وفد اسید بن ابی اناس
اسید بن ابی ایاس 8ھ فتح مکہ کے موقع پربارگاہ رسالت میں آئے
ساریہ بن زنیم جن کو عمر فاروق نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے منبر سے پکاراتھا اوروہ نہاوند میں تھے اسید بن ابی ایاس انہی کے بھتیجے ہیں یہ شاعرتھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجو میں اشعار کہا کرتے تھے۔ فتح مکہ کے دن بھاگ کر طائف چلے گئے تھے۔ یہ ان اشتہاری مجرموں میں سے تھے جن کے بارے میں یہ فرمان نبوی تھا کہ یہ جہاں اورجس حال میں ملیں قتل کردیے جائیں۔ اتفاق سے ساریہ بن زنیم کا طائف میں گزرہوا جب ملاقات ہوئی تو آپ نے اسید بن ابی ایاس کو بتایا کہ اگر تم بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلو تو تمہاری جان بچ جائے گی ۔
اسید بن ابی ایاس یہ سن کر طائف سے اپنے مکان پر آئے اورکرتا پہن کر اورعمامہ باندھ کر خدمت اقدس میں حاضر ہو گئے اور عرض کیا کہ کیا آپ نے اسید بن ابی ایاس کا خون مباح فرمادیا ہے؟آپ نے فرمایا کہ ہاں !انہوں نے عرض کیا کہ اگر وہ مسلمان ہوکر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو جائے تو کیا آپ اس کا قصور معاف فرمادیں گے؟ ارشادہوا کہ ہاں!یہ سن کر انہوں نے اپنا ہاتھ حضوراکرم علیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے دست اقدس میں دے کر کلمہ پڑھا اورعرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ وسلماسید بن ابی ایاس میں ہی ہوں۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فوراً ہی ایک آدمی کو بھیج کر اعلان کرادیا کہ اسید بن ابی ایاس مسلمان ہو گئے ہیں اورسرکاررسالت نے ان کو امن کا پروانہ عطا فرمادیا ہے۔ پھر انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا۔[1][2]