دہریت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(دہریہ سے رجوع مکرر)

لفظ دہریت اپنے لغوی معنوں کے اعتبار سے اور اسلامی اصطلاح میں بھی ایک ایسے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے کہ جب کوئی خالق کی تخلیق سے انکاری ہو اور زمان (وقت) کی ازلی اور ابدی صفت کا قائل ہو؛ یہ مفہوم ہی لفظ دہریت کا وہ مفہوم ہے کہ جو قرآن کی آیات سے ارتقا پاکر اور مسلم فلاسفہ و علماء کی متعدد تشریحات کے بعد خاصے وسیع معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے اور اس کے تخلیق سے انکاری مفہوم سے منسلک ہونے کی وجہ سے مذہب سے انکاری ہونے کے معنوں میں بھی استعمال میں دیکھا جاتا ہے؛ اسے عموماً انگریزی میں atheism کے متبادل لکھ دیا جاتا ہے جبکہ لغتی معنوں میں atheism کا درست اردو ترجمہ لامذہبیت (یا فارسی عبارت میں ناخدائی) کا آتا ہے؛ لفظ دہریت بذات خود سیکولرازم اور یا materialism سے زیادہ نزدیک ہے۔ لفظ دہریت سے ہی اس کے شخصی مستعملات یعنی دہری اور دہریہ کے الفاظ بھی ماخوذ کیے جاتے ہیں دہری بعض اوقات صفت کے ساتھ ساتھ اسم کی صورت میں آتا ہے؛ اور ان ماخوذ الفاظ سے مراد دہریت سے تعلق کی ہوتی ہے یعنی دہریت کی حالت میں مبتلا شخص دہریہ کہلایا جاتا ہے اور اس کی جمع دہریون کی معنع جاتی ہے۔الحاد یا دہریت کا عالمی دن 17 مارچ ہے جس کی شروعات 2013 میں ہوئی.(2013-03-17)

دہریہ/ملحد[ترمیم]

وہ شخص جو نہ تو خدا کا قائل ہو اور نہ اس کی صفات کا قائل اسے ملحد یا دہریہ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ عموماً مادے کو غیر فانی اور متشکل تسلیم کرتے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ زمانہ ازلی اور ابدی ہے اور اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں۔ وہ معقولات کو نہیں مانتے صرف محسوسات کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قانون قدرت کا عمل دنیا کے ہر کام کا ذمے دار ہے۔ اسی سے دنیا کی تکوین ہوئی اور اسی کے مطابق ان میں تغیر و تبدل ہوتا ہے۔ وہ ہر امر میں عامل و اسباب تلاش کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ ایک اعلی و ارفع طاقت کے قائل ہیں جس کو نیچر یا قدرت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

لفظ کا قرآنی ماخذ[ترمیم]

لفظ دہر قرآن کی سورت الدہر (76) کی آیت ایک میں ایسے وقت کے معنوں میں آیا ہے کہ جو عرصے تک پھیلا ہوا یعنی ایک زمانہ ہو[1] اور اس آیت میں انسان کو یاد دلایا گیا ہے کہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ جب اس کا کوئی وجود نہیں تھا، یعنی اس کی تشریح کے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی اللہ کی جانب سے تخلیق کی گئی یا یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ اس کی ازلی حیثیت کچھ نا تھی[2] اس کے علاوہ قرآن کی پینتالیسویں سورت الجاثیہ کی آیت 24 میں دھر کا لفظ اسی تخلیقی نوعیت کی وضاحت میں آتا ہے کہ ---- تـــرجـــمہ: اور کہتے ہیں یہ لوگ کہ نہیں ہے زندگی مگر یہی ہماری دنیاوی زندگی۔ (یہیں) مرتے ہیں ہم اور زندہ رہتے ہیں اور نہیں ہلاک کرتی ہمیں مگر گردشِ ایام (الدھر)۔ حالانکہ نہیں ہے انھیں اس بات کا ذرا بھی علم۔ یہ محض گمان سے کام لیتے ہیں (قرآن 45:24) ---- مذکورہ بالا آیت کے عربی متن میں الدھر کا لفظ گردشِ ایام کی جگہ آیا ہے اور واضح طور پر اس تصور کی نفی کی جا رہی ہے کہ وقت یا زمان کو ازلی یا لاتخلیقی و لافانی کہا جائے اور یہ لاتخلیقی و لافانی حیثیت صرف خالق کو حاصل ہے جس نے زمان و مکان کو پیدا کیا؛ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں سے لفظ دھریت اور پھر دھریہ وجود میں آتے ہیں یعنی وہ کیفیت کہ جو خدا کو حاصل ہے اگر اس کو کسی اور شے (جاندار یا بے جان) جیسے وقت کے لیے اختیار کیا جائے تو گویا وقت کو خدا کی خصوصیات سے مماثل کیا گیا اور اسی عقیدہ کو دھریت اور اس کے ماننے والے کو دھریہ کہا جانے لگا جو اپنے مادہ پرستی کے مفہوم میں بہت نزدیک ہے۔

وسعت اور فلسفہ[ترمیم]

قرآن میں دھر کا لفظ (جیسا کہ اوپر بیان ہوا) سورۃ الدھر (سورۃ الانسان) میں آیا اور پھر سورۃ الجاثیہ میں یہ مفہوم اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے گمراہ اور غیر خدائی لوگوں کے لیے استعمال ہوا اور یہی تصور ہے جس نے لفظ دھر کو اس کے خاصے جداگانہ اور فلسفیانہ مفہوم میں دھریت کے معنی دیے۔ مسلم فلسفی البداوی نے دھر کے مفہوم میں وہ زمان و مکاں (space of time) بیان کیے جس میں یہ عالم پایا جاتا ہے۔ امام غزالی (1058ء تا 1111ء) نے اپنی تصنیف تھافت الفلاسفۃ (The Incoherence of the Philosophers) میں بھی اسی دھریت کے مفہوم کا تذکرہ لکھا ہے۔ مسلم سائنسدان اور فلسفی، الجاحظ نے اپنی کتاب کتاب الحیوان میں لفظ دھریت کو خاصی عمومیت دیتے ہوئے اسے ایسے شخص کے لیے اختیار کیا ہے کہ جو رب کا منکر ہو، تمام تخلیق، جزاء اور سزا کا انکاری ہو اور اپنی خواہشات کا پیروکار ہو[3] یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اپنی پہلے مفہوم میں یہ اصطلاح بنیادی طور پر ایک ایسے شخص کے لیے یا عقیدے کے لیے آتی ہے کہ جو وقت کی لافانی حیثیت کو مانتا ہو اور اس کی کسی خالق کے ذریعہ تخلیق کا انکاری ہو، پھر یہ مفہوم پھیل کر تمام اقسام کے خدا کے انکاری عقائد تک استعمال ہونے لگا اور بعض اوقات اسی مفہوم کو چند ایسے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے جس میں مذہب سے ہٹاؤ پایا جاتا ہو۔ یعنی یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ دھریہ ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ جو(ماضی اور مستقبل دونوں جانب) دنیا کی لافانیت کا قائل ہو اور (وسیع مفہوم میں) موت (death) کے بعد کسی اور صورت یا کسی اور دنیا میں دوسری زندگی (life) کا انکاری ہو اور دوسرے یہ کہ لفظ دھریت ایسے معنوں میں بھی مستعمل دیکھا گیا ہے کہ جو بنیادی طور پر الگ مفہوم رکھتے ہیں یعنی کہ اپنے عقیدے سے انکار تو نہیں مگر ہٹاؤ یا انحراف (deviation) کرنے کے معنوں میں بھی دیکھا جاتا ہے؛ مسلم علما اس انحراف کرنے کی کیفیت کے لیے ایک اور اصطلاح استعمال کرتے ہیں جس کو الحاد (apostasy) کہا جاتا ہے، الحاد کرنے والے کو ملحد کہا جاتا ہے جبکہ خود الحاد کا لفظ انحراف کے معنوں میں استعمال کرنے کیوجہ یہ ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کے لحد (deviate/grave) سے نکلا ہے؛ لحد، قبر کی اس دراڑ کو کہا جاتا ہے کہ جو درمیان سے الگ ہو جاتی ہے یعنی ہٹاؤ یا انحراف کر جاتی ہے۔ اسلامی اصطلاح میں ملحد فی الدین ایسے ہی شخص کے لیے آتا ہے کہ جو سچی (یعنی اسلام کی اصل تعلیمات) سے انحراف کرتا ہو اور ایسی باتیں اور خیالات کو متعارف کرتا ہو کہ جو اصل مذہب کی تعلیمات سے ثابت نا ہوں (ایسی صورت میں بعض اوقات بدعت یعنی دین میں اختراع یا inovation) کی اصطلاح بھی دیکھنے میں آتی ہے جبکہ اس کے برخلاف دہریہ اس کو کہا جاتا ہے کہ جو خدا پر یقین ہی نا رکھتا ہو اور دنیا کی لافانیت کا قائل ہو بالفاظ دیگر لامذہب ہو۔

ابو العلاء المعري فرماتے ہیں کہ دنیا میں انسانوں کی صرف دو اقسام ہیں۔ پہلی قسم ان انسانوں کی ہے جن کے پاس دماغ ہے لیکن مذہب نہیں۔ دوسرے قسم میں وہ انسان ہیں جن کے پاس مذہب ہے لیکن دماغ نہیں۔”

اسلام پر  ملحدین کے اعتراضات ۔

ابو حیان سعید

الحاد ایک نفسیاتی مسلہ ہے نہ کہ علمی و عقلی۔  الحاد اختیار کرنا کوئی علمی و عقلی مسلہ نہیں بلکہ خواہشات نفس ، نفسیاتی مسائل ، صدمے وغیرہ اس کی وجہ بنتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم الحاد  پر بحث کریں ہمیں اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ ملحدین خود کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: "الحاد  خداؤں پر ایمان نہ رکھنا یا خداؤں کا انکار نہیں ہے؛ یہ خداؤں پر یقین کا فقدان ہے۔" ایسے لوگ جو ملحدین کے طور پر جانے جاتے ہیں وہ ایمان رکھنے سے انکار کرنے کی بجائے اپنے اعتقاد کی کمی پر زور دینا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ فکری لحاظ سے وہ الحاد کو خدا پر ایمان لانے سے افضل سمجھتے ہیں۔

آئیے پہلے ملحدین کے چند بنیادی اعتراضات پر بات کرتے ہیں..

1..  قرآن عربوں کا خود کا بنایا ہوا  کلام ہے !

جواب :

قرآن گھڑنے والوں عربوں  کے نام بتائیے ؟

وہ کتنے لوگ تھے ؟

اور ان لوگوں کا قبیلہ اور ذیلی قبیلہ کیا تھا ؟

ان کا تعلق عرب کے کس علاقے سے تھا ؟

ان ذہین عرب لوگوں کا تفصیلی بائیو ڈیٹا کیا  تھا ؟

کتنے عربوں نے یہ مقدس کام کیا ؟

انھوں نے اسلام کیسے قبول کیا ؟

انھوں نے کن لوگوں سے متاثر ہو کر قرآن کو بنایا ؟

ان عرب لوگوں کے پیشے کیا تھے ؟

کیا وہ اس اہم کام کے بعد غائب ہو گئے ؟

کیا وہ آسمانوں سے آئے تھے یا زمین سے پودوں اور درختوں کی طرح پیدا ہوئے تھے؟

2.. قرآن میں مختلف آیات میں تقریباً 90 مرتبہ ان باغات اور تقریباً 40 مرتبہ نہروں کا ذکر ہے۔قران والا اللہ ایک ہی بات بار بار دھراتا رہتا ہے۔۔۔۔عجیب بات

"جنت کے ایسے باغوں میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی"

جواب :

اگر عرب معاشرے میں سوئمنگ پول یا مساج پارلر موجود ہوتے تو قرآن میں جنت کے شاندار سوئمنگ پولز اور مساج پارلر متعارف کرائے جاتے۔

اگر کسی بچے نے کبھی ہاتھی نہ دیکھا ہو اور اس کے باپ نے اسے بتا یا ہو کہ اگر اس نے اپنے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی تو اسے تحفے میں ہاتھی ملے گا   ! کیا ہو گا  ? کیونکہ بچے نے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا   .. بلکہ اگر اس کے والد نے اسے نئی سائیکل کی پیشکش کی  ہوتی  تو وہ لازمی  ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ وہ نئی سائیکل کا اہل ہے۔

اسی طرح قرآن وہ تصورات پیش کرتا ہے جنہیں لوگ بخوبی جانتے تھے۔


3.. 14 صدیاں پہلے کا  عرب خطہ  بنجر ،ویران اور سنگلاخ علاقہ تھا جس میں سبزہ اور پانی نایاب تھا۔ اسی لیے عربوں کو  لالچ دیا گیا اور  جنت میں باغوں اور نہروں کا خواب دکھایا گیا ، عربوں کو باغات پسند تھے اسی لیے باغات ہی کا لالچ دیا گیا، عرب لوگ مال مویشی پالتے جیسے بھیڑ بکریاں ،اونٹ، ان کا وہ دودھ پیتے۔۔

تو اسی لیے نفسیاتی حربے کے طور پر عربوں کو جنت میں دودھ کی نہروں کا لالچ دیا گیا.

جواب : عربوں کو قرآن کا پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دیا گیا تھا، چنانچہ انجیر، كهجور , انگور، شہد، دودھ، انار، زیتون کی مثال قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔ کیونکہ عرب ان کھانے پینے کی چیزوں سے واقف تھے اور ان چیزوں کو عرب معاشرے میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس دور کے عربوں کو آم ،کیلا، سیب، آنناس ،ناریل ، اڑو،خوبانی  کا علم نہیں تھا اس لیے قرآن نے ان پھلوں کا ذکر نہیں کیا۔ اگر اس دور میں بھینس، ہرن، شترمرغ، بٹیریں عرب میں پائی جاتیں تو قرآن انھیں بھی متعارف کراتا .. اگر عرب لوگ اس دور میں زنگر برگر، پیزا، ایپل پائی، چائنیز فوڈز کھاتے تو قرآن انھیں بھی جنت کی نعمتوں کے طور پر متعارف کراتا .

حواس اور عقل سے دور.. میرے ملحد دوستو، انسانی ماحولیات Human Ecology  کس بلا کا نام ہے .

اس دور کے عرب میں اگر بحیرہ روم اور یورپین خطے کے پھلوں جیسے   Avocado، Nectarines،    Pieria Kiwi ,  Blueberries وغیرہ کے بارے میں بات کی جاتی تو ان پھلوں کے ذائقے، خوشبو اور لذت  وغیرہ کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ اس دور کے عربوں کی اکثریت  ان پھلوں کو نہیں کھاتی کیونکہ یہ عربوں کے مقامی پھل نہیں  تھے .

4.. عرب صحرائی لوگ جھاڑیوں سے شہد اتار کر شوق سے کھاتے تو جنت میں ان کی پسند کی وجہ سے شہد کی نہریں بھی بنای۔۔۔

جواب :   کیا عرب کی جھاڑیوں میں آم اور لیموں کا اچار ملتا تھا؟ جسے عرب اتارتے اور کھاتے؟

پھر تو جنت میں آم اور لیموں  کے اچار کے پہاڑ ضروری ہو تے.


حوالہ جات[ترمیم]

  1. Sura 76 Aya 1 In Urdu (آسان قرآن) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ asanquran.com (Error: unknown archive URL) and In English آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ usc.edu (Error: unknown archive URL)
  2. Moududi's commentary on Quran آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ islam101.com (Error: unknown archive URL)
  3. Description of dahriyya at Muslim philosophy