میاں پیر فقیراللہ بکوٹی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی
پیشہمصلح، صاحب کرامت اہل تصوف،اردو شاعر
قومیتکشمیری
نسلعثمانی (دختر رسول رقیہ زوجہ خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کی اولاد سے)
شہریتکشمیری، ہزاروی
تعلیمعلوم ظاہری و باطنی
مادر علمیآستانہ عالیہ پیر عبد الغفور سواتی (آخوند صاحب)
دور1840-1922
اصنافاقامت نماز جمعہ،غزل
موضوعتصوف حُب الوطنی, فلسفہ
نمایاں کامندائے جمعہ، فتاویٰ، وصیت نامہ
شریک حیاتستر جان (بیروٹ)راحت نور انہی کی بیٹی تھیں، گل نقشہ بیگم (پجہ شریف، چکار)ان سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوا اور سب بچپن میں ہی انتقال کر گئے، اس کے علاوہ ان کی ایک اہلیہ اسلام آباد، نزد چکار جبکہ دواہلیہ کا تعلق یونین کونسل بکوٹ کے ڈھونڈ عباسی قبیلہ سے تھا، حضرت پیر بکوٹی کے عقد میں آنے سے قبل ان کے تین صاحبزادے محمد شفیق، محمد صدیق اور محمد رفیق بھی موجود تھے۔ تاہم ان سے کوئی اولاد نہیں تھی، ان کی آخری اہلیہ ایبٹ آباد کے جدوں قبیلہ سے تھیں جن سے دو صاحبزادے، جن میں فرزند اولیٰ حضرت صاحبزادہ پیر عتیق اللہ بکوٹیؒ اور فرزند اُخریٰ اس وقت کے صوبہ سرحد اور موجودہ کے پی کے کی قانون ساز اسمبلی سے 1951ٰٰٰٰٰٰ سرکل بکوٹ کے پہلے رکن قانون ساز اسمبلی حضرت صاحبزادہ پیر حقیق اللہ بکوٹیؒ تھے ۔۔۔۔ یہی وجہ ہے حضرت پیر بکوٹیؓ یو سی بیروٹ کی وی سی باسیاں کے جدونوں کو بے حد عزیز رکھتے تھے اور ان کے ایک بزرگ مولانا عبد الرحمان جدون کی دوسری شادی بھی مولیا، یو سی بکوٹ کے قریشی قبیلہ سے کرواءی تھی جو ٹیچر خطیب الرحمان جدون اور مولانا سعید الرحمان جدون کی والدہ محترمہ تھیں ۔
اولادمولانا میاں پیر عتیق اللہ بکوٹی, مولانا میاں پیر حقیق اللہ بکوٹی، بیروٹ والی اہلیہ سے صاحبزادی راحت نور، ان کی قبر پوٹھہ شریف میں ہے اور وہ ڈاکٹر عبد الخالق منہاس کی اہلیہ تھیں
رشتہ دارصاحبزادہ پیر محمد ازہر بکوٹی مرحوم، صاحبزادہ پیر محمد زاہر بکوٹی (موجودہ سجادہ نشین)، صاحبزادہ پیر افتخار احمد بکوٹی(المعروف مکھن پیر مرحوم)،صاحبزادہ پیر سعید انور بکوٹی المعروف چن پیر مرحوم)، صاحبزادہ پیر محمدعامر بکوٹی،صاحبزادہ پیرعبدالماجد بکوٹی. صاحبزادہ پیر محمد عثمان بکوٹی
ویب سائٹ
http://pirbakoti.blogspot.com//

ا گر 20ویں صدی کے آغاز میں دیکھا جائے تو سرکل بکوٹ میں جو شخصیت سماج، مذہب اور لوگوں کے دل و دماغ پر چھائی نظر آتی ہے وہ مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی ہیں، انھوں نے سرکل بکوٹ میں نہ صرف نماز جمعہ کا آغاز کیا بلکہ بہت سی ایسی مہلک ترین رسومات کا بھی قلع قمع کیا جنھوں نے یہاں کے سماج کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا، انھوں نے ایک ایسی باطنی تحریک کی بھی بنیاد رکھی جو آگے چل کر قیام پاکستان کی مہمیز بننے کے علاوہ کشمیری حریت پسندوں کے لیے بھی آکسیجن ثابت ہوئی، انھوں نے یہاں کے لوگوں کو ایک امنگ، تمنا اور جینے کی اس وقت آرزو سے آشنا کیا جب وہ انگریز کے جبر اور ہندو مظالم میں کراہ رہے تھے، ان کی جان، مال اور عزت و آبرو بھی داؤ پر لگی ہوئی تھی اور ان میں 1857ءکی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مرگ کی کیفیت طاری تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کی صدی کے بعد بھی اہلیان سرکل بکوٹ کی چوتھی نسل اس بات کا اقرار کر رہی ہے کہ "پیر بکوٹی"ہمارے ہیں۔

خاندانی پس منظر[ترمیم]

مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے والدین انیسویں کے آغاز میں خاکی مانسہرہ سے بسلسلہ تبلیغ کنڈان شکریاں، پجہ شریف، آزاد کشمیر میں آکر آباد ہوئے، آج بھی وہاں ان کی قبریں اور ان سے منسوب گھر اور مسجد کے نشانات موجود ہیں، آپ کا سلسلہ نسب بقول صاحبزادہ پیر محمد زاہر بکوٹی اور صاحبزادہ پیر عبد الماجد بکوٹی خلیفہ ثالث عثمان بن عفان سے ملتا ہے اس لیے ان کا اصرار ہے کہ انھیں عثمانی تسلیم کیا جائے جبکہ ان کے بڑے بھائی اور آستانہ مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے سجادہ نشین اعوان مؤرخ محبت حسین اعوان کے اس موقف سے متفق ہیں کہ وہ قطب شاہی اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں، مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے پوتوں میں اپنے شجرہ نسب کے بارے میں اختلاف غالباً اس وجہ سے بھی ہے کہ خود ان کے اپنے وصیت ناموں اور دوسری تحریروں میں وہ خود کو قریشی لکھتے ہیں اور بعد کے اپنے آخری سالوں میں انھوں نے قریشی کی بجائے بکوٹ کی جائے سکونت کی نسبت سے "بکوٹی" لکھنا شروع کر دیا تھا، وہ ذات پات کے بکھیڑوں میں پڑنا ہی نہیں چاہتے تھے تاہم ان کے دونوں پوتے اپنے حسب و نسب کے حوالے سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، صاحبزادہ زاہر بکوٹی کا کہنا ہے کہ ان کے برادر بزرگ کے ہاتھوں کا تصدیق شدہ شجرہ نسب ان کے پاس ہے جس میں انھوں نے اپنے "عثمانی" ہونے کو تسلیم کیا ہے۔

بچپن سے معرکہ بالا کوٹ تک[ترمیم]

مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی ابھی چند سال کے ہی تھے کہ ان کے والدین داعی اجل کو لبیک کہہ گئے، جس پر پجہ شریف میں شادی شدہ بڑی ہمشیرہ انھیں اور دیگر بہن بھائیوں کو اپنے ہاں لے گئیں اور ان کی پرورش کرنے لگیں،15سال کے ہوئے تو انھیں ان کے ایک چچا اپنے ساتھ خاکی مانسہرہ لے گئے مگر وہ وہاں ٹھہر نہ سکے اور وہاں سے وہ رجوعیہ حویلیاں آ گئے جہاں انھوں نے تکمیل علم کی کئی منزلیں طے کیں، ان دنوں ہزارہ گلاب سنگھ کے ایک جرنیل ہری سنگھ نلوہ کے ظلم اور جبر کے ہاتھوں کراہ رہا تھا جبکہ لوگ ہزارہ سے اپنی جان مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے راہ فرار اختیار کر رہے تھے، ان حالات میں پیر بکوٹی سوات کی طرف عازم سفر ہوئے جہاں عبدالغفور المعروف آخوند صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا اور سلوک کی منازل بھی یہاں ہی سر کیں، ان دنوں سوات سمیت قبائلی علاقوں میں بھی سیاسی انارکی کا دور دورہ تھا جس نے قبائیلیوں کی زندگیاں بھی حرام کر رکھی تھیں، ایسے میں آخوند صاحب نے سکھ فوج کیخلاف اور سید احمد شہید کی سربراہی میں جہاد کا حکم جاری کر دیا، پیر بکوٹی نے اپنے مرشد آخوند صاحب کی اجازت سے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے ہاتھوں پر بیعت کی اور بالا کوٹ تک آپ کی سرکردگی میں جہاد میں پروانہ وار حصہ لیا اور داد شجاعت دی، آپ نے مسلمان خواتین کی سکھوں کے ہاتھوں بیحرمتی اور شاہ اسماعیل شہید کے کردار عظیمت کا اتنا گہرا اثر لیا کہ اپنے اہل خانہ کے لیے پردہ لازمی قرار دیا جو آج بھی چلا آ رہا ہے اور شاہ اسماعیل شہید کے اثر کے تحت آپ کی وصیت کے تحت آپ کے صاحبزادوں نے دار العلوم دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی، سید احمد شہید کی مقدس صحبتوں کے زیر اثر آپ عمر بھر آل رسول کے لیے احترام کے جذبات سے سرشار رہے، وہ سواری پر ہوتے تو سید کے احترام میں اس سے اتر جاتے، معرکہ بالا کوٹ کی ناکامی کے بعد آپ دو بارہ اپنے مرشد آخوند صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تاہم اب کی بار آپ کو حکم ملا کہ وہ تبلیغ دین اور اصلاح امت کے لیے کشمیر اور کوہسار (سرکل بکوٹ اور مری) کو اپنا مرکز بنا لیں اس پر آپ اپنے مرشد سے ہمیشہ کے لیے وداع ہوئے اور پھر ان کی ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔

مضامین بسلسلہ

تصوف

فقیراللہ بکوٹی سے پیر فقیراللہ بکوٹی تک[ترمیم]

اپنے مرشد کے حکم پر آپ واپس مانسہرہ آئے، کچھ روز وہاں رہنے کے بعد آپ اپنے ایک استاد کی قدم بوسی کے لیے رجوعیہ تشریف لائے، اتفاق سے یہ عیدالاضحیٰ کا دن تھا، اس موقع پر قربانی بھی کی جا رہی تھی مگر ایک بیل قابو میں نہیں آ رہا تھا، یہ منظر آپ کے سامنے تھا، آپ بھی آگے بڑھے اس بیل کو گردن سے پکڑا اور بچھاڑ دیا، ان کے استاد اس موقع پر بولے کہ تو واقعی پیر ہے کیونکہ یہ کام کسی پیر کی طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اس کے بعد آپ کی کرامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں اور آ پ کو پیر بکوٹی کہا جانے لگا۔

تبلیغ اور اقامت جمعہ کامشن[ترمیم]

پیر بکوٹی ایک مصلح، روحانی رہبر، عالم دین اور اخلاق و اعتقادات بد کو ختم کرنے والے تو تھے ہی، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ اور مشن صلوٰۃ جمعہ کا قیام تھا، جس زمانے میں آپ نے یہ مشن شروع کیا اس وقت کے علما نماز جمعہ کا انعقاد شہر سے مشروط کیے ہوئے تھے اور دور دراز کے لوگوں کو زندگی میں ایک آدھ بار حج کی طرح نماز جمعہ نصیب ہوتا تھا، آپ نے اس سلسلے میں اجتہاد کیا اور دو مقتدی اور ایک امام کی موجودگی میں نماز جمعہ کی اقامت کا فتویٰ جاری کر دیا، اس سے کشمیر سمیت کوہسار بھر میں ایک طوفان آ گیا، علما نے خود ان کی تکفیر کی اور اس اجتہاد کو بدعت قرار دے کر مسترد کر دیا، انھوں نے اپنے مشن کا آغاز پوٹھہ شریف کی مسجد سے کیا اور اس سے قبل انھوں نے اس کی تعمیر نو کرائی، 1870 کے رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع سے کوہسار میں آپ کی امامت میں پہلی نماز جمعہ ادا کی گئی، دوسری نماز جمعہ اگلے سال رمضان المبارک میں ہی اوسیا کی جامع مسجد میں ادا کی گئی، بیروٹ میں نماز جمعہ کا آغاز 1894ءکے رمضان کریم میں کیا گیا جب آپ نے یہاں امامت کے فرائض سنبھالے، 1905 میں بیروٹ کی دوسری جامع مسجد کھوہاس میں اپنی امامت میں نماز جمعہ پڑھائی، بکوٹ میں نماز جمعہ کا آغاز آپ نے 1912ءکے رمضان میں کیا، ان کی سب سے زیادہ مخالفت کوہسار کے پہلے دیوبندی عالم مولانا میاں محمد دفتر علوی نے کی اور ان کے خلاف تکفیر پر مبنی کلمات بھی کہے اس کے جواب میں پیر بکوٹی نے صرف اتنا کہا کہ اگرچہ یہ بات قرآن و سنت میں تو نہیں مگر جس کام سے تبلیغ و اشاعت دین مزید بہتر انداز میں ہو، مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کا جذبہ پیدا ہو وہ بدعت نہیں اجتہاد ہے، آج کوہسار کے ہر گاؤں کی ہر مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی ہو رہی ہے اور اس کا ثواب بھی پیر بکوٹی کو خلد بریں میں پہنچ رہا ہے۔

پیر بکوٹی کا پوٹھہ شریف سے اپنے مشن کا آغاز[ترمیم]

مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے نماز جمعہ کے مقدس مشن کے آغاز کے بارے میں مختلف نظریات رائج ہیں، ان کے اس مشن کے بارے میں سب سے زیادہ زور اہلیان بکوٹ دے رہے ہیں اور اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ جب پیر بکوٹی نے پوٹھہ شریف میں پیر ملک سراج خان کی مسجد کی تعمیر اور اس میں اقامت صلوٰۃ جمعہ کے بارے میں فتویٰ جاری کیا تو اپنے نام کے ساتھ بکوٹی بھی لکھا تھا، اس کا یہ مطلب ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے نماز جمعہ کا آغاز بکوٹ سے کیا مگر محمد عبیداللہ علوی کی تحقیق اس کے برعکس ہے، انھوں نے مصدقہ دستاویزات، ہم عصر لوگوں کی روایات اور دیگر آزاد ذرائع سے اس بات کا کھوج لگایا ہے کہ پوٹھہ شریف اور اس میں محو خواب پیر ملک سراج خان سے پیر بکوٹی کی عقیدت کی متعدد اور ناقابل تردید وجوہات تھیں، اپنے شہرہ آفاق مقالے "پیر بکوٹی۔.........پیر ملک سراج خان کے بعد کوہسار کے سب سے بڑے مجدد" میں لکھتے ہیں

  1. پیر بکوٹی ایک مجدد کی حیثیت سے پیر ملک سراج خان کو کشمیری نژاد کوہسار کا سب سے بڑا صوفی تسلیم کرتے تھے۔
  2. پیر بکوٹی کے علاقے پجہ شریف کی زلیخا نامی ایک خاتون پوٹھہ شریف میں بیاہی ہوئی تھی اور آپ اسے بہن کی نسبت سے "بووو" کہتے تھے، اپنی اس منہ بولی بہن سے ان کے انس کا یہ عالم تھا کہ وہ جب بھی اس علاقے سے گزرتے تو اپنی اس بہن کے لیے تحفے تحائف بھی لاتے جسے مقامی زبان میں "سنبھال" کہتے ہیں مگر ان کا قیام پیر ملک سراج خان کی مسجد میں ہوتا ۔
  3. مقامی لوگوں نے بھی آپ کی اس دلچسپی کو محسوس کیا اور آپ سے پوٹھہ شریف میں قیام کی درخواست کی جبکہ آپ نے اس قیام کا آغاز اس مسجد کی تعمیر نو اور نماز جمعہ کے کوہسار میں پہلی بار آغاز سے کیا۔
  4. اسی منہ بولی بہن کے کہنے پر آپ نے اپنی بیروٹ والی سب سے چھوٹی صاحبزادی راحت نور کا رشتہ پوٹھہ شریف کے ڈاکٹر عبد الخالق منہاس کو دیا تا کہ اس علاقے سے قرابت داری کے تعلق کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔

پیر بکوٹی کی بکوٹ آمد اور مولیا میں قیام[ترمیم]

مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی 1860 کے لگ بھگ وسطی بکوٹ تشریف لائے، مگر انھوں نے مولیا میں قیام کو پسند کیا، اس کی وجوہات بکوٹ کی سیاسی و سماجی شخصیت سردار الیاس خان یوں بیان کرتے ہیں۔

  • پیر بکوٹی تنہائی پسند تھے، وہ عبادت و ریاضت میں ہمہ وقت مصروف رہتے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی وجہ سے کسی کے آرام و سکون میں خلل واقع ہو نہ انھیں کوئی تنگ کرے۔
  • جتنے وہ شب زندہ دار تھے اتنے ہی وہ مجالس روحانی کے دلدادہ بھی، عصر سے عشا تک ان کی تمام مصروفیات عام لوگوں کے لیے ہوتیں، وہ حالات سے مایوس لوگوں کی ڈھارس بندھاتے، ضرورت مندوں کی مدد کرتے اور مریضوں کا علاج بھی کرتے۔
  • ایک روز کسی شخص نے ان کی خدمت میں انگور بھیجے، انھوں انگور کا دانہ اپنے منہ کی طرف پھینکا مگر وہ منہ کے اندر جانے کی بجائے دوسری طرف گر گیا، اس پر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا، یہاں سے اب میرا رزق ختم ہو چکا ہے اور پھر وہ پوٹھہ شریف کی طرف چلے آئے۔ ان کے ساتھ قاضی عبداللہ بھی تھے مگر انھیں بکوٹ میں ہی قیام کی ہدایت کی۔
  • یہ بات بھی درست ہے کہ پیر بکوٹی نے اپنی عمر کی پانچویں دہائی میں مولیا میں قیام کے دوران اپنے نام کے ساتھ لاحقہ "بکوٹی"لگایا اور اسے زندگی بھر خط کتابت میں بھی استعمال کرتے رہے تاہم اپنے نام کے ساتھ "قاضی"کے سابقے کے استعمال کی وجہ یہ تھی کہ اپ کا بچپن پجہ شریف کے قاضیوں کے ساتھ گذرا تھا مگر بعد میں انھوں نے قاضی کا سابقہ اپنے نام سے حذف کر دیا۔

پیر بکوٹی کی اوسیاہ اور بیروٹ آمد[ترمیم]

مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی کے اہلیان کوہسار کے ساتھ احترام اور عقیدت کے تعلقات تھے، پوٹھہ شریف میں ایک دو سال قیام کے دوران ان کے کوہسار بھر کے دورے رہے، ان کے مشورے سے ہی اہلیان اوسیاہ نے مسجد بھی تعمیر کی اور یہاں پر آپ نے 1871میں پہلی بار نماز جمعہ کی امامت کی، معروف دانشور اور حکیم ڈاکٹر محمود جدون قادری اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ پیر بکوٹی کے ان کے دادا سے بہت اچھے مراسم تھے اور وہ جب بھی اوسیاہ آتے ان کے گھر ہی قیام کرتے مگر عبید اللہ علوی کہتے ہیں کہ پیر بکوٹی کی اوسیاہ میں دلچسپی کی ایک وجہ جدید اور قدیم تعلیم کے اس علاقے میں بانی مولانا ہاشم علوی کا خانوادہ بھی تھا، پیر صاحب عبد المجید المعروف پیر صاحب دیول شریف اپنی ایک کتاب میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے پڑ دادا مولانا ہاشم علوی نے 1835میں سکھوں سے جہاد میں جام شہادت نوش کیا تھا، سیڈا اسکول سسٹم بیروٹ کے بانی افتخار عباسی کہتے ہیں کہ اوسیاہ میں ان کے خسر ریاض عباسی کے دادا کی پیر بکوٹی سے اتنی عقیدت تھی کہ انھیں انھوں نے اپنے گھوڑے کی کاٹھی اور عصا بھی عطا کیا تھا
اوسیاہ کے بعد پیر بکوٹی کا قیام بیروٹ کی تاریخ کا بھی اہم واقعہ ہے، بیروٹ کی پہلی اور مرکزی مسجد کا انتظام یہاں کے بنکال، حاجیال، للیال،فقیرال اور مرتال خاندان کے پاس تھا، اس مسجد میں امامت و خطابت کے لیے اہلیان علاقہ کو ایک جید عالم دین کی ضرورت تھی، اہلیان بیروٹ کی درخواست پر آپ مستقل طور پر 1893کے اواخر میں بیروٹ آئے، مسجد کی تعمیر نو کروائی اور 1894کے رمضان کریم میں یہاں پہلی بار نماز جمعہ کا ّغاز کیا، آپ کے کہنے پر مسجد کے ٹرسٹیوں نے یہاں ایک مسافر خانہ بھی بنایا جہاں پر عوام علاقہ کے تعاون سے لنگر بھی جاری کیا، خانوادہ پیر بکوٹی کی ایک روایت کے مطابق ایک رات پیر بکوٹی کو خواب میں دربار رسالت مآبﷺ میں دو یتیم بچے دکھائے گئے اور نبی پاک نے آپ سے فرمایا کہ یہ بچے تمھارے لنگر میں آتے ہیں اور واپس بھوکے چلے جاتے ہیں، آپ اسی وقت پسینے سے شرابور اٹھے اور اس روز لنگر کی نگرانی خود کی، مگر رات کو پھر دربار رسالتﷺ میں آپ کی طلبی ہوئی یہ سلسلہ تیسرے روز بھی ہوا اور اس روز پیر بکوٹی ایک ایک آدمی کو خود دیکھتے رہے، انھوں نے دیکھا کہ دوردو بچے دھکم پیل کی وجہ سے سہمے ہوئے بیٹھے ہیں، بچوں کے جسم پر صرف قمیض تھی، آنکھوں اور چہرے سے بھوک کی وجہ سے نقاہت نمایاں تھی، آپ لپک کر ان بچوں کے پاس پہنچے، دونوں کو اٹھایا اور اپنے کمرے میں لے کر آئے، انھیں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان بچوں کے چھ بہن بھائی اور بھی ہیں مگر کبھی گھر میں کھانا پکتا ہے اور کبھی نہیں، انھوں نے بچوں کو تکید کی کہ وہ روزانہ ان کے پاس آئیں خود بھی کھانا کھائیں اور گھر والوں کے لیے بھی لے جائیں، انھوں نے بچوں کے بارے میں معلومات کیں تو انھیں معلوم ہوا کہ یہ کاملال ڈھونڈ عباسیوں کی مسجد کھوہاس کے امام اور خطیب مولانا میاں عبد العزیز علوی کے نواسے اور مولانا میاں اکبردین علوی کے پوتے ہیں، اس پر پیر بکوٹی بنفس نفیس خود مولانا میاں عبد العزیز علوی کے پاس آئے، دونوں نے کھل کر باتیں کیں اس دوران یہ معلوم ہوا کہ پیر بکوٹی اور مولانا میاں عبد العزیز علوی ایک ہی خاندان کی دو شاخیں ہیں، پھر ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا، پیر بکوٹی نے ان یتیم بچوں کی بیوہ ماں کے رشتہ کے لیے مولانا میاں عبد العزیز علوی سے درخواست کی اور یہ سعادت مند خاتون ستر جان پیر بکوٹی کے عقد میں آ کر حیات جاوداں پا گئیں، یہ پیر بکوٹی کی سب سے پہلی شادی تھی، پیر بکوٹی اس کے بعد کھوہاس منتقل ہو گئے اور یہاں پر ہی امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دینے لگے۔ نہوں نے بگلوٹیاں مسجد میں سید نور حسین شاه کو اپنی جگه امام اور خطیب مقرر کروایا، صرف یهی نهیں بلكه پیر بكوٹی سید نور حسین شاه كے صاحبزادے سید فضل حسین شاہ كی علمی فضیلت، پاكیزه كرداراور ان كے اپنے اطوار سے اتنے متاثر ہوئے كه اپنی سوتیلی بیٹی زلیخا كو ان كے عقد میں دیدیا مگر سید فضل حسین شاه كے بڑے اور سوتیلے بهائی میر جی شاه كو اپنے بهائی كی یه عزت افزائی كسی طور پر هضم نه ہو سكی اور اس نے اس مثالی جوڑے كا جینا حرام كر دیا، 1919میں ہونے والی یه شادی 1923میں اسی شخص كی وجه سے اختتام پزیر ہوئی مگر پیر بكوٹی كی عزت كو كمتر سمجهنے والا یه میر جی شاه برساله میں ایك ٹریفك حادثه میں هلاك ہوا اور اس كی شكل بهی مسخ ہو گئی، اس كی نسل كے خاتمه كی وجه سے آج اس بے نام و نشاں شخص كی برادری كو بهی اس كا نام یاد نهیں۔ پیر بکوٹی کے بیروٹ میں ایک سوتیلے بیٹے إولانا عبد الرحمان علوی جہاد کشمیر میں بیروٹ کے پہلے شہید اور دوسرے بیٹے مولانا علی حیدر علوی کی پوتی ڈاکٹر طاہرہ ہارون بیروٹ کی سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی خاتون بنیں، ان کی پہلی اہلیہ ستر جان مرحومہ کی قبر بیروٹ میں ہی ہے جبکہ ڈھونڈ عباسی کاملال برادری کی طرف سے انھیں ہبہ کی جانے والی17 کنال اراضی پیر بکوٹی کی تاریخی وصیت کے مطابق ان بیروٹ والی سوتیلی اولاد کے پاس ہے، ان کی بیروٹ والی اہلیہ سے ایک حقیقی صاحبزادی راحت نور بھی تھی جو پوٹھہ شریف کے منہاس خاندان میں بیاہی گئی، مری کے معروف صحافی اور روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد کے نمائندہ امتیاز الحق پیر بکوٹی کی اسی صاحبزادی کے پوتے ہیں جبکہ ہوٹل ایسوسی ایشن مری کے رہنما پیر بکوٹی کے نواسے ہیں پیر بکوٹی کی صاحبزادی راحت نور مرحومہ کی قبر پوٹھہ شریف مسجد کے قبرستان میں مرجع خاص و عام ہے۔

شجرہ طریقت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی[ترمیم]

پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں بعض بزرگان دین نے خراسان کے ایک قصبہ چشت میں رشد و ہدایت کا ایک سلسلہ شروع کیا٬ جو دور دور تک پھیلتا چلا گیا٬ یہ خانقاہی نظام طریقہ سلسلہ چشتیہ کے نام سے موسوم ہوا٬

بیرونی روابط[ترمیم]

(جاری ہے)