عبد الوحید نوری بہرائچی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا قاری عبد الوحید نوری
پیدائشعبد الوحید
14 فروری 1951ء  بھارت
ضلع سنت کبیر نگر اتر پردیشہندوستان
وفات28اگست2004ء
بہرائچاتر پردیش ہندوستان
قومیتہندوستانی
پیشہعالم دینجامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ میں فارسی کے استاد
وجہِ شہرتافادیت نعمانیہ جدید لغات القرآن کے مصنف
مؤثر شخصیاتمحمود حسن دیوبندی، رشید احمد گنگوہی
مذہباسلام

مولانا قاری عبد الوحید صاحبؒ موضع سہونڈا، باغ نگر ضلع بستی (سنت کبیر نگر) کے ایک کاشتکار گھرانے میں 14 فروری 1951ء کو پیدا ہوئے۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

مولانا قاری عبد الوحید کے والد محترم جناب خوشی اللہ صاحب اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانے کے بہت خواہش مند تھے، چنانچہ قاری عبد الوحید صاحبؒ جو ان کی سب سے بڑی نرینہ اولاد تھے، ان کو حفظ قرآن کی تعلیم میں لگا دیا اور مقامی مدرسہ میں حفظ کرنے کے بعد مزید پختگی کے لیے 24فروری 1964ء کو جامعہ مسعودیہ نور العلوم کے درجہ حفظ میں داخلہ کرادیا، ابھی چند ماہ ہی گذرے تھے کہ اچانک جون1964ءمیں ان کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے، قاری صاحبؒ ابھی محض 14 سال کے لڑکے تھے، مزید تین بھائی بہت چھوٹے تھے، جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیسی ناگہانی مصیبت میں گرفتار اور کیسی تشویشناک صورت حال سے دوچار ہوئے ہوں گے۔ مگر علم کے شوق میں والد مرحوم کے تجہیز وتکفین سے فارغ ہو کر والدہ سے ایک سال میں حفظ مکمل کرنے کے لیے اجازت حاصل کرکے پھر جامعہ نور العلوم آ گئے اور اپنی لگن وشوق سے ایک ہی سال میں حفظ قرآن مع تجوید وقرأت مکمل کر لیا اور پھر آگے شعبہ فارسی وعربی میں داخلہ لیا، لیکن گھر کا کوئی سرپرست نہ ہونے اور تعلیم ناقص رہ جانے کی وجہ سے بہت زیادہ فکر مند ہوئے، چنانچہ جامعہ کے سابق کارگزار مہتمم حضرت مولانا کلیم اللہ صاحب نوریؒ نے قاری صاحبؒ سے پوچھا کیا تم پڑھنا چاہتے ہو؟ کہا کہ ہاں ہم پڑھنا چاہتے ہیں تو مولاناؒ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تم میرے پاس رہو اور پڑھو میرے بچوں کی طرح تم بھی میرے ایک بچے ہو، پھر حضرت مولاناؒ نے ان کی کفالت کی اور بچوں کی طرح ان کی پرورش کی، جس کی وجہ سے موصوف مرحوم نے درجات وسطیٰ تک تعلیم باضابطہ حاصل کر لی، لیکن درمیان میں اپنے چھوٹے بھائیوں اور گھر کے انتظام کی فکر نے مزید تعلیم سے کنارہ کشی پر مجبور کر دیا چنانچہ آپ کو تعلیم چھوڑنا پڑا۔

تدریسی خدمات[ترمیم]

حضرت مولانا کلیم اللہ صاحب نوریؒ نے حافظ قاری عبد الوحید صاحب نوریؔ مرحوم کو تقریباً 19 سال کی عمر میں دسمبر 1969ء کو جامعہ ہذا کے درجہ حفظ کا استاذ مقرر کرادیا اور اس طرح ان کی معاشی فکر کو دور کر دیا اور موصوف مرحوم پوری تندہی سے اپنے فرائض منصبی پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی وطبعی اخاذی کی وجہ سے اپنی علمی صلاحیت بھی بڑھاتے رہے اور انھی ایام میں مولوی، عالم، فاضل دینیات، فاضل معقولات اور فاضل طب وغیرہ میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی اور جامعہ نور العلوم کے درجہ حفظ میں تقریباً 15 سال تک تعلیمی خدمت میں مصروف رہے، چنانچہ موجودہ نور العلوم کے شعبہ حفظ میں اکثر آپ کے تلامذہ خدمت کر رہے ہیں۔ پھر حسن کارکردگی کے باعث مرحوم کو جون 1985ء میں حضرت مولانا کلیم اللہ صاحبؒ نے شعبہ فارسی وعربی میں منتقل فرما دیا، ماشاء اللہ اس شعبہ میں بھی موصوف مرحوم نے نمایاں کردار ادا کیا اور تادم زیست اپنے فرائض منصبی کو بڑی ہی خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔

خدمات[ترمیم]

قاری عبد الوحید نوریؔ بہت سلیقہ مند، معاملہ فہم،صاف دل، محنتی اور باوقار شخص تھے، خاندانِ مدنی سے عشق کے درجہ کا تعلق تھا، جمعیۃ علماء کے بے لوث اور فعال کارکن تھے، وہ 4 ٹرم تک مسلسل جمعیۃ علماء شہر بہرائچ کی صدارت کے لیے منتخب ہوئے، آپ کے دور میں جمعیۃ علماء شہر بہرائچ کی جانب سے پانچ مکاتب کا قیام ہو چکا تھا اور اس کے اخراجات کی پوری خیر وخبر رکھتے تھے۔ آپؒ کی تربیت کرنے میں حضرت مولانا کلیم اللہ صاحب نوریؒ کا زبردست ہاتھ تھا، قاری صاحبؒ ہمیشہ حضرت مولاناؒ کو ابو یا بابو کہا کرتے تھے بے لوث محبت وخدمت کرتے تھے کبھی انھوں نے یہ احساس نہیں کیا کہ میرے والد نہیں ہیں، یہاں تک کہ حضرت مولاناؒ کے پورے گھرانے سے والہانہ ربط وضبط رکھتے تھے، گھر کے لوگوں میں کوئی بھائی جان کہتا، کوئی ماموں کہتا، خود بھی گھر کے فرد بن کر رہتے تھے، قاری صاحبؒ نے بجا طور پر ان کی تربیت کا آئینہ بن کر دکھا دیا، آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا محمد سلامت اللہ بیگ صاحبؒ صدر المدرسین حضرت مولانا حافظ محمد نعمان بیگ صاحبؒ، حضرت مولانا حافظ حبیب احمد صاحب اعمیؒ، حضرت مولانا عابد علی صاحبؒ اور جناب قاری عبد اللطیف صاحب دامت برکاتہم وغیرہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ قاری عبد الوحید نوریؔ ایک عرصے سے شہر بہرائچ کے مسلم مسافر خانہ مسجد کے امام وخطیب بھی تھے، جہاں آپ نے ترجمہ قرآن کریم مکمل دو مرتبہ مصلیوں کو سنایا۔ مولانا عبد الوحید نوریؔ کے ذمہ ترجمہ قرآن کریم (سال سوم عربی) بھی تھا، جس کو سالہا سال بحسن وخوبی پڑھایا اور قرآن پاک کے ترجمہ سے خصوصی لگاؤ، طلبہ کی سہولت اور ان کے بار بار تقاضے کی وجہ سے ’’افادیت نعمانیہ جدید لغات القرآن‘‘ نامی کتاب اپنے طرز تدریس کے مطابق مرتب کیا، جس کی دو جلدیں طبع ہو کر منظر عام پر بھی آگئیں ہیں، ان کی اس تالیف کو بڑے بڑے اساتذۂ وقت نے نہایت وقیع انداز میں سراہا اور تعریف کی ہے، تیسری اور آخری جلد بھی وہ مرتب کر رہے تھے، مگر زندگی نے وفا نہ کی اور وہ ادھوری رہ گئی۔ کاش ان کے اس ادھورے کام کو کو ئی صاحب علم پورا کرکے قاری صاحب کی روح کی تسکین کا سامان فراہم کرسکے۔ مولانا قاری عبد الوحید صاحب نوریؔ میں خدمت گزاری اور علمی ہمدردی حد درجہ تھی جس کی وجہ سے معززین شہر آپ سے بے حد قریب تھے اور ایک مخصوص طبقہ آپ سے متاثر تھا۔

وفات[ترمیم]

مولانا موصوف مرحوم دو سال سے شدید علالت میں مبتلا تھے، مگر حتی الامکان اس حال میں بھی اپنے فرائض انجام دیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے ان کی علالت زیادہ تشویناک نہیں تھی، لیکن قضا وقدر کی بات 28؍ اگست 2004ء مطابق 11؍ رجب المرجب 1425ھ بروز سنیچر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے دن وقت موعود آ گیا اور وہ اپنے خالق سے جاملے، اس طرح موصوف مرحوم نے تقریباً 35؍ سال مسلسل جامعہ نور العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں اور 53؍ سال 6؍ ماہ کی عمر پائی۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر بڑی تعداد میں علما کرام، حفاظ، متعدد مقامات خصوصاً مدرسہ فرقانیہ گونڈہ، مدرسہ مدینۃ العلوم بگی روڈ گونڈہ، مدرسہ اسلامیہ فاروقیہ بھوانی پور بنکٹ، مدرسہ انوار العلوم بنگئی، مدرسہ انوار العلوم بھنگا اور مدرسہ بیت العلوم، مدرسہ ہدایت العلوم، مدرسہ ہدایت الاسلام اور معززین شہر نے بڑی تعداد میں جنازہ میں شرکت کی اور اس موقع پر حکومت اترپردیش کے وزیر محنت وعملدرآمد ڈاکٹر وقار احمد شاہ اور ممبر اسمبلی جناب شبیر احمد نے شریک ہوکر جنازہ کو کاندھا دیا۔ نمازہ جنازہ جامعہ نور العلوم کے قریب شہر کی جامع مسجد کے صحن میں مرحوم کے شعبہ حفظ وتجوید کے استاذ جناب قاری عبد اللطیف صاحب دامت برکاتہم نے پڑھائی اور شہر کے مشہور قبرستان عید گاہ میں ایک بہت ہی سوگوار مجمع نے آخری آرام گاہ پہنچا دیا۔

حوالہ جات[ترمیم]