حکیم محمد اظہر وارثی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حکیم محمد اظہر وارثی
حکیم محمد اظہر وارثی اظہرؔ بہرائچی
پیدائشمحمد اظہر وارثی
1905[1]
محلہ براہمنی پورہ بہرائچ اتر پردیش بھارت
وفات12 جون 1969ء
محلہ براہمنی پورہ بہرائچ اتر پردیش بھارت
آخری آرام گاہبہرائچ،اتر پردیش بھارت
پیشہ،شاعری ،ادب سے وابستگی، حکیم
زباناردو
قومیتبھارتی
نسلبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمعلمیت
مادر علمیمدرسہ الٰہیات کانپور
موضوعنعت ،غزل
اولاداظہار وارثی
رشتہ دارحکیم صفدر علی وارثی،اظہار وارثی

حکیم محمد اظہر وارثی کی پدائش 1905ء میں شہر بہرائچ کے مشہور حکیم و روہانی بزرگ حکیم محمد مظہر وارثی کے گھر میں ہوئی۔ آپ حکیم صفدر علی وارثیکے بهتیجے تھے۔

حالات[ترمیم]

حکیم محمد اظہر وارثی نے علمیت کی تعلیم کانپور کے مدرسہ مدرسہ الٰہیات کانپور سے حاصل کی جہاں آپ کے استادوں میں مولانا آزاد [1] بھی شامل تھے۔ حکیم اظہر صاحب کو شاعری کا شوق تھا اور آپ کو مشہور مجاہد آزادی و شاعر انقلاب حسرت موہانی[1] سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ آپ شہر بہرائچ کے مشہور حکیم تھے اور کامیاب شاعر بھی تھے۔

ادبی خدمات[ترمیم]

حکیم اظہر وارثی کو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ حکیم اظہر صاحب نے حمد نعت میں خاص طور پر شاعری کی۔ آپ کا کوئی بھی مجموعہ کلام شائع نہ ہو سکا۔ آپ مشہور شاعر اظہار وارثی کے والد اور اثر بہرائچی کے چچا تھے۔ حکیم اظہر ؔ وارثی کا وصفیؔ بہرائچی،رافعتؔ بہرائچی، شوق ؔبہرائچی، ڈاکڑ محمد نعیم اللہ خاں خیالیؔ،حاجی شفیع اللہ شفیع ؔبہرائچی بابو لاڈلی پرشاد حیرتؔ بہرائچی، بابا جمال ؔ، واصف ؔالقادری نانپاروی،ایمنؔ چغتائی نانپاروی،محسن ؔزیدی،سید ساغر ؔ مہدی،عبرت ؔ بہرائچی،اثر بہرائچی، وغیرہ سے گہرا تعلق تھا۔

وفات[ترمیم]

حکیم اظہر وارثی کی وفات آپ کی رہائش گاہ محلہ براہمنی پورہ شہر بہرائچ میں 12 جون1969ء[1] میں ہوئی تھی۔ آپ کی تدفین شہر بہرائچ میں ہوئی تھی۔ جس میں کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔

نمونہ کلام[ترمیم]

  • 1
دور اتنے ہیں کہ پرواز نظر ہے بے بس پاس اتنے ہیں کہ رہتے ہیں رگ جاں کے قریب
عشق مجبور ،زباں بند ،تمنا بے تاب کیا کرے کوئی اگر بات یہاں تک پہنچے
اللہ رے دل فریبیٰ زندانے زندگی چھوٹیں تو مرہی جائیں اسیرانے زندگی
کبھی جو اس نے نگاہ کرم سے دیکھ لیا بکھر گئے مری آنکھوں سے گوہر مقصود
عریش بندگی سے لے کے تا عرش خداوندی یہ سارا فاصلہ اک لغزش گام جنوں نکلا
اس کی جھنکار میں پنہاں ہیں حقیقت کے پیام شوق بے باک مرے تاررگ جاں کو نہ چھیڑ
جو سر شت حسن ہے بے رخی تو مزاج عشق غیور ہے اسے التفات پہ ناز ہے اسے التجا پہ غرور ہے

[1]

  • 2
کلی کی خندہ لبی گل کی مشق سینہ دری تمام حسن فسوں کارکی کرشمہ گری
قبائے سبز ملی ہے حنا کی سرخی کو بیاض لالہ کو بخشی گئی حنا جگری
ہے گل کے عارض رنگیںپہ قطرہ شبنم جبین صبح پہ جیسے ستارئہ سحری
ہے لالہ گوں شفق شام سے بہار کا رخ مہ و نجوم نے لیلائے شب کی مانگ بھری
یہ سارے شعبدہ ہائے طلسم کچھ بھی نہیں دراصل ہے مرے ذوق نظر کی در بدری

[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  • اردو ویکیپیڈیا کے لیے اظہار وارثی کا انٹرویو