہیں ہیں ان کے اندر ایرانی قوم پسندی زیادہ نظرآتی ہے۔ وہ مغرب نواز شاہ کی شدید مخالف رہی۔ انھوں نے ایرانی انقلاب کی حمایت کی تھی ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ایران کو چھوڑ کر مغربی ممالک میں جابستے ہیں میں سمجھتی ہوں وہ میرے لیے مرگئے۔ انھوں نے ایران کے اندر غیر ملکی مداخلت کے ارادوں کی شدید مذمت کی ۔ وہ ایران کے جوہری پروگرام کا کھلم کھلا دفاع کرتی ہیں۔

"ایران جاگ رہا ہے" شیریں عبادی کی سوانح عمری

10 اکتوبر، 2003ء کو انھیں جمہوریت اور انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور بچوں کے حقوق کی خاطر کام کرنے کی بنا پر نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا۔ ایرانی حکومت اور میڈیا نے اس خبر پر صرف خوشی کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ شیریں عبادی کو ایوارڈ دینے کی بنیادیں سیاسی ہیں۔ ان پر تنقید کی گئی کہ انھوں نے نوبل انعام ایوارڈ کی تقریب میں انعام وصول کرتے ہوئے سر نہیں ڈھانپا تھا۔ ایوارڈ ملنے کے بعد انھیں عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ انھیں نہ صرف متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا بلکہ انھیں مختلف عالمی کانفرنسوں میں خطاب کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ان کی اب تک چار تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ جو ایرانی خواتین، ایرانی تحریکوں اور دانشوروں سے متعلق ہیں۔ ان کے شوہر سابق صدر محمد خاتمی کے مشیر رہے ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

* نوبل انعام

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Daniel P. O'Neil (2007)۔ Fatima's sword: Everyday female resistance in post-revolutionary Iran۔ ProQuest۔ صفحہ: 55–61۔ ISBN 978-0-549-40947-2۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2012 
  2. https://web.archive.org/web/2/https://www.zeitoons.com/28016
  3. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14551896x — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/118364003