مندرجات کا رخ کریں

عبد اللہ بن ادریس کوفی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محدث
عبد اللہ بن ادریس کوفی
معلومات شخصیت
وجہ وفات طبعی موت
رہائش کوفہ
شہریت خلافت عباسیہ
کنیت ابو محمد
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
عملی زندگی
نسب زعفرانی
ابن حجر کی رائے صدوق
ذہبی کی رائے صدوق
پیشہ محدث
شعبۂ عمل روایت حدیث

نام ونسب

[ترمیم]

عبد اللہ نام اورابو محمد کنیت تھی [1]نسب نامہ یہ ہے ،عبد اللہ ابن ادریس بن یزید بن عبد الرحمن [2] کوفہ کے قبیلہ اود کی ایک شاخ زعافر سے خاندانی نسبت رکھتے تھے،اس لیے کوفی اودی اورزعافری،تینوں نسبتوں سے مشہور ہوئے۔ [3]

ولادت

[ترمیم]

ان کے سنہ پیدائش کے بارے میں محققین بہت مختلف الرائے ہیں حافظ ذہبی نے نشان دہی کی ہے کہ عبد اللہ بن ادریس کی ولادت 130ھ میں ہوئی[4]علامہ ابن سعد نے طبقات میں بروایت طلق غنم 115ھ کو ان کا سنِ ولادت قرار دیا ہے [5]لیکن اس سلسلہ میں سب سے زیادہ معتبر ومستند خود ابن ادریس کا بیان ہے جس کوحافظ ابنِ حجر نے احمد بن جو اس کی روایت سے نقل کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن ادریس کو کہتے سنا: ولدت فی سنۃ 110 ،علامہ عسقلانی اس کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں "وکذا رواہ غیر واحد"علاوہ ازیں صاحبِ تہذیب نے 120ھ کے قول کو لفظِ قیل سے ذکرکیا ہے جس سے اس کا ضعف ظاہر ہے۔ [6]

فضل وکمال

[ترمیم]

انھیں علم و فضل کی دولت بے بہاوراثۃً نصیب ہوئی تھی،ان کے دادا یزید جلیل المرتبت تابعی تھے،جنھوں نے حضرت ابو ہریرہؓ کے دامانِ فیض سے خوشہ چینی کی تھی،اسی طرح عبد اللہ کے والد ادریس بھی وقت کے بلند پایہ عالم اورماہر فن تھے،ان گوناگوں مناسبتوں سے عبد اللہ بھی علم کی دولت سے مالا مال ہوئے،منتخب زمانہ تابعین سے اکتساب ضوء کیا اورپھر خود بھی افتاء واجتہاد کے منصب پر فائزہوئے،حافظ ذہبی انھیں :الامام القدوۃ الحجۃ احد العلام اورالحافظ العابد لکھتے ہیں [7]ابو حاکم کا بیان ہے: ھوا مام من ائمۃ المسلمین وہ ائمۃ اسلام میں سے ہیں۔ حسن بن عرفہ کہتے ہیں: مارأیت بالکوفۃ افضل منہ [8] میں نے کوفہ میں ان سے بڑا فاضل نہیں دیکھا۔ امام احمد بن حنبل"کان عبد اللہ بن ادریس نسیج وحدۃ"کے الفاظ سے رطب اللسان ہیں ۔ [9]

شیوخ

[ترمیم]

انھوں نے بکثرت محدثین سے سماع حاصل کیا تھا،جن میں اجلۂ روزگار تابعین کی بھی خاصی تعداد شامل ہے،ممتاز اورلائقِ ذکر اساتذہ کے نام یہ ہیں: امام اعمش،ابن جریج،امام شعبہ،سہیل بن ابی صالح،یحییٰ بن سعید الانصاری ،داؤد بن ابی ہند، ہشام بن عروہ،حسن بن فرات،ابو اسحاق الشیبانی ۔ [10]

تلامذہ

[ترمیم]

خود امام زعافری کے آفتابِ کمال کی کرنوں سے جن علما کے دِل منور ہوئے،ان میں امام مالک،امام احمد، عبد اللہ بن مبارک،اسحاق بن راہویہ عبد اللہ بن ابی شیبہ ،ابو خثیمہ،زیاد بن ایوب،یحییٰ بن آدم،ابوبکر بن ابی شیبہ،حسن بن ربیع اورحسن بن عرفہ جیسے یکتائے عصر ائمۃ شامل ہیں۔ [11]

مرویات کا پایہ

[ترمیم]

حدیث ومتعلقاتِ حدیث کی معرفت میں ابن ادریس کا پایہ نہایت بلند تھا،ابنِ مدینی کا بیان ہے کہ اس فن میں وہ اپنے والد بزرگوار پر بھی تفوق رکھتے تھے۔ عبد اللہ بن ادریس فوق ابیہ فی الحدیث [12] عبد اللہ بن ادریس کو حدیث میں اپنے والد پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ محققین علما نے ان کی ثقاہت،حجیت،تثبت اوراتقان کو بصراحت تسلیم کیا ہے،ابن معین کہتے ہیں ثقۃ فی کل شے [13] ابو حاتم کا بیان ہے: ھو حجۃ یحتج بھا وھو امام من ائمۃ المسلمین ثقۃ [14] وہ حجت،امام اورثقہ ہیں۔ علامہ ابن سعد رقم طراز ہیں: وکان ثقۃ مامونا کثیر الحدیث حجۃ صاحب سنۃ وجماعۃ [15] وہ ثقہ،مامون،کثیر الحدیث حجت اوراہل سنت تھے۔ علاوہ ازیں امام نسائی،عجلی اورامام احمد نے بھی انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔

عبادت وصالحیت

[ترمیم]

علم و فضل کے ساتھ ان کی دنیائے عمل بھی بہت روشن تھی،عبادت وریاضت اورتقویٰ وصالحیت میں وہ کوفہ کے ممتاز ترین علما میں شمار کیے جاتے تھے،بیان کیا جاتا ہے کہ کوفہ میں ان سے بڑا عابد کوئی نہ تھا "لم یکن اعبد منہ"[16] ابن عمار بیان کرتے ہیں کہ وہ خدا کے ان برگزیدہ بندوں میں تھے،جن کا نمایاں وصف نیکی وتقویٰ ہوتا ہے۔ [17] یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں "کان عابدا فاضلاً" [18]

مسلک

[ترمیم]

اگرچہ وہ دوسری صدی کے دیگر ائمہ کی طرح منصبِ امامت واجتہاد پر فائز تھے،لیکن اپنے فتاویٰ اورفقہی اقوال میں بیشتر مسلکِ اہل مدینہ کی اتباع کرتے تھے۔ [19]

موطا امام مالکؒ کی روایات

[ترمیم]

امام مالکؒ نے بایں ہمہ جلالت علم و تفوق زمانی ابن ادریس سے کافی سماع حاصل کیا تھا اوران دونوں میں بہت گہرے دوستانہ مراسم تھے،بیان کیا جاتا ہے کہ مؤطا کی تمام روایات کا سما ع امام مالکؒ نے ابن ادریس سے حاصل کیا تھا۔ ان جمیع مارواہ مالک فی المؤطا سمع من ابن ادریس [20] امام مالکؒ نے مؤطا کی تمام روایات کی سماعت ابن ادریس سے کی تھی۔

جاہ ومنصب سے بے اعتنائی

[ترمیم]

وہ تاحیات جاہ ومنصب سے کنارہ کش رہے دنیا نے ان کے قدموں میں بار ہاحبہ سائی کی ؛لیکن انھوں نے بے نیازی کا لائق تقلید نمونہ پیش کرتے ہوئے اسے ٹھکرادیا؛چنانچہ عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے ایک بار ان کے سامنے قضا کا عہدہ پیش کیا اور اس کے قبول کرنے پر ازحد اصرار کیا؟ لیکن ابن ادریس نے اپنی عدم صلاحیت کا حیلہ کرکے اس پیشکش کو مسترد کر دیا، ان سے قبل خلیفہ مذکور نے یہ منصب حافظ وکیع ابن الجراح کے سُپرد کرنا چاہا تھا،مگر انھوں نے بھی اسے ٹھکرادیا تھا اورپھربالآخر حفص بن غیاث نے اس کو قبول کر لیا،پھر ہارون نے پانچ ہزار درہم بطور زادِ راہ پیش کیا تو اول الذکر دونوں أئمہ نے اسے بھی لینے سے انکار کر دیا اورابن غیاث نے لے لیا[21]اس واقعہ کے بعد ابن ادریس کو قاضی حفص کی جانب سے سخت تکدر پیدا ہو گیا؛کیونکہ انھوں نے أئمہ سلف کی شانِ استغناء کو ٹھیس پہنچائی تھی،بروایتِ صحیح منقول ہے کہ ابن ادریس نے اس کے بعد قاضی حفص سے تاحیات بات نہ کرنے کی قسم کھالی تھی۔ [22]

استغناء کا دُوسرا واقعہ

[ترمیم]

ایک بار خلیفہ ہارون الرشید حج کی غرض سے مکہ جارہا تھا سرِ راہ کوفہ سے اس کا گذر ہوا،اس کے ہمراہ دونوں لڑکوں امین اورمامون کے علاوہ قاضی ابو یوسف بھی تھے، کوفہ پہنچ کر اس نے حکم دیا کہ تمام مقامی شیوخِ حدیث جمع ہوں تاکہ ان سے امین و مامون سماع حاصل کرسکیں،چنانچہ حسبِ حکم تمام علما،خلیفہ کی فرودگاہ پر مجتمع ہوئے،لیکن عبد اللہ بن ادریس اورعیسیٰ بن یونس،اسے وقارِ علمی کے منافی تصور کرکے نہ آئے۔ شیخ کوفہ سے اکتساب فیض کرنے کے بعد امین ومامون اب ادریس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے سو حدیثیں سماعت کیں، اس کے بعد مامون نے ان کی خدمت میں کچھ مال وزر پیش کیا،لیکن شیخ نے اس میں سے کچھ بھی قبول کرنا گوارانہ کیا۔ ان سے فارغ ہوکر دونوں خلیفہ زادے عیسیٰ بن یونس کے پاس پہنچے اوران سے بھی سماعِ حدیث کا شرف حاصل کیا،مامون نے انھیں دس ہزاردرہم دیے جانے کاحکم دیا،جسے ابن یونس نے لینے سے انکارکردیا،پھرمامون نے اس رقم کو دگنا کرکے پیش کیا،ابن یونس نے نہایت غضبناک ہوکر فرمایا "خدا کی قسم !اگر تم اس مسجد کو فرش سے چھت تک مال بھر کر پیش کرو تو بھی میں حدیثِ رسول ﷺکی تعلیم پر ایک حبہ لینا گوارا نہیں کرسکتا۔ [23]

وفات

[ترمیم]

ہارون الرشید کے ایامِ خلافت میں،10ذی الحجہ 192ھ کو بمقام کوفہ راہ سپارِ عالمِ جاوداں ہوئے [24]انتقال کے وقت 72 سال کی عمر تھی [25]چونکہ حافظ ذہبی کی تحقیق کے مطابق ان کی پیدائش 120ھ میں ہوئی،اس لیے وفات کے وقت شیخ کی عمر 72 سال قرار پاتی ہے،لیکن سنِ ولادت کے بارے میں ذہبی کے قول کو ضعیف مانا جاتا ہے اورجیسا کہ مذکور ہوا ،خود ابن ادریس کے بیان کے مطابق 110ھ میں ان کی پیدائش ہوئی اس طرح ان کی عمر 82 سال ہوتی ہے۔ جب ابن ادریس کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی صاحبزادی محبتِ پدری سے مغلوب ہوکر رونے لگیں، یہ دیکھ کر فرمایا،کس بات پر روتی ہو،میں نے اس گھر میں چار ہزار ختم قرآن کیے ہیں [26]یعنی خیر وبرکت کا ایک خزانہ اس مکان میں چھوڑ کر رخصت ہو رہاہوں،جو پس ماند گان کے لیے سروروانبساط کا باعث ہونا چاہیے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. (طبقات ابن سعد:6/271)
  2. (خلاصہ تہذیب الکمال:19)
  3. (اللباب فی تہذیب الانساب:1/501)
  4. (تذکرۃ الحفاظ:1/258)
  5. (طبقات ابن سعد:6/271)
  6. (تہذیب التہذیب:5/146)
  7. (العبر:1/308،وتذکرۃ الحفاظ:1/258)
  8. (تہذیب التہذیب:5/144)
  9. (مرأۃ الجنان:1/43)
  10. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:191 وتہذیب التہذیب :5/144)
  11. (تہذیب التہذیب:5/144)
  12. (خلاصہ تذہیب:191)
  13. (طبقات ابن سعد:6/271)
  14. (تہذیب التہذیب:5/145)
  15. (تہذیب التہذیب:5/145)
  16. (شذرات الذہب:1/33)
  17. (تہذیب التہذیب:5/145)
  18. (ایضاً)
  19. (ایضاً)
  20. (تذکرۃالحفاظ :1/257)
  21. (البدایہ والنہایہ:10/208)
  22. (تذکرۃ الحفاظ:1/285،والبدایہ والنہایہ:10/208)
  23. (البدایہ والنہایہ:10/208)
  24. (طبقات ابن سعد:6/271)
  25. (تذکرۃ الحفاظ:1/258)
  26. (البدایہ والنہایہ:1/209)