مندرجات کا رخ کریں

قلعہ اٹک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
قلعہ اٹک
Attock Fort
حصہ تاریخ پاکستان
اٹک، خطۂ پنجاب
قلعہ اٹک Attock Fort is located in پاکستان
قلعہ اٹک Attock Fort
قلعہ اٹک
Attock Fort
مقام کی معلومات
ویب سائٹwww.attockonians.com
مقام کی تاریخ
تعمیر1583ء (1583ء)
لڑائیاں/جنگیںجنگ اٹک

اٹک خورد (اٹک قدیم) کے مقام پر دریائے سندھ کے کنارے پر واقع قلعہ اٹک بنارس 1581ء میں مغل شہنشاہ اکبر نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ خواجہ شمس الدین خوافی کی زیر نگرانی تعمیر ہوا تھا۔

قلعہ اٹک بنارس کا سنگ بنياد

[ترمیم]

اکبر اعظم کو اس قلعہ کی تعمیر کا خیال اس وقت آیاجب و ہ اپنے سوتیلے بھائی مرزا حکیم (کابل کا گورنر جس نے پنجاب پر حملہ کر دیا تھا) کو شکست دینے کے بعد کابل سے واپس آ رہا تھا۔ اس وقت اکبر اعظم نے اس علاقہ کی دفاعی اہمیت کے پیش نظر قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اور 15 خوردار 26 سال جلوس بمطابق 30/مئی 1581ء کو قلعہ اٹک بنارس کی بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھی۔ اس واقع کو ابوالفضل نے اکبر نامہ میں اس طرح بیان کیا ہے:

’’مکنون ضمیر جہان آرا، آن بود کہ چون مرکب ہمایون بہ آن حدود رسد حصاری عالی عمارتی یابد۔ ودرین ولا آن جائیکہ دور بنیان گزیدہ بودند۔ پچشم حقیقت پژوہ پسندیدہ آمد۔ پانزدہم خورداربود، از گشتن دو پہر و دو گھڑی بدست مقدس بنیاد نہادہ۔ بدان نام اختصاص دادند چنانچہ در اقصای مشرقی ممالک قلعی ایست کہ نام آن کٹک بنارس۔ و بعہد اہتمام خواجہ شمس الدین خوافی(کہ درین نزدیکی از بنگالہ آمدہ بود) قرارگرفت۔ در اندک فرصتی بحسن انجام رسید۔ میان ولایت ہندوستان و کابلستان برزخ شگرف انتظام یافت و سرمایہ فرمان پذیری گردن کسان آن حدود شد۔ آرزو مندان مایہ را دستاویز روزی پدیدآمد و خواستہ داران رابضاعت اطمینان سر انجام یافت و جہان نوردان روزگاررا ایمنی روی داد‘‘[1]

اکبر اعظم نے اس قلعہ کا نام اپنی مملکت کے مشرقی حصہ میں واقع قلعہ کٹک بنارس کے نام پر اٹک بنارس رکھا۔ اٹک ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ہیں’’ دامن کوہ‘‘۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

[ترمیم]

ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم نے ڈسٹرکٹ بورڈ اٹک کے زیر اہتمام شائع ہونے والی ترقیاتی رپورٹ ’’تعمیر اٹک 1963ء‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ:

’’ایک دفعہ ڈاکٹر جہانگیر خاں نے مجھے بتایا کہ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے بنوایا تھا،، ’’ڈاکٹر(جہانگیر) صاحب مغلوں کی سرحدی سیاست پر کیمبرج میں ریسرچ کرتے رہے ہیں اور ان کی رائے بڑا وزن رکھتی ہے‘‘

معلوم نہیں کہ ڈاکٹر جہانگیر خاں صاحب نے کس بنا پر قلعہ اٹک کی تعمیر کے بارے میں یہ رائے قائم کی ورنہ اکبر نامہ کے تفصیلی بیان کے بعد تو یہ رائے محض گپ شپ بن کر رہ جاتی ہے اور پھر ڈاکٹر برق صاحب نے بھی تحقیق کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس گپ شپ کو تعمیر اٹک میں نقل کرنے کے ساتھ اس کو اس بنا پر وزنی بھی قرار دیدیا کہ ’’ ڈاکٹر جہانگیر صاحب کیمبرج میں مغلوں کی سرحدی ریاستوں پر تحقیق کرتے رہے ہیں۔‘‘

قلعہ اٹک کی تعمیر کے بعض مراحل

[ترمیم]

1986ء میں مجلس نوادرات علمیہ اٹک نے خواجہ محمد زاہد اٹکی کی ایک کتاب ’’قصہ مشائخ‘‘ جس کا سال تصنیف 1146ہجری ہے شائع کی۔ اس کتاب کی اشاعت سے قلعہ اٹک کی تعمیر کے بعض مراحل کی تفصیل سامنے آئی ہے۔ جس کے بارے میں دعویٰ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تفاصیل پہلی بار اس کتاب کے شائع ہونے پر سامنے آئی ہیں۔ قصہ مشائخ میں قلعہ اٹک کی تعمیر کے بارے میں جو بیان ہے اس کا فارسی متن حسب ذیل ہے:

’’دران عصر اکبر بادشاہ درین ملک آمدہ و فکر ساختن قلعہ و آبادی شہر کردہ و بنای یک برج قلعہ درمیان دریا کردند کہ ہر چہار طرف قلعہ وشہر، غنیم عظیم است۔ چنانچہ طرف شمال نہ صد ہزار نیزہ افغانان یوسف زئی سکو نت دارد و سمت غرب آن قلعہ، افغانان خٹک و طرف جنوبی افغانان بھنگی خیل و طرف مشرقی، افغانان سرکانی و متانی و ترین و غورغشتی وغیرہ اقوام سکونت دارند۔ از راہ دور اندیشی برج قلعہ را درمیان آپ بنای می کردند۔ یعنی از سبب غنیم قلعہ بندی شود، سکنای قلعہ محتاج آب نباشند و سوای آب دریا، آب چاہ درقلعہ ممکن نیست کہ برآید بسبب کوہ۔ و آن برج را در کنار دریا بنای می کردند۔ ہرچندتردد می کردند بنیاد آن برج قائم نمی ماند۔ زیرا کہ آنجادریا بہ شدت تمام جار ی ست۔ از جانب خود کارپردازان آنچہ وقوف استادگری می دانستندصرف کردند۔ آن جا برج درست کردہ نتوانستند و بدون ساختن برج کارتمام قلعہ ضائع و ابتر بود۔ فلابد حقیقت بہ ارض اقدس اعلیٰ اکبر بادشاہ ہندوستان رسانند۔ حضرت ظل سبحانی فرمودند کہ بدون معاونت اولیأ اللہ قائم شدن برج دشوار نماید۔ بعض ارکان دولت کہ واقف حقیقت شاہ صدرالدین و شاہ عیسیٰ شدہ بودند بہ عرض رساندند کہ شاہ صدرالدین و شاہ عیسیٰ دو بزرگوار در فلان دامن کوہ، بر فلان پشتہ سکونت دارند۔ حضرت ظل سبحانی فرمودند کہ آنہا را نزد من بیارید۔ آدمان بادشاہ برای طلب ایشان آمدند، شاہ صدرالدین فرمودند کہ شاہ عیسیٰ را در حضور بادشاہ ببرید کہ آنچہ مطالب عالیشان خواہد بود حق تعالٰی آسان خواہد کرد۔ حسب فرمودۂ شاہ صدرالدین، شاہ عیسیٰ بحضور بادشاہ رفتند۔ بادشاہ بسیار اعزاز و اکرام ایشان بجای آوردہ ایست۔ بعد ازان بادشاہ گفت کہ خواستہ ام کہ شہرو قلعہ دریں نواح آباد سازم و ہرچندخواہم کہ بنیاد برج در کنار دریا قائم شود، نمی شود۔ استاد کاران می سازند، آب شستہ می برد۔ امید(دارم) کہ دعا کنید تا آن جا برج قائم گردد۔ حضرت شاہ عیسیٰ بر آب دریا ررفتہ اند و فرمودند کہ: ’’ ای آب دریا۔۔۔ ! جای ساختن برج بگذار کہ مسلمانان تصدیع بسیار کشیدہ اند‘‘ و آن جا عصای خود استادہ کردہ اند۔ دریا از آن جا بر گشتہ است۔ و استاد کاران آنجا برج ساختہ اند۔ و آن وقت سن نہ صد و نود و یک ہجری بود، الحال سن یک ہزار یک صد و چہل وشش است، برج قلعہ بہ ہماں استحکام درمیان دریا ایستادہ است بلکہ از یمن دعای بزرگان آن چنان قوی و پر قوت ایستادہ است کہ گویا درین ولا ساختہ اند‘‘

ترجمہ: اس زمانہ مین اکبر بادشاہ اس علاقہ میں آیا اور یہاں قلعہ اور شہر تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور قلعہ کے ایک برج کی بنیاد دریا کے بیچوں بیچ رکھی کیونکہ قلعہ کے چاروں طرف بے شمار دشمن ہیں شمال میں نو لاکھ یوسف زئی افغان مغرب میں خٹک افغان جنوب میں بھنگی خیل افغان اور قلعہ کے مشرق میں سرکانی، متانی، ترین اور غور غشتی وغیرہ اقوام آباد ہیں۔ ازراہ دور اندیشی برج قلعہ کی بنیادیں دریا کے پانی سے اٹھائی گئیں تاکہ اگر دشمن کی وجہ سے قلعہ بند ہو نا پڑے تو ساکنان قلعہ کو پانی کی محتاجی نہ ہو کیونکہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے قلعہ میں سوائے دریا کے پانی کے کنویں کا پانی حاصل ہونا ممکن نہیں۔ ہر چند کوشش کی گئی لیکن برج قلعہ کی بنیاد دریا میں قائم نہ ہوئی اکبر اعظم کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا حضرت ظل سبحانی نے فرمایا کہ اولیاء ﷲ کی معاونت کے بغیر برج قائم ہونا مشکل ہے۔ بعض ارکان دولت جو حضرت شاہ صدرالدین اور شاہ عیسیٰ کی حقیقت حال سے واقف ہو چکے تھے انھوں نے عرض کیا فلاں فلاں دو بزرگ فلاں دامن کوہ میں ایک پشتہ پر رہتے ہیں۔ حضرت ظل سبحانی نے فرمایا ان کو میرے پاس لایا جائے۔ بادشاہ کے آدمی انھیں بلانے کے لیے آئے۔ شاہ صدرالدین نے فرمایا کہ شاہ عیسیٰ کو بادشاہ کے پاس لے جاؤ جو مقصد ہو گا حق تعالٰی پورا فرمائے گا۔ شاہ صدر الدین کے فرمان کے مطابق شاہ عیسیٰ بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے۔ بادشاہ آپ کے ساتھ نہایت اعزاز و اکرام سے پیش آیا اور تمام حالات بیان کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی۔ حضرت شاہ عیسیٰ دریا کے پانی میں گئے اور فرمایا کہ ’’ اے دریا کے پانی برج بنانے کی جگہ چھوڑ دے کہ مسلمانوں نے بہت صعوبتیں اٹھائی ہیں‘‘اور وہاں اپنا عصا مبارک گاڑ دیا۔ دریا اس جگہ سے ہٹ گیا اور کاریگروں نے برج تعمیر کیا اس وقت991ہجری تھی اور اب 1146 ہجری ہے قلعہ کا برج اسی استحکام سے دریا میں موجود ہے اور بزرگوں کی دعا کی برکت سے اس طرح مضبوط اور پر قوت ہے کہ گویا حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہو۔‘‘ (قصۂ مشائخ از خواجہ محمد زاہد اٹکی) قلعہ (اٹک بنارس) کی تعمیر کی یہ تفصیل پہلی بار منظر عام پر آئی ہے جس سے اس علاقہ کی اس مخصوص جغرافیائی صورت حال کا بھی تفصیل سے علم ہوتا ہے جو قلعہ کی تعمیر کا سبب بنی۔ قلعہ اٹک بنارس کی تعمیر سے یہ علاقہ صدیوں تک شمالی حملہ آوروں کی یلغار سے محفوظ ہو گیا اور ملک میں امن و امان قائم ہو گیا۔ قلعہ اٹک بنارس شہنشاہ اکبر اعظم نے خواجہ شمس الدین خوافی کی نگرانی میں دو سال(1581ء۔1583ئ) کے عرصہ میں تعمیر کرایا۔ خواجہ شمس الدین خوافی کے والد خواجہ علاؤ الدین خوافی ایران کے شہر خواف سے آئے تھے اور اپنی ذہانت اور کارگزاری کے باعث بہت جلد اکبر بادشاہ کے مقربین بارگاہ میں شامل ہو گئے تھے خواجہ شمس الدین خوافی نے مظفر خان صوبہ دار بنگال کی ماتحتی میں کا رہائے نمایاں سر انجام دیے ان کی بنا پر وہ اکبر کے مصاحبین خاص میں شامل ہو گئے تھے بنگال میں انھیں باغیوں نے گرفتار کر لیا تھا مگر کسی طرح جان بچا کر شہنشاہ کے پاس آ گئے۔ 1581ء میں شہنشاہ نے انھیں قلعہ اٹک بنارس کی تعمیر کی نگرانی پر ما مور کر دیا۔ خواجہ شمس الدین خوافی 1585ء کے آخر تک (تقریباً پانچ سال) اٹک میں مقیم رہے اسی زمانہ میں انھوں نے حسن ابدال کے مقام پر اپنے لیے ایک مقبرہ بھی تعمیر کروایا تھا لیکن یہاں پر دفن ہونا انھیں نصیب نہ ہوا۔ اس مقبرہ میں حکیم ابوالفتح گیلانی اور ان کے بھائی حکیم حمام مدفون ہوئے یہ مقبرہ اب مقبرہ حکیماں کے نام سے مشہور ہے۔ قلعہ اٹک بنارس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہی اکبر اعظم نے ہندوستان کے شہر بنارس سے بہت سے ملاح بلوا کر انھیں اٹک کے مقام پر آباد کیا اور اٹک کے مقام پر کشتیوں کا گھاٹ بنوایا۔ اٹک کے مقام پر ان ملاحوں کو جو بنارس سے بلوائے گئے تھے جاگیریں عطا کیں جن کی اولاد اب تک وہاں آباد ہے اور جاگیر کی مالک ہے ان ملاحوں کی بستی اب بھی ’’ ملاحی ٹولہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ (ڈسٹرکٹ گزیٹیئر اٹک 1930ئ) اکبر اعظم نے شہزادہ سلیم کو قلعہ اٹک کا قلع دار مقرر کیا انہی دنوں شہزادہ سلیم نے شراب نوشی کا آغاز کیا۔ جس کا حال اس کی اپنی زبانی کچھ یوں ہے۔ ’’جن دنوں والد بزرگوار کی فوج یوسف زئی افغانوں کی بغاوت و فساد کو مٹانے کے لیے دریائے نیلاب کے کنارے قلعہ اٹک میں مقیم تھی ایک دن میں گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کھیلنے گیا۔ شکار کے دوران زیادہ بھاگ دوڑ کی وجہ سے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار ظاہر ہوئے تو شاہ قلی نامی نادرہ روزگار تو پچی نے مجھے کہا کہ اگر ایک پیالہ شراب نوش جان فرما دیں تو ساری تھکن دور ہو جائے گی۔۔۔ محمود آبدار کو حکیم علی کے گھر جا کر شراب کیف ناک لانے کا حکم دیا۔۔۔ میں نے پی تو اس کا نشہ بہت ہی اچھا لگا۔ اس کے بعد میں نے شراب نوشی شروع کر دی اور روز بروز پینے کی مقدار میں اضافہ کرتا چلا گیا یہاں تک کہ انگوری شراب سے نشہ ہونا بند ہو گیا۔ پھر میں نے زیادہ تیز قسم کی شراب پینا شروع کر دی اس کی مقدار بھی رفتہ رفتہ بڑھ گئی‘‘ (تزک جہانگیری ترجمہ صفحہ 326) بعد میں اکبر اعظم نے قلعہ اٹک کی قلعہ داری کی ذمہ داری راجا مان سنگھ کو سونپ دی تھی۔ (یوسف زئی افغانوں کی تاریخ)

قلعہ اٹک دور جہانگیری ميں

[ترمیم]

شہنشاہ جہانگیر نے اپنے دور حکومت میں تین بار قلعہ اٹک میں وردو کیا۔ پہلی بار 1016ء ہجری میں کابل جاتے ہوئے۔ جس کا ذکر تزک جہانگیری میں یوں ہے’’17 محرم کو میں نے دریائے نیلاب کے کنارے قیام کیا یہاں پر میرے والد بزرگوار نے ایک قلعہ بنایا تھا۔ میں نے حکم دیا کہ ولایت کابل ایک بھاری لشکر کے بوجھ کو سنبھالنے کے قابل نہیں اس لیے میرے واپس اٹک آنے تک تمام لشکر یہاں قیام کرے۔‘‘ (تزک جہانگیریترجمہ صفحہ93) دوسری بار شہنشاہ جہانگیر نے کابل سے واپسی پر اس قلعہ میں قیام کیا جبکہ تیسری بار 1626ء میں دوبارہ کابل جاتے ہوئے بھی یہاں قیام کیا۔

مہابت خان کا قلعہ اٹک پر قبضہ

[ترمیم]

1626ء میں جب مہابت خان نے شہنشاہ جہانگیر کے خلاف بغاوت اور شہنشاہ کو گرفتار کر لیا تھا اس وقت آصف خان اور خواجہ ابو الحسن نے لشکر شاہی کے ساتھ دشمن پر حملہ کر دیالیکن راجپوتوں نے اس حملہ کو ناکام بنادیا۔ آصف خان نے یہ سوچتے ہوئے کہ وہ مہابت خان سے بچ نہیں سکے گا اپنے خدمت گزاروں سمیت قلعہ اٹک میں محصور ہو گیا اس دن مہابت خان نے آصف خان کو قید میں لے لیا اور قلعہ اپنے ملازمین کو دے دیا۔ کچھ عرصہ تک قلعہ مہابت خان کے قبضہ میں رہا بعد میں مہابت خان شاہجانی پناہ میں آ گیا تھا۔ ( شاہ جہاں نامہ ترجمہ جلد اول 81)

دور شاہجہانی

[ترمیم]

تخت نشینی کے بعد شاہجہان نے پانچ مرتبہ کابل کا سفر کیا اور ہر مرتبہ اٹک کے مقام سے ہوتا ہوا گذرا۔12/اکتوبر1647ء کو شاہجہان کا بل سے واپسی پر قلعہ اٹک میں فروکش ہوا اس کا احوال شاہ جہان نا مہ میں کچھ اس طرح ہے:

’’2/ اکتوبر 1647ء کو کشتیوں کے پل سے دریائے سندھ کو عبور کر کے اٹک کے قلعے میں رونق افروز ہوئے۔ اس تاریخ پر شاہزادۂ اقبالمند دارا شکوہ اپنے فرزند یعنی سلطان سلیمان شکوہ کو ہمراہ لیے استقبال کے بطور لاہور سے آکر حاضر خدمت ہوئے حضرت نے انھیں ایک قطعۂ الماس کہ وزن میں سو رتی اور ایک لاکھ روپے قیمت کا تھا عنایت فرمایا۔ عنتر گھوڑے کی نسل کا ایک راہوار جو پندرہ ہزار روپے میں خریدا گیا تھا طلائی زین سمیت مزید عطا ہوا۔ امام قلی خان کے اتالیق شکور بے کا پوتا عبد اللہ بیگ نصیب کی یاوری سے عبد العزیز خان کی ملازمت چھوڑ کر بارگاہ والا میں حاضر ہوا۔ شاہزادہ اورنگ زیب کی سفارش سے کورنش کا شرف حاصل کیا۔ حضرت نے اسے ہزاری ذات چار سو سوار کا منصب دیکر مرصع خنجر،نقرئی زین والا گھوڑا اور پندرہ ہزار روپے عطا فرمائے۔‘‘

(شاہ جہان نامہ جلد سوم صفحہ 478)

دور عالمیگری

[ترمیم]

شاہ جہان کے بعد دور عالمگیری میں اٹک کا قلعہ دار کامل خان تھا جو شمس آباد کے ایک مجذوب شاہ ربانہ بابا کا معتقد تھا۔ اس نے یوسف زئی افغانوں کے ساتھ موضع ہارون کے قریب ایک خونین معرکہ لڑا اس معرکہ میں اس قدر افغان قتل ہوئے کہ اٹک کے مقام پر سروں کا مینار تعمیر کیا گیااور کئی اونٹ سروں سے لاد کر کابل روانہ کیے گئے اس معرکہ کی تفصیلات مجلس نوادرات علمیہ اٹک کی شائع کردہ کتاب’’ قصہ مشائخ ‘‘ مصنفہ خواجہ محمد زاہد اٹکی، میں موجود ہیں۔ جو ’’مغلوں اور یوسف زئی افغانوں کا عظیم معرکہ‘‘ کے زیر عنوان فراہم کردی گئی ہیں۔

درانی عمل داری

[ترمیم]

1752ء میں قلعہ اٹک درانی عمل داری کے قبضہ میں آ گیا۔ درانی عملداری کے دوران عطا محمد خان اور اس کا بھائی جہانداد خان حکومت افغانستان کی جانب سے علی الترتیب کشمیر اور اٹک کے گورنر تھے۔ دونوں سرکشی پر مائل تھے۔ شاہ افغانستان محمود شاہ درانی کے وزیر فتح خان نے انھیں سزا دینا چاہی۔ جہانداد خان بظاہر مطیع بنا رہا۔ فتح خان نے پنجاب کے راستہ سے کشمیر پر حملہ کیا اور رنجیت سنگھ سے مدد طلب کی اور اس کے ساتھ معاہدہ کیا کہ کشمیر کے مال غنیمت میں سے تیسرا حصہ سکھوں کو دیا جائے گا۔ چنانچہ وزیر فتح خان اور پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کے درمیان 1813ء میں قلعہ رہتاس ضلع جہلم میں ایک معاہدہ ہوا جس کے ذریعہ رنجیت سنگھ نے کشمیر کی مہم سر کرنے کے لیے دیوان محکم چند کی سرکردگی میں بارہ ہزار سپاہی بطور امداد دی اور راجوری و پیر پنجال سے گزرتے وقت افغان فوج کو تمام سہولتیں پہنچانے کا وعدہ کیا۔ اس کے عوض اسے کشمیر کے مال غنیمت سے میں سے تیسرا حصہ دیا جانا طے ہوا۔ فروری 1813ء میں وزیر فتح خان نے کشمیرپر حملہ کیا۔ معاہدہ کے مطابق دیوان محکم چند کے زیر کمان بارہ ہزار کی فوج بھی ہمراہ تھی۔ سکھ اور افغان فوجیں جب پیر پنجال پہنچیں تو برف باری کی وجہ سے سکھ پیش قدمی نہ کر سکے اور افغان فوجوں نے آگے بڑھ کر کشمیر پر حملہ کر دیا۔ ایک زبردست جنگ کے بعد گورنر کشمیر عطاء محمدخان کو شکست ہوئی۔ عطاء محمدخان اور معزول شاہ کابل شاہ شجاع گرفتار کر لیے گئے۔ چونکہ سکھ فوج سے کوئی مدد حاصل نہ ہوئی تھی اس لیے اس کو مال غنیمت میں سے حصہ بھی نہ دیا گیا۔ رنجیت سنگھ نے یہی بات دل میں رکھی۔ ادھر جہانداد خان بھی بظاہر درانی حکومت کا مطیع تھا لیکن درپردہ اپنے بھائی عطامحمد کا ہمنوا تھا۔ اسے درانی حکومت کی جانب سے ایک طرح کا خوف بھی تھا کہ اس کے بھائی کی سرکوبی کے بعد ممکن ہے کہ اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہو۔

قلعہ اٹک کا سودا اور سکھ عمل داري

[ترمیم]

اسی وجہ سے جب رنجیت سنگھ نے جہانداد خان سے خفیہ سلسلہ جنبانی شروع کیا تو اس نے ایک لاکھ روپیہ کے عوض اٹک کا قلعہ رنجیت سنگھ کے حوالہ کر دیا اور اس پر سکھ قابض ہو گئے۔ وزیر فتح خان کی کامیابی اور اپنے بھائی عطاء محمد خان کی گرفتاری کی خبر سن کر سردار جہانداد خان پریشان ہو گیا اور اس نے سوچا کہ اس کے بھائی عطا محمد خان کے خلاف کارروائی کے بعد اب اس کی باری ہے۔ چنانچہ جب مہاراجا رنجیت سنگھ نے سلسلہ جنبانی شروع کیا اور بڑی جاگیر دینے کا وعدہ کیا تو جہانداد خان راضی ہو گیا اس نے رنجیت سنگھ کو پیغام بھیجا کہ قلعہ اٹک کا سودا کرنے اور قبضہ کرنے کے لیے اپنے نمائندے بھیجے رنجیت سنگھ نے فوری طور پر فقیرعزیزالدین کو قلعہ اٹک کا سودا کرنے اور قبضہ کرنے کے لیے بھیجا اور دیگر ا شخاص بھی اس علاقہ پر تسلط مضبوط بنانے کے لیے اس کے ساتھ کیے۔ منشی دیو داس، مت سنگھ بھرانیہ اور حکیم عزیزالدین سکھوں کی جانب سے اس ساز باز میں حصہ لیا اور جہانداد خان برادر عطا محمد خان کی جانب سے عبد الرحیم خان قلعہ دار سکھوں کی فوج کو قلعہ میں داخل ہونے دیا۔ قلعہ میں داخل ہونے والی سکھ فوج کی کمان دیا سنگھ کر رہا تھاجو اپنی فوج کے ہمراہ پہلے ہی کہیں قلعہ اٹک کے نواح میں موجود تھا۔ انگریز مؤ رخ مرے لکھتا ہے کہ کشمیر پر چڑھائی سے پہلے ہی رنجیت سنگھ اٹک کے حاکم سرداد جہاندادخان سے ساز باز کر رہاتھا۔ رہتاس میں وزیر فتح خان سے ملاقات کے بعد لاہور روانگی سے بیشتر رنجیت سنگھ نے اپنی فوج کا ایک دستہ دریائے سندھ کے آس پاس دیا سنگھ کی زیر کمان متعین کر دیا تھا۔ جس نے سازش مکمل ہونے پر قلعہ میں داخل ہو کر قلعہ کا قبضہ حاصل کیا۔ رنجیت سنگھ کی فوجوں کو قلعہ اٹک میں353510 من غلہ 439 من گولہ بارود 70 عدد بندوقیں اور 439 من کوہستانی نمک ملا۔ اس طرح گویا سکھوں نے اہم جنگی مقام کو بہت ہی سستے داموں حاصل کر لیا۔ رنجیت سنگھ کے دربار میں مرہٹوں کے کے پیشوا باجی رائو کا ایک نمائندہ رہتا تھا وہ دربار کے خاص خاص حالات اپنے پیشوا کو لکھ بھیجا کرتا تھا یہ خطوط فارسی میں لکھے گئے۔ ڈاکٹر شیر بہادر پنی نے اپنی کتاب تاریخ ہزارہ میں ان خطوط کا ترجمہ شائع کیا ہے۔ جس خط میں قلعہ اٹک کی اس فروخت کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے وہ یہ ہے۔ ’’مورخہ 11 /مارچ1813ء شاہی قلعہ لاہور۔ قاصدوں کی ایک جوڑی آئی اور وہ منشی دیوی داس، سردارمت سنگھ بھرانہ اور حکیم عزیزالدین خان کے خطوط لائے۔ ان میں انھوں نے تحریر کیا تھا کہ وہ اٹک کی جانب کی جانب روانہ ہو گئے ہیں اور وہاں پہنچنے پر انھوں نے دریا کے کنارے اور قلعہ کے نیچے اپنا کیمپ لگایا ہے۔ عبد الرحیم نے جو نواب عطا محمد خان کی طرف سے اس قلعہ کا قلعدار تھا۔ قلعہ ہمارے حوالے کر دیا ہے۔ اور ان کی فوج کے ساتھ شامل ہو کر ان کے کیمپ میں آ گیا ہے اور اس نے اعلیٰ سرکار کے قلعدار کو قلعہ پوری طرح قابض کروادیا ہے۔ وزیر فتح خان کو جب معلوم ہواتو وہ بہت بگڑا اور غاصبانہ کارروائی پر بہت واویلا کیا۔ اس نے قلعہ کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ رنجیت سنگھ نے کہا کہ جب تک کشمیر کے مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا قلعہ واپس نہیں کیا جا ئے گا۔ وزیر فتح خان کا مؤ قف یہ تھا کہ سکھوں نے فتح کشمیر کے موقع پر بزدلی کا مظاہرہ کیا ہے،اس لیے وہ حصہ کے حق دار نہیں ہیں۔ وزیر فتح خان نے جو ان دنوں کشمیر میں تھا۔ دیوان چند محکم کو طلب کیا اور کہا کہ مہاراجا نے دین دھرم درمیان میں لاکر معاہدہ کیا تھا اور اب یہ کیا دغابازی ہے۔ لیکن سکھوں نے قلعہ کی واپسی کو کشمیر کی جنگ میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کے حصہ کی ادائیگی سے مشروط کر دیا۔ انہی دنوں فتح خان کے وکیل گودر مل اور مہاراجا رنجیت سنگھ کے درمیان قلعہ اٹک کی واپسی کے لیے ملاقات بھی ہوئی مگر مہاراجا نے انکار کر دیا۔ وزیر فتح خان نے کشمیر کا انتظام انصرام اپنے بھائی عظیم خان کے سپرد کیا اور خود مشوہ کے لیے کابل گیا اور وہاں سے فوج لے کر آیا۔ رنجیت سنگھ کو خبر ملی کہ فتح خان نے ایک بڑے لشکر اور توپخانے کے ساتھ قلعہ اٹک کا محاصرہ کر لیا ہے،غلہ ااور رسد کی کمی ہے،سکھ فوج قلعہ میں محصور ہو گئی ہے اور نہایت تنگی کی حالت میں ہے اور اگر مہاراجا نے خبر نہ لی تو تمام فوج فاقوں سے مر جائے گی۔ چنانچہ اس نے فوری طور پرکنور کھڑک سنگھ اور بھیا رام سنگھ کی سرکردگی میں فوج روانہ کی۔ جس نے سرائے کالا سے آگے حسن ابدال کی سرائے شاہجہانی میں قیام کیا۔ یہاں سکھ فوج پر فتح خان کی فوجوں نے حملہ کر دیا جس میں سکھ فوج کو شکست ہو گئی۔ اب دیوان محکم چند رنجیت سنگھ کے حکم پر خود کمک لے کر روانہ ہوا۔ اس کی رہنمائی میں سکھ فوج سرائے کالا سے حسن ابدال کی طرف بڑھی۔ فتح خان کی فوج نے حضرو میں ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ دیوان محکم چند نے سرائے شاہجہانی حسن ابدال اور سرائے برھان میں فوج کا کیمپ کیا۔ 11۔ جولائی 1813 میں قلعہ اٹک کی محصور فوج کو سامان رسد اور غلہ مہیاء کرنے کے لیے جب دیوان محکم چند سکھ سپاہیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا تو موضع سیدن ہٹیاں کے قریب سکھ اور افغان فوجوں میں مڈ بھیڑ ہو گئی۔ فتح خان کے بھائی دوست محمد خان کی فوج نے اچانک سکھوں پر حملہ کر دیا۔ سکھوں کی طرف سے توپوں اور بندوقوں کے فائر کیے گئے، کافی کشت و خون ہوا۔ سکھوں کے قدم اکھڑے ہی تھے کہ افغانوں نے لوٹ مار شروع کر دی جس سے فتح شکست میں بدل گئی سکھ فوج افغانوں کا تعاقب کرتے ہوئے حضرو تک پہنچ گئی اور افغانوں کے ڈیروں کو لوٹ لیا۔ افغان افواج فاقہ کشی اور گرمی کی وجہ سے بھاگ گئی جن میں سے اکثر سپاہی دریائے سندھ پار کرتے ہوئے ڈوب کر مر گئے۔ 28/ جون 1813ء کو سکھوں نے ایک شاندار فیصلہ کن فتح حاصل کر لی۔ جن افغان فوجوں نے قلعہ اٹک کا محاصرہ کیا ہوا تھا جب ان کو فتح خان کی شکست کا حال معلوم ہوا تو محاصرہ اٹھا کر چلی گئی اور دیوان محکم چند قلعہ اٹک میں آسانی سے داخل ہو گیا۔ چھچھ کے میدان کی لڑائی کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ ہیوجل لکھتا ہے ۔: ۔’مسلمانوں کی طاقت ہندوستان میں گھٹ رہی تھی،اٹک کی معمولی لڑائی کے بعد آخری مسلمان فوجی دستوں کو سندھ کے پار بھگا دیا گیا۔ نریندر کرشن سہنا ہوجل کے جواب میں لکھتا ہے کہ اس کی رائے بالکل گمراہ کن ہے،کسی لڑائی کی اہمیت اس میں لڑنے والے سپاہیوں کی تعداد پر منحصر نہیں ہوتی۔ اگر فتح خان جیت جاتا تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا۔ جھنگ ااور سندھ ساگر دوآب کے مسلمان سردار یقینا ایک بار پھر کابل کی اطاعت کر لیتے اور قدرتی طور پر رنجیت سنگھ کی شکست پنجاب پر اس کے اقتدار کو کاری ضرب لگاتی۔ چھچھ کے میدان میں اگر فتح خان کامیاب ہو جاتا تو یقینا ہندوستان میں اس کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کشمیر جیسے خوش حال ملک کی آمدنی تالپور کے امیروں کا خراج، پشاور اور اٹک پر قبضہ، افغانستان کی طاقت اور سکھوں پر اس کی شاندار جیت اس کی اتنی ہمت بڑھاتی وہ احمد شاہ کی چھوٹی وراثت کو مکمل طور پردوبارہ حاصل کرنیکی کوشش کرتا۔ چھچھ کی لڑائی میں افغانوں کی فتح سکھ قوم کی تاریخ میں اتنی ہی اہم ہوتی جتنی کہ شمال میں پانی پت کی تیسری لڑائی مرہٹوں کی تاریخ میں سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت پنجاب میں رنجیت سنگھ کی طاقت بہت زیادہ مضبوط نہ تھی،اس کے لیے یہ شکست تباہ کن ہی ثابت ہوتی۔ ایس ایم لطیف ہسٹری آف پنجاب میں لکھتا ہے:

’’لاہور میں رنجیت سنگھ نے اس فتح کی خوشی میں عظیم الشان جشن منایا۔ لاہور امرتسر اور وٹالہ میں بڑی دھوم دھام سے روشنی ہوئی۔ اور دو ماہ تک لاہور میں اس فتح کی جو افغانوں پر سکھوں نے حاصل کی تھی،خوشیاں منائی جاتی رہیں۔‘‘

کنہیا لال تاریخ پنجاب میں لکھتا ہے:

’’اس فتح کے حصول کے بعد مہاراجا رنجیت سنگھ کا کمال ا ور اعزاز و رتبہ بڑھ گیا۔ اور کسی سرکش کو گردن اٹھانے کی نہ رہی ۔‘‘

اس جنگ سے پہلے، جنگ کے دوران اور بعد میں باجی رائو پیشوا کی جانب لکھے گئے اس کے ایک اہلکار کے خطوط جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے یہاں نقل کیے جاتے ہیں ان خطوط میں جنگ حضرو سے پہلے اور بعد کے کچھ حالات بھی معلوم ہوتے ہیں کی چھوٹی موٹی جھڑپوں کا بھی ذکر ہے۔

’’لاہور مورخہ9/جون1813ء۔ کنور کھڑک سنگھ حسن ابدال سرائے میں وزیر اعظم (سردار فتح خان وزیر) کی فوجوں سے جنگ کے لیے ٹھہرا ہوا ہے وزیر اعظم کے دوہزار درانی سواروں نے کنور کھڑک سنگھ کو اٹک کیی قریب شکست دی۔‘‘

’’لاہور۔ مورخہ15/جون1813ء۔ فوج سے ایک قاصد آیا اور کہا کہ اعلیٰ سرکار کی فوج سرائے کالا سے روانہ ہو گئے ہے اور حسن ابدال کے قریب سردار فتح خان کی فوج سے 5 یا6 کوس کے فاصلہ پر کیمپ لگایا ہے۔‘‘

’’لاہور۔ جولائی/ 1813ء۔ ایک خط جو سکھ دیال سنگھ ایجنٹ رامانند ساہوکار ساکن پنڈ دادن خان نے لکھا ہے۔ بیان کرتا ہے کہ اس ماہ کی گیارہویں تاریخ کو صبح سویرے محکم چند اور دوسرے افسران اکٹھے قلعہ میں راشن پہنچانے کے لیے روانہ ہوئے۔ دوسری طرف سے دوست محمد خان برادر سردار فتح خان وزیر مع اور سرداروں کے بائولی سے تقریباً ڈیڑھ کوس کے فاصلہ پر موجود تھے۔ آمادہ جنگ ہوئے اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ درانیوں نے اچانک حملہ کر دیا۔ اس طرف سے توپوں اور بندوقوں سے فائر کیے گئے۔ کافی جنگ اور کشت و خون کے بعد دشمنوں نے مقابلہ کی تاب نہ لا کر راہ فرار اختیار کیا اور دشمن کے بہت سے آدمی دریائے اٹک میں غرق ہو گئے۔ سردار فتح خان نے جو اپنے لشکر کے عقب میں چھپا بیٹھا تھا، دل ہار کر کشمیر کی راہ لی۔ اب خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے بعد کہاں بھاگ کر جائے گا۔ دیوان محکم چند، سردار دل سنگھ بھرانیہ مع دوسرے سرداروں کے اس کے تعاقب میں روانہ ہو گئے ہیں۔‘‘

’’ایک قاصد آیا اور دیوان چند محکم کا خط لایا جس میں تحریر تھا کہ اس نے حرامیوں (مجاہدین) کے مواضعات کو جلادیا اور جو سامان ان مواضعات سے حاصل ہوا وہ قلعہ (اٹک) میں بھیج دیا گیا ہے۔‘‘

’’لاہور، مورخہ21/جولائی 1813ء۔۔۔۔ قاصدوں نے آکر بتایا کہ محکم چند نے سابقہ فوجیوں کو قلعہ سے نکال کر نئے افسر اور فوج قلعہ میں مقرر کی اور خود حسن ابدال روانہ ہو گیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ‘‘

’’لاہور، مورخہ24/جولائی 1813ء۔ دل سنگھ بھرانیہ مع اپنے ساتھیوں اور قطب الدین خان قلعہ( اٹک) میں داخل ہوا۔‘‘

’’لاہور، مورخہ4/ اگست 1813ء۔ ایک قاصد کشمیر سے آیا اور بیان کیا کہ محمد عظیم خان وہاں ہے اور اپنی بدقسمتی پر غمگین ہے اور کشمیر کے راجائوں کے ساتھ ساز باز کر رہا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ وزیر خان اٹک پر ضرور حملہ کریگا اور اس کو فتح کریگا۔‘‘

’’لاہور، مورخہ21/ اگست 1813ء۔ سردار فتح خان وزیر نے اعلیٰ سرکار کو لکھا ہے کہ وہ اٹک کا قلعہ چھوڑ دے اور ہمارے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے ورنہ وہ قلعہ پر حملہ کر دیگا۔‘‘

’’لاہور، مورخہ22/جنوری1814ء۔ سردار فتح خان نے۔۔ ۔۔ ۔۔ وعدہ کیا کہ وہ حسب معاہدہ ملتان کا قلعہ خالی کرادے گا۔ خط پر غور کرنے کے بعد اعلیٰ سرکارنے فرمایا اگر سردار فتح خان اپنی فوج کے ذریعہ ملتان کا قلعہ خالی کرادے اور کشمیر کا سالانہ خراج گیارہ ہزار روپے ادا کرے تو وہ اٹک کا قلعہ اس کے حوالے کر دیں گے اور اس کے بعد اعلی سرکار نے فرمایا درانی قابل اعتبار نہیں ہیں۔‘‘

مورخہ 15/ دسمبر1814۔ بیان کیا گیا ہے اعلیٰ سرکار کے سپاہیوں نے اس سے اجازت لے کر گندگر میں ایک قلعہ بنوا لیا ہے اور اس کے ہر برج پر توپیں اس طرح نصب کیں کہ ان کا رخ قلعہ اٹک کی طرف ہے۔۔۔ ایک مخبر پیغام لایا کہ محمد عظیم خان کے آدمیوں نے قلعہ اٹک کے گھاٹ پر قبضہ کر لیا ہے اور مکھڈ کے گھاٹ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔‘‘ مورخہ 20 /دسمبر1814ء ایک شخص قلعہ اٹک کے ناظم امیر بیگ کا پیعام لایا ہے جس میں لکھا ہے کہ سردار فتح خان کا نمائندہ پشاور سے آیا ہے اور دریائے سندھ کے دوسری جانب سے ایک سو سواروں کے انتظار میں کھڑا ہے تا کہ سرکار کی خدمت میں پیس ہو اس نے دریائے سندھ پار کرنے کے لیے ایک کشتی طلب کی ہے۔‘‘

’’وزیر آباد، مورخہ 19/جون1815ء۔ نوشہرہ میں افواہ گرم ہے کہ سردار فتح خان وزیر پشاور ہی میں ہے اور اس نے یوسف زئیوں کے پچیس ہزار آدمی جمع کیے ہیں اور ان کو قلعہ اٹک کی طرف روانہ کر دیا ہے۔‘‘

’’مورخہ14/جولائی1815ء ان دنوں ایک عجیب بیماری قلعہ اٹک میں شروع ہے بہت سے سپاہی اور سکھ مرگئے افغان فوج دریا پار سے قلعہ اٹک پر گولے بر سا رہی ہے اور ادھر سے گولیاں چلائی گئیں۔‘‘

’’۔۔۔ تین سو مزدور، ترکھان اور راج قلعہ اٹک کے سامنے دریا سے پار برج نادرشاہ کی تعمیر میں مصروف ہیں اس برج سے گولہ قلعہ اٹک پر لگ سکتا ہے۔‘‘

سید احمد شہید کی طرف سے قلعہ اٹک پر قبضہ کی کوشش

[ترمیم]

سکھوں کا دور حکومت جسے پنجاب میں سکھا شاہی کہا جاتا ہے نہایت ظالمانہ اور وحشیانہ دور تھا اور یہ لفظ’’ سکھا شاہی‘‘ آج بھی ہمارے ہاں ایک محاورہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، ظلمو بربریت کی علامت ہے۔ اس سکھا شاہی کے خلاف سید احمد شہید ؒ کی تحریک مجاہدین سرگرم جہاد تھی اور انھوں نے سکھوں کا نطقہ بند کر رکھا تھا۔ فروری یا مارچ 1829ء میں سید احمد شہیدؒ کے پاس قلعہ اٹک کی تسخیر کی تجویز آئی جس پر عمل کرنے کی کوشش بوجہ افشائے راز کامیاب نہ ہو سکی۔ اس واقعہ کو مولانا غلام رسول مہر صاحب نے اپنی کتاب ’’ سید احمد شہید‘‘ میں تفصیلاً لکھا ہے۔ یہاں اسی کتاب سے واقعات نقل کیے جاتے ہیں۔

’’ اسی زمانے میں اٹک سے خیرالدین نامی ایک شخص بار بار پنجتار آیا وہ دو تین دن ٹھہرتا اور سید صاحب سے تخلیہ میں ملاقات کرتا اور واپس چلا جاتا۔ اس واقعہ کا کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اس کی غرض و غایت کیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے اٹک کا قلعہ سید صاحبؒ کے حوالے کر دینے کی ایک اسکیم سوچی تھی اور اسی سلسلہ میں تفصیلات طے کرنے آتا تھا۔‘‘ ’’اٹک کا قلعہ دار خزانہ مل نامی ایک شخص تھا۔ خیر الدین وہاں کی معززین میں سے ایک تھا آہستہ آہستہ اس نے تمام اندرونی معاملات کی کیفیت معلوم کر لی۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ قلعہ پر قبضہ کرنا مشکل نہیں تو شہر اٹک کے ان مسلمانوں سے بات کی جن کی اسلامی حمیت پر بھروسا کیا جا سکتا تھا۔ سب نے خیرالدین کی رائے سے اتفاق کیا، لیکن کہا کہ باہر سے کمک لیے بغیر اس کا م کا سر انجام ہونا مشکل ہے۔ باہر سے سید صاحب کے سوا کون مدد دے سکتا تھا۔ جواں مرد خیرالدین نے اس خفیہ سفارت کی خدمت اپنے ذمہ لے لی۔‘‘ ’’اٹک اس زمانے میں نہایت اہم مقام تھا اس کو قبضے میں لینے کے بعد پنجاب میں پیش قدمی کے لیے ایک موزوں مرکز مل جاتا۔ یہ بھی یقین تھا کہ اٹک لینے کے بعد ایک طرف اہل سرحد زیادہ سرگرمی سے کاروبار جہاد میں اعانت کے لیے تیار ہو جائیں گے اور دوسری طرف مسلمانان پنجاب کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور سکھ حکومت میں تزلزل کا اچھا بندوبست ہو جائے گا۔ لیکن معاملہ ایسا نہ تھا کہ تنہا آدمی کی روایت پر بھروسا کر لیا جائے۔ آخری اقدام کے فیصلے کے بعد سید صاحب نے مولوی امام الدین بمبئی والے کو دو غازیوں کے ساتھ بہ تبدیل لباس روانہ کر دیا۔ دس روز میں انھوں نے پورے حالا تحقیق کیے اور پنج تا پہنچ کر خیرالدین کی ایک ایک بات کی تصدیق کر دی۔ سید صاحب نے اسی وقت پان سو روپے کی رقم خیرالدین کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ ضروری سامان اور ہتھیار خرید لیجئے۔ سب سامان مکمل ہو جائے تو ہمیں اطلاع دیجیئے اس کے بعد سید احمد شہیدؒ دورہ پر روانہ ہو گئے اور جگہ جگہ ٹھہرتے ہوئے گڑھی امان زئی پہنچے۔ وہیں خیرالدین نے خود اطلاع پہنچائی کہ تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں مسلمانان اٹک میں سے پپانسو آدمی ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں جن کے پاس ہتھیار نہیں تھے انھیں ہتھیار لے کر دیے ہیں۔ قلعے پر حملہ کے لیے سیڑھیاں اور رسے درکار تھے یہ چیزیں بھی مہیا کر لی گئی ہیں۔‘‘ ’’میں اپنے بھائی کے علاوہ منگا خان،قادر بخش وغیرہ سے کہہ آیا ہوں کہ فلاں رات بارات کے استقبال کے بہانے دریا کے کنارے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہیں عازیوں کو لے آئوں گا۔‘‘ گویا تجویز یہ تھی کہ غازی باہر سے بارات کی شکل میں اٹک میں داخل ہوں اور اندر پہنچ کر مسلمانان اٹک کی مدد سے قلعہ پر قبضہ کر لیں۔ سید صاحب نے قریباً ستر چست و چالاک غازی منتخب کیے اور ارباب بہرام خان کو ان کا امیر بنا کر اٹک بھیج دیا۔‘‘ ’’جہانگیرہ کے گھات پر پہنچے تو قادر بخش (اور اس کے ساتھی) انتظار کر رہے تھے۔ عبور دریا کے لیے جالے موجود تھے۔ عین اسی حالت میں مہر بخش۔ ۔۔ سوار ہوکر پہنچا اور اس نے بتایا کہ ہمارے ایک ساتھی نے راز فاش کر دیا۔ مخبر نے قلعہ دار لالہ خزانہ مل کو بتایا کہ جو لوگ بارات کے استقبال کی اجازت لے گئے ہییں وہ سید صاحب کے غازیوں کو لائیں گے۔ خزانہ مل کو یقین نہ آیا۔ مخبر نے کہا کہ ان کے گھرون کی تلاسی لے لیجئے اگر وہاں سے ہتھیار، سیڑھیاں اور رسیاں مل جائیں تو میں سچا ورنہ مجھے توپ دم کرا دیجیئے۔ عین اسی وقت خادی خان(شادی خان) کا قاصد بھی پہنچ گیا اور اس نے بھی مخبر کی تصدیق کی اور کہا کہ سید صاحب کے غازی اٹک پر حملہ کرنے والے ہیں۔ خزانہ مل نے تلاشی لی اور سامان مل گیا۔ قلعدار نے لڑائی لرائی کی پوری تیاری کر لی ہے اور کئی مسلمان گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس اطلاع کے بعد غازیوں کا آگے بڑھنا بے سود تھا۔ چنانچہ وہ واپس ہو گئے۔ جو لوگ اٹک میں گرفتار ہوئے ان میں سے بعض کو موت کی سزادی گئی اور بعض کو قید کر لیا گیا۔ قاضی عبد الحلیم اثر افغانی نے اپنی کتاب روحانی رابطہ میں لکھا ہے کہ’’حراست میں لیے گئے لوگوں کو جنرل ونتورہ کی نگرانی میں ابلتے ہوئے تیل کے کڑاہوں میں ڈال کر جلا دیا گیا تا کہ باقی لوگوں کو عبرت ہو۔‘‘

سکھوں کے دور حکومت میں ہی رنجیت سنگھ کے بیٹے پشاورا سنگھ کو سازش کے ذریعہ خواہرا سنگھ، فتح خا ٹوانہ اور چتر سنگھ اٹاری والے نے قلعہ اٹک میں پھانسی دیکر اس کی لاش دریائے سندھ میں بہا دی تھی۔ سکھ تسلط کا خاتمہ 1839ء میں جب رنجیت سنگھ کا انتقال ہوا تو اس کی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ یکے بعد دیگرے کئی سکھ حکمرانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔1845ء میں انگریزوں اور سکھوں کی لرائی ہوئی جس میں سکھوں کو شکست ہوئی اور 9/ مارچ1846ء میں ایک معاہدہ ہوا جس کی وجہ سے پندرہ لاکھ تاوان جنگ مقرر ہوا لیک سکھ حکومت کے خزانہ میں پیسہ بھی نہ تھا۔ تاوان کی ادائیگی کے لیے کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کیا گیا۔ اسی معاہدے کی رو سے رنجیت سنگھ کا آٹھ سالہ لڑکا دلیپ سنگھ تخت نشین ہوا اور اس کی معاونت کے لیے انگریز ریزیڈنٹ مقرر ہوا۔ نیز سکھ گورنروں کی مدد کے لیے اسسٹنٹ ریزیڈنٹ اور برطانوی فوج مقرر ہوئی۔ چتھر سنگھ اتای والا ہزارہ کا گورنر تھا اور جمیس ایبٹ اس کا مشیر تھا۔ جب کہ سندھ ساگر دوآب میں نواجوان جان نکلسن کو بھیجا گیا۔ دلیپ سنگھ چتر سنگھ کا ہونے والا داماد تھا۔ چتر سنگھ دربار لاہور کوانگریزوں کے اثر سے بچانا چاہتا تھا جس کی وجہ سے چتر سنگھ اور انگریزوں میں ٹٔھن گئی جس میں ایبٹ چتر سنگھ کا مزاحم ہوا ادھر پشاور سے جان نکلسن بھی راتوں رات چل کر دس اگست 1848ء کو اٹک پہنچ گیا۔ اور قلعہ اٹک میں داخل ہوا۔ جس وقت یہ قلعہ میں داخل ہوا اس کے ساتھ صرف تیس پٹھان سوار تھے۔ پیادہ فوج آدھی رات کو پہنچی۔ گیارہ اگست کو نکلسن نے قلعہ اٹک کو اپنے ایک وفادار کے سپرد کیا اور خود حسن ابدال چلا گیا اور حسن ابدال میں بیٹھ کرسکھوں کے خلافمسلمان فوج تشکیل دی۔ یہ فوج زیادہ ترموضع واہ کے سردار کرم خان کھٹڑ کے مزارعین اور متوسلین پر مشتمل تھی۔ 26/ اگست کوچتر سنگھ آٹھ رجمنٹوں اور سولہ توپوں کے ہمراہ ہری پور سے چلا۔ میجر ایبٹ نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوا۔ اس ناکامی کے بعد حسن ابدال آ گیا اور نکلسن سے آملا۔ یہاں یہ فیصلہ ہوا کہ ایبٹ واپس ہری پور جائے اور نکلسن اٹک۔ یکم ستمبر کو پشاور کی فوج ہربرٹ کی سرکردگی میں اٹک پہنچ گئی۔ چتر سنگھ بھی حسن ابدال پہنچ گیا ادھر راولپنڈی میں چتر سنگھ کا پیٹا عطر سنگھ فوج ترتیب دیکر اپنے والد کی مدد کے لیے تیار تھا۔ نکلسن کو اس بات کی اطلاع ملی تو وہ اس رسد کوکاٹنے کے لیے مارگلہ کے درہ میں پہنچ گیا اور ہربرٹ کوقلعہ اٹک میں چھوڑا۔ درۂ مارگلہ میں نکلسن سکھوں کے ہاتھوں زخمی ہو کر بھاگ گیا۔

قلعہ اٹک امیر کابل دوست محمد خان کے قبضہ میں

[ترمیم]

چتر سنگھ نے اس بغاوت کے وقت کابل کے امیر دوست محمد خان کوہزارہ پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی تھی۔ اس کی دعوت پر امیر دوست محمد خان ایک بری فوج کے ساتھ آیا اور پشاور پر قبضہ کرنے کے بعد اتک کی طرف بڑھا اس نے تین ہزار فوج کے ہمراہ خیر آباد سے قلعہ اٹک پر گولے برسائے۔ امیر دوست محمد خان اور چتر سنگھ کی فوجوں نے نومبر 1848ء کے آخر میں ہربرٹ کو قلعہ اٹک میں گھیر لیا۔ اس وقت یہی افسر قلعہ اٹک کا انچارج تھا۔ سکھوں اور امیر کابل دوست محمد خان کی افواج نے ایک خاصے عرصہ تک قلعہ اٹک کا محاصرہ کیے رکھا۔ چونکہ خشکی کے سب راستے بند تھیاس لیے ہربرٹ کوراشن پہنچانے کے لیے تربیلہ سے میجر ایبٹ نے بذریعہ کشتی سامان پہنچانے کا انتظام کیا مگریہ کشتی بھی اتک کے دو مشہو پتھروں جلالہ کمالہ سے ٹکرائی اور غرق دریا ہوئی۔ لیفٹیننٹ ہربرٹ کے متعلق میجر ایبٹ نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ہربرٹ22/ستمبر1848ء سے 16/اکتوبر تک قلعہ میں محصور رہا، قلعہ کے سامنے سکھوں کی فوج کے دو دستے کرنل رجپال سنگھ، پرتاب سنگھ اور بدھ سنگھ کی رجمنٹیں مع دس توپوں کے محاصرہ کیے ہوئے تھیں۔ گاہے گاہے توپ کے فائر بھی ہوتے تھے۔ میجر ایبٹ لکھتا ہے کہ قلعہ اٹک کی دیوار 52 فٹ اونچی ہے اور تراشیدہ پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ جب اسے اطلاع ملی کہ ہربرٹ کے کچھ آدمی غداری کرتے ہوئے چتر سنگھ کی فوجوں کے لیے قلعہ کا دروازہ کھول دیں گے تو اس نے لیفٹیننٹ ہربرٹ کو خط لکھا کہ وہ قلعہ کے دروازے کو دس بارہ فٹ اونچی پتھر کی دیوار بنا کر بند کر دے۔ جو اس نے بنا دی اور دروازہ پر قابل اعتماد گارڈ مع توپ تعینات کیے اور اس بات کی خصوصی نگرانی کی کہ گولہ اندازغداری کرتے ہوئے غلط سمت میں گولہ نہ کرتے رہیں۔ بالآخر لیفٹیننٹ ہربرٹ مورخہ 6/جنوری1849ء کو اپنے چھ سات آدمیوں سمیت جال کے ذریعہ دریا پار کرتے ہوئے قلعہ اٹک سے فرار ہو گیا۔ امیر کابل دوست محمد خان نے سکھوں کو قلعہ اٹک سے نکال دیا اور چتر سنگھ قلعہ اٹک قلعہ اٹک کو امیر کابل کے حوالہ کر کے خود جہلم کی طرف چلا گیا اور درانی فوج نے قلعہ اٹک میں اپنا تھانہ بنایا۔

اٹک بنارس دوبارہ انگرزوں کے قبضہ میں

[ترمیم]

1848ء میں لارڈ ڈلہوزی گورنر جنرل ہند نے سکھوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ پہلے جیلیانوالہ اور بعد میں گجرات میں سکھوں کو شکست ہوئی۔ جیلیانوالہ میں فتح کے بعد انگریزی فوج نے امیر دوست محمد خان کی فوج کا تعاقب کیا۔ افغان فوج حسن ابدال، خیرآباد ،اکوڑہ خٹک اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچ گئی۔ راستہ میں بعض مقامات کو نذر آتش بھی کر دیا۔ جس روز انگریزی لشکر حسن ابدال میں تھا اس روز خبر ملی کہ افغان کل دریائے سند کے کشتیوں کے پل کو جلائیں گے۔ یہ اطلاع ملتے ہی انگریزی فوج شبانہ روز میں اٹک پہنچ گئی۔ اور 17/مارچ1849ء کو انگریزی فوج نے میجر ایبٹ کی سرکردگی میں قلعہ اٹک پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اور 1947ء تک اس پر انگریزوں کا قبضہ رہا۔

برطانوي وزير اعظم انتھوني ايڈن قلعہ اٹک بنارس ميں پيدا ہوا

[ترمیم]

1901ء میں قلعہ اٹک میں ایک فوجی کے گھرایک بچہ انتھونی ایڈن پیدا ہوا جو بعد میں برطانیہ کا وزیر اعظم بنا۔[حوالہ درکار]

قلعہ اٹک بنارس پر سبز ہلالی پرچم

[ترمیم]
فائل:Qila Attock Banaras.jpg
دریائے سندھ کے کنارے قلعہ اٹک بنارس کا ایک دلفریب منظر

14/اگست 1947ء کو ایک طویل جدوجہد کے بعد جب شاعر مشرق کا خواب شرمندٔ تعبیر ہوا۔ دنیا کے نقشہ پر ایک نئی مملکت کا وجود ابھرا توقلعہ اٹک پرپاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانے لگا۔ اس کے بعد سے اب تک قلعہ اٹک افواج پاکستان کے زیر تصرف ہے۔

جاري ـــــــــــــــــــــــ

سیاحوں کی نظر میں

[ترمیم]

، قلعہ اٹک بنارس سیاحوں کی نظر میں۔

کتابیات

[ترمیم]

1۔ اکبر نامہ از علامہ ابوالفضل

2۔ تاریخ ہزارہ از ڈاکٹر شیر بہادر پنی

دربار اکبری مولانا محمد حسین آزاد

4۔ مغلیہ دور حکومت

سید احمد شہید از مولانا غلام رسول مہر

6۔ شاجہان نامہ

7۔ تذکرہ رؤسائے پنجاب

8۔ تزک جہانگیری

9۔ قصۂ مشائخ از خواجہ محمد زاہد اٹکی

10تعمیر اٹک1963ئ(ضلع کونسل)

11تاریخ وادی چھچھ از سکندر خان

12تاریخ حسن ابدال منظور الحق صدیقی

13ڈسٹرکٹ گزیٹیئر اٹک 1930ء

14ڈسٹرکٹ گزیٹیئر پشاور

15ون تھائوزنڈ ایئر آف پاکستان

16اے جنرل رپورٹ آف یوسف زئی افغان

17دائرۃ المعارف اسلامیہ

18تزک بابری

19دامن اباسین از سکندر خان

20رنجیت سنگھ مصنف نریندر کرشن سہنا

21تاریخ پنجاب مصنف کنہیا لال ہندی

22تاریخ پنجاب مرتبہ کلب علی خان فائق

23تاریخ وادی چھچھ سکندر خان

24تاریخ پنجاب از سید محمد لطیف

25عمدہ التواریخ

26قلعہ اٹک، سیاحوں کی نظر میں از آغا عبد الغفور( مطبوعہ اٹک نامہ اٹک)

27ضلع اٹک پر سکھوں کا قبضہ: از نور محمد نظامی (قلمی)

28ٹیکسلا طلوع اسلام کے بعد، راجا نور محمد نظامی (قلمی)

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. فیضی، ابوالفضل۔ اکبر نامہ (جلد سوم)، 355۔