مندرجات کا رخ کریں

ہندوستان میں شیعیت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(بھارت میں شیعیت سے رجوع مکرر)

ہندوستان میں مسلمان افغانستان، ایران اور بحر ہند کے راستے داخل ہوئے۔ آنے والوں کو دو بنیادی چیلنج درپیش تھے۔ اول یہ کہ اقلیت ہونے کے سبب مقامی ہندو اکثریت کے درمیان میں اپنا تشخص کیسے قائم رکھیں دوم یہ کہ خود مسلم سماج کے اندر سماجی، سیاسی، نسلی اور فرقہ وارانہ تضادات کو کیسے قابو میں رکھیں۔

تاریخ

[ترمیم]

ہندوستان میں شیعہ اسلام کی تاریخ کومختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ابتدائی دور

[ترمیم]

شیعہ اسلام کا برصغیر سے تعلق اسلام کے اوائل میں ہی پیدا ہو گیا تھا۔ چنانچہ اسلامی تاریخ میں حضرت علی کی اجازت سے حارث بن مرہ عبدی 656ء  (36 ہجری)  یا 658ء  (38 ہجری) کے آخر میں آنا اور فوجی کامیابیوں کی بدولت مکران قندابیل اور قیقان کے علاقوں تک چلے جانا، نیز 662ء  (42 ہجری) میں ان کا قتل مذکور ہے [1][2]۔ اسلام  کے ابتدائی سالوں میں عراق اور ایران شیعہ نشین علاقے بن چکے تھے، جبکہ حجاز اور شام میں کعب الاحبار کے طرز فکر کو رواج مل چکا تھا۔ 680ء میں یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کرنے کے بعد امام حسین نے تین ماہ مکہ میں ٹھہر کر مصر سے آذربائیجان اور شام سے یمن تک پھیلی امت مسلمہ تک اپنا پیغام پہنچایا تو صرف کوفہ کے لوگوں نے ہی آپ کا ساتھ دینے کی ہامی بھری۔ اگرچہ بعد میں  باقی  تمام شہروں کے یزید کی جبری بیعت کو قبول کرنے کے بعد خود کو اکیلا پا کر اکثر کوفہ والے خوفزدہ ہو گئے لیکن کربلا کے شہدا میں اہل بیت کے شہدا کے بعد سب سے زیادہ تعداد کوفہ کے لوگوں کی ہی تھی۔ کربلا کے بعد ایران اور عراق کا علاقہ ہمیشہ بنی امیہ کی بادشاہت کے خلاف انقلاب کا مرکز بنا رہا، توابین اور ان کے بعد مختار نے"  یا لَثاراتِ الحسین" (اے خون حسین کا انتقام لینے والو!) کے نعرے کو مرکزی خیال بنا کر بنی امیہ کے خلاف قیام کیا۔ اس دور میں حضرت معاویہ کے زمانے کا شروع کردہ حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا رواج ابھی باقی تھا۔ چنانچہ تہذیب التہذیب میں آیا ہے کہ: "حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن عوف کو طلب کر کے ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے ان کو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علی پر سب و شتم کریں۔ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے۔ اس واقعے کے بعد وہ خراسان چلے گئے۔ وہ حدیث کے ثقہ راوی ہیں"۔[3]۔

736ء میں امام حسین کے پوتے زید بن علی نے بنی امیہ کے خلاف قیام کیا تو کوفہ کو ہی اپنا مرکز بنایا اور وہاں چار سال کے لیے حکومت بھی قائم کی۔ ان کے پیروکار زیدی کہلائے اور  یہاں سے زیدی شیعہ اور اثنا عشری شیعوں کا راستہ جدا ہوا۔  740ء   میں بنی امیہ کے ہاتھوں  زیدی حکومت کو شکست ہوئی اور کچھ مزید شیعہ ایران اور وادئ سندھ کی طرف  ہجرت کر گئے۔ 743ء  میں بنی عبّاس نے ایران کے صوبے خراسان سے ایک مرتبہ پھر  "  یا لَثاراتِ الحسین" کا نعرہ لگایا اور ابو مسلم خراسانی  نامی ایرانی شیعہ کی قیادت میں ایران اور عراق کے شیعوں   اور عجمی سنیوں کا لشکر بنا کر 750ء  میں بنی امیہ کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ بنی عبّاس  نے اقتدار اہل بیت کے نام پر حاصل کیا تھا  لیکن وہ  اپنی خاندانی بادشاہت کو برقرار کرنا چاہتے  تھے۔    اپنی مراد پوری ہو جانے کے بعد دوسرے عبّاسی خلیفہ  منصور نے 755ء  میں ابو مسلم خراسانی کو قتل کر کے اس کی لاش  دریائے دجلہ میں بہا دی۔768ء میں امام جعفر صادق کو زہر سے قتل کیا  گیا اور شیعوں میں ایک اور گروہ، اسماعیلیہ، نمودار ہوا۔ عباسی دور میں ہی سنی مکتب فکر کا باقاعدہ ظہور ہوا۔

ابن خلدون کے بقول خلیفہ منصور کے زمانے میں سندھ کا عامل عمر بن حفص تشیع کی جانب میلان رکھتا تھا۔ محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبد اللہ اشتر، جن کو کراچی میں عبد اللہ شاہ غازی کے نام سے جانا جاتا ہے،400 افراد پر مشتمل زیدیوں کی ایک جماعت کے ساتھ اس کے پاس آئے تو اس نے انھیں خاصے احترام سے نوازا۔ حاکم عباسی منصور کو جب اس کی خبر پہنچی تو اس نے ہشام بن عمر ثعلبی کو ان کے قلع قمع کرنے کے لیے سندھ روانہ کیا جہاں ہشام کے بھائی اور ان کے درمیان میں قتال ہوا جس کے نتیجے میں عبد اللہ شاہ غازی شہید ہوئے اور ان کے ساتھی  اس علاقے میں بکھرگئے[4] ذہبی اور ابو الفرج اصفہانی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے[5] طبری نے یہ واقعات 768ء (151 ہجری) میں نقل کیے ہیں[6]۔ان واقعات کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ 768 ء میں یا اس کے آس پاس زیدیوں کی موجودگی شیعیت کے رواج کا باعث بنی۔

جب نویں اور دسویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مبلغین اور صوفیوں کی آمد کا سلسلہ بڑھنا شروع ہوا تب تک سنیوں کے چار فقہی مکاتب ( حنفی، حنبلی، مالکی، شافعی ) تشکیل پا چکے تھے اور اہلِ تشیع تین شاخوں ( زیدی، اثنا عشری، اسماعیلی) میں بٹ چکے تھے۔ شیعوں میں چھٹے امام جعفر صادق کے مرتب کردہ فقہ جعفریہ کے اثنا عشری پیروکار زیادہ تھے۔ نویں صدی عیسوی کے آخر(893ء )    میں یمن کے شمال میں زیدی شیعوں کی حکومت قائم ہوئی جو مختلف نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے 1962ء  میں گیارہ سو سال   بعد ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوئی۔   اس حکومت کے ہوتے ہوئے زیدی شیعوں کی  وادئ سندھ کی طرف ہجرت رک گئی۔

دسویں صدی عیسوی میں ایران اور عراق میں اثناء عشری شیعہ  خاندان آل بویہ  (934ء –1062ء )اور مصر، شام اور حجاز  میں  اسماعیلی شیعہ فاطمیوں ( 909ء –1171ء )کی حکومت قائم ہوئی  ۔  یوں حضرت علی کے دور حکومت  کے بعد پہلی مرتبہ شیعوں کو اجتماعی اور علمی فعالیت کے لیے آزاد فضا میسر آئ ۔ آل بویہ کی حکومت کم و بیش سو سال تک قائم رہی اور اس دوران میں بو علی سینا ، فارابی، البیرونی  اور ابن الہیثم  جیسے  سائنس دان اور فلسفی پیدا  ہوئے۔  اس دوران میں اثنا عشری  شیعہ مسلک کو  ایران اور عراق جبکہ اسماعیلی شیعہ مسلک کو شام اور مصر  اور وادئ سندھ  میں فروغ ملا۔ بو علی  سینا نے اپنی معروف کتابیں " الشفاء" اور "القانون"  اور  دسیوں مقالے اسی دوران میں  لکھے۔شیخ صدوق نے شیعہ مسلک کی ا ہم کتب تصنیف کیں جن میں بنیادی عقائدکی کتاب "رسالہ اعتقادیہ" سرفہرست ہے[7]۔بو علی سینا نے اپنی کتب میں شیعہ عقیدۂ امامت کے فلسفے کو بھی واضح کیا۔ ابن الہیثم کی "کتاب المناظر"بھی آل بویہ کی علم پروری کا ایک پھل ہے، جس کی پہلی اشاعت کے ہزار سال مکمل ہونے پر 2015 ء کو  اقوام متحدہ نے روشنی پر تحقیق کا سال قرار دیا تھا ۔    اسی عرصے میں اسماعیلی شیعہ  مبلغین ملتان تک پھیل گئے چنانچہ دسویں صدی کے وسط میں وہاں اسماعیلی قرامطہ حکومت قائم ہوئی جو مصر کی فاطمی حکومت سے ملحق تھی۔   مصر میں فاطمیوں نے جامعہ الزہرا کے نام سے اسلامی دنیا کی پہلی یونیورسٹی قائم کی جس کو آج کل جامعہ الازہر کہا جاتا ہے۔ انہی دو شیعہ حکومتوں کے  ادوار میں عزاداری  اور تعزیہ کے جلوسوں کو فروغ حاصل ہوا۔

گیارہویں صدی کے شروع میں محمود غزنوی  نے ایران پر حملہ کر کے رے کو آل بویہ سے چھین لیا  اور شیعوں کا قتل عام کیا۔ اس دوران میں بہت سے شیعہ وادئ سندھ کی طرف ہجرت کے گئے۔  محمود غزنوی نے   شیعہ سائنس دانوں کو زبردستی اپنے لشکر کا حصہ بنایا چنانچہ البیرونی نے زمین کا قطر ماپنے کے لیے شروع کی گئی تحقیق کو پوٹھوہار کے قصبے پنڈ دادن خان کے قریب مقام پر پایۂ تکمیل تک پہنچایا جبکہ  وہ بادشاہ محمود  غزنوی کی حملہ آور فوج میں طبیب کے طور پر  شامل کیے گئے تھے۔انہی حملوں کے دوران میں البیرونی نے معروف "کتاب الہند" بھی لکھی۔   محمود غزنوی کے دو حملوں میں ملتان سے سیہون تک پھیلی قرامطہ حکومت ختم ہو گئی[8]۔ ان حملوں میں ملتان کی اسماعیلی آبادی کا قتلِ عام ہوا۔ قرامطہ حکمران ابوفتح داؤد کو قیدی بنایا گیا۔ ملتان کے شہریوں سے لگ بھگ دو کروڑ دینار تاوان وصول کیا گیا اور بچے کچھے اسماعیلی بالائی پنجاب اور زیریں سندھ کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے جن میں سونا ، ہیرے اوردیگر قیمتی سرمایہ لوٹا تاکہ افغانوں کو خرید کر لشکر بنا سکے۔   دوسری طرف 1060ء    میں سلجوقیوں نے عراق پر حملہ کر کے آل بویہ کی حکومت کا مکمل خاتمہ کر دیا اورشیعوں کا قتل عام ہوا ۔  گیارہویں صدی عیسوی  کے آخری سالوں میں ہی معروف  ایرانی سنی عالم امام غزالی نے  "تہافۃ الفلاسفۃ" نامی کتاب  لکھی اورعقلی و تجربی علوم  کے کفر کا فتویٰ دیا  جس کے نتیجے میں آنے والی کئی صدیوں تک  سائنس دان   اور فلسفی قتل ہوتے رہے۔ فلسفے کے اٹھائے گئے  بنیادی سوالات پر تحقیق نہ کرنے کی بدولت سائنسی ترقی کے دروازے بند ہو گئے۔  محمود غزنوی کے بعد قرامطہ حکومت پھرمختصر عرصے کے لیے قائم ہوئی تاہم بارہویں صدی میں شہاب الدین غوری نے اس کا مستقل خاتمہ کر دیا اور بعد ازاں صوبہ ملتان دہلی سلطنت کا حصہ بن گیا۔گیارہویں صدی عیسوی میں ہی مصر اور شام کی فاطمی سلطنت داخلی شکست و ریخت  زوال کا شکار ہو گئی تھی اور اسماعیلی  بھی اہل سنت کی طرح متعدد فرقوں میں بٹ گئے تھے۔  اس دوران موقع غنیمت جان کر یورپ سے فلسطین پر  صلیبی حملوں کا آغاز ہو گیا اور دوسری طرف ترکوں نے شام پر حملے شروع کیے۔  با الاخر  بارہویں صدی عیسوی میں صلاح الدین ایوبی نامی ایک سنی وزیر نے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ صلاح الدین ایوبی نے عباسی خلافت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور  داخلی استحکام پیدا کرنے کے بعد صلیبی حملہ آوروں کو شکست دی۔ البتہ یہاں سے مصر اور شام کے شیعوں  سے امتیازی سلوک کے طویل سلسلے کا آغاز ہو گیا  جو ترکوں کی خلافت عثمانیہ کے زوال تک جاری رہا۔ اس کے نتیجے میں  شیعہ لبنان اور شام کے پہاڑی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور کچھ ہجرت کر کے ہندوستان چلے آ ئے۔

تیرہویں صدی عیسوی میں  اسلامی دنیا پر چنگیز خان کے حملوں کے نتیجے میں کچھ شیعہ وادئ سندھ کی طرف اور کچھ  ایران میں شہروں سے دور قائم اسماعیلی قلعوں میں چلے گئے۔ وہاں انھوں نے  چنگیز کے خلاف تو کامیاب مزاحمت کی البتہ چنگیز کے بیٹے ہلاکو خان نے اسماعیلی مزاحمت کو شکست سے دوچار کیا۔ منگول بھی محمود غزنوی  اور غوری کی طرح لٹیرے تھے۔ ماضی میں  منگولوں نے  چین کی فتح کے بعد وہاں کے  سائنس دانوں کے علم سے  بہت فائدہ اٹھایا تھا اس لیے انھوں نے شیعہ علما کو  قتل کرنے کی بجائے یرغمال بنا لیا۔ ان علما میں  خواجہ نصیر الدین طوسی  (1201ء –1274ء)سب سے اہم تھے۔ انھوں نے منگولوں میں اثر و رسوخ پیدا کر کے  ایک بڑی رصد گاہ اور کتب خانہ تعمیر کرایا۔ انھوں نے جغرافیہ، فلسفہ، فلکیات ، منطق، اخلاق اور ریاضی پر بیش قیمت کتابیں لکھیں۔   خواجہ نصیر الدین طوسی کی  وجہ سے ہی شیعہ تہذیب کے آثار مکمل تباہی سے بچ گئے۔  آپ کی علمی عظمت سے متاثر ہو کر ہلاکو خان کے بیٹے تکودار نے اسلام قبول کر لیا۔  افغانستان اور پاکستان میں مقیم ہزارہ شیعہ انہی منگول شیعوں کی نسل سے ہیں ۔  آپ کے شاگرد علامہ حلی نے شیعہ فقہ میں انقلابی نظریات پیش کیے۔ ان کے دور میں ایران  و عراق میں شیعیت کو مزید فروغ ملا، اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے معروف سلفی عالم شیخ ابن تیمیہ نے شیعوں کے خلاف ایک  کتاب "منہاج السنۃ "لکھی۔

چودہویں صدی عیسوی میں  سید علی ہمدانی اور  شمس الدین عراقی اور ان کے پیروکاروں نے کشمیر میں قدم رکھا اورمقامی ہندو آبادی میں اثنا عشری شیعہ اسلام کی تبلیغ شروع کی۔  1528ء   میں بلتستان اور کشمیر میں چک سلطنت قائم ہوئی جس نے ہزاروں ہندوؤں کو شیعہ اسلام میں داخل کیا۔یہ لوگ نوربخشی صوفی سلسلے کے پیروکار تھے،  ان میں سے اکثر  بعد میں اصولی شیعہ بن گئے۔  ایک ترک جنگجو سردار مرزا حیدر دگلت نے پندرہ سو چالیس میں کشمیر پر حملہ کیا اور شیعہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ مرزا دگلت کی واپسی کے بعد چک خاندان کا اقتدار پھر سے بحال ہو گیا۔ 1586ء  میں مغلوں کے ہاتھوں  چک سلطنت کے زوال کے بعد کشمیر یوں کو سنی کرنے کی مہم چلائی گئی جس کی وجہ سے آج شمالی علاقہ جات  میں  صرف کارگل ،  بلتستان اور گلگت ہی وہ علاقے ہیں جہاں شیعہ اکثریت ہے۔

جنوبی ہندوستان میں شیعیت

[ترمیم]

1347ء   میں جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں پہلی شیعہ سلطنت قائم ہوئی جس نے شیعہ علما کو  ہندوستان کی طرف دعوت دی۔  دکن  میں شیعہ اقتدار  کسی نہ کسی شکل میں 1687 ء   تک قائم رہا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب  عالمگیر کے ہاتھوں  اس کے زوال کے اسی سال بعد  جنوبی ہندوستان میں  1765ء میں  میسور کے ہندو راجا کے شیعہ سپاہ سالار حیدر علی نے بغاوت کر کے  سلطنت خداداد   میسور قائم کی جو انگریزوں کے ساتھ مسلسل جنگوں کے نتیجے میں  1799ء میں  فتح علی ٹیپو کی شکست کے ساتھ ختم ہو گئی۔انگریز دور میں  حیدرآباد میں نظام کی ریاست میں بھی شیعوں کو امن وآزادی کاماحول میسر رہا۔1947 ء   میں قیام پاکستان اوربعد میں ریاست حیدرآباد کے بھارت میں انضمام کے بعد   جنوبی ہندوستان کے بہت سے شیعہ وادئ سندھ کی طرف ہجرت کر  کے آ گئے۔جنوبی ہندوستان میں شیعہ سنی تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔

مغلیہ دور

[ترمیم]

سولہویں صدی عیسوی کا آغاز ایران میں صفوی سلطنت(1501ء  –1736ء)  کے قیام سے ہوا ۔ صفوی اس زمانے کے باقی بادشاہوں کی طرح ظالم حکمران تھے۔اس سلطنت نے آل بویہ  کی حکومت اور فاطمی سلطنت کے برعکس شیعہ اسلام کے پھیلاؤ میں سنی حکمرانوں کی طرح جبر کا سہارا لیا۔ اسی دوران میں ایران  دوبارہ شیعہ اکثریتی ملک میں تبدیل ہو گیا۔ لبنان ، شام اور حجاز میں سینکڑوں سالوں سے سنی بادشاہوں کے جبر کا شکار رہنے والے شیعہ علما  کو  ایران کی طرف ہجرت  کی دعوت دی گئی  اور ایران دوبارہ علم و فلسفے کا مرکز بن گیا۔ ملا صدرا، میر داماد، شیخ بہائی، میر فندرسکی اور ملا محسن فیض کاشانی جیسے علما پیدا ہوئے اور امام غزالی کے فتوے کا اثر کم ہونے لگا۔  البتہ اس وقت تک یورپ  نے امریکا دریافت کر لیا تھا اور دولت کے بل بوتے پر افریقہ اور اسلامی دنیا پر قبضہ جما رہا تھا۔ایران عثمانی خلیفہ کے ساتھ پے در پے جنگوں اور صفوی بادشاہوں کی فرقہ وارانہ ذہنیت کی بدولت  یورپ کے مقابلے کے لیے اسلامی دنیا کی کوئی مدد نہ کر سکا۔ سولہویں صدی عیسوی میں پنجاب میں شیعہ اسلام تیزی سے پھیلا۔ اس سلسلے میں نمایاں ترین کردار ملتان کے  سید جمال الدین یوسف شاہ گردیزی اور اچ شریف کے سید جلال الدین حیدر نقوی کے  گدی نشینوں   اور جھنگ کے سید محب عالم شاہ جیونہ اور راجن پور کے سید محمد راجو شاہ بخاری نے ادا کیا۔ البتہ پنجاب میں شیعہ  انگریزوں کی آمد تک  ہمیشہ حکومتی عتاب کا شکار رہے، جس کی شدت میں کمی بیشی ہوتی رہی۔

بابر اور ہمایوں ایرانی صفوی بادشاہوں کے قریب ہونے کی وجہ سے شیعہ سنی تعصب سے پاک تھے۔ "تزک بابری" میں بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کے لیے وصیت کی تھی کہ[9]: ۔

٭ تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی رسوم کا خیال رکھتے ہوئے اور رعایت کے بغیر سب لوگوں کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔

٭ شیعہ سنی اختلافات کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہو، کیونکہ ان سے اسلام کمزور ہوجائے گا۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بابر سے لے کر شاہ جہاں تک مغلوں کا طرزِ حکومت کم و بیش اسی حکمت عملی کے محور پر رہا۔  جب اورنگ زیب نے اس  حکمت عملی سے روگردانی کی تو نتیجہ شورش اور ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں نکلا۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلیہ اقتدار تیزی سے مٹتا چلا گیا۔ شروع شروع میں اکبر کا مذہبی رویہ خاصا سخت گیر رہا۔ اس نے بااثر عالم شیخ عبدالنبی کے مشورے پر حضرت امیر خسرو کے پہلو میں دفن ایک شیعہ عالم میر مرتضی شیرازی کی قبر اکھڑوا دی۔ اکبر کے زمانے میں بعض سنی  علما کی سفارش پر متعدد شیعہ رہنما قتل بھی ہوئے، جن میں لاہور کے ملا احمد ٹھٹھوی  خاص طور پر قابل ذکر ہیں[10]۔بعد ازاں یہی اکبر مذہبی و فرقہ وارانہ لحاظ سے غیر جانبدار ہو گیا، چنانچہ اسی دور میں ہمیں شاہ حسین، گرو نانک اور بھگت کبیر ملتے ہیں۔ اکبر دور میں ایک شیعہ عالم قاضی نور اللہ شوستری  نے ہر فقہ کے ماننے والے کے لیے اس کی فقہ کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے سبب بادشاہ کا اعتماد حاصل کر لیا۔اکبر نے نور اللہ شوستری صاحب کوقاضی القضاۃ   کا درجہ دیا۔  اس زمانے میں سنی علما میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی  نمایاں  علمی شخصیت تھے جن کو اکبر کے دربار میں عزت و احترام حاصل تھا۔   شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب "تکمیل الایمان"[11] اہل سنت کے بنیادی عقائد کے لیے دستاویز  کی حیثیت رکھتی ہے۔   دوسری طرف   شیخ احمد سرہندی جیسے متعصب علما اکبر کے  حکیمانہ طرز حکومت سے خوش نہیں تھے اور اپنی تسکین کے مواقع تلاش کرتے رہتے تھے۔ ان علما نے اکبر پر اپنی پرستش کروانے کا الزام عائد کیا اور کفر کے فتوے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔اس کے بعد سے  اب تک کفر اور نکاح  ٹوٹنے کے فتوے ایسے لوگوں کے ہاتھوں اتنی مرتبہ جاری ہوئے ہیں کہ ایک مذاق بن چکے ہیں۔اکبر کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی نے شیعوں کے خلاف  "رسالہ  ردِ روافض "نامی ایک کتاب لکھی جس کا جواب قاضی نور اللہ شوستری نے 1605ء میں "احقاق  الحق " لکھ  کر  دیا [12]۔ اس سے شیخ احمد سرہندی کی دشمنی دو آتشہ ہو گئی۔ اسی زمانے میں ایک اور شیعہ عالم میر یوسف علی استر  آبادی  اخباری روش  کے پیروتھے۔اخباری  شیعہ  بدلتے زمانے کے تقاضوں کے مطابق آیات و احادیث  کی روشنی میں عقل کے استعمال سے اجتہاد  کرنے والی اصولی روش کے خلاف تھے۔قاضی نور اللہ شوستری ؒنے شیعوں میں تنگ نظری  اور جمود کی اس لہر کے خلاف بھی کام کیا اور میر یوسف علی استر آبادی   کی الجھنوں کا جواب "رسالہ اسئلۃ یوسفیہ"  کے عنوان سے  کتاب لکھ کر دیا۔ اخباری دراصل شیعہ سلفی تھے، مگر شیعہ کتب میں عقل کے حق میں ملنے والی احادیث اور زمانے کے بدلتے تقاضوں کی بدولت یہ گروہ ختم ہو گیا۔ اکبر کی وفات کے بعد شیخ احمد سرہندی کے مطالبے پر جہانگیر نے قاضی نور اللہ شوستری کو کوڑے لگانے کی سزا سنائی جس کے نتیجے میں ستر سال کی عمر میں انکا انتقال ہو گیا[13]۔ اپنے والد کے برعکس شاہجہاں نے شیعوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں برتا البتہ اورنگزیب نے اپنے بھائی داراشکوہ اور دکن کی شیعہ ریاست کے خلاف لشکر کشی کے لیے شیعہ سنی نفرت کو کامیابی سے استعمال کیا۔ اسی زمانے میں  مرحوم شیخ احمد سرہندی  کے شاگردوں کو سرکاری سرپرستی میسر آئ اورشیخ احمدسرہندی کومجددالف ثانی کہاجانے لگا۔ اس خطرناک حکمت عملی نے معاشرے پر جو اثرات چھوڑے ان کا اندازہ اس واقعے سے ہو جاتا ہے کہ1707ء میں اورنگزیب کی وفات کی خبر سن کر لاہور میں مشتعل افراد نے شیعہ امام بارگاہوں اور مساجد کو آگ لگا دی [14]۔ اورنگزیب کے زمانے میں  تینتیس جلدوں پر مشتمل جو مجموعہ بعنوان  "فتاویِ عالمگیری" مرتب کیا گیا اس میں شیعہ عقیدے کو گمراہانہ بتایا گیا ۔ اورنگ زیب ہی کے دور میں تعزیے اور ماتمی جلوس پر پابندی لگانے کی کوشش بھی  ہوئی۔

شمالی ہند پر اورنگزیب عالمگیر کی حکومت کے زمانے میں  وادئ کرم میں افغانستان سے  طوری شیعہ قبائل کی آمد ہوئی جن کی تبلیغ کی وجہ سے بہت سے مقامی  بنگش اور اورکزئی پختون شیعہ اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ بہادری اور سوجھ بوجھ کے اعتبار سے پختون شیعہ  وادئ سندھ کے شیعوں میں سب سے آگے رہے ہیں۔  1717ء میں بنگال میں ایک نومسلم شیعہ نواب مرشدقلی خان کی حکومت قائم ہوئی جس نے حاجی شفیع اصفہانی نامی شیعہ تاجر کے ہاتھ اسلام قبول کیا تھا۔ اس دوران میں دہلی کی مغل حکومت کمزور ہو چکی تھی لہٰذا بنگال کے نواب اگرچہ کہنے کو مغل سلطنت کے ماتحت تھے لیکن امور حکومت کو چلانے میں مکمل آزاد تھے۔ مرشد قلی خان کے خاندان کی حکومت 1740ء میں ایک اور شیعہ نواب علی وردی خانافشار کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ افشار سلطنت کا خاتمہ 1757ء کی جنگ پلاسی میں انگریزوں کے ہاتھوں نواب سراج الدولہ کی شکست سے ہوا۔ اس دوران میں بنگال میں شیعہ اسلام متعارف ہوا اور قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی تقریباً پانچ فیصد آبادی ا س مسلک سے تعلق رکھتی تھی۔ بنگال میں شیعہ سنی تعلقات مثالی رہے ہیں، البتہ 2015ء میں شیعوں پر بنگالی داعش نے دو حملے کیے[15][16]-

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے  شیعہ سنی نفرتوں کو کم کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز  دہلوی نے 1790ء میں شیعہ اعتقادات کے خلاف "تحفۃ اثنا عشریۃ"  نامی کتاب لکھی۔اس طرح  برصغیر میں شیعہ مخالف کتب لکھنے کے سلسلے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اس کے جواب میں شیعہ علما میں سے علامہ سید محمد قلی موسوی نے "الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ"،   آیت اللہ میر سید حامد حسین نے "عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار"[17] اور علامہ سید محمّد کمال دہلوی نے" نزھۃ اثنا عشریۃ"[18] کے عنوان سے کتابیں لکھیں ۔ ریاست جھاجھڑ کے راجا نے علامہ سید  محمّد کمال دہلوی کو  بطور طبیب علاج کروانے کے بہانے سے  بلوایا اور دھوکے سے زہر پلا  کر قتل کر دیا۔

تالپور سلطنت

[ترمیم]

1783ء  میں سندھ میں بلوچ شیعہ سردار میر فتح علی شاہ تالپور نے تالپور سلطنت کوقائم کیا،  جس نے مرہٹوں اور سکھوں کے خلاف کامیابی سے سندھ کا دفاع کیا۔ میر خاندان نے  متعدد مساجد اور امام بارگاہیں قائم کیں۔  یہ سلطنت 1843 ء   میں انگریزوں کے  ساتھ پے در پے جنگوں  کے  نتیجے میں ختم ہو گئی ۔ البتہ خیرپور کے میر علی مراد انگریزوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کے نتیجے میں ایک چھوٹی سی ریاست بچانے میں کامیاب ہو گئے جس کو 1953ء  میں باقی ریاستوں کی طرح پاکستان میں ضم کر لیا گیا۔سندھ  میں پختہ صوفی روایات کی وجہ سے شیعہ سنی تعلقات مثالی رہے ہیں ۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور سچل سرمست نے  عزاداری کے لیے مرثیے بھی لکھے۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں سندھ میں دیوبندی مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے مذہبی دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے اور پیپلز پارٹی جیسی مضبوط جماعت بھی کالعدم گروہوں سے تعاون کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔

سلطنتِ اودھ

[ترمیم]

دہلی کی مغلیہ سلطنت  کی شکست و ریخت کے دوران میں جو نیم آزاد اور خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں ان میں سے ایک ریاست اودھ (1722ء تا 1857ء)بھی تھی۔ اودھ کی ریاست بھی سلطنت دہلی کی بالادستی تسلیم کرتی تھی اور اس کے کئی حکمران مغل بادشاہ  کے عہدے دار تھے۔ آصف الدولہ کے زمانے (1775ء تا 1797ء)  میں ایران  و عراق سے اصولی شیعہ علما کی آمد ہوئی جنھوں نے لکھنؤ میں علمی مرکز قائم کیا۔ آصف الدولہ کے وزیرِ اعظم حسن رضا خان نے نہ صرف شیعہ علما کی خصوصی سرپرستی کی بلکہ عراق میں نجف اور کربلا کی دیکھ بھال کے لیے بھی اودھی خزانے سے لگ بھگ دس لاکھ روپے سالانہ بجھوائے جانے لگے جبکہ پانچ لاکھ کے صرفے سے دریائے فرات سے نہرِ ہندی نکلوائی گئی جس نے نجف تا کربلا کا علاقہ سرسبز کر دیا۔ 1818ء سے 1821ء کے دوران میں سید احمد بریلوی نے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد کی تبدیلی کی مہم چلائی، وہ لکھنؤ  اور اودھ بھی گئے۔ وہ ان مہمات کے دوران مقامی صوفی مسلک کے اہلسنت اوراہل تشیع کے عقائد پر تندوتیز تنقید کیا کرتے تھے[19][20]۔ جس پر سلطنت اودھ کی حکومت نے کوئی روک نہ لگائی۔ چنانچہ لکھنؤ میں شیعہ مجتہد علامہ سید دلدار علی نقوی  نے ان سے   ایک مناظرہ بھی کیا۔  اس قسم کے بین المسالک مکالمے مسلمانوں کی تہذیبی زندگی کا خاصہ رہے ہیں۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف مزاحمت کاحصہ بننے کی وجہ سے اس سلطنت کا خاتمہ ہو گیا[21]۔

سکھ دور

[ترمیم]

پنجاب میں سکھوں کے پچاس سالہ دور (1799 ء  – 1849 ء  )میں تمام مسلمانوں بشمول شیعوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے مجالس اور عزاداری کا سلسلہ بھی متاثر ہوا  تھا البتہ وقت کے ساتھ ساتھ اس انتقام کی شدت میں کمی آتی گئی تھی  جس کی ایک وجہ شیعوں کی جانب سے عزاداری پر پابندی کی کوشش کے خلاف مزاحمت تھی۔ اس زمانے میں پیر سید لال شاہ ؒنے پنجاب بھر میں  عزاداری کی بقا کے لیے جدوجہد کی ۔  آگے چل کر لاہور کے شیعہ  فقیر خاندان اور  جھنگ کے شاہ جیونہ  خاندان نے سکھ حکومت میں اثر و رسوخ پیدا کر لیا۔

انگریز دور

[ترمیم]

انگریزوں کی طرف سے بنگال میں مغلوں کے شیعہ گورنر، سلطنت اودھ اور تالپور سلطنت کا خاتمہ شیعیت کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ علامہ  سید محمد باقر دہلوی سمیت متعدد شیعہ علما  1857 ء کی جنگ آزادی میں کردار ادا کرنے کی وجہ سے توپوں کے آگے باندھ کر شہید کر دیے گئے۔  1849 ء  میں سکھ سلطنت کے زوال میں پنجاب کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا اور اس کے آٹھ سال بعد ہونے والی جنگ آزادی میں بھی پنجاب پر سکون رہا تھا۔  اس وجہ سے پنجاب میں مسلمانوں کو انگریز حکومت کی طرف سے نوازا گیا ۔ اس طرح پنجاب میں پہلی بار شیعوں کو حکومتی  مداخلت  سے نجات ملی اور انھوں نے آزادی سے اپنی رسومات بجا لانا شروع کیں۔پنجاب بھر میں متعدد امامبارگاہوں کا قیام عمل میں آیا۔ اس دوران میں افغانستان سے نواب علی رضا خان قزلباش نے لاہور کی طرف ہجرت کی اور  موچی دروازہ لاہور میں علامہ سید ابو القاسم الحائری کی زیر سرپرستی ایک شیعہ مدرسہ قائم کیا۔اسی دوران میں لاہور میں عزاداری کو عروج  ملا۔ قزلباش خاندان نے پشاور میں بھی عزاداری کو فروغ دیا۔

انگریز دور میں شیعہ سنی کشیدگی زیادہ تر زبانی حد تک ہی رہی، نیز حکومت نے امن و امان کی غرض سے  غیر جانبداری کا رویہ اپنائے رکھا ۔ دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے مغربی تعلیم یافتہ سیاسی رہنماؤں نے بھی اس مسئلے کو اپنی سیاست اور انا کا محور بنانے سے گریز کیا۔ اس دور میں کانگریس اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست دانوں، عام لوگوں اور بڑے علما کی زیادہ توجہ انگریزی اقتدار کے خلاف بڑی لڑائی پر ہی مرکوز رہی۔ البتہ انگریز دور میں شمالی ہند میں مدرسہ دیوبند کا قیام عمل میں آیا جس نے شیعہ سنی اختلافات کی بنیاد پر  عام مسلمانوں میں کشیدگی  کا آغاز کیا ۔ پنجاب کے قصبے قادیان میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت ، مہدویت اور مسیح موعود ہونے کا دعوا کیا۔لاہور کے  شیعہ عالم سید علی الحائری نے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعاوی کے خلاف متعدد رسالے تصنیف کیے۔   وادئ کرم کے شیعوں نے چالیس سال انگریزوں کے حملوں کے خلاف کامیاب مزاحمت کی البتہ 1893 ء  میں افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن  کی شیعہ نسل کشی کی مہم کی وجہ سے  ہندوستان سے الحاق کر لیا اور کرم ملیشیا کا قیام عمل میں آیا۔ اسی دوران میں افغانستان کے کچھ ہزارہ شیعہ کوئٹہ آ گئے۔ انگریز دور میں ہی لکھنؤ میں فسادات ہوئے جن کے اثرات پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ ان اہم واقعات کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔

تحریک آزادی میں شیعوں کا کردار

[ترمیم]

یوں تو تحریک آزادی میں سبھی اہل تشیع نے حصہ لیا لیکن کچھ شخصیات ایسی ہیں جن کے بغیر آزادی کی تاریخ نامکمل رہتی ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح جنہیں قائد اعظم اور بابائے قوم کے لقب سے نوازا گیا،25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ کے اسماعیلی شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بعد میں آپ نے اثنا عشری مکتب کو قبول کیا[22][23][24]۔ دوسری اہم ترین شخصیت راجا امیر حسن خان آف ریاست محمود آباد(جس کی آمدنی کا اندازہ ان دنوں ماہانہ 40لاکھ روپیہ تھا) کی بھر پور مالی مدد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند امیر احمد خان راجا بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سنہ 1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس اوربعدکی رابطہ عوام مہم کا خرچہ راجا صاحب نے اٹھایا۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس کے صدر رہے نیز اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ مرزا ابو الحسن اصفہانی بھی مسلم لیگ کے سرگرم رہنما تھے۔ حبیب بینک والے سیٹھ محمد علی نے بھی متعدد موقعوں پر تحریک آزادی کی مالی مدد کی 1948ء میں نو زائیدہ ریاست کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے 80 ملین روپے کا چیک محمد علی جناح کو دیا۔ پی آیٔ اے کی بنیاد رکھنے والے مرزا احمد اصفہانی ہو؛ مسلم کمرشل بینک کے بانی سر آدم جی؛ راجا غضنفر علی خان ؛ نواب فتح علی خان قزلباش؛ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی اور چودھری رحمت علی تک شیعہ رہنماؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی طرح خواتین میں سے فاطمۂ جناح مادر ملت، ملکۂ اوَدھ، صغریٰ بیگم،لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پرآزادی کا لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمۂ صغریٰ کے اسما قابل ذکر ہیں۔

شمالی ہندوستان میں شیعہ دشمنی

[ترمیم]

شیعہ ثقافت پر تنقید میں تیزی

[ترمیم]

وادئ سندھ میں مسلمان عوام کو صرف ایک قسم کی مذہبی ثقافت میں ڈھالنے کی کوشش سب سے پہلے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے کی[25] ۔ 1818ء سے 1821ء کے دوران میں سید احمد بریلوی نے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد کی تبدیلی کی مہم چلائی، وہاں زیادہ کامیابی نہ ملی تو 1826ء میں وہ پختون علاقوں میں سخت گیر مذہبی حکومت بنانے پہنچ گئے۔ان دو حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش،اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی محرومیوں کو سکھوں کے خلاف استعمال کر نے کے لیے سید احمد بریلوی اورشاہ اسماعیل دہلوی کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں لشکر سازی کی مکمل آزادی دی[26][27]۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کی طالبانی  حکومت سے اکتائے ہوئے مسلمانوں اور سکھوں کے اشتراک عمل کے نتیجے میں بالاکوٹ کے مقام پر ان کے قتل کے بعد ان حضرات کی تحریک کا دوبارہ ظہور 30 مئی 1867ء میں دار العلوم دیوبند کے قیام کی شکل میں ہوا۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد  گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ :۔

"محرم میں ذکر شہادت حسین کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو یا سبیل لگانا ،شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے"[28]۔   اسی دوران میں مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے بھی عزاداری پر شرک کا فتویٰ لگایا اور شیعوں کو اسلام کے آنگن میں پڑی نجاست قرار دیا [29][30]۔   علامہ سید علی الحائری نے "وسیلۃ  المبتلا"،"تبصرۃ العقلا"، "مہدی موعود" اور "مسیح موعود" کے عنوان سے مختصر  اردو کتابچے اور ایک چار جلدوں پر مشتمل فارسی  کتاب"غایۃ المقصود" لکھ کر مرزا غلام احمد قادیانی کو جواب دیا۔  دوسری طرف شیعہ علما نے متعدد مناظرے کیے جس کے نتیجے میں شیعہ مکتب فکر کو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچا نے  اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موقع ملا اور اس طرح شمالی ہند میں شیعیت کو  مزید فروغ حاصل ہوا۔    اس سلسلے میں علامہ سید محمد باقر چکڑالوی کا نام خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔عزاداری پر سب سے پہلا حملہ مولانا قاسم نانوتوی کی قیادت میں دار العلوم دیوبند کے طلبہ نے کیا۔ دیوبند قصبے کے رہائشی اہل سنت محرم میں یاد کربلا مناتے تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے طلبہ کا جتھہ بنا کر دیوبند کے رہائشی اہل سنت کو دہشت زدہ کیا اور کربلاکی یاد منانے سے روک دیا[31]۔

پختون علاقوں میں منظم شیعہ کشی

[ترمیم]

دیوبند مکتب کی اس سوچ کاپہلا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اورانکو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس  کے نتیجے میں افغانستان کے ہزارہ قبیلے کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی [32]۔ امیر عبد الرحمن خان نے اپنی  حکومت کا نظام چلانے کے لیے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنھوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔  یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے   کوئٹہ میں آ گئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوا۔  کرم ایجنسی کے شیعہ قبائل  افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کارروائیوں کے خوف سے ہندوستان کی انگریز حکومت سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کا بندوبست عمل میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قانون کی مساوات  اور بہتر انتظامی  اقدامات کی بدولت  اس سوچ کو قتل عام کا دائرہ وادی سندھ تک پھیلانے کا موقع نہ مل سکا۔ کرم ایجنسی کے بعد باقی قبائل نے بھی انگریز حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی عمل جس کاآغاز شیعہ دشمنی سے ہوا، نے مستقبل میں بننے والے ملک پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو متعین کیا۔ اس تاریخ کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاض بسرا سے لے کر ملک اسحاق اور داود بادینی تک جیسے تربیت یافتہ قاتلوں کو قندھار کے دیوبندی علاقوں میں پناہ ملتی رہی ہے۔

لکھنؤ میں اشتعال انگیزی

[ترمیم]

تفصیلی مضمون کے لیے ملاحظہ کریں: لکھنؤ کی عزاداری

1906ء میں لکھنؤ کے عزاداری کے جلوسوں  مقابلے میں دیوبندی علما  کی طرف سے مدح صحابہ کے نام سے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا[33]۔ ان جلوسوں کو نکالا تو صحابہ کے نام پر جاتا لیکن ان میں کربلا کے واقعے پر گفتگو  اور نعرے بازی ہوا کرتی جس میں بنی امیہ کی وکالت کی جاتی۔ عاشورا کے دن یہ سب کرنے سے شیعوں میں اشتعال پھیل گیا۔ انگریزحکومت نے فرقہ وارانہ فساد  کے خطرے کے پیش نظر ان  جلوسوں پر پابندی لگا دی۔ لکھنؤ  کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ شہر اس وقت ہندوستان میں شیعوں کا ثقافتی مرکز تھا۔ لکھنؤ میں اس اشتعال کے بعد فرقہ وارانہ لٹریچر چھپنے لگا، جو لکھنؤ تک محدود نہ رہا بلکہ وادی سندھ میں بھی آیا۔ 1920ء میں مرزا حیرت دہلوی نے "کتاب شہادت" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں حضرت علی و حسنین کی شان میں گستاخی اور ملوکیت بنی امیہ کی وکالت کی گئی تھی[34]۔ لکھنؤ شہر میں تو انگریز حکومت کے حسن انتظام اور قانون کے مساوی نفاذ نے قتل و غارت تک نوبت نہیں آنے دی، لیکن پنجاب اور پختون خواہ کے بعض علاقوں میں محرم کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1931ء میں دیوبندی عالم مولانا عبد الشکور لکھنؤی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ قائم کیا اور دوبارہ مدح "صحابہ" کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ اس اشتعال انگیزی کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب 1938ء میں اس جلوس کے رد عمل کے طور پر لکھنؤ کے شیعہ حضرات نے بنی امیہ پر تبرے کے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی آزادی کے تاریخی لمحات قریب آ چکے تھے اور یہاں مسلمان آپس میں لڑپڑے تھے۔ اکتوبر 1939ءکومولانا ابو الکلام آزاد کلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش  کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے[35] البتہ مولانا عبد الشکور لکھنؤی  پھر بھی صحابہ کے نام پر فتنہ انگیزی سے باز نہیں آ ئے اور نتیجتا حکومت کو اس سلسلے پر پابندی لگانا پڑی۔ مولانا عبد الشکور  1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو  گئے[36]۔

تحریک آزادی اور فرقہ وارانہ ذہنیت

[ترمیم]

1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں تنظیم اہل سنت  کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 26اکتوبر 1946ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو مسلم لیگ کے متوازیسیاسی جماعت تھی،کیونکہ دیوبندی علما محمد علی جناح کے جدید نظریات پر مبنی تصورپاکستان کو غلط سمجھتے تھے[37]۔ جب محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں ریاست کی نظر میں سب شہریوں کوبلا تفریق مذہب مساوی قرار دیا تو 1 ستمبر 1947ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ ان کی اس تقریر کی مخالفت پر مبنی تھا[38]، یوں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علما نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا اور مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیعوں کے لیے یہی سوچ رکھتے تھے[36]- لہٰذا قائد اعظم کی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئ تو حکومت نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا تاکہ بعد میں جنازہ پڑھنے والوں کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود "فتاویٰ مفتی محمود" میں شیعہ حضرات کا جنازہ نہ پڑھنے کے فتووں ذیل میں قائد اعظم کے شیعہ ہونے کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے[39]۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انھوں نے اپنے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا[40]۔ دوسری طرف دیوبندی علما مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی دیوبندی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا۔ لہٰذا قیام پاکستان سے بعد  ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے۔دیوبندی تنظیموں کو پاکستانی قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنے اور پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں ایک غیر سرکاری مسلح قوت کے طور پر جگہ بنانے کا موقع 1948ءکے کشمیر جہاد کے دوران ملا۔ البتہ پاکستان کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی کیونکہ جن دیوبندی قبائل کے لشکر پر انحصار کر کے کشمیر پر حملہ کیا گیا انھوں نے پیشہ وارانہ فوج کی طرح پیش قدمی کی بجائے بارہ مولہ کے مقام پر ہندوؤں کی لڑکیوں کو لونڈی بنانا اور ان کے گھر کے سامان کو لوٹنا شروع کیا۔ اس دوران میں ہندوستان کو سرینگر میں پیراشوٹ کی مدد سے فوج اتارنے اور ائیرپورٹ پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا جس نے ان قبائل کو پیچھے دھکیل کر وادئ سندھ کے دریاؤں کی شہ رگ پرقبضہ کر لیا۔ پاکستان میں شیعہ کشی کی پہلی واردات 1950 ء میں وادئ کرم پر دیوبندی قبائل کے حملے کی صورت میں ہوئی، جو 1948ء میں جہاد کشمیر کے نام پر اسلحہ اور مال غنیمت سمیٹ کر طاقتور ہو گئے تھے[35]۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. خلیفہ بن خیاط عصفری، تاریخ خلیفہ بن خیاط ص139 سن 36 ہجری کے واقعات کا آخر۔
  2. بلاذری ،فتوح البلدان، ج3 صص،531،530 فتوح السند کے ذیل میں دیکھیں۔ ذہبی ،تاریخ الاسلام بشار ج2 ص331۔ عاملی،اعیان الشیعہ، ج4 صص374/375
  3. حافظ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد ہفتم، 262
  4. تاريخ ابن خلدون - ابن خلدون - ج 3 - صص 198، 199۔
  5. ذہبی - تاريخ الإسلام - ج 9 ص 352 - - أبو الفرج الأصفہانی، مقاتل الطالبيين ص 207 – 208
  6. طبری ،تاريخ الطبری - ج 6 - ص 291
  7. https://books.shiatiger.com/2015/11/Aeteqadaat.html
  8. Daftary, "The Ismailis: their history and doctrines"، pp. 125, 180
  9. تزک بابری۔ اردو ترجمہ صفحہ 23
  10. Rizvi, "A Socio۔Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India"، Vol. I, pp. 178–80, 212.
  11. http://www.mohrasharif.com/index.php/al-qasim-library/islam-corner/teachings/329-takmil-al-iman
  12. https://books.shiatiger.com/2018/04/Ehqaq-ul-Haq.html
  13. Rizvi, ""A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India""، Vol. I, pp. 377–83.
  14. Rizvi, "A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India"، Vol. II, pp. 39–41.
  15. One killed and scores wounded in attack at Shia site in Bangladesh capital | World news | The Guardian
  16. https://www.aljazeera.com/news/2015/11/deadly-attack-shia-mosque-bangladesh-151126195219476.html
  17. http://www.alabaqat.com/download/
  18. https://archive.org/details/nuzha-isna-asharia-jild-1
  19. Rizvi, "Shah Abd al-Aziz"، pp. 478–9.
  20. Rizvi, ""A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India""، Vol. II, pp. 89، 305–7.
  21. Cole, Roots of North Indian Shi’ism, p. 271
  22. Abul Hassan Isphani, "Quaid-e-Azam Jinnah, as I Knew Him "، Forward Publications Trust Karachi (1967)۔
  23. کتاب "محمد بن قاسم سے محمد علی جناح تک" صفحہ 501، نفیس اکیڈمی، کراچی۔
  24. مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی، کتاب " کفایت المفتی"، جلد نہم، کتاب السیاسیات، فتاویٰ نمبر: 539، 538، 554، 555۔
  25. ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک" تاریخ پبلیکیشنز لاہور 2012
  26. مرزا حیرت دہلوی ،"حیات طیبہ"‘ مطبوعہ مکتبتہ الاسلام‘ ص 260 شاہ اسماعیل دہلوی کے الفاظ میں: "انگریزوں سے  جہاد کرنا کسی طرح واجب نہیں ایک تو ان کی رعیت ہیں دوسرے ہمارے مذہبی ارکان کے ادا کرنے میں وہ ذرا بھی دست اندازی نہیں کرتے۔ ہمیں ان کی حکومت میں ہر طرح کی آزادی ہے بلکہ ان پر کوئی حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ پر آنچ نہ آنے دیں"۔
  27. مقالات سرسید حصہ نہم 145-146
  28. فتاوٰی رشیدیہ ص 435مصنف :رشید احمد گنگوہی دیوبندی
  29. روحانی خزائن جلد 18، صفحہ 233 اور 423 تا 428
  30. روحانی خزائن جلد 19، صفحہ 193
  31. دار العلوم دیوبند اور ردِّشتوٹ
  32. Afghanistan: Who are the Hazaras? | Taliban | Al Jazeera
  33. https://www.tandfonline.com/doi/abs/10.1080/14736480701493088
  34. مرزا حیرت دہلوی، "کتاب شہادت"، کرزن پریس دہلی، (1920)۔
  35. ^ ا ب Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority"، Oxford University Press, (2015)۔
  36. ^ ا ب "جامعہ فاروقیہ کراچی ۔۔ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی"۔ 13 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2018 
  37. "قائد اعظم لکھنؤ تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے حکمت سے جواب دیا ’ چند سال پہلے میں حج کے لیے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہازایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور مسیحی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں؟ جب عرب کا ساحل قریب آیا ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا۔ اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے"۔ عبید الرحمن، ’یاد ہے سب ذرا ذرا ‘، صفحہ 49، طبع کراچی
  38. "میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہوں احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ تاہم علمائے دین اور مسلمان لیڈروں کی مشترکہ جہد و سعی سے مسلمان خواب غفلت سے بیدار ہوئے اور ایک نصب العین پر متفق ہو گئے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی تمام مساعی پاکستان کے دستور اساسی کی ترتیب پر صرف کریں اور اسلام کے عالمگیر اور فطری اصولوں کو سامنے رکھیں کیونکہ موجودہ مرض کا یہی ایک علاج ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو مغربی جمہوریت اپنی تمام برائیوں کے ساتھ چھا جائے گی اور اسلام کی بین الاقوامیت کی جگہ تباہ کن قوم پرستی چھا جائے گی" مولانا شبیر احمد عثمانی، 1 ستمبر 1947ء
  39. فتاویٰ مفتی محمود، جلد سوم، کتاب الجنائز، صفحہ 67
  40. قائد اعظم کی نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ”قائد اعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول قائد اعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔“