کلیم اللہ نوری
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون معتدل نقطہ نظر کے بجائے معتقدانہ اسلوب میں تحریر کیا گیا ہے اور اس میں القاب کا بے جا استعمال کیا گیا ہے۔ (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
کلیم اللہ نوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جنوری 1922ء بہرائچ ، برطانوی ہند |
وفات | 31 مئی 2000ء (78 سال) بہرائچ |
عملی زندگی | |
پیشہ | مزاحمتی لڑاکا |
مؤثر | سید حمید الدین ، محفوظ الرحمن نامی |
درستی - ترمیم |
کلیم اللہ نوری جامعہ مسعودیہ نور العلوم کے سابق کارگزار مہتمم یکم جنوری 1922ء کو شہر بہرائچ کے محلہ گدڑی (ناظرپورہ) میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھریلو اور ابتدائی نام الٰہ بخش اور والد کا نام قاسم علی خاں اور دادا کا نام نظام الدین تھا۔[1]
حالات
[ترمیم]نوری کے آبا واجداد انقلاب 1857ء کے بعد قصبہ پلہر ضلع شاہ جہاں پور سے ترکِ وطن کرکے ہندوستان کی سرحد پر واقع اتر پردیش کے شمالی ضلع بہرائچ کے قصبہ فخر پور میں گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگے، دادا نظام الدین قصبہ فخر پور سے شہر بہرائچ منتقل ہوئے اور یہیں مستقل سکونت پزیر ہو گئے۔ ان کے والد قاسم علی خان صاحب ایک ماہر فن معمار تھے، نئی اور طرح دار عمارتوں کے بارے میں آپ کی دیکھ ریکھ قابلِ اعتبار تصور کی جاتی تھی، آپ کی چار اولاد نرینہ رسول بخش، الہ بخش کلیم اللہ، نعیم اللہ عرف امام علی، عظیم اللہ میں سے درمیانی صاحب زادے کلیم اللہ نوری کے نام سے مشہور ہوئے۔
تعلیم اور اساتذہ: کلیم اللہ نوریؔ نے ٹرینگ اسکول بہرائچ سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیا، اور یکم محرم 1940ء میں اس وقت کے مدرسہ نور العلوم میں برائے حصول تعلیم داخلہ لیا اور مشکوٰۃ شریف تک تعلیم مکمل کرکے پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے، ان کے مشہور اساتذہ میں بانی جامعہ محفوظ الرحمن نامی اور سید حمید الدین ہیں، نوریؔ دونوں بزرگوں کے چہیتے اور معتمد علیہ تھے، انھوں نے 1953ء میں الٰہ آباد بورڈ سے مولوی کا بھی امتحان دے کر نمایاں کامیابی حاصل کی۔
خدمات
[ترمیم]جنگ آزادی میں کردار
[ترمیم]کلیم اللہ نوری 1940ء میں اپنے اساتذہ ومربیان کے حکم سے تعلیم چھوڑ کر گاندھی جی کی ستیہ گرہ میں شریک ہوئے، ایک سال سے زائد بہرائچ اور گونڈہ کے جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1942ء میں اپنے بزرگوں کے حکم پر ’’ملک چھوڑو آندولن تحریک‘‘ میں انڈر گراونڈ رہ کر کارروائی کرتے رہے، بہرائچ میں گورا پلٹن پہنچنے پر اردو زبان میں ’’انگریزی فوج کا بائیکاٹ کرو‘‘ نعرہ دیوار پر لکھوائے اور پمفلٹ تقسیم کرائے، جس پر گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا، لیڈروں کے کہنے سے ملک نیپال چلے گئے، وارنٹ کی واپسی پر بہرائچ واپسی ہوئی، بھگت سنگھ کی انقلابی پارٹی کے ارکان رہے، ایمرجنسی کے زمانے میں بھی سیاسی وملی اسباب کی بنا پر میسا کے تحت گرفتار ہو کر رمضان المبارک میں جیل کی سختیاں برداشت کیں،1941ءسے آزادی وطن تک مسلسل مجاہدانہ کارنامے انجام دیتے رہے، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی دور وزارت میں ’’مجاہد آزادی‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے اور تاحیات مرکزو ریاست دونوں جگہوں سے معقول مقدار میں سرکاری پنشن ودیگر رعایتوں اور سہولتوں سے مستفید ہوتے رہے۔[1]
جامعہ نور العلوم میں ملازمت
[ترمیم]دسمبر 1941ء میں نور العلوم کے ’’سفیر وترجمان‘‘ کی حیثیت سے نوریؔ کا تقرر کر لیا گیا تھا، پھر اس کے بعد ان کی حسن کارکردگی اور جہد مسلسل (کرتے کرتے مر، مرتے مرتے کر) کے عظیم عزائم کی وجہ سے ترقی دیتے ہوئے جولائی 1958ء میں جامعہ کے ’’نائب مہتمم‘‘ کے اہم عہدے پر فائز کر دیا گیا، جس کے بعد وہ اگست 1989ء تک تقریباً 31 سال ایک ماہ بڑی ہی خوش اسلوبی سے اس منصب پر رہ کر خدمات انجام دیتے رہے، پھر اگست 1989ء کو جامعہ کے ’’کار گزار مہتمم، ناظرِ کلیہ اور مشیر اعلیٰ‘‘ کے منصب جلیل پر فائز کیے گئے، جس منصب پر انھوں نے دس سال 9 ماہ متمکن رہ کر جامعہ کو بامِ عروج پر پہنچایا اور اس طرح انھوں نے تقریباً 58 سال تک جامعہ کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔ محفوظ الرحمن نامی بانی جامعہ کے انتقال کے بعد نوری نے اپنی فکر رسا اور انتھک مساعی جمیلہ سے جامعہ کو جو ترقیات انجام دی ہیں، وہ محتاج بیاں نہیں، قدیم جامعہ کی تین منزلہ عمارت، دار جدید کی پہلی منزل، شعبہ پرائمری کی دومنزلہ عمارت، ادارہ کا بہترین نظم ونسق، دفتر کا صاف وشفاف حساب وکتاب، جامعہ میں بے مثال صفائی وستھرائی کا نظام اس کی شاہد عدل ہیں، اس کے علاوہ متعدد نئے شعبہ جات خصوصاً درجاتِ حفظ، درجات تجوید، شعبہ پرائمری، دار الیتامیٰ کا قیام فرمایا، لائقوفائق، مخلص، سادہ مزاج اساتذہ کرام وملازمین کی تقرریاں کیں۔ دار العلوم فاروقیہ کاکوری کے مہتمم اور ماہنامہ البدر کے اڈیٹر عبد العلی فاروقی لکھنوی نے اپنے تاثراتی مضمون بعنوان ’’چراغ میری یادوں کے‘‘ میں کلیم اللہ نوری کے بارے میں تحریر فرمایا ہے، جس کا اقتباس درج ذیل ہے۔
” | مولانا کلیم اللہ نوری جن کو طلبہ سے لے کر اساتذہ وملازمین تک سبھی بلکہ شہر کے لوگ بھی، ’’مولوی صاحب‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے، ضابطہ کے طور پر تو اس وقت نائب مہتمم تھے، لیکن عملی طور پر ان کا نور العلوم خاص طور پر نور العلوم کے طلبہ سے وہ رشتہ تھا، جس کے لیے بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ ۔.۔.۔.۔. وہ کیا نہیں تھے؟۔
مدرسہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ان کا گھر تھا، جہاں ان کے بیوی بچے اور بھرا پرا کنبہ رہتا تھا، مگر ہم طلبہ کو نہیں معلوم ہوپاتا تھا کہ وہ 24؍ گھنٹوں میں کب اور کتنی دیر کے لیے اپنے گھر جاتے تھے اور روزانہ جاتے بھی تھے یا نہیں؟ بس مدرسہ ان کا گھر تھا اور طلبہ ان کا کنبہ، وہ نور العلوم کے طلبہ کے نگرانِ اعلیٰ اور مربی بھی تھے اور بقول خود ان کی ’’اماں‘‘ بھی۔.۔.۔.۔. اور وہ طلبہ کو ماں کی شفقت عطا کرنے میں کوشاں رہتے تھے، لیکن اس کے ساتھ وہ ’’باپ کی نظر‘‘ رکھنے میں بھی کوئی غفلت نہیں کرتے تھے، صبح نماز فجر سے پون گھنٹہ پہلے بیدار ہو کر ’’دعا‘‘ میں شامل ہونے سے لے کر رات کو ختم تعلیم کے بعد آرام کے لیے بستروں پر واپس جانے تک طلبہ کی ایک ایک نقل وحرکت پر ان کی ناصحانہ وناقدانہ نگاہ رہتی، بلکہ بسا اوقات وہ راتوں میں اٹھ اٹھ کر سوئے ہوئے طلبہ کی نگرانی کرتے اور اس نگرانی ونظر کا امتیازی وصف یہ تھا کہ کسی استاذ یا چپراسی کے تعاون کے بغیر طلبہ ہی طلبہ کی نگرانی کرتے تھے،تعلیم اور تربیت کی اس چوکسی نے مدارس کی دنیا میں خاص کر مشرقی اترپردیش کے مدارس میں جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ کو ایک امتیازی مقام عطا کر دیا۔[1] |
“ |
اوصاف اور خوبیاں
[ترمیم]نوری بہت سی خوبیوں مالک تھے، وہ انتہائی مردم شناس، مزاج شناس انسان تھے، وہ جب بھی گفتگو کرتے تھے، تو مخاطب کے مرتبے اس کے مزاج کی رعایت کرتے ہوئے کرتے اور خردوں کا بے حد خیال فرماتے تھے، نوری سے کوئی بھی استاذ یا ملازم کسی بات کو کہتا تو اس کے نشیب وفراز میں غور کرکے اس پر ضرور عمل کرتے تھے، امیر احمد قاسمی ؔ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مولانا نوریؒ سے ایک طالب علم کا کھانہ جاری کرانے کی درخواست کی، جو کسی وجہ سے بند تھا، تو تھوڑی دیر کے بعد جناب ناظم مطبخ صاحب کو بلا کر اس طالب علم کا کھانہ جاری کرادیا اور بندہ کو بلا کر کہا کہ میں نے طالب علم کا کھانہ جاری کرا دیا ہے، اسی طرح ابتداً اوپر کی جماعتوں کا تعلیمی وظیفہ تھا، لیکن سال سوم اور اس سے نیچے جماعتوں کا نہیں تھا، بندہ نے سال سوم والوں کا تعلیمی وظیفہ جاری کرانے کی درخواست رکھی، تو حضرت نے سال سوم والوں کا وظیفہ جاری کرادیا۔ مولانا کسی طالب علم کو اگر کسی غلطی پر ڈانٹتے تو تھوڑی دیر کے بعد اس طالب علم کو بلا کر سمجھاتے اور اگر پٹائی کرتے تو سمجھانے کے ساتھ ناشتا بھی کراتے اور اگر ضرورت ہوتی تو خود ہی تیل کی مالش بھی کرتے۔ مولانا نوری مسلک دیوبند اور وحدانیت کے بے باک ترجمان تھے، آپ کی تقاریر میں وحدانیت کا بیان غالب رہتا تھا، شرک وبدعات سے ہمیشہ متنفر رہے اور اس سلسلہ میں آپ نے بہت سے مناظرے بھی کیے، ان میں مولوی حشمت علی سے دھانے پور گونڈہ کا مناظرہ بہت مشہور ہے، مولانا نوری مرحوم جہاں ایک طرف شعلہ بیان خطیب، کامیاب ترین مناظر، انتہائی باصلاحیت منتظم اور بارعب شخص تھے، تو دوسری طرف پر جوش مجاہد آزادی، پر اثر وماہر سیاست داں، ملک وملت کے پاسبان، علما صلحا سے گہری نسبت اور عقیدت رکھنے والے تھے، آپ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ سے بیعت تھے اور عشق کی حد تک محبت وتعلق رکھتے تھے، خانوادہ مدنی سے جنون کی حد تک تعلق تھا، فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک کرتا تبرکا رکھے ہوئے تھے، وصیت کے مطابق کفن میں استعمال کیا گیا۔ جمعیۃ علماء اور اکابرین جمعیۃ علماء سے نہایت گہرا تعلق رکھتے تھے، مدتوں جمعیۃ علماء اترپردیش کے نائب صدر، اور14 مارچ 1973ء سے 31 مئی 1975ء تک جمعیۃ علماء ضلع بہرائچ کے ناظم اعلیٰ،7 جون 1981ء سے 15 جون 1994ء تک خازن، 8مئی 1997ء سے ایک ٹرم صدر اور 8 اگست 1999ء تا حیات سرپرست رہے، ضلع بہرائچ میں آپ ہی کی ذات سے جمعیۃ علماء پروان چڑھی۔
تلامذہ
[ترمیم]کلیم اللہ نوری کے مخصوص تربیت یافتہ لوگوں میں سے جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ کے موجودہ مہتمم اور سابق صدر جمعیۃ علماء اترپردیش حیات اللہ قاسمی، صدر المدرسین ذکر اللہ قاسمی، حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، عتیق احمد بستوی دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، نثار احمد قاسمی صدر المدرسین دار العلوم الاسلامیہ بستی، غلام مصطفے ٰ رامپور جبدی، علامہ محمد عمر صاحب مہدیو سنت کبیر نگر، مولانا محمد اقبال صاحب مہراج گنج، مولانا مفتی نعمت اللہ صاحب صدر مدرس مدرسہ فرقانیہ گونڈہ، مولانا قاری عبد الوحید صاحب نوریؒ، مولانا محمد مرسلین صاحب وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
نکاح اور اولاد
[ترمیم]مولانا نوری نے دو نکاح کیا، پہلا نکاح نانپارہ میں ہوا، جن سے ایک صاحبزادے ذبیح اللہ اور ایک صاحبزادی ہاجرہ خاتون تھیں۔ دوسرا نکاح بھی نانپارہ ہی کے جناب حامد خاں صاحب جو ریاست نانپارہمیں ملازم تھے، ان کی صاحبزادی سے ہوا ان سے پانچ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہوئیں، پہلی صاحبزادی نجمہ خاتون دوسری صاحبزادی حمیرہ خاتون ہیں، تیسری صاحبزادی سمیہ خاتون اور صاحبزادگان میں (1)الحاج حافظ عبید اللہ صاحب نوری ہیں، جو جماعت تبلیغ کے سرگرم وفعال کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شوریٰ کے اہم رکن اور مدرسہ حسینیہ مغلہا کے مہتمم ہیں۔#مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی تھے، جن کا تقرر جامعہ نورالعلوم میں عربی ادب کے استاذ کی حیثیت سے مورخہ 1 مئی 1975 کو ہوا، پھر اگست 1989 میں جامعہ ہذا کے نائب مہتمم اور 8 جون 2000 میں کارگزار مہتمم بنائے گئے اور 9 مارچ 2008 کو جامعہ کی مجلس شوریٰ کے متفقہ فیصلہ سے مہتمم منتخب ہوئے، جب کہ1997 تک تقریباً 15 سال جمعیۃ علماء یوپی کے ناظم، 19 جون 1997سے 11 جولائی 2001 تک تقریباً 4؍ سال نائب صدر کے عہدے پر فائز رہ کر جمعیۃ کی تعمیری وتنظیمی منصوبوں کو پروان چڑھاتے رہے اور 11 جولائی 2001 تا حال مسلسل جمعیۃ علماء اترپردیش کے اہم منصب عہدہ صدارت پر متمکن ہیں۔14 جنوری 2018 کو آپ کی وفات بہرائچ واقع رہائش گاہ پر ہوئی اور تد فین عیدگاہ قبرستان میں بعد نماز ظہر ہوئی جس میں پورے ضلع بہرائچ کی آوام کے علاوہ باہری ضلعوں سے بھی کشیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔# الحاج عشرت اللہ صاحب ہیں جو جمعیۃ علماء شہر کے فعال اور سرگرم کارکن ہونے کے ساتھ کئی ٹرموں سے نائب ناظم کے عہدے پر منتخب ہوتے رہے ہیں اور فی الحال خزانچی کے منصب پر گامزن ہیں۔ (4) جناب منت اللہ صاحب ہیں۔ (5) نصر اللہ صاحب ہیں۔ اور آپ کے پوتوں میں حافظ سعید اختر جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ کے شعبہ دینیات میں اور حافظ محمد افضل ذبیح جمعیۃ علماء ہند گلی قاسم جان میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔[1]
اعذار اور سفر حج
[ترمیم]مولانا نوری 1994سے مختلف بیماریوں خاص طور پر شوگر، بلیڈ یوریا اور ہائی بلیڈ پریشر میں مبتلا رہے 1994 میں بلیڈ یوریا کے شدید حملہ میں آپ لکھنؤ کے سحر نرسنگ ہوم میں بھی داخل کیے گئے، اس دوران آپ کے گھر والے اور تمام ڈاکٹر مولانا کی صحت یابی سے بالکل ناامید ہو چکے تھے، اسی درمیان مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی ناظم جامعہ عربیہ ہتھورہ بنفس نفیس عیادت کو تشریف لا کر فرمایا کہ ’’کلیم اللہ پریشان نہ ہو میں نے تم کو خدا سے مانگ لیا ہے‘‘ اس کے بعد ہی آپ رو بصحت ہونے لگے اور چند دنوں میں صحت یاب ہو کر بہرائچ تشریف لے آئے۔ حضرت مولانا نوری مرحوم جولائی 1987 میں حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے اور وصال سے 7ماہ قبل شعبان المعظم کے مہینے میں اہل خانہ سے فرمائش کی کہ دنیا سے جانے سے قبل ایک بار اللہ کے گھر کی حاضری کی شدید خواہش ہے، چنانچہ خرابی صحت کے باوجود اپنے فرزند حضرت مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی کے ہمراہ شعبان1420ھ میں عمرہ کو تشریف لے گئے اور بڑے اطمینان سے طواف بیت اللہ کیا اور حجر اسود کو بوسہ دیا اور دیر تک دعا میں مشغول رہے اور پھر وسط رمضان میں وطن واپسی ہوئی۔[1]
وفات
[ترمیم]مولانا نور ی نے بیماریوں اور اعذار کے باوجود جامعہ کے کاموں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا، چنانچہ وفات سے ذرا قبل بھی طلبہ کو نماز کے لیے مسجد جانے کے بارے میں ڈانٹا اور ڈپٹا، جامعہ سے انتہائی محبت اور جذباتی تعلق کی وجہ سے اس تمنا کا بار بار اظہار فرماتے تھے ’’میری موت مدرسہ میں ہو اور جنازہ مدرسہ جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ سے اٹھے‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس تمنا کو پورا کر دکھایا، اورمولانا کلیم اللہ نوری کی وفات 31 مئی 2000 کو بہرائچ میں ہوئی مطابق 26 صفر المظفر1421ھ بروز چہارشنبہ 10 بج کر 15 منٹ پر بعمر 78 سال 5 ماہ بہرائچ میں ہوئی مولانا کے انتقال کی خبر سن کر بڑی تعداد میں بیرونی اضلاع سے علمائے کرام، مدارس کے ذمہ داران جنازے میں شرکت کے لیے بہرائچ پہنچے، جن میں مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، مولانا عبد العلیم صاحب فاروقی لکھنؤ، مولانا سعید الرحمن صاحب اعظمی مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مولانا ب رہان الدین صاحب، مولانا عتیق احمد صاحب دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مولانا باقر حسین صاحب مہتمم، مولانا نثار احمد صاحب بستوی صدر المدرسین، مولانا مفتی شکیل احمد صاحب سیتاپوری استاذ دار العلوم الاسلامیہ بستی، مولانا سعید احمد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ گونڈہ، شراوستی، بلرامپور، بستی، بارہ بنکی، سیتاپور، لکھیم پور، لکھنؤ، کانپور، مرادآباد اور ضلع بہرائچ کے متعدد علما، حفاظ اور طلبہ ہزاروں کی تعداد میں جنازے میں شریک ہوئے۔ شہر بہرائچ کے متعدد علما کرام، دانشوران، سیاست داں، صحافی، معززین شہر کے علاوہ فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ صدر جمعیۃ علماء ہند، مولانا خلیل الرحمن سجاد ندوی مدیر الفرقان لکھنؤ، مولانا متین الحق اسامہ صاحب قاسمی کانپوری، ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی سکریٹری دینی تعلیمی کونسل (یو۔ پی) مولانا عبد الرب صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ فرقانیہ گونڈہ، مولانا محمد یوسف صاحب صدر جامعہ امداد العلوم زید پور وغیرہ نے مولانا نوری مرحوم کے انتقال پرملال پر اپنے دلی صدمے اور گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور اس سانحہ کو قوم وملت کا خسارہ قرار دیا اور مختلف مقامات پر تعزیتی اجلاس میں مولانا نوری کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ آپ کی نماز جنازہ جامعہ کے متصل جامع مسجد کے صحن میں آپ کے فرزند اور جانشین حضرت مولانا حیات اللہ صاحب قاسمی نے پڑھائی اور تدفین شہر بہرائچ کے مشہور عیدگاہ قبرستان میں ہوئی۔[1]