برہمو سماج
صحیفہ | برہمو دھرم |
---|---|
الٰہیات | توحیدیت |
پردھان اچاریہ-1 | رام موہن رائے |
پردھان اچاریہ-2 | دوارکاناتھ ٹیگور |
پردھان اچاریہ-3 | دیویندر ناتھ ٹیگور |
بانی | رام موہن رائے |
ابتدا | 1828ء کلکتہ، مغربی بنگال، ہندوستان |
الگ از | سناتن دھرم ہندو مت |
دیگر نام | آدی دھرم |
باضابطہ ویب سائٹ | http://true.brahmosamaj.in |
برہمو سماج ((بنگالی: ব্রাহ্ম সমা)، برہمو شوماج) ایک ہندو اصلاحی تحریک ہے۔ اس تحریک یا فرقہ کے بانی رام موہن رائے 1774ء میں بمقام بردوان ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں عربی اور فارسی پڑھ لی۔ سنسکرت بنارس میں پڑھی۔ پندرہ برس کی عمر میں انھوں نے بت پرستی کے خلاف بنگالی زبان میں پمفلٹ شائع کرنے شروع کر دیے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ بت پرستی ویدوں میں نہیں ہوتی۔ توحید کے پرچار کی وجہ سے رام موہن رائے کو اپنے والد اور گھر سے الگ ہونا پڑا۔ اس کے بعد انھوں نے انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، یونانی اور عبرانی زبانیں پڑھیں۔ تمام مذاہب کی مقدس کتب پر غور و فکر کیا۔ ان کا ذریعہ معاش سرکاری ملازمت تھی۔ 39 سال کی عمر میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اور اپنے مذہبی خیالات کی اشاعت شروع کر دی۔ انھوں نے مذہبی کتب کا سنسکرت انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔
رام موہن کو 1831ء میں دہلی کے مغل شہنشاہ نے اپنے مالی حقوق کی وکالت کے لیے انگلستان بھیجا۔ 1833ء تک وہیں مقیم رہے۔ 1833ء میں برسٹل چلے گئے اور اسی سال وہاں ماہِ ستمبر میں بخار کے مرض میں انتقال کر گئے۔ ان کی قبر نوزدیل قبرستان میں موجود ہے۔[1]
رام موہن رائے نے پہلی بار فارسی میں ایک کتاب لکھی اور اس کا دیباچہ عربی زبان میں تھا۔
1820ء میں موہن رائے نے اپنی کتاب ”یسوع کے احکام“ بنگالی زبان میں شائع کی جس میں یسوع مسیح کی الوہیت کا انکار کیا تو سپرامپور کے مشنریوں نے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے اور بحث و مباحث کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ 1827ء میں رام موہن رائے نے برہمو سماج کی بناد ڈالی۔[2]
نظریات
[ترمیم]ان کے خیالات 1830ء کے امانت نامے میں مندرجہ ذیل الفاظ میں قلمبند ہیں: ”پرستش اسی ذات کی ہونی چاہیے جو غیر فانی ہے، جس کا پتا تلاش سے نہیں ملتا، جو تغیر سے محفوظ ہے اور جو تمام کائنات کو پیدا کرتی اور قائم رکھتی ہے۔“[2]