عشرہ مبشرہ
بسلسلہ مضامین: |
اہم شخصیات
|
تعطیلات ومناسبات
|
عشرہ مبشرہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وہ دس صحابہ ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی۔
- ابوبکر صدیق
- عمر بن خطاب
- عثمان بن عفان
- علی ابن ابی طالب
- طلحہ بن عبید اللہ
- زبیر ابن عوام
- عبدالرحمن بن عوف
- سعد بن ابی وقاص
- سعید بن زید
- ابو عبیدہ بن جراح
احادیث میں ذکر
[ترمیم]ان 10 صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا ذکر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
عبد الرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں ، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں ۔[1] [2] حدیث میں سعد سے مطلب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سعید سے مطلب سعید بن زید رضي اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔
ان صحابہ کرام کے علاوہ اوربھی کئی ایک صحابہ کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے مثلا خدیجہ بنت خویلد رضي اللہ تعالٰی عنہا، عبداللہ بن سلام اورعکاشہ بن محصن رضی اللہ تعالٰی عنہم وغیرہ۔
ایک ہی حدیث میں ان سب کے نام ذکر ہونے کی بنا پر انھیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے ۔
ایک صحابی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ جنت کی بشارت دی۔ان کا واقعہ درجہ ذیل ہے
عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((یَطْلُعُ عَلَیْکُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَطَلَعَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ تَنْطِفُ لِحْیَتُہُ مِنْ وُضُوْئِہِ، قَدْ تَعَلَّقَ نعَلَیْہِ فِیْیَدِہِ الشِّمَالِ، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِثْلَ ذٰلِکَ، فَطَلَعَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی مِثْلِ الْمَرَّۃِ الْاُوْلٰی، فَلَمَّا کَانَ الْیَوْمُ الثَّالِثُ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِثْلَ مَقَالَتِہِ اَیْضًا، فَطَلَعَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی مِثْلِ حَالِہِ الْاُوْلٰی، فَلَمَّا قَامَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تَبِعَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ فَقَالَ: اِنِّیْ لَاحَیْتُ اَبِیْ فَاَقْسَمْتُ اَنْ لَا اَدْخُلَ عَلَیْہِ ثَلَاثًا، فَاِنْ رَاَیْتَ اَنْ تُؤْوِیَنِیْ اِلَیْکَ حَتّٰی تَمْضِیَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ اَنَسٌ: وکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یُحَدِّثُ اَنَّہُ بَاتَ مَعَہُ تِلْکَ اللَّیَالِیَ الثَّلَاثَ، فَلَمْ یَرَہُیَقُوْمُ مِنَ اللَّیْلِ شَیْئًا غَیْرَ اَنَّہُ اِذَا تَعَارَّ وَتَقَلَّبَ عَلَی فِرَاشِہِ ذَکَرَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ، وَکَبَّرَ حَتّٰییَقُوْمَ لِصَلَاۃِ الْفَجْرِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: غَیْرَ اَنِّیْ لَمْ اَسْمَعْہُ یَقُوْلُ اِلَّا خَیْرًا، فَلَمَّا مَضَتِ الثَّلَاثُ لَیَالٍ، وَکِدْتُ اَنْ اَحْتَقِرَ عَمَلَہُ، قُلْتُ: یَا عَبْدَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَمْ یَکُنْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ اَبِیْ غَضَبٌ وَلَا ھَجْرٌ ثَمَّ،وَلٰکِنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ لَکَ ثَلَاثَ مِرَارٍ: ((یَطْلُعُ عَلَیْکُمُ الْآنَ رَجُلٌ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔)) فَطَلَعْتَ اَنْتَ الثَّلَاثَ مِرَارٍ، فَاَرَدْتُ اَنْ آوِیَ اِلَیْکَ لِاَنْظُرَ مَاعَمَلُکَ فَاَقْتَدِیَ بِہٖ،فَلَمْاَرَکَتَعْمَلُکَثِیْرَ عَمَلٍ، فَمَا الَّذِیْ بَلَغَ بِکَ، مَاقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ فَقَالَ: مَاھُوَ اِلَّا مَارَاَیْتَ، قَالَ: فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِیْ، فَقَالَ: مَاھُوَ اِلَّا مَارَاَیْتَ غَیْرَ اَنِّیْ لَا اَجِدُ فِیْ نَفْسِیْ لِاَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غِشًّا وَلَا اَحْسُدُ عَلٰی خَیْرٍ اَعْطَاہُ اللّٰہُ اِیَّاہُ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: ھٰذِہِ الَّتِیْ بَلَغَتْ بِکَ وَھِیَ الَّتِیْ لَانُطِیْقُ۔ [3]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب تمھارے پاس جنتی آدمی آنے والا ہے۔ پس ایک انصاری آدمی آیا، وضو کی وجہ سے اس کی داڑھی سے پانی ٹپک رہا تھا اور اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں اپنے جوتے لٹکائے ہوئے تھے، اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرمائی اور وہی آدمی اسی پہلے والی کیفیت کے ساتھ آیا، جب تیسرا دن تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر وہی بات ارشاد فرما دی کہ تمھارے پاس جنتی آدمی آنے والا ہے ۔ اور (اللہ کا کرنا کہ) وہی بندہ اپنی سابقہ حالت کے ساتھ آ گیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے تو سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما اس آدمی کے پیچھے چل پڑے اور اس سے کہا: میرا ابو جان سے جھگڑا ہو گیا ہے اور میں نے ان کے پاس تین دن نہ جانے کی قسم اٹھا لی ہے، اگر تم مجھے اپنے پاس جگہ دے دو، یہاں تک کہ یہ مدت پوری ہو جائے، اس کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہو گا؟ اس نے کہا: جی ہاں، تشریف لائیے۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس نے اس آدمی کے ساتھ تین راتیں گزاریں، وہ رات کو بالکل قیام نہیں کرتا تھا، البتہ جب بھی وہ جاگتا اور اپنے بستر پر پہلو بدلتا تو وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا اور تکبیرات پڑھتا، یہاں تک کہ نمازِ فجر کے لیے اٹھتا، علاوہ ازیں اس کا یہ وصف بھی تھا کہ وہ صرف خیر و بھلائی والی بات کرتا تھا، جب تین راتیں گذر گئیں اور قریب تھا کہ میں اس کے عمل کو حقیر سمجھوں، تو میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے بندے! میرے اور میرے ابو جان کے مابین نہ کوئی غصے والی بات ہوئی اور نہ قطع تعلقی، تیرے پاس میرے ٹھہرنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین بار یہ فرماتے ہوئے سنا: ابھی ایک جنتی آدمی تمھارے پاس آنے والا ہے۔ اور تین بار تو ہی آیا، پس میں نے ارادہ کیا کہ تیرا عمل دیکھنے کے لیے تیرے گھر میں رہوں اور پھر میں بھی تیرے عمل کی اقتدا کروں، لیکن میں نے تجھے دیکھا کہ تو تو زیادہ عمل ہی نہیں کرتا، اب یہ بتلا کہ تیرے اندر وہ کون سی صفت ہے جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث بیان کی (اور اس کا مصداق بنا)؟ اس نے کہا: میرا عمل تو وہی ہے جو تو نے دیکھ لیا ہے، پھر جب میں جانے لگا تو اس نے مجھے دوبارہ بلایا اور کہا: میرا عمل تو وہی ہے، جو تو نے دیکھ لیا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ میرے نفس میں کسی مسلمان کے خلاف کوئی دھوکا نہیں ہے اور جس مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے جو خیر عطا کی ہے، میں اس پر اس سے حسد نہیں کرتا، سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بس یہی چیز ہے، جس نے تجھے اس مقام پر پہنچا دیا ہے اور یہ وہ عمل ہے جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے