وفد بلی
وفد بلی ربیع الاول 9ھ میں بارگاہ رسالت میں آیا
یہ قبیلہ قضاعہ کی ایک شاخ ہے اس وفد کے شیخ ابو ضیف(ابو الضباب) تھے یہ لوگ جب مدینہ منورہ پہنچے تو ابو رویفع بن ثابت البلوی جو پہلے ہی سے مسلمان ہو چکے تھے انہی کے گھرمحلہ بنی جدیلہ میں پہلے آئے جب وفد کو لے کر خدمت اقدس میں پہنچے۔ توانہوں نے اس وفد کا تعارف کراتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمیہ لوگ میری قوم کے افراد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم کو اور تمھاری قوم کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ پھرابو رویفع نے عرض کیا کہ یا رسولﷲ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ سب لوگ اسلام کا اقرار کرتے ہیں اور اپنی پوری قوم کے مسلمان ہونے کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو اسلام کی ہدایت دیتا ہے۔
اس وفد میں ایک بہت ہی بوڑھا آدمی بھی تھا۔ جس کا نام ابو ضیف تھا اس نے سوال کیا کہ یا رسول ﷲ ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ مجھے مہمانوں کی مہمان نوازی کا بہت زیادہ شوق ہے تو کیا اس مہمان نوازی کا مجھے کچھ ثواب بھی ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان ہونے کے بعد جس مہمان کی بھی مہمان نوازی کرو گے خواہ وہ امیر ہو یا فقیر تم ثواب کے حق دار ٹھہرو گے۔ پھر ابو ضیف نے یہ پوچھا کہ یا رسول ﷲ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مہمان کتنے دنوں تک مہمان نوازی کا حق دار ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن تک اس کے بعد وہ جو کھائے گا وہ صدقہ ہو گا۔
پھر ابو الضیف نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے گمشدہ بکری کا حکم پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تم اسے پکڑ لو گے یا بھیڑیا لے جائے گا، سائل نے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گمشدہ اونٹ ملے تو کیا حکم ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تمھارا اس کے ساتھ کیا تعلق؟[1]
یہ وفد تین دن کے بعد رخصت لے کر واپس روانہ ہوا وقت رخصت انھیں انعام دیا گیا جیسا کے اس سے پہلے بھی معمول تھا[2][3]