مندرجات کا رخ کریں

عبد الرزاق صنعانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد الرزاق صنعانی
(عربی میں: عبد الرزاق الصنعاني ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 744ء [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 17 جنوری 827ء (82–83 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد عبد الرحمٰن اوزاعی ،  سفیان ثوری ،  ابن جریج ،  مالک بن انس   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد احمد بن حنبل ،  اسحاق بن راہویہ ،  علی بن مدینی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  مفسر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل علم حدیث ،  تفسیر قرآن ،  اسلام [5]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مصنف عبد الرزاق   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عبد الرزاق بن ہمام بڑے نامور محدث تھے مفسر اور بہت سے ائمہ حدیث کے استاد ہیں، جو محدث یمن سے مشہور ہیں۔اتباع تابعین کے زمرہ میں جن علما نے درس وافادہ کی مجلسیں گرم کرنے کے ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ان میں عبد الرزاق ابن ہمام کا اسم گرامی بہت ممتاز ہے،حدیث میں ان کی شہرہ ٔ آفاق، مصنف، نہایت بلند واعلیٰ مقام کی حامل ہے،قدامت واہلیت کے لحاظ سے اس کا پایہ "مصنف"ابن ابی شیبہ سے بھی اونچا ہے۔

ولادت اوروطن

[ترمیم]

126ھ میں یمن کے دار الحکومت اورمشہور ترین شہر صنعاء میں ان کی ولادت ہوئی [6]اس مردم خیز سرزمین کو لا تعداد شیوخ وأئمہ کے مولد ہونے کا شرف حاصل رہا ہے۔ [7] آپ کی ولادت 126ھ بمطابق 744ء صنعاء میں ہوئی۔(ملک شام میں بھی دمشق کے قریب صنعاء نام کا ایک گاؤں ہے، اس کی طرف بھی علما اعلام کی ایک بڑی جماعت منسوب ہے جیسے،ابو الاشعث ثمر احیل بن کلیب الصنعانی اور حنش بن عبد اللہ الصنعانی وغیرہ لیکن اکثر وبیشتر صنعانی کی نسبت صنعاء یمن ہی کی طرف ہوتی ہے)

نام و نسب

[ترمیم]

ابو بكر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحميری اليمانی الصنعانی، صنؑعاء کے حفاظ الحدیث میں سے ہیں۔

طلب علم

[ترمیم]

انھوں نے ابتدائے شعور ہی سے اپنے والد اوردوسرے مقامی علما سے تحصیل علم شروع کردی تھی اوربیس سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں دسترس ومہارت پیدا کرلی تھی،مشہور امام فن معمر بن راشد کی بارگاہ علم میں کامل سات سال گزارے تھے، اس مخصوص صحبت اور زرین موقع سے وہ پورے طور پر بہرہ یاب ہوئے تھے؛چنانچہ ان کے عہد میں مرویات ابن راشد کا ان سے بڑا عالم و حافظ کوئی نہ تھا،یمن سے باہر ان کی رحلت علمی کا بصراحت ثبوت فراہم نہیں ہوتا، لیکن وہ اکثر بغرض تجارت شام وغیرہ ممالک کا سفر کیا کرتے تھے،یقیناً ان کا شغف علم انھیں وہاں کے مشاہیر شیوخ کی خدمت میں لے جاتا ہوگا ،حافظ ذہبی رقمطراز ہیں۔رحل فی تجارتہ الی الشام ولقی الکبار [8] وہ تجارت کے سلسلہ میں شام کا سفر کرتے اوروہاں کے کبار علما سے شرف نیاز حاصل کرتے تھے۔

علما کی رائے

[ترمیم]

صحیح بخاری و مسلم وغیرہ ان کی روایتوں سے مالا مال ہیں۔ امام احمد بن حنبل سے کسی نے پوچھا کہ حدیث کی روایت میں آپ نے عبد الرزاق سے بڑھ کر کسی کو دیکھا؟ جواب دیا کہ "نہیں" بڑے بڑے ائمہ حدیث مثلاً امام سفیان بن عیینہ، یحیٰ بن معین، علی بن المدینی اور امام احمد بن حنبل فن حدیث میں ان کے شاگرد تھے۔

شیوخ

[ترمیم]

ان کے اساتذہ وشیوخ کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں والد بزرگوار ہمام اورعم محترم وہب کے علاوہ معمر بن راشد،عبید اللہ بن عمر،ایمن بن نابل، ابن جریج اوزاعی، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری،زکریا بن اسحاق،اسماعیل بن عیاش،ثور بن یزید،ہشیم بن بشیر،ابو معشر نجیح،عبدالعزیزبن زیاد کے نام لائق ذکر ہیں [9]خصوصی فیض معمر بن راشد سے حاصل کیا تھا،خود بیان کرتے ہیں کہ: جالست معمرا سبع سنین [10] میں نے سات سال تک معمر کی ہم نشینی کی ہے۔

تلامذہ

[ترمیم]

ان کے فضل وکرم کا شہرہ سُن کر اقضائے عالم سے تشنگانِ علم کا ہجوم ایک سیل رواں بن کر ان کے پاس آنے لگا، ائمہ اسلام کی ایک بڑی جمعیت ان کے دامانِ فیض سے وابستہ رہی،لائق ذکر مشاہیر میں امام احمد، اسحاق بن راہویہ،علی بن مدینی ،یحییٰ بن معین، محمود بن غیلان،ابو خثیمہ،احمد بن صالح،ابراہیم بن موسیٰ،عبد الرحمن بن بشر الحکم، عبد بن حمید محمد بن رافع، محمد بن غیلان ،محمد بن یحییٰ الذھلی، کے نام خصوصیت سے نمایاں ہیں، ان کے علاوہ معاصرین میں امام وکیع، ابو اسامہ، حماد بن سلمہ اورشیوخ میں سفیان بن عیینہ ومعتمربن سلیمان نے بھی ان سے روایت کی ہے۔ [11]

فضل وکمال

[ترمیم]

ابن ہمام چمنستانِ علم وفن کے گل تازہ تھے،تبحر علمی،مہارتِ فنی اورقوتِ حافظہ میں ان کا مقام نہایت بلند تھا،خیر الدین زر کلی انھیں "من حفاظ الحدیث الثقات" علامہ یافعی"الحافظ العلامہ"اورحافظ ذہبی "احد الاعلام الثقات" لکھتے ہیں،مزید برآں علامہ شمس الدین ذہبی رقمطراز ہیں:کہ اگر ابن ہمام کے سوانح وکمالات کا استقصاء کیا جائے تو ایک مستقل ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے [12] ہشام بن یوسف کہتے ہیں کہ عبد الرزاق ہم سب میں بڑے حافظ وعالم تھے۔ [13]

قوتِ حافظہ

[ترمیم]

ان کے حفظ وضبط کی قوت نہایت حیرت انگیز تھی،ابراہیم بن عباد الدیری کا بیان ہے کہ ستر ہزار حدیثیں ان کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ تھیں۔ [14]

مرجعیت

[ترمیم]

اسی فضل وکمال کے نتیجہ میں دنیا کے دور دراز گوشوں سے طالبانِ علم اس شمع دین ودانش کی طرف پروانہ وار ٹوٹ پڑے اور صنعاء کا شہر قال اللہ وقال الرسولﷺ کے نغموں سے معمور ہو گیا۔ ان کے شیخ معمرنے اپنے لائق شاگرد کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی کہ اگر عبد الرزاق کی زندگی رہی تو لوگ دور دراز مقامات سے سفر کرکے اس کے گرد ہجوم کریں گے [15] چنانچہ وقت نے ثابت کیا کہ یہ پیش بینی حرف بحرف حقیقت بن کر رہی۔ مؤرخین بالاتفاق اعتراف کرتے ہیں کہ عہد رسالت کے بعد کوئی شخصیت اتنی زبردست مرجوعہ خلائق اورپرکشش ثابت نہ ہو سکی،ممکن ہے اس رائے میں کسی حد تک مبالغہ ہو،لیکن یہ بہر حال ایک حقیقت ہے کہ أئمہ و علما جوق درجوق آکر علم کے اس چشمہ صافی سے سیراب ہوئے،علامہ یافعی انھیں "الموتحل الیہ من الآفاق لکھتے ہیں،مؤرخ ابن اثیر رقمطراز ہیں: مارحل الناس الی احد بعد رسول اللہ ﷺ مثل ما رحلوا الیہ [16] رسول اکرم ﷺ کے بعد کسی کے پاس اس قدر کثرت سے لوگ نہیں آئے،جتنے امام ابن ہمام کے پاس آئے۔

ثقاہت وعدالت

[ترمیم]

ماہرین فن ان کی صداقت وعدالت پر متفق ہیں،علامہ ذہبی کا بیان ہے کہ ابن ہمام کی ثقاہت پر علما یک زبان ہیں،ان کے عدول وصدوق ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ائمہ صحاح نے ان کی روایتوں کی تخریج کی ہے [17]امام احمد شہادت دیتے ہیں کہ معمر سے ابن ہمام کی روایت میرے نزدیک تمام بصری علما سے زیادہ پسندیدہ اورقابل ترجیح ہے،انہی کا بیان ہے کہ ابن جریج کے تلامذہ میں عبد الرزاق "اثبت" ہیں۔ علاوہ ازیں یحییٰ بن معین،علی بن المدینی،یعقوب بن شیبہ، ابوداؤد الفریابی اور عجلی نے بھی ان کی توثیق کی ہے،ذہلی اوربزار بیان کرتے ہیں۔ کان عبد الرزاق ایقظھم فی الحدیث وکان یحفظ [18] عبد الرزاق بن ہمام تمام محدثین میں سب سے زیادہ حاضر دماغ وبیدار مغز محدث اوربڑے حافظ تھے۔

بعض شکوک وشبہات کا ازالہ

[ترمیم]

اس تمام تحسین وستائش کے باوصف بعض علما نے ان کو نقد وجرح کا نشانہ بھی بنایا ہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جرح کی بنیاد تمام تر شک وشبہ اورسوء تفاہم پر قائم ہے۔ ابن ہمام پر پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ رفض وتشیع کی طرف مائل تھے،ابن عماد حنبلی،حافظ ذہبی اورعلامہ ابن حجرؒ نے اس طرح کے متعدد اقوال نقل کیے ہیں، لیکن تحقیق کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ اس نقد کی حقیقت پر کاہ سے زیادہ نہیں۔ امام احمدؒ سے ایک بار ان کے صاحبزادے عبد اللہ نے دریافت کیا کہ: ھل کان عبد الرزاق یتشیع ویفرط فی التشیع؟ کیا عبد الرزاق غالی شیعہ تھے؟ امام موصوف نے جو ابن ہمام کی خدمت میں بہت حاضر باش تھے فرمایا: لم اسمع فی ھذا شیئاً [19] میں نے تو اس سلسلہ میں کچھ نہیں سُنا اغلب ہے کہ رفض وشیعیت کا شبہ لوگوں کو اس لیے ہوا کہ ابن ہمام اہل بیت کو بہت محبوب اورحضرت علی ؓ کے قاتل کو مبغوض رکھتے تھے،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ وہ شیخین (ابوبکرؓ وعمرؓ) پر حضرت علیؓ کی تفضیل کے قائل تھے، لیکن لوگوں کو سوء تفاہم ہوا حالانکہ خود ابن ہمام نے نہایت دو ٹوک الفاظ میں اس شبہ کا پردہ چاک کر دیا تھا کہ: واللہ ما انشرح صدری قط ان افضل علیا علی ابی بکر و عمر رحم اللہ علی ابی بکر وعمر من لم یحبھم فما ھومؤمن واوثق اعمالی حبی ایاھم [20] بخدا اس بات پر مجھے کبھی شرح صدر نہ ہوا کہ میں حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ،پر علی کو فضیلت دُوں،اللہ ابوبکرؓ و عمرؓ ؓ پر رحمت نازل فرمائے جو شخص ان سے محبت نہ کرے وہ مومن کامل نہیں اوران بزرگوں سے میری محبت حاصل اعمال ہے۔ ایک بار کسی نے شیخ ابن ہمام سے دریافت کیا کہ، آپ کے نزدیک کیا حضرت علی نزاعی جنگوں میں جادۂ حق پر قائم تھے، فرمایا بخدا نہیں ؛بلکہ خود جناب امیر کا بھی خیال تھا کہ وہ ایک آزمائش میں مبتلا ہیں اور میرا بھی یہی خیال ہے [21]حُب آلِ رسول کی بنیاد پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ پر بھی جب تشیع کا الزام عاید کیا گیا تو امام صاحب نے برملا جواب دیا کہ اگر آل محمد کی محبت ہی کا نام شیعیت ہے تو میں جن وانس کو شاہد بنا کر کہتا ہوں کہ میں یقیناً شیعہ ہوں۔ دوسرا شبہ ابن ہمام پر یہ ظاہر کیا گیاہے کہ وہ سوءِ حفظ اورفتورِ عقل میں مبتلا تھے اورضعیف ومنکر روایتیں بیان کیا کرتے تھے، یہ صحیح ہے کہ آخر عمر میں وہ ضعف بصر وغیرہ ایسے عوارض کا شکار ہو گئے تھے،جو جرح و تعدیل کے معیار میں خلل انداز ہوتے ہیں،لیکن اس سے ان کی پوری زندگی کی مرویات کو غیر معتبر قرار دینا درست نہیں ہے، ان کے عنفوان شباب کی حدیثوں پر کسی نے بھی نقد وجرح کی جرأت نہیں کی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے اس حقیقت کو بصراحت بیان کیا ہے کہ 200ھ تک ان کی بصارت بالکل درست تھی،اس کے بعد کے گیارہ سال کی روایات ضعیف ہیں،جن علما نے اس سے قبل ان سے سماعت حدیث کی ہے وہ معتبر ومستند ہے۔ اتینا عبد الرزاق قبل المأتین وھو صحیح البصر ومن سمع منہ بعد ما ذھب بصرہ فھو ضعیف السماع [22] 200ھ سے قبل ہمارے پاس عبد الرزاق آئے،تو ان کی بصارت قائم تھی،پس جس نے ان کی بینائی زائل ہونے کے بعد ان سے حدثیں سنی ہیں اس کا سماع ضعیف ہے۔ حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ تمام حفاظ اورائمۃ حدیث نے ابن ہمام کی روایات کو حجت قراردیا ہے۔ ان کے بعض اوربھی اعتراضات ابن ہمام پر وارد کیے گئے ہیں،لیکن علامہ ابن حجر اور حافظ ذہبی نے انھیں لچر،مہمل اورناقابل اعتبار ٹھہرایا ہے۔

تصنیف

[ترمیم]

انھوں نے متعدد تصانیف بھی یادگار چھوڑیں،لیکن اکثر معدوم ہیں۔ خیر الدین زرکلی اورابن ندیم نے ان کی جن کتابوں کے نام دیے ہیں وہ درجِ ذیل ہیں: (1)جامع یاسنن عبد الرزاق (2)تفسیر میں ایک کتاب (3)کتاب السنن فی الفقہ (4)مصنف عبد الرزاق ان میں مؤخر الذکر کتاب ابن ہمام کی مشہور ترین تصنیف ہے،ابوبکر بن ابی شیبہ کی مصنف گو مجموعی حیثیت سے اس سے زیادہ اہم اور وقیع ہے،لیکن قدامت کے اعتبار سے وہ بھی اس سے کم پایہ ہے،یہ کتاب فقہی ابواب کے مطابق مرتب کی گئی ہے،اس کی لائق ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اکثر حدیثیں ثلاثی ہیں،بقول شاہ عبد العزیز محدث دہلوی،یہ عجیب بات ہے کہ عبد الرزاق بن ہمام نے اپنی مصنف کو شمائل پر ختم کیا ہے اور شمائل کو آنحضرت ﷺ کے موئے مبارک کے ذکر پر تمام کیا ہے؛چنانچہ اس کے آخر میں یہ حدیث ہے۔ حدثنا معمر عن ثابت عن انس قال کان شعر النبی الی انصاف اذنیہ [23] مجھ سے معمر نے عن ثابت عن انس بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے موئے مبارک آپ کے کانوں کے نصف حصہ تک تھے۔ یہ مصنف تاہنوز زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہو سکی ہے،مختلف کتب خانوں میں اس کے قلمی نسخے پائے جاتے ہیں۔

امام ابو حنیفہ کے شاگرد

[ترمیم]

ان کو امام ابو حنیفہ سے فن حدیث میں تلمذ تھا۔ امام ابو حنیفہ کی صحبت میں بہت زیادہ رہے چنانچہ ان کے اخلاق و عادات کے متعلق ان کے اکثر اقوال کتابوں میں مذکور ہیں۔ ان کا قول تھا کہ"میں نے ابو حنیفہ سے بڑھ کر کسی کو حلیم نہیں دیکھا۔[24]

وفات

[ترمیم]

امام عبد الرزاق کا سنہ وفات 211ھ بمطابق 827ء ہے۔ یہ جہاں دفن ہیں اس حصے کو دار الحيد کہا جاتا ہے جو جامع على تبۃ جبلیۃ پر ایک بلند جگہ واقع ہے۔ اور یہ علاقہ یمن کے دار الحکومت صنعاء کے جوار میں واقع ہے۔[25]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. مصنف: کتب خانہ کانگریسhttps://id.loc.gov/authorities/n88179879 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 فروری 2021
  2. http://uli.nli.org.il/F/?func=find-b&local_base=NLX10&find_code=UID&request=987007277426605171 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 فروری 2021
  3. ^ ا ب عنوان : Identifiants et Référentiels — ایس یو ڈی او سی اتھارٹیز: https://www.idref.fr/187905002 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 فروری 2021
  4. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2015880102 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
  5. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo2015880102 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 نومبر 2022
  6. (مرأۃ الحنان :2/126)
  7. (الباب فی تہذیب الانساب:2/61)
  8. (تذکرۃ الحفاظ:1/234)
  9. (تہذیب التہذیب:6/311،وابن خلکان:1/543)
  10. (تذکرۃ الحفاظ:1/243)
  11. (مرأۃ الحنان:2/53،وتہذیب التہذیب:6/311)
  12. (تذکرۃ الحفاظ:1/333)
  13. (تہذیب التہذیب:6/312)
  14. (الاعلام :2/519)
  15. (تہذیب التہذیب:6/312)
  16. (اللباب فی تہذیب الانساب:2/61)
  17. (تذکرۃ الحفاظ:1/334)
  18. (تہذیب التہذیب:6/314)
  19. (میزان الاعتدال:2/127)
  20. (تہذیب التہذیب:6/312)
  21. (ایضاً:314)
  22. (میزان الاعتدال:2/127)
  23. (بستان المحدثین:48)
  24. "ابو حنیفہ | اردو ویب ڈیجیٹل لائبریری"۔ 02 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2016 
  25. اعلام زركلی:خير الدين الزركلی