شاہ سید محمد ولی اللہ بہرائچی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شاہ سید محمد ولی اللہ بہرائچی
پیدائشقصبہ روناہی ضلع فیض آباداتر پردیش
وفات26مئی 1803ء مطابق 5 صفر المظفر 1218ھ
اسمائے دیگرمولانا شاہ سید محمد ولی اللہ نقشبندی مجددی مظہری نعیمی بہرائچیؒ'
وجہِ شہرتسلسلہ نقشبندیہ کے بزرگ
مذہباسلام
اولادمولانا شاہ سید محمد عبد الرحمٰن نقشبندی مجددی مظہری نعیمی بہرائچیؒ

مولانا شاہ سید محمد ولی اللہ نقشبندی مجددی مظہری نعیمی بہرائچیؒ اپنے وقت کے مشہور بزرگ تھے۔آپ سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ حضرت مولانا شاہ سید ابو الحسن نصیرآبادی ؒ کے خلیفہ تھے۔

حالات[ترمیم]

آپ کی ولادت صوبہ اودھ کے سابق دار الحکومت فیض آباد کے قصبہ روناہی میں ہوئی۔[1]آپ کی تعلیم و تربیت حضرت اقدس مولانا شاہ مراد اللہ صاحب فاروقیؒ تھانیسری ثم لکھنوی کے ذریعہ لکھنؤ میں ہوئی۔ شاہ مراد اللہ صاحب فاروقیؒ تھانیسری حضرت مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ(مصنف معمولات مظہریہ ،بشارات مظہریہ ،خلیفہ خاص حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہید ؒ دہلوی)کے خلیفہ تھے۔شاہ مراد اللہ فاروقی تھانیسریؒ نے آپ کو اجازت اور خلافت بھی عطا کی تھی۔شاہ مراد اللہؒ تھانیسری کی وفات کے بعد آپ نے حضرت مراد اللہ تھانیسری ثم لکھنؤی کے خلیفہ خاص حضرت مولانا شاہ سید ابو الحسن نصیرآبادی ؒ سے تعلیم و سلوک کی مزید تربیت حاصل کی اور آپ کی خلافت سے سرفراز ہوئے۔پیر و مرشد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بہرائچ تشریف لائے اور بہرائچ میں مشتقل سکونیت اختیار کی۔آپ شاہ مراد اللہ ؒصاحب کے سسرالی رشتہ میں نواسے لگتے تھے۔آپ نے عقد مسنون بھی کیا۔جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کوتین بچے عنایت فرمائے ،ایک حضرت اقدس مولانا شاہ عبد الرحمٰنؒ ،دوسرے جناب مولوی سید عبد الخالق ؒ تیسری صاحبزادی بی بی نجب النساءں صاحبہ جن کا نکاح حضرت اقدس مولانا شاہ ابو محمد ؒ نقشبندی مجددی مظہری نعیمی بہرائچی کے ساتھ ہوا۔شاہ ابو محمد نقشبندی ؒخانقاہ ارشاد پناہ حضرت مولانا ششاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ کے علمی و روحانی جانشین تھے اور حضرت اقدس مولانا شاہ سید ابو الحسن صاحب بہرائچیؒ کے صاحبزادے تھے۔شاہ مراد اللہ ؒصاحب تھانیشر (پنجاب )سے لکھنؤ تشریف لائے جہاں آپ سلسلہ نقشبندیہ میں شامل ہونے کی غرض سے پیرو مرشد کی تلاش میں آئے تھے۔لکھنؤ میں حضرت مرزا مظہرؒ صاحب کے خلیفہ موجود تھے۔ انھوں نے آپ کو بہرائچ شاہ نعیم اللہؒ صاحب کے پاس تعلیم اور سلوک کی تربیت کے لیے بھیجا جہاں شاہ مراد اللہؒ صاحب نے اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ سے اپنے سلوک کی تعلیم حاصل کی اور ان کے خاص خلفہ میںؒ شمار ہوئے۔شاہ مراد اللہؒ صاحب دوران میں قیام بہرائچ میں ایک مکان تعمیر کرایا اور اسی میں رہتے تھے۔ بعد میں شاہ مراداللہؒ کے لکھنؤ منتقل ہونے پر وہ غیر آبا د پڑا ہوا تھا اس لیے اس مکان میں شاہ سید محمد ولی اللہ نقشبندی مجددی مظہری نعیمی بہرائچیؒ نے اس کی مرمت و تعمیر فرمائی اوروہیں رہائش اختیار کی اور وہاں آپ نے اپنی خانقاہ کو آباد کیا۔آپ کے فیضا ن سے شہر بہرائچ اور گرد و نواح کے تمام خلق خدا کو راہِ ہدایت میں لی۔آپ کی ذات مبارکہ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ مظہریہ کو کافی عروج حاصل ہوا ۔[2]

وفات[ترمیم]

شاہ سید محمد ولی اللہ بہرائچیؒ کی وفات بروز جمعرات 7؍ محرم الحرام1283ھ مطابق 24؍مئی 1866ء کو ہوئی تھی۔آپ کی تدفین محلہ براہمنی پورہ میں واقع آپ کی خانقاہ میں مسجد کے احاطہ میں جانب مشرق میں ہوئی۔جہاں آپ کی خام قبر کے نشانات آج بھی پائے جاتے ہیں۔مسجد موجودہ وقت میں مسجد حبیب اللہ کے نام سے مشہور ہیں ۔[3]

قطعہ تاریخ وفات[ترمیم]

از منشی امیر اللہ تسلیم ؔ استادحسرت موہانی،جگر مراد آبادی

آہ جب حضرت ولی اللہ شاہ بہر سیرروضئہ رضواں چلے
خامئہ تسلیمؔ نے لکھا یہ سالہ بادشاہِ کشورِ عرفاں چلے
1283ھ

[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. گلزار مراد از بشیر فاروقی لکھنوی
  2. بہرائچ ایک تاریخی شہر
  3. بہرائچ ایک تاریخی شہر
  4. کلیات امیر اللہ تسلیم (تسلیمؔ، 1871, صفحہ 357)

مصادر[ترمیم]

  • گلزار مراد از بشیر فاروقی
  • بہرائچ ایک تاریخی شہر