خواجہ ولی
حضرت خواجہ ولی کا شمار صف اوّل کی اولیاء میں ہوتا ہے آپ حسینی سید ہیں آپ کا سلسلہ حضرت امام علی نقی کے فرزند سید عبد اللہ علی اکبر رحمت اللہ علیہ( 238 ہجری 292ہجری) سے چلتا ہے آپ حضرت خواجہ مودود چشت کی اولاد ہیں جس کی توسط سے آپ مودودی سید کہلاتے ہیں آپ کے والد محترم حضرت خواجہ نقرالدین شال پیر بابا نے چشت سے اپنے دو بھائیوں کے ہمراہ ہجرت کی اور پشین کے ایک نوائی گاؤں منزکی میں پڑاو کیا جہاں آپ کا ایک بھائی حضرت خواجہ نظام الدینعلی مستقل آباد ہوئے جن کا مزار اسی گاؤں میں ہے مگر خواجہ نقرالدین کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئے اور آپ نے کوئٹہ میں سکونت اختیار کی آپ کا مزار قدیم قلعہ کوئٹہ کے قرہب واقع ہے حضرت خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کا تیسرا بھائی حضرت خواجہ ابراہیم یکپاسی مزید آگے بمقام مستونگ بلوچستان مقیم ہوئے آپ کا مزار بھی مستونگ میں ہے۔
تاریخی پس منظر حضرت خواجہ ولی
[ترمیم]مضامین بسلسلہ |
تاریخ
[ترمیم]حضرت خواجہ ولی کرانی کی تاریخ ولادت اور وفات کے بارے میں درست علم نہیں ہو سکا مگر دوسرے مستند حوالوں سے خواجہ ولی مودودی کا دور حیات تقریباًً ( 1470 ء) بنتا ہے، البتہ آپ افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے دور حکومت سے 350 برس قبل موجود تھے- احمد شاہ درانی کا دورے سلطنت ( 1747ء سے 1823ء) تک افغانستان پر رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی کی ہمشیرہ جن کا نام بی بی گل بتایا جاتا ہے حضرت خواجہ ولی کے مزار کے دروازہ میں مدفون ہیں- ایک روایت کے مطابق احمد شاہ ابدالی کی ہمشیرہ کی اپنی وصیت کے مطابق انھیں اس مقام پر دفنایا گیا تھا-خود خواجہ قطب الدین مودود چستی کی بلوچستان آمد بھی آبا مودودی اور بلوچستان سے ثابت ہے۔
کرامات
[ترمیم]خواجہ ولی کرانی کی کرامات بے شمار ہیں مگر ایک واقع دور حاضر کا ہے اور وہ یہ کہ تقریباً ایک دہائی قبل کچھ مقامی علمائے کرام نے آپ کے مزارے اقدس کی بے حرمتی کی صبح ونے پر وہ لوگ رنگے ہاتھوں پکڑے بھی گے -چونکہ وہ لوگ زیادہ طاقت اوراثر والے تھے ا سلیے معاملہ رفع دفع کر دیا گیا- لیکن اس واقع کا اثر کچھ اس طرح ہوا کہ ایک مختصر عرصہ میں معتقدین اہلبیت کی بڑی تعداد اس علاقہ میں آکر آباد ھونا شروع ہو گئی اور مختصر عرصہ میں لاکھوں لوگ آباد ہو گئے جس کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ آج آپ کی اپنی اولاد کوبھی مز ارے اقدس کی حاضری کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے- آج مزار اقدس میلوں تک انہی لوگوں کے گھیرے میں ہے۔
اولاد حضرت خواجہ ولی
[ترمیم]ابتدائی دور میں آپ کی اولاد میں سے کچھ لوگوں نے خد مت دین میں دلچسپی لی مگر آج کے دور میں آپ کی اولاد بھی ہوس زر اور مادہ پرستی میں پیش پیش ہے۔ اور ان میں سے اکثر ہجرت کرکے بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گے-بلوچستان میں منگچراور خضدار وغیرہ میں بھی آپ کی اولاد آباد ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی آپ کی اولاد آباد ہے اور زیادہ خو شحال بھی ہیں-نواب شاہ میں آپ کے سلسلہ چشتیہ کے کافی خاندان آباد ہیں۔ انکا جد ابجد سید امام علی شاہ بتایا جاتا ہے جو آپ کی اولاد میں سے ہے۔ اسی طرح ٹنڈروآدم کے مختلف گاؤں میں بھی آپ کی نسل پھیلی ہوہی ہے اور کچھ لوگ میر پور خاص کے نواح میں آباد ہیں-سادات کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر کہیں سادات زیادہ تعداد اکٹھے رہتے ہوں تو فسادات میں تبدیل ہو جاتے ہیں، کیونکہ اس نسل کی فطرت میں اللہ تعالٰی نے پھیلنا رکھا ہے تاکہ یہ مختلف علاقوں تک پیغامی حق پھیلا سکیں، ویسے بھی اللہ تعالٰی کو جمود کی بجاے حرکت پسند ہے، حضرت براہیم سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک اور سادات کے بچے بچے میں وہی انبیا کا خون ہے، کیا بعید سادات کے کسی بھی گھر میں پھر کوئی خواجہ قطب الدین یا خواجہ اجمیر پیدا ہو، وراثت صرف زمین جائداد کی تو نہیں ہوتی، سادات کی اصل وراثت تو وہ تحفہ ہے جو اللہ تعالٰی نے نسل بنو ہاشم کو عنایت کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صورت میں انھیں ساری نسلوں پر فوقیت دی، آج سادات کی اس وراثت پربھی غیروں کا قبضہ ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جو ہدایت دین خواجہ اجمیر نے دی وہ آج کسی اسلحہ کے زور پر نہیں دیا جا سکتا، حضرت خواجہ ولی کا سالانہ عرس مبارک با قاعدگی سے منایا جاتا ہے اور محفل سماع کا خاص احتمام ہوتا ہے [1]
کرانی
[ترمیم]کرانی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ شال کوٹ کے مضافات میں واقع ہے- یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے-ابتدا میں یہاں خواجہ صاحب کی اولاد اور ان کی زمینوں پر گذر بسر کرنے والے کچھ براہوئی اور پٹھان اقوام کے لوگ مقیم تھے-ابتدائی دور میں یہ علاقہ سرسبز و شاداب تھا -یہاں ہر قسم کے میوں کے باغات تھے -جن کو چشموں کے ذریعے سیر آب کیا جاتا تھا-جنگلا ت اور ہر قسم کے جنگلی حیوانات کی بہتات تھی-جنگل سے مقامی لوگوں کو اپنی گھریلو ضرورت کی لکڑیاں حاصل کرنے کے لیے بھی خواجہ صاحب کی اولاد سے اجازت نامے کی ضرورت پڑتی تھی- ابتدائی دور میں براہوئی قبائل زیادہ تر خانہ بدوش تھے اور انکا گذر بسر مویشی بانی پر تھا، یہ لوگ سادات کی جاگیر میں مویشی چراتے اور خیمہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے، آہستہ آہستہ ان لوگوں نے اپنا ذریعہ معاش تبدیل کرنا شروع کر دیا، اب یہ لوگ پہاڑوں سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور ان میں سے کچھ لوگ غیر آباد زمینوں پر خیمہ زن ہو کر بیٹھ گے اور ان زمینوں کو آباد کرنا شروع کیا اور آمدن کا کچھ حصہ مالکان کو بطور مالکانہ حقوق کے دینے لگے، چونکہ اُس دور میں افرادی قوت کی کمی تھی اور زمینیں بھی بارانی تھیں، اس لیے سادات کو بھی کوئی اعتراض نہ ہوا اور کچھ اس میں سادات کرام کی جدی رحمدلی بھی شامل تھی، کچھ دھا یاں گزرنے کے بعد آباد کاروں نے اپنے زیر قبضہ اراضیات پر اپنے نصف ملکیت کا دعوا کیا اور قابض ہو گئے، ادھر سادات کے اپنے اولاد میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور اراضی تقسیم در تقسیم ہوتا گیا اور باز خاندانوں کے پاس اتنی زمین رہ گئی کہ ان کا گزارہ ہی مشکل ہو گیا اور وہ لوگ اپنی اراضی فروخت کر کے دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر گئے، اس طرح غیر اقوام کا دخل علا قہ میں بڑھتا گیا اور سادات کی گرفت علاقہ پر کمزور پڑھتی گی، اس طرح ایک وقت ایسا آیا کہ نو آمد لوگوں کے گاؤں کے گاؤں آباد ہو گئے اور ہر گاؤں کے لوگوں نے ہزاروں ایکڑ بنجر اراضی اپنے قبضے میں کر لیے، آج سادات کرام صرف اپنے گاؤں تک محد ود ہو کر رہ گئے اور اکثر اپنی باقی ماندہ اراضی فروخت کرکے ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں،
کرانی کا نام
[ترمیم]بمطابق گزٹیرز آف بلوچستان اس کا نام کرانی اس گاؤں کے قریب واقع ایک کھائی کی وجہ سے ملا ہے جس کو گران نایی یا کران تنگی کہتے ہیں مگر یہ اس لحاظ سے مستند نہیں ہے کہ گزٹیر 1907ء میں برطانیہ دور کی تحریر ہے اور کرانی کو شال پیر بابا کے فرزند خواجہ ولی نے 1470ء کے لگ بگ آباد کیا تھا اور اس کا نام بھی اُسی وقت ان کے خاندان نے رکھا تھا، چونکہ خواجہ ولی کے اجد امجد مودود چشتی چشت ہرات میں ولی بے بدل تھے مودود چشتی کے دور حیات میں چشت ہرات علاقہ خراسان کا حصہ تھے اور خراسان کی سرحدیں چشت سے ایران کے صوبے زنجان اور کردستان تک تھیں اور زنجان اور کردستان کے درمیان کرانی کے نام سے ایک علاقہ مشہور ہے اور یہ بات وثوق سے کہا جا سکتا ہے کرانی کوئٹہ کا نام (کرانی واقع بیجار شہر ایران) کے نام پہ رکھا گیا ہے، تاریخی حوالے سے خراسان ایران کا ایک اہم اور قدیم صوبہ تھا۔ اس میں وہ پہلے وہ تمام علاقہ شامل تھا جو اب شمال مغربی افغانستان ہے۔ مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحوں اور خوارزم تھے۔ نیشاپور، مرو، ہرات اور بلخ اس کے دار الحکومت رہے ہیں۔ اب اس کا صدر مقام مشہد ہے۔ اور مشرقی خراسان مع شہر ہرات افغانستان کی حددود میں شامل ہے۔ نیشابور، ایران کا ایک قدیم شہر صوبہ خراسان کا صدر مقام بہت پرانا اور تاریخی شہر ہے۔ خوارزم شاہی سلطنت وسط ایشیا اور ایران کی ایک سنی مسلم بادشاہت تھی جو پہلے سلجوقی سلطنت کے ماتحت تھی اور 11 ویں صدی میں آزاد ہو گئی اور 1220ء میں منگولوں کی جارحیت تک قائم رہی۔ جس وقت خوارزم خاندان ابھرا اس وقت خلافت عباسیہ کا اقتدار زوال کے آخری کنارے پر تھا۔ سلطنت کے قیام کی حتمی تاریخ واضح نہیں۔ خوارزم 992ء تا 1041ء غزنوی سلطنت کا صوبہ تھا اور خواجہ مودود چشتی کا تاریخ ولادت: 1038ء اور وفات: 1142ء ہے
تصاویر
[ترمیم]-
مزار خواجہ ولی-2008.
-
خواجہ ولی چستی کرانی، کوئٹہ
-
احمد شاہ ابدالی کی ہمشیرہ کا مقبرہ احاطہ مزار خواجہ ولی چستی کرانی، کوئٹہ
-
احاطہ مزار خواجہ ولی خواجہ میر شہداد مودودی چستی کرانی، کوئٹہ
-
احاطہ مزار خواجہ ولی خواجہ میر شہداد مودودی چستی کرانی، کوئٹہ
-
خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کے مزار کا نقشہ
-
کرانی کوئٹہ بلوچستان پاکستان 1985۔
-
کرانی کوئٹہ بلوچستان پاکستان 2008۔
-
کرانی کوئٹہ بلوچستان پاکستان 2008۔
-
مزار خواجہ مودود چشت
-
مزار خواجہ مودود چشت
-
مزار شال پیر بابا کوئٹہ چھاونی
جاگیر
[ترمیم]علاقہ دشت و میان غنڈی تا شیخ ماندہ
[ترمیم]غنڈی فارسی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی چھوٹی پہاڑی کے ہیں ـ اور میان غنڈی دو پہاڑیوں کے درمیان کا علاقہ ہے، یہ علاقہ ہزار گنجی سے شروع ہوکر ہوائی گرونڈ دشت کمبیلان پر مشتمل تھا جس کا رقبہ ہزاروں ایکڑ تھا ـ یہ علاقہ قیام پاکستان سے قبل انگریز حکومت نے ایرپورٹ کے لیے سادات سے جبراً لے لی اور وہاں پر ایرپورٹ تعمیر کی قیام پاکستان کے بعد اس ایرپورٹ کو ترک کیا گیا اور نیا ایرپورٹ بمقام سمنگلی ایربیس بنایا گیا مگر سادات کی زمین ان کو واپس نہ کی گئی اور اس رقبہ پر براہوئیاقوام بزور طاقت قابض ہو گئے سادات مودودی چشتیہ کی جاگیر موضع شیخ ماندہ شروع ہوکر تیرہ سنگ میل واقع مستونگ روڈ تک پھیلا ہوا تھا جس میں میان غنڈی، ہزار گنجی، کوہ چلتن، موضع خشکابہ سادات، موضع شمو زائی ،شادین زائی، سردار کاریز، موضع خلی، گلزار، موضع کرانی، کرخسہ، بروری، شیخ ماندہ تا سمنگلی کے علاقے شامل تھے اور آج بھی یہ ریکارڈ لینڈ ریونیو میں موجود ہے اور تحصیل کوئٹہ میں زیرکار ہے ـ سادات کی زیادہ اراضی دیگراقوام نے غصب کی جس کی موجودہ مثال موضع خشکابہ سادات میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں بلوچستان کے نوابوں سرداروں منسٹرز سے لے کر عام لینڈ مافیا تک سب قبضہ گری میں مصروف نظر آتے ہیں , بلکہ خود حکومت پاکستان نے بھی نیو سبزی منڈی , نیو بس اڈا , نیو ٹرک اڈا , ہزار گنجی نیشنل پارک کے نام پر ہزاروں ایکڑ رقبہ غصب کیا ـ 1223ھ بمطابق 1808ء کا ایک سند جاری شدہ از خان آف قلات محراب خان جس میں تحریر ہے کہ آز حد تپہ سفیتک یعنی حد تیرہ میل تا حد کرخسہ بروری سادات کی ملکیت میں دست اندازی سے اقوام ریسانی کو منع کیا گیا ہے ـ [2]
قدیم اسناد
[ترمیم]-
سادات کی حکومت سے اپنی جاگیر کے لیے درخواست
-
سادات کی حکومت سے اپنی جاگیر کے لیے درخواست
-
برطانیہ دور کا نوٹیفیکیشن-1890ء
-
حکم نامہ خان آف قلات میر محراب خان-1223ھ
کوہ چلتن
[ترمیم]کوہ چلتن کا شمار بلوچستان کے سب سے اونچی چوٹیوں میں ہوتا ہے ـ ہزار گنجی اور کوہ چلتن کے پہاڑی علاقے ایک دوسرے کے ساتھ واقع ہیں۔ جنگلی حیات کے لیے کوہ چلتن کو محفوظ کر دیا گیا ہے ہزار گنج چلتن نیشنل پارک پاکستان کا ایک خوبصورت نیشنل پارک ہے کوہ چلتن کے نام کے بارے میں کئی من گھڑت کہانیاں مشہور ہیں مگر جو بات تاریخ سے ثابت ہے وہ یہ کہ خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے اولاد میں سے ان کے تین نواسوں نے چھ سو برس قبل چشت ہرات افغانستان سے سوئے بلوچستان ہجرت کی جن میں سے ایک بھائی خواجہ نظام الدین علی نے پشین منزکی میں سکونت اختیار کی دوسرے بھائی خواجہ ابراہیم یکپاسی نے مستونگ بلوچستان کا رخ کیا اور وہاں سکونت اختیار کی اور تیسرے بھائی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا نے کوئٹہ میں سکونت اختیار کی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کو افغانستان کے بادشاہوں کی طرف سے وادی کوئٹہ کا مغربی حصہ دیا گیا خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے فرزند خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کے مقام پر آباد ہوئے کرانی اسی جاگیر کے اندر واقع ہے کوہ چلتن کو چلتن کا نام خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے دور میں ملا اس کے علاوہ میان غنڈی اور دشت کو بھی اسی دور یہ نام ملے کیونکہ یہ بھی خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کے جاگیر کا حصّہ تھے چشت ہرات افغانستان میں بھی چلتن[3] کے نام سے ایک پہاڑ مشہور ہے کیونکہ یہ اولیاء چشت شریف سے ہجرت کر کے آئے تھے اور چشت شریف میں بھی اسی نام سے بالکل اسی مشباہہت کی ایک چوٹی موجود ہے اس لیے سادات چشتیہ نے اپنے سابقہ وطن اور اجداد کی محبت میں اس پہاڑ کو بھی چلتن کا نام دیا چونکہ چشت اور کرانی کے موسم بھی ایک جیسے ہیں اس لیے دونوں ہم نام پہاڑوں کے درخت اور پودے بھی ایک جیسے ہیں ,[4]
کلی گلزار
[ترمیم]جب کوئٹہ پر انگریز کی گرفت مضبوط ہوئی تو ان کو ایک فوجی چھاونی کی اشد ضرورت محسوس ہوئی، آج جس مقام اسٹاف کالج کوئٹہ قائم ہے، وہاں ایک قلعہ ہوا کرتا تھا، جو قلعہ درانی کے نام سے موسوم تھا، جب انگریز نے اس مقام کو چھاونی بنانے کے لیے منتخب کیا تو یہ قلعہ درانیوں سے خرید لیا، 1905 میں کوئٹہ میں ایشیا کی سب سے بڑی فوجی اکیڈمی اسٹاف کالج کا قیام ہوا اور درانیوں کو یہاں سے بے دخل کیا، چنانچہ غلام سرور خان درانی ولد سردار سعید خان درانی نے کرانی کے مقام پر سید محمد اشرف شاہ ولد سید محمد صادق شاہ کرانی سے وسیع خطہ اراضی کلی کرانی کے متصل خرید لیا اور وہاں پر کلی گلزار کے نام سے اپنا گاؤں بسایا جو آج بھی مجود ہے، جس کا حوالہ لینڈ روینو ریکارڈ پر میں موجود ہے، [2]
مقبرہ
[ترمیم]تعمیر مقبرہ
[ترمیم]ابتدائی ایام میں خواجہ صاحب کے مزار کی عمارت پختہ نہیں تھی 1970ء سے قبل سادات کرانی نے مزار کے گرد پختہ چار دیواری اور دروازہ تعمیر کروایا܂ اس کے بعد 1973ء میں اُس وقت کے صدر پاکستان جناب شہید ذو الفقار علی بھٹو نے مزار کی تعمیر کے لیے رقم فراہم کی جس سے یہ عمارت پختہ بنائی گئی اور 2006 میں اس کی مزید توسیع کی گئی،
موجودہ تعمیر
[ترمیم]2008 ء ، میں آبادی کی لپیٹ میں آنے کے بعد مزار اقدس اور سادات کرانی کے چھ سو سال قدیم قبرستان کو بے حرمتی کا خطرہ درپیش ہوا اس لیے حکومت بلوچستان نے مزار اقدس مع سارے قبرستان کے گرد دسمبر 2008 ء ، میں ایک اونچی چار دیواری تعمیر کروایا وزیر اعلٰی بلوچستان جناب نواب محمد اسلم ریسانی نے اس کے لیے پچاس لاکھ رو پیہ کے گرانٹ کی منظوری دی جناب نواب محمد اسلم ریسانی کے والد محترم جناب نواب غوث بخش ریسانی (مرحوم) نے ہر مشکل وقت میں سادات کرانی کا اپنے بیٹوں اور سائیوں کے ہمراہ ساتھ دیا، مزار اقدس اور سادات کے قبرستان کے گرد اونچی چار دیواری کی تعمیر میں خواجہ ولی کرانی کے ایک مرید خاص جناب میر حاجی علی مدد جتک (وزیر خوراک بلوچستان) نے خاص کردار ادا کیا اور یہ منصوبہ میر حاجی علی مدد جتک کے کوششوں سے ہی ممکن ہوا،
نسب
[ترمیم]شجرہ جات
[ترمیم]شجرہ نسب حضرت خواجہ ولیؒ
[ترمیم]- سید امام حسین علیہ السلام (4ہجری 60 ہجری)
- سید امام زین العابدین علیہ السلام (ہجری 94 ہجری)
- سید امام محمد باقر علیہ السلام (ہجری 114ہجری)
- سید امام جعفر صادق علیہ السلام (80ہجری 148 ہجری)
- سید امام موسی کاظم علیہ السلام (128ہجری 183 ہجری)
- سید امام علی رضا علیہ السلام (153ہجری 203 ہجری)
- سید امام محمد تقی علیہ السلام (195ہجری 220ہجری)
- سید امام علی نقی علیہ السلام (214ہجری 254ہجری)
- سید حسن اصغر رحمت اللہ علیہ
- سید عبداللہ علی اکبر رحمت اللہ علیہ 238(ہجری 292ہجری)
- سیدابومحمدالحسینعلیہ سلام (295ہجری 352 ہجری)
- سید ابو عبداللہ محمد رحمت اللہ علیہ (270ہجری 394 ہجری)
- سیدابوجعفرابراہیم رحمت اللہ علیہ (ہجری 370ہجری)
- سیدابو نصر محمد سمعان رحمت اللہ علیہ (ہجری 398ہجری)
- سید خواجہ ابو یوسف ناصر الدین ایوسف چشتی رحمت اللہ علیہ (375ہجری 459 ہجری)
- سید خواجہ قطب الدین مودود چشتی رحمت اللہ علیہ (430ہجری 527 ہجری)
- سید خواجہ نجم الدین احمد مشتاق مودودی چستی چشت ہرات( 492ہجری 577 ہجری)
- سید خواجہ رکن الدین مودودی چستی ( 545ہجری 635ہجری)
- سید قدودین خواجہ محمد مودودی چستی ( 584ہجری 624 ہجری)
- سید خواجہ قطب دین محمد ابن خواجہ محمد مودودی چستی ( 602ہجری 680ہجری)
- سید اودالدین خواجہ ابواحمد سید محمد مودودی چستی ( 635ہجری 710ہجری)
- سید تقی الدین خواجہ یوسف مودودی چستی ( 662ہجری 745ہجری)
- سید نصرالدین خواجہ ولید مودودی چستی ( 727ہجری 820 ہجری)
- سید خواجہ نقرالد ین چشتی مودودی المعروف شال پیر بابا
- سیدخواجہ ولی مودودی چستی کرانی رحمت اللہ عليہ [5]
سلسلہ اولاد
[ترمیم]- سیدخواجہ ولی مودودی چستی کرانی رحمت اللہ علیہ تقریباًً دور حیات ( 1470 ء)
- سید خواجہ میر شہداد مودودی چشتی کرانی تقریباًً دور حیات (1519 ء )
- سید قاسم شاہ مودودی چشتی کرانی تقریباًً دور حیات ( 1558 ء)
تاریخ چشتیہ
[ترمیم]سلسلہ چشتیہ کی مودودی شاخ کے بانی اور جد ابجد خواجہ قطب الدین مودود چشتی ہیں، خواجہ نقرالدین شال پیر بابا خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے پسری اولاد ہیں،اور کرانی کے سادات خواجہ نقرالدین شال پیر بابا کی اولاد ہیں، جو تقریباًً چھ سو سال قبل منزکی پشین چھوڑ کر کوئٹہ آ گئے تھے، اُنکا بیٹھا خواجہ ولی مودودی چستی کرانی میں آباد ہوا، آپ کے اولاد نے پہلی افغان جنگ میں کچھ خدمات انجام دیں، اُس وقت مبارک شاہ نامی اُنکا معتبر تھا، سادات کرانی کے عمائدین لیوی سروس سے وظائف حاصل کرتے تھے، سید لطف ﷲ شاہ جو خواجہ نقر الدین المعروف شال پیر بابا سے ساتویں پشت میں گذرے ہیں اور انکا مختصر شجرہ کچھ یوں ہے، سید لطف ﷲ شاہ بن سید صادق شاہ بن سید اسمٰعیل شاہ بن سید قاسم شاہ بن سید میر شہداد بن سید خواجہ ولی کرانی بن سید نقر الدین،سید لطف ﷲ شاہ میر نصیر خان اوّل خان آف قلات کے ہمراہ ایک مہم پر ایران گئے اور واپسی پر تحصیل کوئٹہ میں چشمہ شیخ ماندہ اور کاریز صادق پر انھیں مالیہ معاف زمینیں دی گئیں اور بمقام ڈھاڈر میں دو انگشت پانی بھی دیا گیا، موخر الذ کر اب خاندان کے دوسرے شاخ کے پاس ہے، خان نصیر خان خان آف قلات کا دورے حکومت 1749ء سے 1794ء تک تھا،[6]
خواجہ گان مودودی اور تاتاری فوج
[ترمیم]دور اول
[ترمیم]منگول سردار چنگیز خان کا اصل نام تموجن تھا (پیدائش 1162ء اور وفات1227ء) 1220ء میں افغانستان پر تاتاری یلغار ہوا اور اسی حملے کے دوران گھو لگھولا کے مقام پر منگول حکمران چنگیز خان کا بیٹا قتل ہوا ، یہ خبر سن کر چنگیز خان غضب ناک ہو گیا اور اسنے یہ فرمان جاری کیا کہ اس علاقہ کے ہر جاندار کو ختم کر دو، اس فرمان کے ملتے ہی فوج نے ایسا قتل عام شروع کیا کہ انسانوں کے ساتھ کتے بلیوں اور چوہوں کو بھی نہ بخشا،[7] 1221ء میں یہ جنگ وسط افغانستان سے شمال کی جانب ہرات منتقل ہوئی، تاتاری فوج کے راستے میں کوئی بھی آتا وہ قتل ہو جاتا، یہ دور سید خواجہ رکن الدین مودودی چستی (B1150 D1237 ) کاتھا، اسی دور میں تاتاریوں کا فتنہ اپنے عروج پر تھا خواجہ رکن الدین حسین رحمت اللہ علیہ نے اپنے والد محترم کو خواب میں دیکھا جو ان سے فرما رہے تھے کہ تاتاریوں کا لشکر پہنچ رہا ہے علاقہ بدری کی بشارت پاتے ہی آپ علاقہ غور کی طرف روانہ ہو گئے اور اپنے دونوں صاحب زادوں خواجہ محی الدین علی رحمت اللہ علیہ اور شیخ الاسلام قدودین خواجہ محمد رحمت اللہ علیہ کو سات لیا، اس طرح منازل طے کرتے ہوئے علاقہ ساغر پہنچے اور چھ ماہ وہاں قیام کیا چھ ماہ کے بعد جب خواجہ رکن الدین رحمت اللہ علیہ واپس مزارات متبرکہ چشت شریف پہنچے تو پایا کہ اکثر عزیزو اقارب تاتاری فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے تھے اور جو بچ گئے تھے وہ نہایت پریشان حال تھے، آپ نے سب کو یکجا کیا اور تسلی دی، منقول ہے لشکر کفار جب بھی مزارات مبارکہ کے پاس سے گزرتی تو ان میں سے اکثر خواجہ رکن الدین رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں اسلام لاتے اس طرح ہزاروں فو جی مشرف بہ اسلام ہوئے اور یہ سلسلہ جاری رہا، منقول ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وحشی ظالم تاتاری بھی خواجہ گان چشت کے گھوڑوں کے سموں پہ بھُوسا دیتے ہوئے پائے گئے، [8]
دور دوہم
[ترمیم]سید خواجہ قطب دین محمد ابن خواجہ محمد مودودی چستی ( B1205 D1288) چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان (پیدائش 1217 وفات1265) کے ہمعصر تھے چنگیز خان کے بعد اس کے لڑکوں اور حواریوں میں سے بہت ساروں نے اسلام قبول کیا اور خواجہ قطب دین محمد ابن خواجہ محمد رحمت اللہ علیہ کے ارادت مندوں میں شامل ہو گئے اور خواجہ صاحب کے پند ونسائح نے ان کے عقید ے کو پختہ کیا، حضرت خواجہ قطب دین محمد ابن خواجہ محمد رحمت اللہ علیہ کے ہمعصر چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان تھے، 1221ء میں تاتاری یلغار کے وقت خواجہ قطب الدین ابن خواجہ محمد رحمت اللہ علیہ کے عزیز اور مریدین چشت کے علاقہ سے ہجرت کر کے دوسرے علاقوں غور غزنی اور خراسان چلے گئے تھے تاتاری حاکم وقت نے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ جو شخص خواجہ صاحب کے علاقہ میں واپس آجاوے اور ان کی حمایت کرے تو اس کی مزاحمت نہ کی جائے، چنانچہ غور غزنی اور خراسان کی طرف سے بہت سارے لوگ واپس چشت آ گئے آپ نے خطوط لکھ کر سب کو واپس بلایا سب کو تسلی دی اس طرح سب امن و خوشی سے رہنے لگے، [9] سید محمد بن مبارک (میرخورد) سیرالاولیاء میں لکھتے ہیں میرئے والد محترم کی عمرئے عزیز سلطان المشائخ کی نظر مرحمت و شفقت میں گذری ـ اس بنا پر کہ وہ خانوادہ چشت میں خواجہ قطب الدین چشتی سے عقیدت رکھتے تھے وہ دو مرتبہ چشت بھی گئے ـ دوسری مرتبہ جب وہ چشت گئے اور خواجہ قطب الدین چشتی کی خدمت میں پہنچے تو کچھ دن وہاں ٹھہر کر اس مبارک خانوادے کی خدمت بجا لائے، خواجہ قطب الدین کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ سید محض خواجگانے چشت کی زیارت کے کیے آتا ہے، تو آپ نے ان کو اپنی خلافت سے سر فراز کیا اور خرقہ خلافت اور اجازت نامے سے اپنے نشان مبارک سے نوازا اور ایک کمیت مغل گھوڑا، جو آپ کی سواری لے لیے خاص تھا ان کو عطا فرمایااور نصیت فرمائی کہ ہمیشہ باوضو رہو اور کھانا تنہا مت کھاو پھر آپ کو نہایت اعزاز کے ساتھ رخصت کیا سیراولیاء میں میر خورد مزید لکھتے ہیں کہ میرے والد محتم فرماتے تھے کہ میں اس سال جب چشت سے لوٹا اس گھوڑے پر سوار تھا جو خواجہ قطب الدین نے مجھے دیا تھا، اس گھوڑے پر خواجہ قطب الدین کے پائے مبارک کے ایڑوں کے نشان پڑے ہوئے تھے، اس سال کافر تاتاریوں کا لشکر سلطان علاء الدین خلجی کے فاتح لشکر سے شکست کھا کر دہلی سے تیتر بیتر ہوکر ہزار اور دو ہزار کی ٹولیوں میں واپس ہو رہا تھا، اس لشکر کے کچھ لوگ خراسان کے راستے مین کئی مرتبہ مجھے ملے، انھوں نے چاہا کہ میرا گھڑا اور کپڑوں کا بقچہ کی جس میں خواجہ بزرگوار کا عطا کیا ہوا خرقہ تھا مجھ سے چھین لیں لیکن جب وہ خواجہ بزرگوار کے ایڑوں کے داغوں کو دیکھتے تو گھوڑے کے سم چھومنے لگتے اور کہتے تم خواجہ قطب الدینؒ کی برکت سے خیریت سے گھر پہنچوگے اور اپنے والد کی خدمت کروگے .[10]
دور سو ہمہ
[ترمیم]ہزارہ جات کا اصل وطن ہزارستان ہے جو افغانستان کے وسطٰی علاقہ پر مشتمل ہے، ہزارہ جات اپنے آپ کو منگول فوج کے ایک ہزار سائیوں کی نسل بتاتے ہیں سادات مودودیہ چشتیہ کے ساتھ اس قوم کا ایک واسطہ چنگیز خان کے دور میں ثابت ہوتا ہے، دوسرا واسطہ ہلاکو خان کے دور کاہے، جو اوپر تفصیل سے بیان ہو چکے ہیں اور تیسرا واسطہ دور حاضر کاہے جو افغانستان پر روسی جارحیت کے وقت سے شروع ہوا اور مہاجرین کی صورت میں کثیر تعداد میں لوگ پاکستان منتقل ہوئے ان مہاجرین میں ہزارہ جات کا طبقہ خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کے جاگیر میں بمقام کرانی کوئٹہ آباد ہوئے اور آج بھی دوسرے علاقوں مقابلے زیادہ عافیت سے ہیں، خواجہ ولی مودودی چستی کرانی کے اجداد کے طفیل یہ قوم ماضی میں مشرف بہ اسلام ہوئی حال میں بھی ان کو خواجہ گان چشت کے دامن میں پنا ملی، [8]
ہزارہ ٹاون
[ترمیم]خواجہ ولی کرانی کی جاگیر موضع شیخ ماندہ تپہ بلیلی تحصیل کوئٹہ سے میان غنڈی حد مستونگ تک پھیلا ہوا تھا، سابقہ چھ سوبرس سے یہ جاگیر [11] خواجہ ولی کے اولاد کی ملکیت رہی ہے، ہزارہ ٹاؤن [12] اسی جاگیر کے وسطی حصہ مین بمقام کرانی واقع ہے، ہزارہ ٹاون ایک لور مڈل کلاس آبادی ہے، موجودہ 2009 ء تک اس کی آبادی ایک لاکھ افراد سے تجاوز کر چکی ہے جن کی اکثریت افغان ہزاروں پر مشتمل ہے، اس کی بنیاد 1982 ء مین حاجی علی احمد نامی شخص نے رکھی جس نے یہ اراضی مودودی چستی سید گھرانے سے خریدی اور یہاں پر پلاٹ اور مکانات بنائے، بہت سے ہزارہ قوم کے افراد جو افغانستان سے ہجرت کرکے کوئٹہ آئے یہاں آ کے آباد ہو گئے، جس کی وجہ کم قیمت زمین اور مناسب سکیورٹی تھی ہزارہ ٹاؤن نو بلا کس پر مشتمل ہے اور تمام گھر تقریباًً نیم پختہ ہین یہاں رہنے والے تقریباًً افغانی فارسی زبان بولتے ہیں اور انکا تعلق شیعہ مسلک سے ہے یہ افغانستان کے و سطی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ کمیونٹی ایک اقلیت ہے کوئٹہ شہر میں زیادہ آبا دی پشتون سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے، یہاں رہنے والے زیادہ تر ہزارہ لوگ 1996 میں افغانستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے جس کی وجہ طالبان کے مظالم تھے، ابتدا میں یہ لوگ مساجد میں ٹھر ے اور اس کے بعد یہ ان ہزارہ خاندانوں کے پاس منتقل ہوئے جو پہلے سے وہاں آباد تھے ، جس کی وجہ سے یہ لوگ پناہ گزین کیمپوں میں جا نے سے بچ گئے، کچھ ہزارہ افغان جو ایران جانا چاہتے ہیں وہ ہزارہ ٹاؤن [13] کو بطور رسد گاہ استعمال کرتے ہیں اور یہاں کے مقامی لوگوں کی مدد لیتے ہیں، ہزار ٹاؤن میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کے رشتہ دار آسٹریلیا یورپ کینڈا اور امریکا میں رہا ہش پزیر ہیں اور وہاں سے کافی سرمایہ بھیجتے ہیں، زیادہ تر ہزارہ لوگ کو ہلے کی کانو میں کام کر تے ہیں ان میں سے کچھ تو ٹھیکا دار ہیں مگر زیادہ تر مزدور ہیں باقی آبادی چھوٹے موٹے کاروبار دکان داری اور دہاڑی پیشہ افراد پر مشتمل ہے، [14]
حوالہ کتب
[ترمیم]- ↑ بحوالہ ڈسٹرکٹ گزٹیرز آف بلوچستان ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیو وال یوم 9/12 صفہ نمبر-276
- ^ ا ب لینڈ روینیو ریکرڈ تحصیل کويٹہ
- ↑ [1] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ geography.kermanedu.ir (Error: unknown archive URL) کوہ چھلتن واقع چشت افغانستان
- ↑ [2] در چشت شریف یک کوه بنام چهلتن یاد می کنند
- ↑ سجرہ موروثی سادات کرانی
- ↑ بحوالہ ڈسٹرکٹ گزٹیرز آف بلوچستان ڈائریکٹوریٹ آف آرکائیو وال یوم 9/12 صفہ نمبر-76
- ↑ بحوالہ کتاب خواجہ براہیم یک پاسی تحریر پروفیسر سید احمد سعید ہمدانی،
- ^ ا ب [3] تذكار يكپاسى
- ↑ [4] تذكار يكپاسى
- ↑ سیرالاولیاء صفیہ نمبر 355
- ↑ بحوالہ لینڈ روینیو ریکارڈ تحصیل کوہٹہ -1908ء
- ↑ Hazara Town
- ↑ [5] Hazara town
- ↑ [6] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ unhcr.org (Error: unknown archive URL) Afghans in Quetta: