وفد ہمدان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وفد ہمدان میں غزوہ تبوک سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا یہ علاقہ یمن کے وہ لوگ تھے جو علی المرتضی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے رسول اللہ نے ایک تحریر لکھ کر جو کچھ انھوں نے مانگا تھا عطا فرما دیا اور مالک بن نمط کو ان کا امیر مقرر فرما دیا۔

اس سے پہلے ان لوگوں کے پاس اسلام کی دعوت کے لیے خالد بن ولید کو بھیجا وہ 6 ماہ رہے لیکن قبیلہ نے اسلام نہ قبول کیا پھر آپ نے علی المرتضی کو روانہ فرمایا جب آپ نے قبیلہ کو رسول اللہ کا خط سنایا اور اسام کی دعوت دی تو سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا جب انھوں نے رسول اللہ کو اسلام میں داخل ہونے کی خوشخبری لکھ کر بھیجی تو آپ خط پڑھتے ہی سجدہ میں گر گئے اور سر اٹھاتے ہی فرمایا ہمدان پر سلام ہو ہمدان پر سلام ہو[1]
الحاکم نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا آپ نے یمن والون کی طرف ایک کتاب لکھی جس میں فرائض، سنتوں اور نیتوں کا بیان تھا اور آپ نے یہ کتاب عمرو بن حزم کو دے کر بھیجا اور انھوں نے یمن والوں پر اس (کتاب) کو پڑھا اور اس کا متن یہ ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف سے شرحبیل بن عبد کلان، حرث بن عبد کلان یغنم بن عبد کلان قبیلہ زی رعین اور معافر اور ہمدان کی طرف اما بعد تمھاری طرف پیغام رساں آیا ہے اور تم غنیمتوں میں سے ہمیں دو (یعنی پانچواں حصہ) اور جو اللہ تعالیٰ نے مومنین پر فرض کیا ہے دسواں حصہ اس زمین میں جس کو بارش یا سیلاب کا پانی سیراب کرے یا جو جوہڑ وغیرہ سے سیراب ہو یا جب اس کی پیداوار پانچ وسق تک پہنچ جائے۔ رہٹ یا ڈول سے جو زمین سیراب ہو اس میں بیسواں حصہ ہے جب پانچ وسق کو پہنچ جائے۔ جنگل میں چرنے والے ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے یہاں تک کہ چوبیس تک پہنچ جائیں جب چوبیس پر ایک زیادہ ہو جائے تو اس میں ایک بنت مخاض یعنی ایک سال والی اونٹنی جو دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو (دینی ہوگی) اگر بنت مخاض نہ ہو تو مذکر ابن لبون دینا ہوگا یہاں تک کہ پینتیس تک پہنچ جائیں جب پینتیس پر ایک بھی زیادہ ہو جائے تو پینتالیس تک ایک ابن لبون ہے یعنی دو برس والا اونٹ دینا ہوگا اگر پینتالیس پر ایک بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں دو ابن لبون ہیں یعنی تین برس والے اونٹ جو مادہ پر چڑھنے کے قابل ہو ساٹھ تک یہی حساب رہے گا گو ایک بھی زیادہ ہو جائے تو پچھتر تک ایک جزعہ یعنی پانچ برس والا اونٹ دینا ہوگا، اگر ایک بھی زیادہ ہو جائے تو اس میں نوے تک دو برس والے دو اونٹ دینے ہوں گے اگر ایک بھی اس سے زیادہ ہو جائے تو اس میں سے ایک سو بیس تک تین برس والے جوان اونٹ دینے ہوں گے جو مادہ پر چڑھنے کے قابل ہو اگر ایک سو بیس پر زائد ہو جائے تو ہر چالیس میں دو برس والی اونٹنی ہوگی اور ہر پچاس میں تین برس والا اونٹ ہوگا۔ ہر تیس گایوں میں بچھڑا یا بچھڑی جو دوسرے سال میں داخل ہو چکی ہو اور ہر چالیس گایوں میں ایک گائے اور ہر چالیس جنگل میں چرنے والی بکریوں میں ایک بکری ہوگی۔ ایک سو بیس تک یہی حساب رہے گا۔ ایک سو بیس پر اگر ایک بھی زائد ہو جائے تو اس میں تین سو تک تین بکریاں ہوں گی، اگر اس سے زیادہ ہوجائیں تو ہر سو میں ایک بکری ہوگی بوڑھی اور کمزور اور عیب دار بکری زکوٰۃ میں نہیں لی جائیں گے اور نہ بکریوں کا نر لیا جائے گا، ہاں اگر مالک دینے پر راضی ہو تو لے لیا جائے گا اور متفرق بکریوں کو صدقہ کے خوف سے اکٹھا نہیں کیا جائے گا اور جو مال ایک جگہ اکٹھا ہو وہ جدا جدا نہیں کیا جائے گا اور زکوٰۃ کے خوف سے دو شریکوں سے جو بطور زکوٰۃ لیا جائے وہ اپنے اپنے حصہ کے مطابق ایک دوسرے سے لے لیں گے۔ اور پانچ اوقیہ چاندی میں پانچ درہم ہیں اگر اس سے زائد ہو تو ہر چالیس درہم میں ایک درہم ہے اور پانچ اوقیہ سے کم میں کوئی چیز نہیں اور ہر چالیس دینار میں ایک دینار ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آپ کے اہل بیت کے لیے زکوٰۃ حلال نہیں کیونکہ زکوٰۃ لوگوں کے نفسوں کو پاک کرتی ہے اور یہ مؤمن فقراء کے لیے، اللہ کے راستہ میں جانے والوں کے لیے، مسافر کے لیے ہے۔ اور غلام اور کھیتی پر اور کھیتی کی پیداوار پر زکوٰۃ نہیں ہے جب کہ اس کا عشر ادا کیا گیا ہو اور نہیں ہے زکوٰۃ مسلمان غلام میں اور نہ اس کے گھوڑے میں۔

راوی نے کہا اور کتاب میں یہ بھی تھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے، کسی مومن کو ناحق قتل کرنا جنگ کے دن اللہ کے راستہ سے بھاگ جانا والدین کی نافرمانی کرنا، پاک دامن عورت پر تہمت لگانا، جادو سیکھنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا اور عمرہ چھوٹا حج ہے، قرآن مجید میں کو صرف پاکیزہ آدمی ہاتھ لگائے، ملکیت سے پہلے کوئی طلاق نہیں، خریدنے سے پہلے کوئی آزاد کرنا نہیں اور کوئی تم میں سے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جبکہ اس کی ایک طرف ظاہر ہو اور کوئی تم میں سے اس حال میں نماز نہ پڑھے کہ اس کے بالوں کا جوڑا بندھا ہوا ہو اور ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے اس حال میں کہ اس کے کندھوں پر کوئی چیز نہ ہو۔ اور کتاب میں یہ بھی تھا جب کوئی کسی مسلمان کو ناحق مار ڈالے تو اس سے قصاص لیا جائے گا، مگر یہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہوجائیں (تو پھر قصاص نہ ہوگا) کسی جان کو مار ڈالنے کی دیت سو اونٹ ہے جب پوری ناک کاٹ دی جائے تو کامل دیت دینا ہوگی، زبان کے کاٹنے میں پوری دیت ہے ہونٹوں کے کاٹنے میں پوری دیت ہے اور دونوں خصیتین میں پوری دیت ہے اور ذکر کو کاٹ دینے میں پوری دیت ہے، اگر کمر توڑ دی جائے تو اس میں پوری دیت ہے، آنکھیں پھوڑنے میں پوری دیت ہے پاؤں میں آدھی دیت ہے۔ سر کا زخم جو بھیجے کی جھلی تک پہنچ جائے اس میں تہائی دیت ہے اور وہ زخم جو ہڈی کو توڑ دے یا اپنی جگہ سے ہٹا دے اس میں پندرہ اونٹ ہیں، ہاتھ اور پاؤں کی ہر انگلی میں دس اونٹ ہیں ایک دانت میں پانچ اونٹ ہیں اور وہ زخم جو ہڈی تک پہنچ کر اس کی سفیدی کو کھول دے اس میں بھی پانچ اونٹ ہیں اور عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جائے گا اور سونے والوں پر ہزار دینار دیت ہے۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الرحیق المختوم، صفحہ604، صفی الرحمن مبارکپوری مکتبہ سلفیہ لاہور
  2. تفسیر در منثور، جلال الدین سیوطی، البقرہ 267