وفد عدی بن حاتم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وفد عدی بن حاتم شعبان 10ھ میں بارگاہ رسالت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا
وفد عدی بن حاتم کے آنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی المرتضی کو بلاد طے کی طرف ایک سریہ کا سردار بنا کر بھیجا جب وہاں شبخون مارا گیا تو عدی بن حاتم کی بہن اور حاتم طائی کی بیٹی بھی دوسرے قیدیوں کے ساتھ قید ہو کرخطیرہ(جہاں قیدی رکھے جاتے تھے) میں لائی گئی۔ عدی بن حاتم اس سے پہلے بھاگ کر شام میں بنو قضاعہ میں چلے گئے جہاں ان کے ہم مذہب نصاریٰ موجود تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس خطیرہ کے پاس سے گذرے تو حاتم طائی کی بیٹی نے رو کر کہا" میرا والد(حاتم طائی) فوت ہو گیاجو سرپرست(عدی بن حاتم) تھا وہ بھاگ گیا مجھ پر احسان فرمائیں اللہ آپ پر احسان کریگا" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے اسے بغیر فدیہ کے رہا کر دیا جبکہ اسے امید نہ تھی اور ساتھ ہی اس کے بھائی کے پاس پہنچانے کا بندوبست بھی کر دیا۔ جب دونوں بہن بھائی ملے تو مشورہ کیا کہ اس شخص(رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے ملوں یا خانہ بدوشی کی زندگی گزار دوں ان کی بہن نے کہا اس سے ملیں وہ بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔
وہ اپنی قوم کے وفد کے ساتھ مدینہ میں مسجد نبوی میں پہنچ گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں بہت عزت دی اپنے گھر لے گئے خود زمین پر بیٹھے انھیں گدے پر بٹھایا چند باتوں کے بعد جب انھیں یقین ہو گیا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ساری قوم کے ساتھ اسلام کو قبول کیا [1]
عدی بن حاتم سے مروی کہ میں " عقرب " نامی مقام پر تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شہسوار ہم تک آپہنچے انھوں نے میری پھوپھی اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا جب وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس پہنچے تو انھیں ایک صف میں کھڑا کر دیا گیا میری پھوپھی نے کہا یا رسول اللہ ! رونے والے دور چلے گئے اور بچے بچھڑ گئے میں بہت بوڑھی ہو چکی ہوں کسی قسم کی خدمت بھی نہیں کرسکتی اس لیے مجھ پر مہربانی فرمائیے اللہ آپ پر مہربانی کرے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا تمھیں کون لایا ہے؟ انھوں نے بتایا عدی بن حاتم، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگا پھر رہا ہے اس نے کہا پھر بھی آپ مجھ پر مہربانی فرمائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم واپس جانے لگے تو ان کے پہلو میں ایک آدمی تھا جو غالباً علی المرتضیٰ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ان سے سواری کا جانور مانگ لو، میں نے ان سے درخو است کی تو انھوں نے میرے لیے اس کا حکم دے دیا۔ تھوڑی دیربعدعدی ان کے پاس گئے تو وہ کہنے لگیں کہ تم نے ایساکام کیا جو تمھارے باپ نے نہیں کیا تم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس شوق سے جاؤیاخوف سے (لیکن جاؤ ضرور) کیونکہ فلاں آدمی ان کے پاس گیا تھا تو اسے بھی کچھ مل گیا اور فلاں آدمی بھی گیا تھا اور اسے بھی کچھ مل گیا چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں ایک عورت اور کچھ بچے بیٹھے ہوئے تھے اور انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کے قریب ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھ گیا کہ یہ قیصروکسریٰ جیسے بادشاہ نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا اے عدی! لا الہ الا اللہ کہنے سے تمھیں کون سی چیز راہ فرار پر مجبور کرتی ہے؟ کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟ تمھیں " اللہ اکبر " کہنے سے کون سی چیزراہ فرار پر مجبور کرتی ہے؟ کیا اللہ سے بڑی بھی کوئی چیز ہے؟ اس پر میں نے اسلام قبول کر لیا اور میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے کھل اٹھا اور فرمایا جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا وہ یہودی ہیں اور جو گمراہ ہوئے وہ مسیحی ہیں۔ پھر لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کچھ مانگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کی حمدوثناء سے فارغ ہو کر " امابعد " کہہ کر فرمایا لوگو! زائد چیزیں اکٹھی کرو چنانچہ کسی نے ایک صاع کسی نے نصف صاع کسی نے ایک مٹھی اور کسی نے آدھی مٹھی دی، پھر فرمایا تم لوگ اللہ سے ملنے والے ہو، اس وقت ایک کہنے والا وہی کہے گا جو میں کہہ رہاہوں کہ کیا میں نے تمھیں سننے اور دیکھنے والا نہیں بنایا تھا؟ کیا میں نے تمھیں مال اور اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ تم نے آگے کیا بھیجا؟ وہ اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھے گا لیکن کچھ نہیں ملے گا اور اپنی ذات کے علاوہ کسی چیز کے ذریعے آگ سے نہیں بچ سکے گا اس لیے تم جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجورکے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے ہو اگر وہ بھی نہ ملے تو نرمی سے بات کرکے بچومجھے تم پر فقروفاقہ کا اندیشہ نہیں ہے اللہ تمھاری مددضرور کرے گا اور تمھیں ضرورمال ودولت دے گا یا اتنی فتوحات ہوں گی کہ ایک عورت حیرہ اور مدینہ کے درمیان اکیلی سفر کر لیا کرے گی حالانکہ عورت کے پاس سے چوری ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔[2]
بن حذیفہ کہتے ہیں کہ مجھے عدی بن حاتم کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی میں نے سوچاکہ وہ کوفہ میں آئے ہوئے ہیں میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر راہ راست ان سے اس کا سماع کرتا ہوں چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی ہے لیکن میں اسے خود آپ سے سننا چاہتا ہوں انھوں نے فرمایا بہت اچھاجب مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اظہار نبوت کی خبرملی تو مجھے اس پر بڑی ناگواری ہوئی میں اپنے علاقے سے نکل کر روم کے ایک کنارے پہنچا اور قیصرکے پاس چلا گیا لیکن وہاں پہنچ کر مجھے اس سے زیادہ شدیدناگواری ہوئی جو بعثت نبوت کی اطلاع ملنے پر ہوئی تھی، میں نے سوچاکہ میں اس شخص کے پاس جاکر تو دیکھوں اگر وہ جھوٹا ہو تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اگر سچا ہوا تو مجھے معلوم ہو جائے گا۔ چنانچہ میں واپس آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں پہنچا تو لوگوں نے " عدی بن حاتم، عدی بن حاتم " کہنا شروع کر دیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے پاس پہنچا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عدی! اسلام قبول کرلو سلامتی پاجاؤگے تین مرتبہ یہ جملہ دہرایا میں نے عرض کیا کہ میں تو پہلے سے ایک دین پر قائم ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں تم سے زیادہ تمھارے دین کو جانتاہوں میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ سے زیادہ میرے دین کو جانتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہاں ! کیا تم " رکوسیہ " میں سے نہیں ہو جو اپنی قوم کا چوتھائی مال غنیمت کھاجاتے ہیں؟ میں نے کہا کیوں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا حالانکہ یہ تمھارے دین میں حلال نہیں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے آگے جو بات فرمائی میں اس کے آگے جھک گیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے فرمایا میں جانتاہوں کہ تمھیں اسلام قبول کرنے میں کون سی چیز مانع لگ رہی ہے تم یہ سمجھتے ہو کہ اس دین کے پیروکارکمزور اور بے مایہ لوگ ہیں جنہیں عرب نے دھتکاردیا ہے یہ بتاؤ کہ تم شہرحیرہ کو جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ دیکھاتو نہیں ہے البتہ سناضرو رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اللہ اس دین کو مکمل کرکے رہے گا یہاں تک کہ ایک عورت حیرہ سے نکلے گی اور کسی محافظ کے بغیر بیت اللہ کا طواف کر آئے گی اور عنقریب کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہوں گے میں نے تعجب سے پوچھا کسریٰ بن ہرمز کے؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! کسریٰ بن ہرمزکے اور عنقریب اتنامال خرچ کیا جائے گا کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔ عدی فرماتے ہیں کہ واقعی اب ایک عورت حیرہ سے نکلتی ہے اور کسی محافظ کے بغیربیت اللہ کا طواف کر جاتی ہے اور کسریٰ بن ہرمزکے خزانوں کو فتح کرنے والوں میں تو میں خود بھی شامل تھا اور اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تیسری بات بھی وقوع پزیر ہو کر رہے گی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ ابن خلدون حصہ اول صفحہ 151 ،عبد الرحمن ابن خلدون،نفیس اکیڈمی کراچی۔2003
  2. مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 1179
  3. مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 1176