عیسیٰ بن یونس ہمدانی
محدث | |
---|---|
عیسیٰ بن یونس ہمدانی | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | عيسى بن يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله الهمداني السبيعي |
تاریخ وفات | سنہ 803ء |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | کوفہ ، شام |
شہریت | خلافت عباسیہ |
کنیت | ابو محمد |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عملی زندگی | |
نسب | الکوفی |
ابن حجر کی رائے | ثقہ |
ذہبی کی رائے | ثقہ |
استاد | یونس بن ابی اسحاق ، اسرائیل بن یونس ، سلیمان بن طرخان تیمی ، ہشام بن عروہ ، سفیان ثوری ، مسعر بن کدام ، ابن جریج ، شعبہ بن حجاج |
نمایاں شاگرد | بقیہ بن ولید ، ولید بن مسلم ، وکیع بن جراح ، علی بن حجر ، یحییٰ بن معین ، ابن ابی شیبہ ، علی بن خشرم |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
درستی - ترمیم |
حضرت عیسیٰ بن یونس الہمدانیؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔
نام ونسب
[ترمیم]عیسیٰ نام اور ابو عمر وکنیت تھی[1]پورا سلسلہ نسب یہ ہے:عیسیٰ بن یونس ابن ابی اسحاق عمرو بن عبد اللہ بن احمدبن ذی یحمدبن السبیع بن سبع بن صعب بن معاویہ،ابن کثیر بن حشم بن حاشدبن چشم بن خیوان بن نوف بن ہمدان[2] خاندانی نسبت سے ہمدانی اور وطن کی طرف منسوب ہوکر کوفی کہلاتے ہیں۔
وطن
[ترمیم]ان کا اصلی وطن تو کوفہ تھا اور غالباً وہیں پیدا بھی ہوئے ،کچھ دنوں بغداد میں بھی مجلس درس وافادہ گرم کی،لیکن پھر شام کے سرحدی علاقہ حدث میں (مقام حدث کی تعیین کرتے ہوئے صاحب تقویم رقم طراز ہیں "ھو مدینۃ صغیرۃ عامرۃ فیھا میاہ وزرع کثیر واشجار کثیرۃ وھو ثغر:263)مستقل طور پر مرابط (یعنی سرحدی محافظ)کی حیثیت سے اقامت گزیں ہو گئے تھے،سمعانی کا بیان ہے: کان عیسیٰ قدا نتقل عن الکوفۃ الیٰ بعض ثغورالشام فسکنھا [3] عیسیٰ بن یونس کوفہ سے شام کے ایک سرحدی علاقہ میں منتقل ہوکر سکونت پزیر ہو گئے تھے۔ علامہ ابن سعد کا بیان اس سلسلہ میں سب سے زیادہ واضح ہے،وہ رقمطراز ہیں: عیسیٰ بن یونس السبیعی من اھل الکوفۃ تحول الی الثغر منزل بالحدث ومات بھا فی خلافۃ ھارون [4] عیسیٰ بن یونس کوفہ کے رہنے والے تھے پھر سرحدی علاقہ حدث میں منتقل ہوکر مقیم ہو گئے اوروہیں ہارون الرشید کے زمانہ خلافت میں وفات پائی۔
خاندان
[ترمیم]عیسیٰ بن یونس اس خانوادۂ فضل وکمال سے تعلق رکھتے تھے،جس کا ہر فرد آسمان علم وفن کا اختر تاباں تھا،بلاشبہ جماعت تابعین میں ابو اسحاق سبیعی اس حیثیت سے بہت ہی ممتاز ہیں کہ ان کے خاندان میں ائمہ و علما کی پوری ایک جماعت تیار ہوکر نکلی،جن میں سے کسی نے قرآن وحدیث میں نام روشن کیا،تو کوئی فقہ و فتاویٰ کی مسند ریاست پر فائز ہوا، عبادت وریاضت،تواضع وانکسار،بے نفسی وفروتنی ان سب میں قدر مشترک تھی،ابو اسحاق سبیعی کے علاوہ اس خانوادہ عالیہ میں جو علما نامور ہوئے،ان میں یونس بن ابی اسحاق،اسرائیل بن یونس،عیسیٰ بن یونس،یوسف بن یونس، اسحاق بن ابی اسحاق السبیعی اوریوسف بن اسحاق بن ابی اسحاق،قابل ذکر شامل ہیں۔
فضل وکمال
[ترمیم]علمی اعتبار سے وہ بلند پایہ اتباع تابعین میں تھے،جامعیت اورتبحر علمی میں ان کی نظیر شاید وباید ہی ملتی ہے،ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ امام اوزاعی سے میری روایات کے بارے میں سوائے عیسیٰ بن یونس کے مجھے کسی کی بھی مخالفت کی پروا نہیں؛ کیونکہ میں نے موصوف کو امام اوزاعی سے پوری محنت اور توجہ کے ساتھ کسب فیض کرتے دیکھا ہے اوربلاشبہ وہ تمام باقی علمائے عرب سے افضل ہیں،امام وکیع کا قول ہے۔ ذالک رجل قد قھر العلم [5] یہ شخص علم پر غالب ہے۔
حدیث
[ترمیم]حدیث میں انھوں نے وقت کے کبار محدثین اور ارباب فن سے مہارت حاصل کی تھی اورپھر خود بھی اساتذہ عصر میں شمار ہوئے،اپنے جدّ امجد ابو اسحاق سبیعی کے دیدار سے دید شوق کو روشن کیا تھا،لیکن ان سے سماع کی سعادت نصیب نہ ہو سکی،دوسرے تابعین کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا ان کے خصوصی اساتذہ حدیث میں سلیمان الاعمش کو نمایاں حیثیت حاصل ہے،خود عیسیٰ بن یونس ہی سے مروی ہے کہ: اربعین حدیثا حدثنا بھا الاعمش فیھا ضرب الرقاب لم یشرکنی فیھا احد غیر محمد بن اسحاق [6] مجھ سے اعمش نے چالیس حدیثیں بیان کی تھیں، ان میں سے ایک ضرب الرقاب کی حدیث بھی ہے اس کی سماعت میں محمد بن اسحاق کے علاوہ میرا کوئی شریک نہیں ہے۔ ان کے لائق ذکر اساتذہ کے نام یہ ہیں، ہشام بن عروہ،عبیداللہ بن عمر،سلیمان الاعمش،امام اوزاعی،شعبہ،مالک بن انس،ابن جریج،یحییٰ بن سعد الانصاری،محمد ابن اسحاق، یونس بن ابی اسحاق، اسرائیل بن یونس،ابن عون،ولید بن کثیر،زکریا بن ابی زائدہ،ابن ابی عروبہ ،معمر بن راشد۔ [7]
تلامذہ
[ترمیم]اسی طرح ان کے چشمہ فیض سے اپنی تشنگی علم کو فرو کرنے والے وارفتگانِ علم کا دائرہ بھی خاصا وسیع ہے جن میں ان کے والد یونس بن ابی اسحاق اورصاحبزادے عمر بن عیسیٰ کے علاوہ اسماعیل بن عیاش،یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، اسحاق بن راہویہ ابوبکر بن ابی شیبہ، یعقوب الدورقی،حسن بن عرفہ،ولید بن مسلم، بقیہ بن ابولید،عبد اللہ بن وہب،مسدد،حکم بن موسیٰ، یحییٰ بن اکثم ،علی بن حجر،حسن بن عرفہ کے نام لائق ذکر ہیں۔ [8] علاوہ ازیں حماد بن سلمہ بھی عمر میں ابن یونس سے بڑے ہونے کے باوجود ان سے روایت کرتے ہیں۔
فقہ
[ترمیم]پورا خاندان سبیعی فقہ میں تمغۂ امتیاز رکھتا تھا،عیسیٰ بن یونس کو بھی اس چشمہ فیض سے بہرہ وافر نصیب ہوا تھا،سلیمان بن داؤد کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رئیس الفقہاء سفیان بن عیینہ کی مجلس درس میں شریک تھے کہ اسی اثنا میں عیسیٰ بن یونس تشریف لے آئے،ان پر نظر پڑتے ہی ابن عیینہ نے بڑی گرمجوشی سے ان کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا:مرحبا بالفقیہ ابن الفقیہ ابن الفقیہ [9]
قرأتِ قرآن
[ترمیم]کلامِ پاک کی مختلف قرأتوں کا علم بھی گذشتہ زمانہ میں بڑی اہمیت اور عظمت کا حامل رہا ہے،اس لیے حدیث وفقہ کی طرح علما اس کی تحصیل کو بھی ضروری خیال کرتے اوراس میں جدوجہد کرتے تھے؛چنانچہ عیسیٰ بن یونس اس فن میں مہارت اوریدِ طولیٰ رکھتے تھے،جعفر بن یحییٰ البر مکی کا قول ہے۔ مارأینا فی القراء مثل عیسی بن یونس [10] ہم نے قرأ میں عیسیٰ بن یونس کی نظیر نہیں دیکھی۔
نحو
[ترمیم]عنفوان شباب میں علمِ نحو کی طرف ان کا خصوصی رجحان تھا اوراس میں انھیں جلد ہی اس حد تک قدرت حاصل ہو گئی تھی کہ اپنے معاصرین پر تفوق کا احساس پیدا ہو گیا تھا،اس لیے اپنی نفس کشی کے لیے انھوں نے نحو کی طرف سے اپنی توجہ کو بالکل ہٹا لیا،احمد بن داؤد کی روایت سے خود عیسیٰ بن یونس کا بیان ہے کہ: لم یکن فی اسنانی ابصر بالنحو منی قد خلتنی منہ نخوۃ فترکتہ [11] میرے ہمعصروں میں نحو کا مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں تھا،اس سے مجھ میں غرور پیدا ہو گیا؛چنانچہ میں نے اسے چھوڑدیا
حج وجہاد
[ترمیم]کم وبیش 90 برس کی طویل عمر میں انھوں نے مختلف مقامات پر علم وفن کے چشمے جاری کیے تھے،لیکن ان کی عمر کا پیشتر حصہ حج اورجہاد میں گذرا تھا۔ بعض بیانات سے منکشف ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک سال حج کرنے اورایک سال جہاد فی سبیل اللہ میں رہنے کا معمول بنالیا تھااور آخر عمر تک اس پر عامل رہے،ان کے شاگرد رشید احمد بن خباب راوی ہیں کہ: غزاعیسیٰ بن یونس خمساً واربعین غزوۃً وحج خمسا واربعین حجۃ [12] عیسیٰ بن یونس نے 45 حج اور45 جہاد میں شرکت کی۔
استغناء
[ترمیم]ائمہ اسلاف کے عام اشعار کے مطابق عیسیٰ بن یونس بھی استغناء وبے نیازی کا پیکر مجسم تھے،بالخصوص وہ حدیثِ نبوی کی تعلیم وتدریس پر کوئی معاوضہ قطعی جائز نہیں سمجھتے تھے، اسی مثالی اورمعیاری شعار نے بلاشبہ گذشتہ صدیوں میں محیر العقول علمی وفنی کارنامے انجام دلائے،حُب جاہ اورحرص وآز کی زیادتی علم کی افادیت کو ختم کردیتی ہے، جس کی نظیر عصر حاضر میں عامۃ الورود ہے،لیکن علمائے سلف کے نزدیک اس کا تصور بھی محال تھا،ابن یونس بھی اس کی اعلیٰ مثال تھے؛چنانچہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ ہارون رشید کے ایامِ خلافت میں امین اورمامون امام موصوف کی خدمت میں حاضر ہوئے اورحدیث سُنانے کی درخواست کی؛ چنانچہ انھوں نے متعدد روایتیں بیان کیں، پھر اس کے بعد مامون نے انھیں دس ہزار درہم دیے جانے کا حکم دیا،لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا، مامون نے خیال کیا کہ وہ اس رقم کوکم سمجھ کر قبول نہیں کر رہے ہیں؛چنانچہ اس نے پھر بیس ہزار درہم پیش کیے مگر اس پر بھی ابن یونس نے انتہائی شانِ استغناء کے ساتھ جواب دیا: لا ولا أهليلجة ولا شربة ماء على حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ولو ملئت لى هذا المسجد إلى السقف [13] نہ، حدیث رسولﷺ کی تعلیم پر نہ تو میں ایک ہڑ ہی قبول کروں گا اورنہ ایک گھونٹ پانی، خواہ میرے لیے یہ مسجد زمین سے چھت تک بھر کیوں نہ دی جائے۔ اسی طرح ایک دفعہ انھیں اہل رقہ نے درس دینے کے لیے بلایا،جب وہ اس سے فارغ ہوکر واپس جانے لگے تو ایک لاکھ کی خطیر رقم ان کی خدمت میں بار بار پیش کی گئی مگر وہ کسی طرح اسے قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے اور ہر مرتبہ فرماتے لاحاجۃ لی فیھا ،جب اصرار حد سے فزوں تر ہوا تو بہت درشتی کے ساتھ نہایت فیصلہ کن انداز میں فرمایا : قال لا والله لا يتحدث أهل العلم أني أكلت للسنة ثمناً ألا كان هذا قبل أن ترسلوا إلي؟ فأما على الحديث فلا والله ولا شربة ماء ولا هليلجة [14] نہیں بخدا اہل علم یہ نہ کہیں کہ میں نے حدیث کی قیمت وصول کی ہے،ہاں اس صورت میں اسے قبول کرلیتا،جب تم مجھے بلانہ بھیجتے،بخدا حدیث پر نہ تو میں ایک گھونٹ پانی قبول کرنے کو تیارہوں اورنہ ایک ہڑلینے کو۔
تثبت وعدالت اوراعتراف علما
[ترمیم]ان کی ثقاہت وعدالت علم و فضل اوراوصاف وکمالات کا اعتراف نہ صرف ان کے فضلائے وقت تلامذہ نے ؛بلکہ ان کے معاصرین اورہم پلہ ائمہ نے بھی نہایت فراغ دلی کے ساتھ کیا ہے، حتی کہ امام نوویؒ نے لکھا ہے: اجمع الائمۃ علیٰ جلالتہ وتوثیقہ وارتفاع مرتبتہ [15] ان کی جلالتِ شان علوّ مرتبت اورثقاہت پرائمہ کا اجماع ہے۔ اس حیثیت سے بلاشبہ عیسیٰ بن یونس منفرد اورعدیم النظیر تھے کہ ان پر کسی بھی اہل علم اورناقدین کو کلام کی جرأت نہ ہو سکی،یحییٰ بن معین سے دریافت کیا گیا تو فرمایا: "بخ بخ ثقۃ مامون" [16] علی بن مدینی کا بیان ہے۔ جماعۃ من الاولا داثبت عندنا من ابائھم منھم عیسی بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی [17] ہمارے نزدیک ائمہ کی اولاد کی ایک جماعت اپنے آباء سے زیادہ تثبت رکھتی ہے،انہی میں عیسیٰ بن یونس بھی ہیں۔ ابن عمار کہتے ہیں کہ فرزندانِ یونس یعنی اسرائیل،عیسیٰ اوریوسف میں عیسیٰ کا مرتبہ ثقاہت سب سے بلند وبرتر ہے،عجلی کا قول ہے۔ عیسی بن یونس کوفی ثقۃ وکان تثبتا فی الحدیث عیسیٰ بن یونس کوفی ثقہ ہیں اورحدیث میں تثبت رکھتے تھے۔ علامہ سمعانی رقمطراز ہیں: کان مامونا ثقۃ صدوقاً [18] وہ مامون ،ثقہ اورصدوق تھے۔ ابن سعد خامہ ریز ہیں کہ "کان ثقۃ ثبتا" [19]
وفات
[ترمیم]ان کی وفات کے متعلق بہت متضاد بیانات سامنے آتے ہیں،اس سلسلہ میں 181ھ سے 191ھ تک کے مختلف اقوال ہیں لیکن علامہ یافعی اورحافظہ ذہبی نے لکھا ہے کہ صحیح ترین قول کے مطابق وسط رمضان 188ھ میں بمقامِ حدث،یہ آفتابِ علم غروب ہوا۔ [20]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ (العبر فی خبر من غبر:1/201)
- ↑ (تاریخ بغداد:11/152)
- ↑ (کتاب الانساب للسمعانی:290)
- ↑ (طبقات ابن سعد:6/78)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/255)
- ↑ (تہذیب التہذیب:8/239)
- ↑ (تاریخ بغداد:11/152،وتہذیب التہذیب:8/239)
- ↑ (کتاب الانساب لللسمعانی:290،وتذکرۃ الحفاظ:1/155،وتہذیب التہذیب:8/239)
- ↑ (تاریخ بغداد:11/154)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/255)
- ↑ (العبر فی خبر من غبر:1/301)
- ↑ (تہذیب الاسماء واللغات:2/48)
- ↑ (تہذیب الاسماء:2/51)
- ↑ (تاریخ بغداد:5/95)
- ↑ (تہذیب الاسماء:2/48)
- ↑ (العبر نی خبر من غبر:1/300)
- ↑ (تاریخ بغداد:11/154)
- ↑ (کتاب الانساب:29)
- ↑ (طبقات ابن سعد:1/)
- ↑ (مراۃ الجنان:1/440،والعبر نی خبر من غبر:1/301)