جمال وارثی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
جمالؔ وارثی
پیدائشسید عبد الشکور
1894
محلہ قاضی پورہ بہرائچ اتر پردیش بھارت
وفات1959ء
محلہ قاضی پورہبہرائچ،اتر پردیش بھارت
آخری آرام گاہاحاتہ شاہ نعیم اللہ بہرائچیبہرائچ،اتر پردیش بھارت
پیشہریاست نانپارہ میں ملازمت
زباناردو
قومیتبھارتی
نسلبھارتی
شہریتبرطانوی ہند (1947–1894)بھارتی(1959-1947)
تعلیممیٹرک
موضوعنعت ،غزل
اولادسید عبد المنان ،سید مسعود المنان ایڈوکیٹ

سید عبد الشکور تخلص جمال ؔ وارثی کی پیدائش 1894ءمیں علاقہ ادوھ کے شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر تھے۔

حالات[ترمیم]

ڈاکٹر عبرت بہرائچی نقوش رفتگاں میں آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ جمال صاحب مولانا وارث حسن صاحب کے مریدین میں تھے۔[1] جن کا مزار لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد پہ ہے۔ آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی۔ آپ کی شادی مرحوم سید کلیم احمد صاحب کی چھوٹی بہن سے ہوئی تھی۔ آپ کا مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔ جمال وارثی ریاست نانپارہ میں کافی وقت تک سربراہ کار کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دئے ۔[1] آزادی کے بعد آپ نے کچھ دنوں تک حضرت سیف اللہ شاہ سجادہ نشین خانکاہ بڑی تکیہ میں منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دی۔ آپ کے پسماندگان میں ایک بیٹے شہر بہرائچ کے مشہور وکیل سید مسعود المنان ایڈوکیٹ اور ایک بیٹی جو پاکستان میں بیاہی ہے بقید حیات ہے اس کے علاوہ آپ کے ایک صاحب زادے سید عبد المنان (شہر بہرائچ کے مشہور ہاکی کھلاڑی )اور تین بیٹوں کا انتقال ہو چکا ہے۔

ادبی خدمات[ترمیم]

جمال وارثی صاحب کے بارے میں عبرت بہرائچی لکھتے ہیں کہ جمال صاحب عوامی شاعر نہ تھے بلکہ ادبی نسیثت میں شرکت ضرور کرتے تھے۔ سخنوارنِ بہرائچ میں ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ علوم شعریہ کی بھی معلومات رکھتے تھے۔ اشعار پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ شہر کے معزز گھرانے سے جڑے ہونے کی وجہ سے عوام میں بھی مقبول تھے۔ کسی بھی نسیثت جب آپ موج میں ہوتے تو بڑے سے بڑے شاعر کی کمیوں کو نظر انداز نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی صلاحیات اور تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے اور اشعار کی خوبیوں اور کمیوں کو بتا دیتے تھے۔ شعرا کرام ان سے خائف و محتاط رہتے تھے۔[1] آپ کم گو مگر خوب گو تھے۔ شعر چھاں پھٹک کر کہتے تھے۔ ہمیشہ اچھا شعر کہنے کی کوشش کرتے تھے۔ ہمشہ شعر گوئی میں صفائی وستھرائی کا خیال رکھتے تھے۔ آپ کا کلام ژاژ خائی اور ہرزہ سرائی سے پاک رہتا تھا۔ آپ کے کلام کا قلمی نسخہ آپ کے چھوٹے فرزند شہر کے مشہور سینیر وکیل سید مسعود المنان کے پاس دو ڈائریوں کی شکل میں موجود ہے۔

وفات[ترمیم]

سید عبد الشکور جمالؔ وارثی کی وفات 1959ء میں شہر بہرائچ میں ہوئی اور تدفین احاطہ شاہ نعیم اللہ بہرائچی میں واقع خاندانی قبرستان میں شاہ نعیم اللہ بہرا ئچیصاحب کے قریب میں ہوئی۔

نمونہ کلام[ترمیم]

کوئی دولہا بنا آج کی رات ہے

کیسی دلکش فضا آج کی رات ہے[2]

ایک ہی قطرہ مجھے آج تو دیں دے غازیتشنہ لب بیٹھا ہوں در پر ترے دیں دے غازی
سیکڑوں پی گئے اور لاکھوں پئے جاتے ہیںاب نہ کر دیر اٹھا ہاتھ تو دے دے غازی[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ نقوش رفتگاں از عبرت بہرائچی
  2. ^ ا ب قلمی نسخہ جمال بہرائچی