تاریخ سہارن پور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سہارنپور برصغیر کا وہ تاریخی ضلع ہے جس نے ملک کے نشیب وفراز اور تاریخ وتمدن کے کئی دوردیکھے ہیں، جس کی گود میں دیوبند، نانوتہ، گنگوہ، تھانہ بھون، رائے پور، جھنجھانہ، جلال آباد، انبہٹہ، بیری نوجلی، پھلت، باغپت، بڑوت اور شاملی جیسی تاریخی بستیاں واقع ہیں، ان ہی بستیوں سے اسلام کی ہزاروں اولوالعزم ہستیوں کی تاریخ جڑی ہوئی ہی، مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مولانا مملوک العلی نانوتوی، میانجی نورمحمد جھنجھانوی، مولانا سعادت علی فقیہ سہارنپوری، حاجی امداداللہ مہاجر مکی، گنگوہی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانااحمد علی محدث سہارنپوری، شیخ المشائخ شاہ عبد الرحیم رائے پوری، مولانا ذوالفقارعلی دیوبندی اور بھی ہزاروں نامی گرامی ہستیوں نے اسی سہارنپور اور اس کے نواح میں علم و عرفان کے ایسے چشمے جاری وساری فرمائے جومرورایام اور گردش لیل و نہار کے باجود الحمد للہ نہ توخشک ہوئے، نہ ہی وہ شج رہائے سایہ دار پژ مردہ ہوئے، جس آب وتاب کے ساتھ اس کی خشت اول رکھی گئی تھی بحمداللہ اسی شان وشوکت کے ساتھ آج بھی یہ علاقہ، عالم اسلام کواسلامی نور اور قرآنی تعلیمات سے بقعۂ نور بنائے ہوئے ہے۔

محل وقوع

سہارنپور کا جائے وقوع تاریخ کے گزرنے والے قافلہ جو یہاں سے گذرے انھوں نے بھی رحم سمجھا ہے۔ مغرب میں سہارنپور، ہریانہ کی سرحد پر واقع ہے۔ شمال میں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیس سے ملا ہوا ہے یہاں کی آب وہوا۔ اور خاص طور پر یہاں کا پانی اپنے اندر ایک کشمکش اور کیف رکھتا ہے۔ اسی علاقہ سے گنگا اور جمنا جیسے دریا نکلتے ہیں۔

سہارنپور کاسیاسی پس منظر

یوں تو سہارنپور کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے اس شہر کو آباد ہوئے تقریباً ساڑھے چھ سو سال ہی گذرے ہیں۔ اس کی تاریخ کو چند سطروں میں لکھا جا سکتا ہے۔ مگر جس جگہ یہ شہر آباد ہے اس کی مذہبی ہے، سیاسی اور اقتصادی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی دریائے گنگ وجمن، گنگا وجمنا کا یہ دوآبی علاقہ (سہارنپور) اپنی زرخیزی اور پانی کی فراہمی کے باعث روز اول ہی سے ہندوستان کے حکمرانوں کی خواہش حکمرانی کا شکار رہا ہے کیوں کہ اس علاقہ کی غلہ اور چارہ کی پیداواری بہتات اور افراط نے حکمرانوں کے لیے غلہ اور چارے کے گودام کا کام دیا ہے اس جگہ پر پورے سال بہنے والی ڈھمولہ اور پاؤں دھوئی وہ ندیوں کا سنگم ہے، یہ دونوں ندیاں بڑے سے بڑے قافلے اور لشکر کو خاطر خواہ پانی فراہم کرتی رہی ہیں اسی وجہ سے اس جگہ کو لشکروں اور قافلوں کے ٹھہرنے کے لیے نہایت مورزوں ومناسب اور پسند کیا جاتا تھا کتنے ہی سلطانوں اور بادشاہوں نے اس میدان پر اپنی فوجوں کو کچھ عرصہ ٹھہرا کر پہاڑی جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کی سیاسی حرکتوں پر کڑی نظر رکھی دہلی اور شوالک پہاڑوں گنگا اور جمنا پار والے علاقوں کے لیے یہ نہایت اہم تجارتی منڈی بنی رہی کیوں کہ گنگا اور جمنا کا پانی علی الترتیب ہردوار موضع دمجھیڑہ اور بوڑیہ کے گھاٹوں پر سوائے طغیانی کے دنوں کے ہمیشہ ہی پایاب رہا ہے۔ اسی وجہ سے پورے سال لشکر اور قافلے ان گھاٹوں سے گنگا اور جمنا کو آسانی سے پار کر لیا کرتے تھے۔

تاریخ

اب سے تقریباً چھ ہزار سال پہلے کے حالات کا کوئی تاریخی مواد پورے ہندوستان کا نہیں ملتا ہندوستان اور اس کے کچھ علاقوں کی وہ تاریخ ملتی ہے جو رام چندر جی کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے تقریباً پانچ ہزار سال پہلے یہ علاقہ (سہارنپور) ان کی حکومت میں شامل تھا اس زمانے میں آریہ قوم کی پانچ حکومتیں اس ملک میں قائم تھیں ہستناپور میں کورووں کا راج تھا یہ ریاست گنگا کے کنارے دہلی اور مغرب کے علاقوں پر قائم تھی اس کے قریب دوسری ریاست پنچالوں کی تھی اس کو دار السلطنت قنوج تھا تیسری بنارس کی حکومت پر کاشی نام کا حکمراں راج کرتا تھا کاشیوں کی حکومت کی بنا پر ہی اس کا نام کاشی پڑا۔ چوتھی ریاست اجودھیا کے نام سے ہستناپور اور بہار کے درمیان اودھ کے علاقہ پر تھی اس پر کوش قبیلے کے لوگوں کا راج تھا۔ پانچویں حکومت بنگال اور بہار کے شمالی علاقوں پر مشتمل تھی یہ ودیہا (وداہا) قبیلے کے لوگوں کی ملکیت تھی۔ کوشل قبیلے کی حکومت اب سے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے نہایت آن بان شان سے قائم تھی اس حکومت کا راجا اجودھیا میں رہا کرتا تھا۔ اس کا نام دشرتھ تھا اس کی پہلی بیوی سے دولڑکے رام چندر اور لکشمن تھے راجا کی دوسری بیوی کیکئی کا راجا دشرتھ پر بہت زیادہ اثر تھا رانی کیکئی اپنے لڑکے بھرت کو راج گدی دلانا چاہتی تھی مگر رواج کے مطابق راج گدی کے حقدار رام چندر جی تھیرانی کیکئی نے اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنے پتی رام دشرتھ پر زور ڈال کر رام چندر جی کو بن باس دینے کی تجویز پیش کی کیوں کہ اس کو یقین تھا کہ بارہ سال کے عرصہ کے اختتام سے پہلے ہی رام چندر کسی نہ کسی وجہ سے مر جائے گا اور بھرت کو راج گدی مل جائے گی راجا دشرتھ نے اپنی رانی کیکئی کے اثر کو قبول کرکے رام چندر جی کو بارہ سال جنگل میں زندگی بسر کرنے کا حکم دیدیا ریاست کی رعایا نے راجا دشرتھ کے اس حکم پر اپنی خفگی اور ناراضی کا اظہار کیا۔ اگر رام چندر جی چاہتے تو رعایا کو اپنے ساتھ لے کر نہایت آسانی سے اپنے باپ سے راج گدی زبردستی چھین سکتے تھے۔ مگر اس نے اپنے باپ کے حکم کو بناچوں وچرا مان کر فرماں برداری کا وہ ریکارڈ قائم کیا جس کی ہندوتاریخ میں دوسری مثال نہیں ملتی۔ رام چندر جی کے ماں جائے بھائی لکشمن نے بھی ماں کے پیٹ کے رشتے کی محبت کی نہ مٹنے والی مثال قائم کی جس وقت رام چندر جی اپنی بیوی سیتا کو ہمراہ لے کر بن باس کے لیے نکلے لکشمن بھی اپنا آرام تیاگ کر اپنے بھائی اور بھاوج کے دونفری قافلے میں شامل ہو گیا۔ غرض یہ تین آدمیوں کا قافلہ کافی عرصہ تک جنگلوں کی خاک چھانتا مصائب اور مشکلات سے شانہ بشانہ کندھا لڑاتا رہا۔ اور یوں زندگی بسر کرتا رہا اس دور میں لنکا کا راجا راون تھا اس کو رام چندر جی سے حسد تھا موقع پاکر راون سیتا کو زبردستی اغوا کرکے لنکا لے گیا اور کافی دنوں تک سیتا کو قید رکھا۔ رام چندر نے سیتا کو آزاد کرانے کے لیے پہاڑی لوگوں کی رضاکارانہ فوج تیار کی اور ایک پہاڑی راجا ہنومان کی امداد سے لنکا پر حملہ کر دیا ان کی فوجوں نے لنکا کو تاخت وتاراج کرڈالا اور سیتا کو راون کی قید سے آزاد کرالیا۔ رام چندر جی سیتا اور لکشمن کو ساتھ لے کوہ شوالک کی پہاڑیوں کی طرف چلے اور گنگا کے کنارے ہردوار (درہ کوہلہ) کے مقام پر اپنا ڈیرہ ڈالا۔ اس جگہ لکشمن نے خوشی منانے اور دل بہلانے کی خاطر ایک جھولا بنایا انھوں نے اس جھولے پر جھول کر اپنی آزادی اور خوشی کے گیت اور بھجن گاکر اپنے بھگوان کا شکر ادا کیا آج اسی جھولے کو لکشمن جھولا کے نام سے پکارتے ہیں اس زمانے کی ہندومذہب کی کتابوں سے ایسے واقعات اور اشارات ملتے ہیں جن کی بنا پر یقین کیا جا سکتا ہے۔ کہ رام چندر جی اور ہنومان کی فوجوں نے لنکا آتے جاتے اس میدان میں جس پر آج سہارنپور آباد ہے، اپنے ڈیرے لگائے رکھے اور یہ تینوں انسانیت کے پیکر صبح وشام اس ندی میں جس کو پاؤں دھوئی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اشنان کرتے رہے چونکہ اس ندی کو رام چندر جی اور سیتا کے پاؤں دھونے کا کافی عرصہ شرف ملا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسی فخر کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں نے اس ندی کو پاؤں دھوئی کا نام دیا ہو۔

مہابھارت کی وہ جنگ جس کو ہندوتاریخ میں بہت ہی اہمیت دی جاتی ہے یہ جنگ ہستناپور کی گدی کے دو دعویداروں کورو اور پانڈو کے درمیان لڑی گئی تھی یہ جنگ کوروکشیتر کے میدان میں اٹھارہ دن تک متواتر لڑی جاتی رہی۔ اور پہلے تین دنوں میں متواتر رات دن 72 گھنٹے جنگ چلتی رہی۔ اس لڑائی میں بڑے بڑے بہادر اور سپہ سالار مارے گئے تھے ا س جنگ میں پانڈو کی حمایت ست سیاہ، مداوا، پنجابی، مگدھا، چیری اور بنارس کے راجا کر رہے تھے دوسری طرف کورو کی مدد پر کوشل (اودھ) وداہا (بہار) انگا (بھاگلپور) بنگا (بنگال) کالنکا (لڈیہ) سندھ، گندھر اور باکھا کے راجا تھے اس طرح کورو کی طرف سے پانچ اور پانڈو کی حمایت میں نو راجا لڑ رہے تھے ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ میں علاقائی تصور کار فرما تھا کیوں کہ ایک طرف تو شمالی ہندوستان اور دوسری طرف مشرقی ہندوستان کے راجا جنگ میں کود پڑے تھے۔ جنگ میں کوروؤں کا سارا خاندان قتل ہو گیا تھے اور راجے گدی پر پانڈو کا قبضہ ہو گیا تھا لڑائی میں حصہ لینے کے لیے مذکورہ بالا راجاؤں نے اس جگہ (سہارنپور) پر اپنے لشکروں کو ٹھہرایا اور آرام کرنے کا موقع دیا۔ مہابھارت کی لڑائی کے تقریباً دوہزار سال بعد کے تاریخی حالات کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کہ کون کون سی حکومت بنی اور کس علاقہ پر قائم ہوئی مذکورہ جنگ سے پہلے کے زمانے کو ہندو تاریخوں میں مہابھارت کہا گیا ہے کیوں کہ اس زمانے میں آریہ قوموں کا تقریباً سارے ہندوستان پر تسلط تھا اور ویدک دھرم پورے عروج پر تھا۔ آرین قوموں کی ریاست پر برہمنوں کا پورا اثر تھا بلکہ میں تو کہوں گا کہ بالواسطہ برہمن ہی راج کر رہے تھے اور برہمن پورے طور پر ہندوستان کے اصل مالکوں اور باشندوں کا دھرم کی آڑ میں استحصال کرنے میں لگے تھے۔

340 قبل مسیح کے زمانے میں ریاست مگدھ کا ایک فرد جس کا نام چندرگپت تھا اس کی ماں موراہی ایک اچھوت عورت تھی اس بادشاہ کی اولاد موریہ کہلائی چندرگپت کو مگدھ کے راجا مہاپدم نندنے اچھوت عورت کے پیٹ سے جنم لینے کے جرم میں کم عمری ہی کے زمانے میں جلا وطن کر دیا تھا۔ اس جلاوطنی کے حکم میں بھی برہمن ازم کار فرما تھا۔ چندرگپت نے جلاوطنی کے دوران پنجاب میں رہائش اختیار کرلی اس زمانے میں سکندر اعظم پنجاب کو فتح کرکے خراج وصول کر رہا تھا سکندر کی موت اور چندرگپت موریہ چاؤنگ نامی برہمن کو کسی طرح سے اپنا معاون ومددگار بنانے میں کامیاب ہو گیا اس سیاسی چال سے اپنے اردگرد کافی فوج تیار کرلی اس فوج اور چاؤنگ برہمن کی مدد سے چندرگپت موریہ 321 قبل مسیح سارے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور چاؤنگ برہمن کو اپنا وزیر اعظم بنالیا پنجاب پر اپنے تسلط کو مضبوط بنانے کے بعد چندرگپت نے مہاراجا پدم نند سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے مگدھ پر حملہ کر دیا آخر راجا پدم نند اس لڑائی میں ہار گیا اور چندر گپت موریہ نے مگدھ کی ریاست کو اپنی حکومت میں شامل کر لیا چندر گپت موریہ ہندوستان کا وہ پہلا ہندوراجہ ہے جس نے یونانیوں کی فوج کو جس کی سپہ سالاری سلوکس کر رہا تھا، شکست دی۔ اور غیر ہندولڑکی سے شادی کی جنرل سلوکس نے اپنی اس لڑکی کو قندھار کے علاقے جہیز میں دے دیے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ چندرگپت موریہ کی فوجیں جمنا کو موضع دمجھیڑہ، بوڑیہ اور راج گھاٹ کے راستوں سے پاکر کرکے مگدھ پر حملہ آور ہوئی تھیں۔ موسم برسات کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیافی آجانے سے چندرگپت نے اس میدان (سہارنپور) پر اپنی عارضی چھاؤں بنائی کیوں کہ اس کی فوجوں کو گنگا پار کرنے کے لیے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو ہر دوار کی مخالف سمت میں بڑھنے کے لیے بہت سی دشواریوں سے بچنے کے لیے تین دن اپنے لشکر کو اس جگہ (سہارنپور) پر ٹھہرانا پڑا تھا اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا بندوسار پچیس سال تک اس وسیع سلطنت پر حکومت کرتا رہا اس کی موت کے بعد اس کا چھوٹا لڑکا اشوک وردھن گدی پر بیٹھا اس کی بابت کہا جاتا ہے کہ اس نے راج گدی حاصل کرنے کے لیے اپنے پتا بندوسار اپنے بڑے بھائی سوماسا اور دوسرے بھائیوں کو قتل کرڈالا تھا اس نے کس طرح گدی حاصل کی اس میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ مگر راجا اشوک وردھن نے جس قابلیت سے حکومت کی اس کی مثال ہندوتاریخ میں نہیں ملتی اس نے اپنی چالیس سالہ حکومت میں رعایا کی بہبودی اور خوش حالی کو اولین اہمیت دی 261 قبل مسیح کے زمانے میں اس نے بہت بڑے لشکر سے اڑیسہ کی حکومت پر حملہ کرکے فتح کر لیا اور اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ آدمی قیدی بنائے گئے اور ایک لاکھ انسان قتل ہو گئے تھے اس خون انسانی کا اس کے دماغ پر ایسا اثر پڑا کہ اس کو جنگ سے نفرت ہو گئی مذکورہ جنگ میں ہوئی انسانی تباہی کا اس کو عمر بھر افسوس رہا۔ اس جنگ سے متاثر ہوکر اس نے قطعی اور آخری فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی بھی حالت میں آئندہ جنگ نہیں کرے گا اور اپنی باقی زندگی خدمت خلق میں گزارے گا چونکہ بدھ مذہب راجا اشوک کے نظریہ کے عین مطابق تھا۔ اس لیے اس نے بدھ مذہب کی پیروی کو پسند کرکے اختیار کیا اوربدھ مذہب کو اپنی سلطنت کا مذہب قرار دیا۔ اس نے بدھ مذہب کے مبلغون کو مصر، چین، جاپان، لنکا، شام، یونان اور کئی دوسرے ممالک میں تبلیغ کے لیے بھیجا ان مبلغوں نے نہایت لگن سے بدھ مذہب کے فلسفہ کا پرچار کیا۔ آج بھی دنیا بھر میں بدھ مذہب کے پیروکاروں کی تعداد تقریباً اسی، نوے کروڑ ہے۔ اس راجا نے بدھ مذہب کی تشریح اور فلسفہ پر بیشمار کتابیں لکھوائیں، اس نے فوجداری اور دیوانی عدالتیں قائم کیں، اس نے لاکھوں مسافر خانے، ہسپتال اور کنویں تعمیر کرائے۔ ایسے بیشمار مدرسے قائم کیے جن میں بدھ مذہب کی تعلیم دی جاتی تھی غرض راجا اشوک وردھن کے زمانے کا ہندوستان ہر طرح قابل فخر تھا آج تک وہ ہندوستان کو امن وامان اور خوش حالی کا دور نصیب نہیں ہو سکا جو اس کے دور حکومت میں تھا مشہور سیاح فرشتہ کی نوشہ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چندرگپت موریہ کی افواج اور بدھ مذہب کے قافلوں نے کئی بار گنگا اور جمنا کو درہ کوہلہ اور بوڑیہ کے گھاٹوں سے پار کیا اور ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک میں جاتے رہے۔ چونکہ گنگا اور جمنا کا دوآبی میدان (سہارنپور) ہمیشہ ہی ایسے مذہبی، تجارتی اور فوجی قافلوں کے ٹھہرنے کے لیے نہایت آرام دہ رہا ہے۔ اس لیے یہ بات نہایت قابل یقین ہے کہ راجا اشوک وردھن کی فوجوں اور بدھ مذہب کے مبلغوں نے اس میدان پر کئی بار اپنے ڈیرے ڈالے اور اپنی مسافرت کی تھکن کو دور کیا اس دوآبی وسیع میدان (سہارنپور) کا محل وقوع غلہ اور چارے کی افراط اور نہ ختم ہونے والا پانی کی فراہمی اس بات کی غمّازی کرتے ہیں کہ شاید ہی ہندوستان کا کوئی شہنشاہ ایسا ہو جس کی قوموں نے اس میدان کو اپنی عارضی چھاؤنی کے طور پر نہ استعمال کیا۔ میرے اس خیال ویقین کی تائید ایک مؤرخ جس کا نام کنگھم تھا کہ تحریر سے ہوتی ہے وہ لکھتا ہے کہ ’’کالسی اوردہرہ دون کی چتانوں کی کھدائی کے دوران چندرگپت خاندان کے حکمرانوں کے پتھروں پر لکھے اور کھدے حکم نامے اور اس کے بڑی تعداد میں برآمد ہوئے اس زمانے میں سہارنپور اور جگادھری کے علاقے بھی کالسی کے جاگیردار کے زیرنگیں تھے اور یہ جاگیردار موریہ خاندان کے راجاؤں کو خراج دیا کرتا تھا۔

فیروز شاہ تغلق شکار کھیلنے کا بہانہ بناکر کوہ شوالک کے راجاؤں، جاگیرداروں اور زمینداروں کی سیاست حرکات وسکنات کا مطالعہ کرنے اور ان کی فوجی طاقت کا اندازہ کرنے کے لیے یہاں آیا تھا شکار کھیلنے اور تفریح طبع کے دوران خضرآباد، تحصیل جگادھری ضلع انبالہ کے گاؤں کے نزدیک کے جنگل میں اس کو سونے کی لاٹ کھڑی دکھائی دی وہ اس سونے کی لاٹ کو اٹھاکر دہلی لے گیا اور اپنے خزانے میں جمع کرادیا کچھ مؤرخ اس بات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ لاٹ سونے کی نہیں بلکہ لوہے کی تھی اور یہ لاٹ آج بھی قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام (مہرولی دہلی) کے ساتھ ہی نصب ہے ایک دوسرے انجینئر مسٹر کیپٹین کاٹلے (Captain Cautley) کو 834ء کے دوران قصبہ بہٹ (سہارنپور) کے نزدیک کھدائی کرانے پر ایسے کھنڈر اور سکے ملے جو بدھ مذہب کے راجاؤں کے زمانے کے تھے مسٹر کیپٹین کاٹلے اس زمانے میں نہر جمن شرقی (بڑی نہر سہارنپور) کا چیف انجینئر تھا۔

موریہ خاندان کی حکومت کے خاتمہ پر یہ سلطنت سنگا خاندان کے ہاتھ میں آئی اور پینتیس سال حکومت کرنے کے بعد ختم ہو گئی اس کے بعد یہی سلطنت کنو خاندان کو نصیب ہوئی اس خاندان کی حکومت کے بھی تاریخی حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت کے حالات کو کسی نے قلمبند ہی نہیں کیا یا پھر کسی نے سنسکرت میں تاریخ کا ترجمہ اُردو، فارسی اور [[کشان سلطنت]کشان]] کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہندوستان پر چڑھ آیا مگر یہ قبیلہ ہندوستان میں اپنی کوئی مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا اور تھوڑے سے عرصے کے بعد اس قبیلے کی 320ء میں چندرگپت ثانی پٹنہ میں گدی نشین ہوا اور ملک میں پھیلی بے امنی اور خانہ جنگی کو دبانے اور ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا اس خاندان کے تین راجاؤں نے سہارنپور کے پڑاؤ اپنی فوجی طاقتوں کا مظاہرہ کرکے شوالک پہاڑیوں کے راجاؤں اور بڑے زمیندار کو خراج ادا کرنے کے لیے رضامند کر لیا۔ یہ علاقے اس طرح سے چندرگپت اول کی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ اس خاندان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد منگولیوں کی حکومت قائم ہوئی اس قوم کو تواریخی کتابوں میں ہن قوم لکھا گیا ہے۔ ہن قوم کی حکومت بھی زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی۔ منگلور ضلع سہارنپور میں اس قوم کے راجا منگل سین نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا اس راجا کی فوج نے کئی بار اس دوآبے (سہارنپور) میدان میں اپنے خیمے گاڑے اور دہرہ دون، ٹملی اور جگادھری کے راجاؤں اور جاگیرداروں پر اپنا قومی، سیاسی دباؤ ڈالا مگر اس راجا کو اپنے مقصد میں مکمل کامیابی نصیب نہ ہوئی اور اپنی گرتی ہوئی طاقت کو سنبھال نہ سکا۔

بدھ مذہب کے پیروکار راجا ہرش وردھن کے دورحکومت میں ایک چینی سیاح ہوان سانگ ہندوستان آیا اور وہ یہاں 645ء تک پندرہ سال مقیم رہا اس نے اپنے قیام کے دوران کے حالات میں لکھا ہے کہ سرسوہ (سرساوہ) سے پندرہ کوہ (کوس) پورب میں ایک پڑاؤ پر نمک اور درختوں کے گھروندوں کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے زمین کے اندر سے پہاڑیاں نکل آئی ہیں۔ یہ جانکاری اس بات کی دلیل ہے کہ سہارنپور کا پڑاؤ ایک بہت بڑی تجارتی منڈی رہا ہے اسی سیاح نے ہرش وردھن کو اپنے زمانے کا شہنشاہ قرار دیا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ بدھ مذہب کی ابتدا سے لے کر مہاراجا ہرش وردھن کی وفات تک تقریباً بارہ سو سال کے زمانے میں ہندو مذہب بدھ مذہب کے سیلاب میں دبا پڑا رہا۔ بدھ مذہب برابر ترقی کرتا رہا۔ مہاراجا ہرش وردھن کی وفات کے بعد راجپوتوں کو خوب عروج حاصل ہوا اور اس عروج میں برہمنوں نے اہم رول ادا کیا حقیقت میں برہمن ہی راجا گیر تھے اس زمانے میں سہارنپور کا علاقہ میرٹھ کے راجا کے زیرحکومت رہتا تھا۔ 1018ء میں محمود غزنوی نے راجپوت راجاؤں کے خلاف جنگ کی اور میرٹھ کے راجا کو اپنا باج گزار بنالیا کشمیر کے راجا کی رہنمائی اور امداد سے محمود غزنوی کی فوجیں کو شوالک کے پہاڑی جنگلات میں سفر کرتی ہوئی دریائے رام گنگا کے کنارے پر پہنچیں اور اس دریا کو پار کرکے بلندشہر اور میرٹھ کے راجاؤں پر حملہ آور ہوئیں میرٹھ کو فتح کرکے اور راجا کو باج گزار بنانے کے بعد اس کی فوجوں نے دریائے گنگا کو درہ کوہلہ (ہریدوار) اور جمنا کو سرساوہ کے گھاٹ سے پار کیا تھا۔ اس سفر میں ان فوجوں نے فتح پور بھادوں اور سہارنپور کے پڑاؤ پر آرام کیا تھا۔

مسلمانوں کے دور میں

شہاب الدین غوری کا سلسلہ نسب غور کے رئیس شنسب بن حریق سے ملتا ہے جو شروع میں بت پرست تھا لیکن علی کرم اللہ وجہہ کے دور حکومت میں اس نے اسلام قبول کر لیا تھا، لودھی اور سوری پٹھان بھی اس کی نسل سے ہیں۔ محمد بن سوری حاکم غور جس نے قرامطہ جماعت کا آلۂ کار بن کر محمود غزنوی کے خلاف بغاوت کردی تھی یہ بھی اسی شنسبی قبیلہ اور شہاب الدین غوری کے آبا واجداد میں سے تھا۔ شہاب الدین غوری 1171ء میں غزنی کے تخت پر بیٹھا اور 1175ء میں پہلی بار اس نے ہندوستان پر حملہ کیا اگر چہ اس حملے سے پہلے اور غزنوی حکومت کے زوال کے بعد ایک سو سال کا عرصہ ایسا گذرا جس کے تاریخی حالات تاریکی میں ہیں مگر اتنا پتہ ضرور ملتا ہے کہ راجپوت راجاؤں کی خانہ جنگی اور بے امنی نے ہندوستان کے ہندو راجاؤں کو کمزور کر دیا تھا۔ شہاب الدین غوری نے دہلی، اجمیر، گجرات، بہار، اودھ اور بنگال کو فتح کرکے 1195ء میں قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کر دیا۔ سہارنپور کا دو آبی علاقہ بھی قطب الدین ایبک کے زیرحکومت رہا۔ 1193ء میں شہاب الدین غوری نے کوروکشیتر کے میدان میں ہندوستان کے ڈیڑھ سو راجاؤں کی فوجوں کو کمر تور شکست دے کر اپنی حکومت قائم کی تھی یہ بات قابل ذکر ہے کہ گھگڑقوم نے جو ایک لامذہب قوم تھی شہاب الدین کے دور حکومت میں اسلام قبول کر لیا تھا سلطان شہاب الدین نہایت بہادر اور فیاض انسان ہی نہ تھا بلکہ وہ نہایت عقل مند بادشاہ بھی تھا اس کو حاتم ہند کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ 1206ء میں علاحدہ جماعت کے کچھ لوگوں نے رات کے وقت سلطان شہاب الدین غوری کو قتل کر ڈالا۔ اس کے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی مگر امرا اور وزراء نے اس کے بھتیجے سلطان محمد کو راج گدی پر بیٹھایا سلطان محمد نے اپنے تایا شہاب الدین غوری کے مقرر کردہ نائب قطب الدین ایبک کو ہندوستان کے خود مختار بادشاہ ہونے کی سند عطا کردی قطب الدین ایبک شہاب الدین غوری کا نہایت وفادار غلام تھا اس زمانے میں مسلمانوں میں غلاموں کا درجہ اولاد کے برابر ہوتا تھا۔ آقا اپنے غلاموں کی پرورش اپنی اولاد کی طرح کرتے تھے۔ اور اپنی لڑکیوں کے ساتھ ان غلاموں کی شادیاں کردینے کو قابل فخر اور کارِثواب سمجھتے تھے۔ سلطان قطب الدین ایبک ہندوستان کا وہ پہلا مسلمان بادشاہ ہوا ہے جس نے ہندوستان میں ایک آزاد مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے پہلے یہاں کی حکومت غزنی، بغداد اور دمشق کی ذیلی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اور ہندوستان کے سلطان حکمراں کو ہر پالیسی اختیار کرنے کے لیے بغداد، دمشق اور غزنی کے حکمران کا منھ تکنا پڑتا تھا۔ اس خاندان کے دس بادشاہوں نے 1206ء سے 1290ء تک حکومت کی یہ بادشاہ قطب الدین ایبک، آرام شاہ، شمس الدین، رکن الدین، رضیہ، سلطانہ، معزالدین، میرام شاہ، علاؤ الدین سعود، سلطان ناصرالدین محمود، سلطان غیاث الدین بلبن اور سلطان معزالدین کیکبقاد تھے۔ قطب الدین ایبک نے سہارنپور کے علاقوں کو سیدھا دہلی کے صوبہ دار کے تحت کر دیا تھا۔ 1217ء میں شمس الدین نے ایک فوج شوالک کے پہاڑی راجاؤں، جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے فتنہ فساد کو کچلنے کے لیے اور دبانے کے لیے بھی اس لشکر کے ایک حصہ کو اس جگہ (سہارنپور) کے میدان پر چار ماہ سترہ دن رہنا پڑا۔ باقی لشکروں کو دہرہ دون، سرمور اور بجنور کے علاقوں میں فوجی طاقت کی نمائش کرنے اور مناسب حسب حال فوجی کارروائی کرنے کے لیے بھیج دیا گیا ان لشکروں کے سپہ سالاروں کو ہدایت کی گئی کہ وقت ضرورت سہارنپور کی چھاؤنی سے کمک حاصل کریں۔ ان لشکروں نے مذکورہ علاقوں میں امن وامان قائم کر دیا۔ 1353ء میں سلطان ناصرالدین محمود کی فوجوں نے جمناکوراج گھاٹ کے راستے سے عبور کیا اور یہ فوج ڈیرہ دون، مظفرنگر اور سہارنپور کے علاقوں میں گشت کرتی ہوئی گنگا دریا کو دریا کو درہ کوہلہ (ہریدوار) سے پار کرکے بدایوں پہنچی اس زمانے میں روہیل کھنڈ اور دوآبے میں بغاوت ہوئی اور فساد پھوٹ پڑا تھا سہارنپور اس زمانے میں سنبھل کے صوبیدار کے ماتحت تھا اور بغاوت کے زور پکڑ جانے کی وجہ سے وہ دہلی بھاگ گیا تھا تتلغ خاں جس نے دہرہ دون اور سرمور پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1257ء میں سلطان نے سرمور پر حملہ کرکے واپس لے لیا اور اپنی فوج کو سہارنپور کے راستہ سے دہلی لے گیا غلام خاندان میں سلطان محمود ناصرالدین ایک ایسا بادشاہ ہوا ہے جس نے اپنی زندگی کو ایک سال میں دو قرآن پاک اپنے ہاتھ سے لکھ کر ان کے ہدیہ سے اپنی زندگی بسر کرتا تھا اس کی بیوی گھر کا سب کام کاج خود اپنے ہاتھ سے کرتی تھی یہ بادشاہ نہایت رحم دل عبادت گزار اور درویش صفت انسان تھا اس کی بادشاہت کا سارا زمانہ بغاوتوں اور سرکشوں کے فسادات کو کچلنے پر صرف ہوا یہ بیس سال حکمت کرنے کے بعد وفات پاگیا۔

خاندان غلامان کی حکومت کے ختم ہوجانے پر اس سلطنت کی وارث خلجی خاندان بنا خلجی خاندان کے پانچ بادشاہوں (جلال الدین، قدر خاں، علاؤ الدین، شہاب الدین، عمر اور قطب الدین مبارک شاہ) نے 1290ء سے 1321ء تک اکتیس سال حکومت کی ان میں سے سلطان جلال الدین نہایت ہی نیک دل خدا ترس اور فیاض طبیعت کا باشادہ تھا اس کے سینے میں ایک خاص دل تھا اس کی ہر وقت یہی کوشش رہتی تھی کہ اس کی رعایا خوش حالی اور امن وسکون کی زندگی بسر کرے اور کسی ایک کو بھی اس کی پالیسی اور کارگذاری سے اختلاف ہو نہ تکلیف پہنچے یہ نیک دل انسان اپنے بھتیجے علاؤ الدین کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا اس کو قتل کرکے 1296ئ؁ میں علاؤ الدین خلجی تخت نشین ہو گیا گو علاؤ الدین بھی نہایت ظالم جابر اور عیاش حکمراں گذرا ہے مگر دوسری طرف یہ نہایت بہادر سپہ سالار اور اعلیٰ درجہ کا منتظم بھی تھا اس نمک حرام نے اپنے چچا جلال الدین کو قتل کرنے پر ہی بس نہیں بلکہ اس کے خاندان پر بے پناہ مظام ڈھائے 1299ء تتلغ خاں خواجہ نے جو خراسان کا بادشاہ تھا دولاکھ فوج کی قیادت کرکے ہندوستان پر حملہ کر دیا بادشاہ علاؤ الدین نے ظفرخاں کو تین لاکھ فوج دے کر مغلوں کا مقابلہ کرنے کو بھیجا آخر مغل فوج کی ہار ہو گئی اب تک دہلی پر مغلوں نے جتنے بھی حملے کیے تھے یہ ان کا سب سے بڑا حملہ تھا سلطان علاؤ الدین خلجی کے دماغ میں ایک نیا مذہب جار ی کرنے کا خبط سوار تھا یہ ان کا سب سے بڑا حملہ تھا سلطان علاؤ الدین خلجی کے دماغ میں ایک نیامذہب جاری کرنے کا خبط سوار تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ ایک ایسا بادشاہ ہو کہ جو سلیمان کی طرح جانوروں پر بھی حکومت کرے۔ خلجی خاندان کے بادشاہوں کے دور حکومت کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ ان کی حکومت کے دوران مغلوں نے پے در پے کئی حملے کیے مگر خلجیوں نے ان کے قدم یہاں جمنے نہیں دیے میں علاؤ الدین نے دیوگیر (دولت آباد) کے راجا سے چھ سو من سونا، سات من موتی، دو من لعل یاقوت زمرد وغیرہ ایک ہزار من چاندی، چار ہزار ریشمی کپڑے کے تھان نذرانہ میں لیے تھے۔ علاؤ الدین خلجی ہندوستان کی تاریخ میں پہلا مسلمان بادشاہ ہوا ہے جس نے خود اپنا اور اپنے لڑکے خضر خاں کا ہندو عورتوں سے نکاح کیا یہ ایک ایسا بہادر سپہ سالار اور مستقل مزاج حکمراں گذرا ہے جس نے کبھی بھی ہار کا منھ نہیں دیکھا اس نے ہمالیہ سے راج کماری اور سندھ گجرات سے بنگال تک کے علاقوں کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا اور جاگیرداری کو یکسہ ختم کرکے تجارت پر اتنا سخت کنٹرول حاصل کر لیا تھا کہ عام آدمی تین چار روپیہ ماہوار میں آرام کی زندگی بسر کرلیتا تھا۔ 1305ء میں دو مغل سردار علی بیگ اور بترتارک کی چالیس ہزار کی گھوڑ سوار فوج کوہ ہمالیہ کے جنگلوں کو روندتی سفر کرتی ہوئی امروہہ تک جاپہنچی لیکن سلطان علاؤ الدین خلجی نے اس فوج کو شکست دے کر دونوں سرداروں کو قید کر لیا اور پھر قتل کرڈالا سلطان علاؤ الدین کے پاس تقریباً تیس لاکھ تربیت یافتہ فوج تھی اس کی فوج میں ترکی، ایرانی، افغانی، عربی، یونانی اور ہندوستانی سپاہی شامل تھے چونکہ یہ لشکر مختلف قوموں اور زبانوں کے فوجوں پر مشتمل تھا اور کوئی ایسی مخصوص زبان ان کو پڑھائی نہ جاتی تھی جس سے یہ آپس میں ایک دوسرے کی بات سمجھ اور سمجھا سکیں جب مذکورہ قوموں کا اختلاط شروع ہوا تو یہ لوگ پہلے تو اشاروں سے ایک دوسرے کو اپنا مطلب اور مقصد سمجھاتے رہے پھر آہستہ آہستہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا استعمال عمل میں آتا گیا۔ چنانچہ اس لشکر میں مختلف زبانوں کی ایک کھچڑی زبان کا وجود میں آنا فطری بات تھی جب یہ فوجی شہر میں اپنی ضروریات زندگی خریدنے جاتے تو اسی کھچڑی زبان کے کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور کچھ اشاروں سے اپنا کام چلانے پر قناعت کرتے آخر کار یہی لشکر زبان بازاری زبان بھی بن گئی یہ لشکری زبان ہی علاؤ الدین کے فوجی سپاہیوں اور دکانداروں کے درمیان رابطہ کی زبان بن گئی چونکہ اس ملک ہندوستان پر ایرانی، افغانی اور عربی لوگ مدت سے حکومت کرتے چلے آ رہے تھے اسی وجہ سے اس لشکری زبان کا عربی رسم الخط میں لکھا جانا قدرتی اور فطری بات تھی اسی زبان کو آج اُردو زبان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امیر خسروؒ نے اسی زبان میں ایسے مقبول عام گیت لکھے کہ جن کو آج بھی نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 1306ء میں ایک مغل سردار گنگ ساٹھ ہزار فوج کا لشکر لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ غازی الملک تغلق نے اس لشکر کو شکست دے کر مغل سردار کنگ کو گرفتار کر لیا اور ہاتھی کے پیروں کے نیچے ڈلواکر مارڈالا سلطان علاؤ الدین 1316ء میں رات کے وقت اچانک مرگیا خلجیوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ان کی سلطنت شاہان تغلق کے ہاتھ آئی تغلق خاندان کے آٹھ بادشاہوں نے 1321ء سے 1414ء تک ترانوے سال تک حکومت کی اس سلطنت پر غیاث الدین تغلق سلطان سکندرشاہ تغلق نے حکومت کی۔

تغلق خاندان کا پہلا بادشاہ غیاث الدین تغلق تھا یہ ایک سائیس کی نوکری سے ترقی کرکے اعلیٰ درجے کا سپہ سالار بن گیا تھا علاؤ الدین خلجی بادشاہ نے اس کی بہادری ہوشمندی سے متاثر ہوکر اس کو دیالپور کا گورنر مقرر کر دیا تھا غیاث الدین نے مغلوں کی ایسی سرکوبی کی تھی کہ ان کے حوصلے پست ہوکر رہ گئے۔ علاؤا لدین کا یہ نہایت قابل اعتماد سپہ سالار تھا نمک حرام خسروخان کی بے وفائی جی وجہ سے خلجی خاندان کی حکومت دن بہ دن کمزور ہوتی گئی خسروخان نے اپنے کو بادشاہ بنانے کی خاطر شاہی خاندان کا بچہ بچہ قتل کرادیا تھا غیاث الدین کا لڑکا جو نہ جانے کسی طرح سے دہلی سے بھاگ کر اپنے باپ غیاث الدین گورنر دیالپور کے پاس چلا گیا اور وہاں سے دونوں باپ بیٹے نے ایک فوج لے کر دہلی پر حملہ کر دیا انھوں نے خسروخاں کو شکست دے کر خلجی حکومت کے امرا وزراء سے کہا جس کو تم لوگ چاہو اپنا بادشاہ یا امیر بنالو چونکہ خلجی خاندان کا ایک بھی بھی بچہ قتل ہونے سے نہیں بچا تھا اس لیے سب نے اتفاق رائے سے غیاث الدین کو ہی اپنا امیر چن لیا۔

غازی الملک 1321ء میں غیاث الدین تغلق کے نام سے تخت نشین ہو گیا ساڑھے تیرہ سال حکومت کرنے کے بعد یہ وفات پاگیا یہ ایک باشرع اعلیٰ درجہ کا منکسرالمزاج مسلمان بادشاہ تھا یہ معمولی سے معمولی سپاہی اور حکومت کے ملازم کے گھر پر جاکر مزاج پرسی کرتا اور ان کے حالات دریافت کرتا تھا ہر وقت رعایا کی خوش حالی کا دھیان رکھتا تھا۔ تغلق بادشاہوں میں دوسرا بادشاہ محمد تغلق شاہ جس کا اصل نام جونا خاں تھا بڑی اہم شخصیت اور پروقار خصلت کا مالک ہوا ہے۔

1329ء میں مغل سردار ترمش زین خاں ہمالیائی جنگلوں کے پرانے راستے سے اپنے لشکر کو گذارتا ہوا سہارنپور، ڈہرہ دون کو روندتا ہوا بدایوں تک جاپہنچا یہ خراسان کے بادشاہ تقلغ خاں خواجہ کا بھائی تھا محمدشاہ تغلق نے اس مغل سردار کو نقد سونا، چاندی اور جواہرات کی رشوت دے کر خراسان لوٹ جانے پر آمادہ کر لیا تھا محمدشاہ تغلق نے 1325ء سے 20 مارچ 1351ء تک ہندوستان پر حکومت کی اس نے اپنے بھائی سعود خاں کو قتل کراکر اس کی لاش کو بازار میں پھینکوادیا تھا اس کو خونریزی کا بہت ہی شوق تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس کی حکومت میں شاید ہی کوئی دن ایسا گذرا ہوکہ اس نے اپنے دروازے پر کسی کو قتل نہ کیا ہو یہ ہرہفتہ کسی نہ کسی مولوی، مفتی، صوفی اور قاضی کو قتل کرادیتا تھا یہ اپنے زمانے کا نہایت جابر اور ظالم بادشاہ گذرا ہے لیکن جہاں اس میں کئی عیوب تھے وہاں اس میں سینکڑوں اوصاف بھی تھے جہاں بھی کوئی بغاوت ہوتی یہ خود جاکر اس کو کچل دیتا تھا۔ اس کی مستقل مزاجی کا یہ حال تھا کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی اس کے ارادے کو بدل نہیں سکتی تھی اس کی فیاضی بھی حاتم طائی کی سی فیاضی تھی اس لیے بیماروں کے لیے کتنے ہی شفاخانے اور مسافروں کے لیے مسافر خانے تعمیر کرائے تھے یہ ماہر فن عالم اور فاضل کی قدر کرتا اور مالی امداد دے کر خوش حال اور مالا مال بنادیتا تھا یہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود روزہ اور نماز کا سخت پابند تھا باقاعدہ پانچوں وقت کی نماز ادا کرتا اس نے کبھی بھی کسی نشیلی چیز کو چھوا تک نہیں اور حرام کاری سے اس کو سخت نفرت تھی یہ علمی لحاظ سے فارسی اور عربی کا عالم اور اپنے زمانے کا بہترین خطاط تھایہ فارسی کا اعلیٰ پائے کا شاعر ہونے کے علاوہ فن طب کا بھی ماہر بھی تھا غرض یہ ایک ایسا عجوبۂ روزگار بادشاہ تھا جس میں سیکڑوں عیوب ہوتے ہوئے ہزاروں اوصاف بھی تھے جس جگہ آج سہارنپور آباد ہے یہاں تقریباً 726ھ مطابق 1326ء میں شاہ ہارون چشتی کا ورود ہوا نے ایسی جگہ کو اپنا مسکن بنالیا ان کے روحانی فیض سے ان کو عوام میں مقبول اور قابل احترام بنادیا جیسا کہ آپ نے پہلے بھی پڑھا ہے کہ اس جگہ (پڑاؤ) پر اندرون اور بیرون ملک سے بڑے بڑے تجارتی مذہبی اور فوجی قافلے آتے جاتے تھے ان قافلہ کے لوگوں کے ذریعہ شاہ ہارون چشتی کے فیض کی دور دور تک شہرت پھیل گئی اور سلطان محمد شاہ تغلق کے کانوں میں بھی امرا، وزراء اور دیگر درباریوں کی زبانی حضرت کے روحانی فیوض کی باتیں پہنچ گئی تھیں۔

1340ء میں اپنی تخت نشینی کے پندرہ سال کے بعد محمد بن تغلق کو دیوگیر کی بغاوت جو اس کے بھانجے گرشاسپ نے کی تھی کو کچلنے کے بعد ہمالیائی اور کوہ شوالک کے راجاؤں، جاگیروں اور بڑے بڑے زمینداروں کی سرکشی کی خبر لی یہ سرکشی اُس زمانے میں پیدا ہوئی تھی جب کہ سلطان محمد تغلق نے اپنے خزانے کو بھر کر پوری دنیا کا حکراں بن جانے کے خواب کو پورا کرنا چاہا تھا اس نے دو آبے (سہارنپور) ڈیرہ دون، مظفرنگر کے علاوہ پر چار گنا ٹیکس لگا دیا تھا پہاڑی راجاؤں، جاگیروں اور بڑے بڑے زمینداروں کو پرانے ٹیکس ہی ادا کرنے میں دشواری ہو رہی تھی نئے مجوزہ ٹیکسوں کو بھلا یہ کیسے برداشت کرسکتے تھے چنانچہ ان لوگوں نے محمد بن تغلق کے خلاف ہنگامہ آرائی اور عدم تعاون کی تحریک چلادی اس سرکشی کو دبانے کے لیے محمد شاہ تغلق ایک فوج لے کر مظفرنگر اور سہارنپور کو ہوتا ہوا شوالک کی پہاڑیوں میں گھسا مگر عوام کے عدم تعاون سے اس کو اپنے مقصد میں ناکامی نصیب ہوئی، آخر اس کو بہت ہی نرم شرائط پر راجاؤں اور جاگیرداروں سے سمجھوتہ کرنا پڑا سمجھوتہ کرنے کے بعد محمد بن تغلق جمنا کے کنارے کنارے دہلی جانے کے لیے چل پڑا راستہ میں اس کو شاہ ہارون چشتی کے روحانی فیوض کی یاد آئی چنانچہ اس نے جمنا کے کنارے موضع قطب پور کے نزدیک ہی سے اپنی فوجوں کو سہارنپور کی طرف موڑ دیا اور شاہ ہارون چشتی کی خدمت میں حاضری دی تاریخی مبصرین کا خیال یہ ہے کہ محمد شاہ تغلق دنیا کا بادشاہ بن جانے کے حق میں میں سے دعا کرانے کی خاطر گیا تھا مگر شاہ صاحب نے اس پر کچھ ایسی توجہ ڈالی کہ محمد بن تغلق اپنے دل کی بات اپنی زبان پر نہ لاسکا اور سلام کرکے واپس خیمہ میں لوٹ آیا اگلے دن 6؍ستمبر 1340ء جمعہ کے دن محمد شاہ تغلق اس آبادی کو شاہ ہارون کے نام سے منسوب کرنے کا افتتاح کیا اور شاہی کاغذات میں شاہ ہارون پور درج کرنے کا حکم دیا (شاہ ہارون پور) کے اس پڑاؤ کو دوآبی فیرود گاہ کے نام سے جانا جاتا تھا اس زمانے کی تواریخی کتابوں کے مطالعہ سے ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ اس میدان پر شاہ ہارون چشتی کا ورود 726ھ مطابق 1325ء میں ہوا اگر چہ جمعہ کے دن 5 ستمبر 1340ء میں محمد بن تغلق نے اس بستی کو شاہ ہارون کے نام سے منسوب کیا میرے اس قیاس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ خواجہ فریدالدین کے صاحبزادے محمد سالار نے اس شہر کی تاریخ شہرپُر زیب (726ھ) کہی ہے خواجہ فریدالدین مع اپنے اہل و عیال اس علاقہ میں رہا کرتے تھے سید سالار اپنے زمانے کا مشہور عالم گذرا ہے محمد بن تغلق کے کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس لیے بادشاہ اپنے چچا زاد بھائی ملک فیروز سے اولاد کی طرح محبت کرتا تھا محمد بن تغلق کی موت ٹھٹھہ (سندھ) کے مقام پر 20 مارچ 1351ء کے دن واقع ہو گئی اس کے موت کے بعد سلطنت کے امرا، وزراء، سپہ سالاروں اور درباریوں نے متفقہ طور سے ملک فیروز سے تخت نشین ہونے کی التجاء کی پہلے تو ملک فیروز نے تخت نشین ہونے سے انکار کر دیا مگر امرا سلطنت کے بہت زور دینے اور سلطنت کی مصلحت کی وجہ سے ملک فیروز راج گدی سنبھالنے کے لیے راضی ہو گیا تھا۔ چنانچہ 20 مارچ 1351ء کے دن محمد بن تغلق کے لقب سے تخت نشین ہو گیا تخت نشین ہونے سے پہلے اس نے دو رکعت نفل نماز ادا کرکے خدا کے حضور میں گڑ گڑا کر اس کامیابی اور سرخروئی کے لیے دعا مانگی اور پھر محمد شاہ تغلق کی وفات کے ماتمی لباس پر ہی تخت نشینی کی پوشاہ اور سرپر تاج پہنا، گدی نشینی کے وقت امرا اور وزراء نے فیروز ملک کو ماتمی لباس اتار کر تاج شاہی سر پر رکھنے کی گزارش کی مگر فیروز ملک نے نہایت رقت آمیز لہجہ میں رو کر کہا کہ میں نے آپ کے پر خلوص اصرار اور اس مسلم سلطنت کی مصلحت کی بنا پر یہ تاج شاہی سر پر رکھا ہے، ورنہ بادشاہت میں میری دلچسپی نہیں ہے یہ ماتمی لباس تو اس شخص کا ہے جو میرا باپ بھی تھا اور محسن واستاذ بھی، آج اس دنیا میں میرا کوئی ناز بردار اور مشفق نہیں ہے۔ فیروز شاہ تغلق نہایت رحمدل بادشاہ تھا اس کو قتل انسانی سے سخت نفر تھی۔ سخت ضرورت کے پیش آجانے ہی پر یہ جنگ کرتا تھا 1379ء میں فیروز شاہ تغلق سہارنپور، انبالہ اور سمانہ میں متعین شاہی فوجوں کا معائنہ کرنے اور ان کی صلاحیت کا اندازہ کرنے کے لیے دورے پر نکلا اس دورے میں اس کو انتظامی اور سیاسی حالات کا علم حاصل کرنا تھا اس دورے میں فیروز شاہ تغلق نے جب کوہ شوالک میں شکار کھیلنے کو اپنے منصوبہ میں شامل کیا شکار کھیلنے کے منصوبہ کا بہانہ صرف پہاڑی راجاؤں کی سیاسی حرکتوں کی بابت جانکاری اور معلومات حاصل کرنا بھی تھا ان دنوں ان پہاڑیوں پر گینڈا بھی پایا جاتا تھا پہاڑی راجاؤں نے فیروز شاہ تغلق کا نہایت گرم جوشی سے استقبال اور معقول نذرانے بھی پیش کیے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ فیروز شاہ نے سہارنپور کے پڑاؤ (دوآبی فیرودگاہ) پر ایک فوجی لشکر مستقل طور سے رکھا ہوا تھا دوآبہ کے علاقوں (ڈیرہ دون، سہارنپور اور مظفرنگر) کے انتظام کی ذمہ داری اس لشکر کے سپرد کی ہوئی تھی اور فیروز شاہ تغلق نے انبالہ اور سمانہ میں متعین فوجوں کو آپسی رابطہ قائم رکھنے کی سخت ہدایات دے رکھی تھی جب دوسری بار فیروز شاہ 1387ء میں شوالک کے پہاڑی جنگلوں میں گینڈے کا شکار کھیلنے آیا اس زمانے میں سہارنپور کے پڑاؤ پر اس کی دس ہزار فوج چھاؤنی بنائے ہوئے تھی اس جگہ کو چھانی بنانے میں پہاڑی علاقہ پر کڑی نظر رکھا اور بروقت فوجی کارروائی کرکے مخالف لوگوں کو سزا دینے کا مقصد کار فرما تھا چونکہ فیروز شاہ تغلق کی فوجوں نے کئی سال تک اس جگہ کو چھاؤنی کے طور پر استعمال کیا اس وجہ سے اس پڑاؤ (موجودہ گاندھی پارک) کو فیروزگاہ کے نام سے 1947ء تک پکارا جاتا رہا۔ ہندوستان کو آزادی ملنے کے بعد یہاں مہاتما گاندھی کا مجسمہ نصب کرکے اس میدان کو گاندھی پارک نام سے منسوب کر دیا گیا 1387ء کے آخری دنوں میں اس نے اپنے جیتے جی ہی اپنے لڑکے محمد شاہ کو ناصرالدین محمدشاہ کے لقب سے تخت نشین کر دیا اور خود یادِالٰہی میں مغشول ہو گیا۔ ناصرالدین محمد شاہ میں حکومت کرنے کی ذرہ بھر بھی صلاحیت نہ تھی اس کی حماقتوں کی وجہ سے اس کے چچا زاد بھائی ملک بہاؤ الدین اور کمال الدین نے بغاوت کردی۔ مگر فیروز شاہ کی بروقت سیاسی چال نے اس بغاوت کو دبادیا اور ناصرالدین محمدشاہ بھاگ کر سرمور کے جنگلوں میں جا چھپا۔ 1398ء کے دوران امیر تیمور نے ہندوستان پر حملہ کرکے پشاور، پنجاب، ملتان کو روند کر دہلی پر قبضہ کر لیا یکم جنوری 1399ء کے دن یہ میرٹھ اور بلند شہر کے قلعوں کو فتح کرنے پر متوجہ ہوا ان قلعوں کو تسخیر کرنے کے بعد اس نے اپنی فوجوں کو دو حصوں میں میں تقسیم کر دیا۔ ایک لشکر کی قیادت خود امیر تیمور کرتا ڈیرہ دون اور ہماچل کے جنگلوں میں سے ہوکر دیپالپورپہنچ گیا اور دوسرے لشکر کی قیادت اپنے پوتے پیرمحمد عرف جہاں شاہ کے سپرد کردی اور پیرمحمد کو ہدایت کی کہ وہ فوجی کارروائی کرتا ہوا اس سے دیپالپور آملے ان دونوں لشکروں نے گنگا کو درہ کوہلہ (ہردوار) کے راستہ سے پار کیا تھا پیرمحمد عرف جہاں شاہ فتح پور دمجھیڑہ اور بوڑیہ کے درمیان سے جمناپار لے کر گیا جمنا کو پار کرنے کے بعد اس نے لشکر کو ساڑھورہ اور انبالہ کے راستے سے گزارا۔ امیر تیمور نے ڈیرہ دون اور ہماچل اور اس کے پوتے پیرمحمد عرف جہاں شاہ نے دو آبے (سہارنپور) کے علاقوں میں خوب لوٹ مار کی اور دونوں دیپالپور میں جاملے امیر تیمور ہندوستان میں لوٹ کھسوٹ کرنے کے بعد اپنے وطن واپس چلا گیا۔ واپس جانے سے پہلے 19مارچ 1399ء کو اس نے خضرخان کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کر دیا تھا۔

امیرتیمور سادات خاندان کا بہت ہی احترام کرتا تھا اسی وجہ سے خضر خاں سادات کو اس نے اپنا نائب چنا تھا سید سادات جلال بخاری نے بھی اپنا ایسا ہی خیال ظاہر کیا ہے خضر خاں امیر تیمور کا نائب بن جانے کی وجہ سے ملتان، دیپالپور اور رامپور کا حاکم اعلیٰ بن گیا اور یہ ہندوستان میں قابل توجہ شخصیت بن کر ابھرا۔

1414ء میں پورے ملک میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی اس بدنظمی اور بے امنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خضرخاں نے امیر تیمور کے نام پر دہلی کی حکومت پر قبضہ کر لیا اور امیر تیمور کے نام کا خطبہ پڑھوایا اسی زمانے میں سادات فرقہ کے لوگ ضلع مظفرنگر کے ایک ہی علاقہ میں کسی طرح سے بارہ گاؤں میں آباد ہو گئے ان گاؤں میں سادات لوگوں کی غالب اقتداری حیثیت بن کر ابھری ان بارہ گاؤں کی سرحد میں ایک دوسرے گاؤں سے ملتی تھیں اسی وجہ سے مؤرخوں نے ان بارہ گاؤں کو سادات بارہ کا نام دیا ہے ان سادات خاندان کو فیروزشاہ کے گورنر خضرخاں سادات کے زمانے میں خوب عروج حاصل ہوا خضر خاں نے دہلی کی حکومت پر قبضہ جمانے کے بعد سید سالم کو سہارنپور کا منتظم مقرر کیا اور یہ علاقہ اس کوبخشش کر دیا پھر اس کو ترقی دے کر سرہند کا گورنر بنادیا اور اپنے چچازاد بھائی فریدالدین خاں کو فریدالملک کا خطاب دے کر سہارنپور کا عامل مقرر کر دیا۔

شاہ فیروز نے فریدالملک کو دوپرگنے بھی عطا کردیے فریدالدین خاں عرف فریدالملک نہای ہی منکسر المزاج اور درویش صفت انسان تھا یہ ٹھاٹھ باٹ کی زندگی کو پسند نہیں کرتا تھا اسی وجہ سے یہ ایک معمولی سے مکان میں رہا کرتا تھا لیکن شاہی افسروں کے ٹھہرنے اور آرام کرنے کے لیے اس نے کچی اینٹوں کا ایک محل بنوادیا تھا تاکہ دہلی اور دوسری جگہوں سے آنے جانے والے عہدیدار اس محل میں ٹھہر سکیں اور آرام کرنے کے قابل ہوسکیں سہارنپور شہر میں جس جگہ کچی اینٹوں کا محل بنا ہوا تھا اس محلہ کو آج مٹیا محل کے نام سے پکارا جاتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیرشاہ سوری کی حکومت سے پیشتر اس شہر میں پختہ اینٹوں کا کوئی مکان تھا ہی نہیں۔ سید سالم نے سرہند سے لے کر امروہہ تک کے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط بنالی تھی یہ سادات فرقہ کے لوگوں کو حکومت کے اندر اور باہر منافع بخش عہدے اور مواقع فراہم کرتا رہا۔

1430ء تک سیدسالم اس علاقہ کا گورنر بنا رہا اس کی وفات کے بعد اس کی جائداد اس کے لڑکوں سعیدخاں اور شجاع الملک کو سونپ دی گئی انھوں نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کی اور یہ دونوں قید ہو گئے۔ سارک شاہ نے ان کی جائداد اور جاگیرداری کی زمین کو دشمن کی جائداد قرار دے کر بحق بادشاہ ضبط کر لیا۔

1427ء میں سہارنپور میں بسے سادات فرقہ کے لوگ بادشاہ مبارک شاہ کو اپنی وفاداری جتانا چاہتے تھے۔ مگر ان کے مخالفوں نے ان کی اس نمائش اور چال کو ناکام بناکر رکھ دیا اور سہارنپور کے شاہی منتظم کی اقربت حاصل نہ ہونے دی اور شاہی عہدیداروں کے نزدیک نہ آنے دیا۔ 1433ء میں سلطان محمدشاہ متبنّیٰ فرید خاں کا بیٹا اور خضرخاں کا پوتا حکمراں تھا یہ سید اس کے حمایتی بن گئے محمدشاہ نے ان سیدوں کی ضبط شدہ جائداد اور جاگیران سیدزادوں کو واپس کردی یہ لوگ اپنی اپنی جائدادوں کے پھر سے مالک بن گئے اس طرح سے یہ لوگ پھر 1451ء تک اپنی من مانی کرتے رہے اور ان کو اس علاقے پر ہر طرح سے برتری حاصل رہی سیدوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ہندوستان کی حکومت کے وارث شاہانِ لودھی بنے لودھی خاندان کے تین بادشاہوں (بہلول لودھی، سلطان سکندر لودھی، سلطان ابراہیم لودھی) نے 1451ء سے 1526ء تک تقریباً پچھتّر سال ہندوستان پر حکومت کی سلطان بہلول لودھی نے اپنی تخت نشینی کے تقریباً ستائیس سال بعد سلطنت جونپور کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ریاست جونپور گنگا جمنا کے درمیانی علاقہ میں شمال تک پھیلی ہوئی تھی اس کے دورِ حکومت میں 1478ء کے زمانے میں میں شہر سہارنپور کے ایک سید زمیندار نے اپنے باغ کے پاس خالی پڑی زمین پر ایک کالونی آباد کرکے شاہ بہلول، کے نام سے منسوب کر دیا یہ جگہ اب بھی محلہ شاہ بہلول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں کے اہل سنت والجماعت کے مفکروں، دانشوروں اور سیاست دانوں نے نہایت ہوشمندی سے کام لے کر اس سید زادے کا اثر ورسوخ سلطان بہلول لودھی کے دربار میں نہ ہونے دیا سلطان بہلول لودھی اور سلطان سکندر شاہ لودھی نہایت ہی نیک دل، منکسرالمزاج حکمراں تھے سلطان سکندر شاہ لودھی کے زمانے کا سب سے اہم کارنامہ یہ ے کہ اس نے لوگوں کو فارسی پڑھا لکھا کر بادشاہت میں ملازمتیں عطاکیں اس نے فارسی پڑھنے لکھنے والے لوگوں کو مالی امداد دے کر حوصلہ افزائی کی ملک میں بہت سے ایسے مدارس قائم کیے جن میں لوگوں کو فارسی پڑھنا لکھنا سیکھنے کے لیے بھاری بھاری وظائف دیے جاتے اور یہاں سے فارغ ہونے پر ان کو شاہی ملازمت میں ترجیح دی جاتی تھی چنانچہ کائستھ برادری نے خاص طور سے فارسی سیکھ کر حکومت میں بڑے بڑے عہدے حاصل کیے۔ لودھی خاندان کے بادشاہوں کے زمانے کی یہ بھی مخصوص قابل فخر بات ہے کہ ان کے دور حکومت میں روز مرہ کے کام میں آنے والی اشیاء زندگی کا بھاؤ نہایت مستحکم اور سستا رہا ان کی حکومت کی یہ بھی خصوصیت رعونت بھرے رویہ نے اس کے ہم قوم افغانوں کو ناراض اور بددل کر دیا تھا۔ کچھ مؤرخوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ان ناراض افغانوں ہی نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی تھی ان کے دورِ حکومت کی فوجی حرکات وسکنات جو دوآبے (سہارنپور، مظفرنگر) کے علاقوں کے لیے عمل میں آئیں تاریخ میں مواد نہیں مل سکا۔

مغلوں کے عہد میں

1524ء میں بابر شاہ نے دولت خاں حاکم پنجاب، ابراہیم لودھی کے چچا زاد بھائی علاؤ الدین اور چتوڑ کے راجا رانا سنگا کی دعوت پر ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ بابر کا ہندوستان پر یہ پانچواں حملہ تھا۔ اس حملے میں بابر نے پشاور، سرہند اور انبالہ پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے لشکر کا پڑاؤ جمناکنارے پر سرساوہ سے مغرب کی طرف آرام کرنے اور لشکر کو آراستہ کرنے کی خاطر ڈال دیا تھا اس زمانے میں سہارنپور حاکم سرساوہ کے زیر انتظام تھا۔ بابر نے بلا کسی مزاحمت کے سرساوہ پر قبضہ کر لیا قبضہ کرنے کے بعد باہر گھوڑے پر سوار ہوکر سرساوہ کی گلیوں میں گھوما۔ ترویدی بیگ ککشال کو سرساوہ کا فوجدار اور منتظم مقرر کرکے اِندری (کرنال) کی طرف کوچ کرگیا اندری پر قبضہ کرنے کے بعد بابر پانی پت کے میدان جنگ کی طرف بڑھا چلا گیا پانی پت کے میدان جنگ میں ابراہیم لودھی کی فوجوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا اس لڑائی میں بیشمار قتل انسانی ہوا اور اس عظیم قتل انسانی کی وجہ سے پانی کا میدان آسیب زدہ مشہور ہو گیا تھا کسی سال تک یہ روایتی کہانی بنی رہی کہ اس میدان سے رات اور دوپہر کے وقت قتل کرو،بھاگو، پکڑو کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ اس جنگ میں کم وبیش پچاس ہزار آدمی قتل ہو گئے تھے میدان جنگ میں سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا تھا اس کی لاش کو سب سے پہلے طاہرؔ تبریزؔ نے شناخت کیا تھا جس زمانے میں بہادر خاں عرف سلطان محمود لوہانی بہار پر حکومت کر رہا تھا اس زمانے میں لوہانی پٹھانوں کی فوجی طاقت عروج پر تھی ان کی فوج طاقت کی وجہ سے لوہانی پٹھانوں کا اثر ورسوخ چاروں طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا اس زمانے میں شہر سہارنپور کے لوہانی سودا گر یہاں تجارت کی منڈی پر چھائے ہوئے تھے ان لوہانی سوداگروں کی بڑی بڑی دوکانیں اس بازار میں تھیں جس کو آج نخاسہ بازار کے نام سے پکارا جاتا ہے اس بازار کو لوہانی سوداگروں نے ہی بنایا تھا انھوں نے سلطان محمد لوہلانی حاکم بہار کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے متأثر ہوکر اپنے ہم قوم لوہانیوں کے ٹھہرنے کی سہولت کے لیے ایک سرائے تعمیر کرائی، کہتے ہیں کہ 1525ء اور 1531ء کے درمیان یہ سرائے تعمیر ہوئی اور اس سرائے میں بیک وقت پانچ سو آدمیوں کے ٹھہرنے کی گنجائش تھی لوہانی سوداگر 1725ء تک جزوی طور پر اور اس بازار کے مالک بنے رہے۔ گو آج اس لوہانی سرائے کا کوئی کھنڈر دیکھنے کو نہیں ملتا مگر اس محلہ کو آج بھی لوہانی سرائے کے نام ہی سے جانا جاتا ہے۔ 1946ء کے زمانے میں انگریزی حکومت نے ہندوستان میں صوبائی الیکشن کرائے تھے یہ الیکشن فرقہ وارانہ نیابت کے تحت عمل میں آئے تھے اس عرصہ میں ایک دن مرحوم ومغفور چودھری رشید احمد قریشی میونسپل کمشنر نے دورانِ گفتگو بتلایا تھا کہ میں نے اپنے بزرگوں اور دوسرے بوڑھوں کی زبانی سنا ہے کہ یہاں پر دومنزلہ لوہانی سرائے محلہ چنور برداران کے جنوب میں بنی ہوئی تھی اور یہ سرائے موجودہ مشرقی چوک یعنی ٹاٹا کی دکان سے میرے (چودھری صاحب) مکان کے چوک تک شرقاً غرباً پھیلی ہوئی تھی اور اس سرائے کے سامنے بہت سے سایہ دار درخت لگے ہوئے تھے مسافر لوگ اپنی سواری کے جانوروں کو ان درختوں کے سایہ میں باندھا کرتے تھے اور اس زمانے میں گندہ (کرگھی) نالے میں صاف ستھرا پانی ہمیشہ بہا کرتا تھا۔

شیرشاہ سوری بہار کے کمسن حکمراں جلال خاں کے یہاں ملازم تھا اور اس کا نگراں واتالیق بھی تھا لوہانی پٹھانوں نے اس کو بہار کے حکمراں کے دربار سے باہر نکال دیا 1526ء میں بابر اور ہمایوں نے جب آگرہ پر حملہ کیا گوالیار کا راجا بکرماجیت ابراہیم لودھی کی حمایت میں لڑتا ہوا مارا گیا اور ہمایوں نے اس کے اہل و عیال کو قید کر لیا تھا بکرماجیت کے جانشین نے ہمایوں کو نذرانہ میں جو قیمتی جواہرات دیے ان میں وہ تاریخی کوہ نور ہیرا بھی تھا جو آج کل برطانیہ کے بادشاہ، کے تاج میں لگا ہوا ہے اس ہیرے کا وزن آٹھ مثقال (ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ ہوتا ہے) تھا بابر کے زمانے میں نو مٹھی کا گز اور چالیس گز کی ایک جریب اور سوجریب کا ایک کوس پیمائش کے لیے مقرر تھا۔ 4 ربیع الاول 935ھ مطابق 1528ء کے دن بابر بادشاہ نے چقماق بیگ کومذکورہ پیمائش حساب کے ذریعہ کابل سے آگرہ کے درمیان کا فاصلہ ناپنے کے لیے مقرر کیا تھا اس زمانے میں بابر کی توپ تقریباً چھ سو قدیم تک کے فاصلہ پر مار کرتی تھی 1540ء کے دوران شیرشاہ سوری ہمایوں کو چونسہ اور قنوج کے قریب دریائے گنگا کے کنارے پے در پے شکست دے کر ہندوستان کا حکمراں بن گیا اور ہمایوں کو ہندوستان سے باہر بھاگ جانے پر مجبور کر دیا۔

شیرشاہ سوری نے اس زمانے میں ناصر خاں عرف نصیر خاں کو سنبھل کا حاکم مقرر کیا تھا مگر سنبھل کی رعایا شیرشاہ سوری نے اس زمانے میں ناصر خاں عرف نصیر خاں کو سنبھل کا حاکم مقدار کرکے نصیر خاں کو اس کے ماتحت کر دیا تھا 1545ء میں شیرشاہ سوری وفات پاگیا سوری خاندان کے چار بادشاہوں (شیرشاہ سوری، سلیم شاہ، فیروز شاہ اور مبازر خاں عرف محمد شاہ عادل) نے 1540ء سے 1554ء یعنی چودہ سال تک ہندوستان پر حکومت کی، فیروز شاہ سوری کو اس کے حقیقی ماموں مبازر خاں عرف محمد شاہ عادل نے اپنی بہن کی گود ہی میں قتل کرکے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا شیرشا کی موت کے بعد حکومت میں تنزل آ گیا تھا علاؤ الدین عرف عالم خاں میانہ نے بغاوت کرکے سارے دو آبے (مظفرنگر، سہارنپور اور ڈیرہ دون) کے علاقہ پر قابض ہو گیا تھا پھر اس نے جمنا کو بوڑیہ، دمجھیڑا کے گھاٹ سے پار کرکے انبالہ اور روپڑ کو فتح کرکے سرہند پر حملہ کر دیا لیکن سرہند کے حاکم ملک بھگونت سنگھ نے اس کو شکست دے کر قتل کر ڈالا۔ کہتے ہیں کہ شیرشاہ سوری نے شہر سہارنپور کے محلہ رام نگر (پٹھانپورہ) اور محلہ خان عالم پورہ کے درمیان ڈھمولہ ندی پر تیس دروازوں والا پل بنوایا تھا یہ پل آج بھی موجود ہے اس کے ساتھ ہی اندرا گاندھی کی حکومت نے سیمنٹ، لوہا اور کنکریٹ کا نہایت کشادہ، پائیدار اور خوبصورت پل 1984ء میں تیار کیا ہے اس تیس درہ پل کے سوا سہارنپور سوری خاندان کے بادشاہوں نے اپنی کوئی قابل ذکر چھاپ نہیں چھوڑی۔

1555ء میں ہمایوں نے سوری خاندان کمزوری اور گرتی ہوئی طاقت سے پورا فائدہ اٹھایا اور نہایت آسانی سے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی ایسی مضبوط بنیاد ڈالی کہ جو 1707ء تک نہایت شان اور آن بان سے قائم رہی یہ مضبوط حکومت اورنگ زیب کی وفات تک ایک سواکاون سال رہی اورنگ زیب کی وفات بعد بھی یوں تو اسی مغلیہ خاندان کے بادشاہ ہی 1857ء تک تخت سلطنت پر براجمان رہے مگر نام چارے ہی کے حکمراں تھے ورنہ اُمراء اور وُزراء ہی حکمرانی کرتے رہے 24جنوری 1556ء کے دن ہمایوں پچاس سال کی عمر میں کتب خانے کی سیڑھیوں سے گر کر جاں بحق ہو گیا تھا ہمایوں کی وفات کی خبر جب بیرم خاں کو پہنچی تو اس نے مصلحت کے مطابق کلانور کے مقام پر اکبر کی تاج پوشی کی اس وقت اکبر کی عمر 13سال تھی وفات کے سترہ دن بعد اس کا بیٹا 10 فروری 1556ء کو شہنشاہ جلال الدین اکبر کے لقب سے راج گدی پر بیٹھا اس وقت شہنشاہ جلال الدین اکبر کی عمر تیرہ سال نو مہینے تھی بیرم خاں اکبر کا اتالیق اور نگراں تھا اسی بیم خاں نے 1558ء میں سرساوہ کے حاکم اور جاگیردار ترویدی بیگ ککشال کو قتل کرادیا تھا اکبر نے 1556ء ہمیوبقّال کو پانی پت کے میدان جنگ میں شکست دے کر اپنے سپہ سالاروں، درباریوں، امراؤں اور وزراؤں کو خطابات اور انعامات تقسیم کیے اس خوشی میں اکبر نے سکندر خاں کو خان عالم کا خطاب دیا اور شیخ پورہ قدیم کی زمین اس کو بخشش کردی اکبر نے خان عالم کو دوہزار پیادے اور ایک ہزار گھوڑے سوار فوج رکھنے کی سند دے کر سہارنپور کا فوجدار مقرر کر دیا ایک مؤرخ بلانشاندہی کے لکھتا ہے کہ اکبر کے زمانے میں شہر سہارنپور میں ایک معمولی سا قلعہ تھا اس قلعہ پر کلال، افغان اور تگے قابض تھے وہ لکھتا ہے کہ بیربل نے اکبر سے قلعہ کے ان قابضوں کو آٹھ سو پیادے اور ایک سو گھوڑے سوار سپاہی اپنی حفاظت کی خاطر رکھنے کی سند دلوائی تھی میں نے اکبرنامہ کا بغور مطالعہ کیا ہے مگر اس میں شہر سہرنپور کے کسی قلعہ کا ذکر نہیں ہے وہ لکھتا ہے کہ اکبر نے بیربل کو بوڑیہ، جگادھری اور سہارنپور کے انتظام کا ذمہ دار ٹھہرا رکھا تھا اس زمانے میں شہنشاہ اکبر کے صوبہ سے سترہ لاکھ سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی 1557ء میں شیخ پورہ قدیم کے زمینداروں نے ڈھمولہ ندی کے کنارے پر ایک بستی آباد کی اور اس آبادی کو خان عالم کے نام سے منسوب کر دیا یہ بستی آج تک محلہ خان عالم پورہ کے نام سے جانی جاتی ہے اس بادشاہ کے زمانہ میں سہارنپور اور ہریدوار میں سکّے بنانے کے کارخانے تھے اسی بادشاہ نے سہارنپور کی سرکار کو دہلی صوبے سے الگ کرکے اس کا علاحدہ سے صوبہ بنادیا تھا سہارنپور کے صوبے میں دیوبند، سردھنہ، کیرانہ، دہرادون اور اِندری (کرنال) کے ضلع شامل تھے شہزادہ خرم پسر نور الدین جانگیر جو بعد میں شاہجہاں کے نام اور لقب سے مشہور ہوکر جانا جاتا ہے خرم کی تعلیم وپرو رش خود اکبر بادشاہ اور اس کی بیوی خدیجہ زمانی سلطان بیگم نے اپنی اولاد کی طرح کی اور خرم اپنے دادا اکبر کے آخری سانس تک اس کے قدموں میں رہا حالانکہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ خرم کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے کا موقع بھی پیش آ گیا تھا مگر اس نے دادا اور دادی سے جدا ہونا پسند نہ کیا۔ 1605ء میں اکبر کی وفات کے بعد شہزادہ سلیم نورالدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا جہانگیر نے اپنی تاجپوشی کی رستم کی ادائیگی کے بعد امرا وزراء درباریوں اور سپہ سالاروں کو خطابات اور انعامات تقسیم کیے کچھ عہدیداروں کے عہدے بڑھادیے سکندر خاں عرف خان عالم کو میرشکار کا عہدہ دیا گیا اور چار ہزار پیادے اور اور تین ہزار گھوڑے رکھنے کی سند عطا کردی خان عالم کو پرندوں کی دیکھ بھال، چوپائے اور جانوروں کی نگہداشت رکھنے اور شکار کرنے میں کمال حاصل تھا خانم عالم شکار کرنے میں نہایت ماہر اور تجربہ کار تھا۔ 1622ء میں جہانگیر ہریدوار گیا اور دہرہ دون کے جنگلات میں شکار کھیلا اس عرصہ میں خانم عالم میر شکار نے جہانگیر کے سامنے جمنانگر کے کنارے مخلص پور اور شوالک پہاڑ کے درمیان شاہی شکار گاہ تعمیر کرانے کی تجویز پیش کی تھی اسی عرصہ میں نورجہاں بیگم اور جہانگیر نے نورنگر (مظفرنگر) میں اپنے قیام کے دوران سہارنپور کے مخلص پور تک کے علاقوں کا دورہ کیا اور شکار کھیلا اکبر کے زمانہ تک سہارنپور میں سینکڑوں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ جن کا تعلق اس دوآبے (سہارنپور) کے انتظامیہ سے رہا اور اس کا انتظام معمولی سے معمولی آدمی کے سپرد کیا جاتا اس کو زمین بخشش میں دی جاتی رہی جہانگیر بادشاہ نے اپنی تخت نشینی کے فوراً بعد زنجیر عدم قلعہ میں لگوادی تھی یہ زنجیر سونے کی بنی ہوئی تھی اور اس کا وزن چار من اور لمبائی تیس گز تھی اس زنجیر میں ساٹھ گھنٹے لگے ہوئے تھے جب کوئی مظلوم اس زنجیر کو کھینچتا تو یہ گھنٹے اتنی زور سے بجتے کہ سوتے ہوئے لوگ جاگ اٹھتے تھے اور لوگوں کو علم ہوجاتا تھا کہ کوئی مظلوم یا فریادی بادشاہ کے پاس آیا ہے اس زنجیر پر کوئی پہرہ نہیں تھا ہر مظلوم کو اس کو کھینچنے کا حق حاصل تھا اکبر بادشاہ کے زمانے میں احدی سپاہیوں کی ماہانہ تنخواہ دس روپیہ تھی جہانگیر نے ان کی تنخواہ پندرہ روپیہ ماہانہ اور ان کے شاگردوں کی تنخواہ بارہ روپیہ ماہانہ کردی تھی اس نے بندراین میں گوبند دیوی کا مندر تعمیر کرایا تھا جہانگیر اسلامی تہواروں کی طرح ہندو تہوار بھی منایا تھا جہانگیر بادشاہ نے دیوان چندو لال کی سازش کا شکار ہوکر سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیوسنگھ کو گرفتار کراکر ولاکھ روپیہ جرمانہ کیا تھا مگر گروارجن دیو سنگھ نے یہ جرمانہ ادا کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کی اس کے انکار کرنے پر بادشاہ نے گروجی کو لاہور کی کوتوالی میں بھیجوادیا مگر گروجی کا شدید ترین مخالف چندو لعل مغل کوتوالی کو بہکا کر گروجی کو اپنے گھر لے گیا اور نہایت تکالیف دے دے کر قتل کر دیا جہانگیر نے خسرو کے سات سو حمایتی باغیوں کی کھالیں کھنچوا کر موت کے گھاٹ پہنچا دیا تھا جہانگیر نے اپنے بیٹے خرم کو 1617ء میں شاہجہاں کا خطاب دے کر اپنے تخت سلطانی کے برابر ایک صندلی تخت ڈال کر جلوس کرنے کا حکم دیا تھا خاندان تیموریہ اور دوسرے مسلمان بادشاہوں نے اس نے پہلے اپنے تخت حکومت کے برابر کسی دوسرے کا تخت بچھوانا پسند اور گوارا نہیں کیا تھا۔

1591ء میں شاہجہاں مارواڑ کے راجا اودھے سنگھ کی بیٹی جگت گسائی کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا 1608ء کے دوران شاہجہاں کی شادی یمین الدولہ آصف خاں کی بیٹی ممتاز محل سے ہوئی تھی اس وقت شاہ جہاں کی عمر اکیس سال اور ممتاز محل کی عمر انیس سال تھی شاہجہاں کو اپنے اس بیوی سے محبت ہی نہیں بلکہ والہانہ عشق بھی تھا۔

1627ء کے دوران سلیم نور الدین جہانگیر بادشاہ وفات پاگیا جہانگیر کی وفات کے بعد شہزادہ خرم شاہجہاں کے لقب سے تخت نشین ہو گیا اس نے اپنی تاجپوشی کے وقت اُمراء وزراء درباریوں اور سپہ سالاروں کو انعامات اور خطابات عنایت کیے 1631ء کے دوران ملکہ ممتاز محل کی وفات ب رہانپور میں ہو گئی۔ اس کی موت ایک بچی جس کا نام گوہر آراء بیگم تھا کی ولادت کے وقت ہوئی تھی شاہجہاں اس صدمہ کو اپنے آخری سانس تک بھلا نہ سکا اس وقت تو ملکہ ممتاز محل کو ب رہانپور ہی میں سپردخاک کر دیا گیا تھا۔ مگر چھ ماہ بعد اس کی میت کو قبر سے نکال کر آگرہ میں دفن کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ملکہ ممتاز محل نے شاہجہاں سے اپنی آخری خواہش میں کہا تھا کہ میرا مقبرہ ایسا تعمیر کرانا جورہتی دنیا تک خاوند اور بیوی کی محبت کی داستان بنی رہے اور یہ یادگار اپنی مثال آپ ہی ہو۔ شاہجہاں نے 1631ء میں تاج محل کی تعمیر شروع کراکر 1648ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچائی اس کی تعمیر پر روزانہ تیس ہزار آدمیوں نے کام کیا۔ اس کی تعمیر پر اس زمانے میں پچاس لاکھ روپیہ خرچ ہوا تھا شاہجہاں کے زمانے میں ایک روپیہ میں عمدہ چاندی بارہ گرام ملتی تھی اور سونے کی قیمت چودہ روپیہ تولہ تھی اس تاج محل کا دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتا ہے اس بادشاہ کو عمارتیں بنوانے اور باغات لگوانے کا بہت ہی شوق تھا اس نے سینکڑوں عمارتیں اور باغات لگوائے اس کو ایران، ٹرکی، عرب اور یونان سے عمارتی گلکاری اور خطاطی کے ماہر فن استاذ شاہجہاں کی ملازمت میں داخل ہوکر اپنے فن کا کمال ظاہر کرکے انعامات پائے تھے 1638ء میں شاہجہاں بادشاہ نے دہلی میں لال قلعہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ 16 اپریل 1648ء کے دن اس قلعہ کا سنگ بنیاد رکھاتھا اور اپریل 1648ء میں اس عجوبۂ روزگار قلعہ کی تعمیر مکمل ہو گئی تھی اس قلعہ کے دہلی دروازے پر دوطرف سیاہ پتھر کے دو ہاتھیوں کے مجسّمے ہیں اور ان کے پیروں میں بھاری بھاری زنجیریں ڈالی گئی تھیں۔

اس بادشاہ نے اپنے لیے تخت طاؤس بنانے کا حکم دیا تھا 1636ء میں تخت طاؤس بنانا شروع کیا گیا تھا اور سات سال کی جانفشانی اور ہنرمندی کے ذریعہ یہ تخت طاؤس بنکر تیار ہوا تھا اس تخت کی چھت زمرد کے بنے پارہ ستونوں پر رکھی گئی تھی اور دوناچتے موروں کی تصوریں تیروں اور جواہرات سے بنائی گئی تھیں اس تخت جیسا کوئی دوسرا راج گدی کا تخت آج تک کسی بادشاہ نے نہیں بنوایا 1739ء کے دوران نادر شاہ افشار اس تخت کو زیردستی اٹھواکر ایران لے گیا تھا اس زمانہ میں مغلیہ خاندان کا محمد شاہ (رنگیلا) ہندوستان پر حکومت کر رہا تھا اس تخت کی تیاری کے لیے شاہجہاں نے بادشاہی خزانے سے ایک لاکھ تولہ سونا اور اسی لاکھ کے جواہرات شاہی جواہر خانے سے نکلوائے تھے تقریباً ایک کروڑ روپیہ اس پر خرچ ہوا تھا۔

اس بادشاہ کے دور حکومت میں سینکڑوں ہنرمندوں کے علاوہ استاد علی مردان خاں، استاذ حامد خاں اور ماہر فن استاذ محمود نہایت مشہور انجینئر گذرے ہیں یہ تینوں انجینئر عمارتیں بنانے۔ باغ لگوانے اور نہر بنانے کے چیف انجینئر تھے علی مردان نے ایران سے آکر شاہجہاں کی ملازمت کرلی تھی یہ 1640ء میں لاہور کا صوبہ دار اور کشمیر کا منتظم تھا۔2 جنوری 1645ء کو یہ کامل کا صوبیدار مقرر ہوا اور امیرالامراء کا خطاب بھی اس کو ملا۔ یہ قابل فخرانجینئر 26 اپریل 1657ء کو کشمیر میں وفات پاگیا اسی انجینئر نے لاہور انجینئر نے سرمور کی پہاڑیوں کے قریب شوالک پہاڑوں اور مخلص پور کے درمیان ایک بادشاہی شکار گاہ بنانے کے منصوبہ کی منظوری شاہجہاں بادشاہ سے حاصل کرلی تھی اس شکار گاہ میں بادشاہ، شہزادوں، بیگمات اور شہزادیوں کی رہائش کے لیے نئے محلات کی تعمیر اور ایک وسیع پھلدار درختوں کا باغ لگانے کا منصوبہ شامل تھا اس زمانے میں محمد صالح کمبوہ واقعات نویسی کے اونچے عہدے پر فائز تھا۔ یہ اپنے تحریر کردہ شاہجہاں نامہ میں لکھتا ہے کہ شاہجہاں بادشاہ نے غضنفر علی خاں میرشکار خان عالم اور دوسرے عہدیداروں اور اہل کاروں کی زبانی سن رکھا تھا کہ سرمور پہاڑ کے نزدیک جمنادریا کے کناروں کی آب وہوا نہایت ٹھنڈی ہے اور شدید گرمی کے دنوں میں بھی یہاں کشمیری ہواؤں جیسی ہوائیں چلتی ہیں محمد صالح کمبوہ لکھتا ہے کہ 1635ء میں شاہجہاں نے اپنے لشکر کو لے کر لاہور سے اکبرآباد (آگرہ) کا رخ کیا شاہجہاں نے تجویز کیا کہ لاہور سے سہارنپور، بوڑیہ خشکی کے راستے سے اور سہارنپور بوڑیہ سے آگرہ تک جمنا میں کشتیوں کے ذریعہ سفر کیا جائے۔ چنانچہ منصوبہ کے تحت 22 فروری 1635ء کے دن شاہجہانی لشکر اور بادشاہ کی سواری جمنا کے کنارے بوڑیہ آکر ٹھہری پھر یہاں سے سیروشکار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دار الخلافہ آگرہ کے لیے روانہ ہوئی۔ اس زمانے میں رستم خاں دکنی جاگیر دار صوبہ سنبھل کا صوبہ دار تھا دوبارہ 24 جنوری 1645ء کو بدھ کے دن شاہجہاں کی سواری لاہور اور کشمیر جانے کے لیے متھرا میں ٹھہری اس بار بھی شاہجہاں نے متھرا سے بوڑیہ (سہارنپور) تک کا سفر دریائے جمنا میں کشی کے ذریعہ کیا شاہجہاں بادشاہ نے اپنی تخت نشینی کے موقع پر سکندر خاں عرف خان عالم امیر شکار کو چھ ہزار پید اور پانچ ہزار گھوڑسوار فوج رکھنے کی سند دے کر سہارنپور کا فوجدار مقرر کر دیا تھا اور رستم خاں دکنی کو بہار کی گورنری سے ہٹاکر خان عالم کو بہار کا گورنر مقر ر کر دیا تھا خان عالم نے اس زمانے میں ڈھمولا ندی کے کنارے پر مسلمان قافلوں اور لشکروں کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ایک مسجد تعمیر کرائی اوراس کی تعمیر کی نگرانی رستم خاں دکنی نے کی اور مسجد اس مسجد کے سامنے ایک ایسی سہ دری بھی بنائی گئی جس میں بیکوقت ایک سو مسافر رہائش کرسکیں سہ دری کی حفاظت کی ذمہ داری شیخ پورہ کے جاگیردار کے سپرد ہوئی 3300 ہزار تین سوروپیہ کی رقم خرچ ہوئی تھی 1635ء میں غضنفر علی خاں سہارنپور کا فوجدار اور منتظم تھا شہاجہاں نے غضنفر علی خاں فوجار کو جمنا کے نارے پر مجوزہ شکار گاہ کی تعمیر کا کام سونپا بادشاہ نے ہدایت کی کہ جلد سے جلد اس شکارگاہ کے منصوبے کو مکمل کیا جائے شکار گاہ کے نشیمن (Rest house) کے لیے محل، خواب گاہ، غسل خانہ، جھروکہ، درشن گاہ اور بارگاہ خاص وعام کی تعمیر اور پھلدار درختوں کا ایک وسیع باغ لگانا تھا اس منصوبے میں باغ کی سینچائی کی ضرورت کو پورا کرنے اور شکار گاہ کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے ایک نہر کا بنانا بھی شامل تھا چنانچہ بادشاہ نے غضنفر علی خان کو اس منصوبے کا انچارج اور خواب دہ مقرر کرکے علی مردان خاں ماہر نہر، استاد محمود ماہر تعمیرات اور فن باغبانی کے شہرۂ آفاق حامد جیسے انجینئر کو اس کے ماتحت کر دیا غضنفر علی خاں نے شکار گاہ کے تعمیری اور باغبانی کیمنصوبہ کو جلد سے جلد مکمل کرنے کے ارادے سے نہایت زور شور سے کام شروع کر دیا۔ 29 اپریل 1654ء کے دن غضنفر علی خاں کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ پرگنہ چوراسی (بھگوانپور) کے علاقہ میں ایک نہایت لمبے دانت والا ہاتھی پہاڑوں سے اُتر آیا ہے اور دیہات کے باشندوں اور کاشتکاروں کو جانی، مالی نقصا پہنچا رہا ہے بادشاہ شاہجہاں نے اس ہاتھی کو پکڑنے کے لیے کئی شکاری ہاتھی معہ ضروری سامان کے پرگنہ چوراسی میں روانہ کیے اور اس عملہ کو ہدایت کی کہ مزید امداد غضنفر علی خاں سے لے کر اس ہاتھی کو پکڑ کر رعایا کو امن وسکون عطا کیا جائے شاہی شکاری دستہ اس ہاتھی کو پکڑ کر دہلی لے گیا۔ بادشاہ اس ہاتھی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس کو فیل خانہ میں داخل کرنے کا حکم دیا۔

15 اگست 1654ء کو کسی کے ذریعہ معلوم ہوا کہ مخلص پور (فیض آباد) کی شکار گاہ کی تعمیر میں سست روی برتی جا رہی ہے چنانچہ بادشاہ نے غضنفر علی خاں فوجدار ومنتظم سہارنپور کو شکار گاہ کی تعمیر کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا اور محمد حسین بیگ خاں کو یہ ذمہ داری سونپ دی 1656ء میں بادشاہ نے اصالت خاں کے بیٹے محمد ابراہیم کو اس شکار گاہ کے کام کا جائزہ لے کر رپورٹ کرنے کی غرض سے مخلص پور بھیجا محمدابراہیم نے مخلص پور جاکر اس شکار گاہ کے کام کی رفتار کا جائزہ لیا اور بادشاہ کو رپورٹ دی۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ منصوبہ کی تیاری کا کام اتنا تسلی بخش طریقہ سے نہیں ہو رہا ہے۔ جتنا کہ غضنفر علی خاں کے زمانہ میں ہو رہا تھا شاہجہاں نے اس رپورٹ کو پڑھ کر محمد حسین بیگ کو یہاں سے ہٹاکر پھر دوبارہ غضنفر علی خاں کو ہہی اس منصوبہ کی تکمیل کی ذمہ داری سونپ دی۔

جنوری 1657ء میں بادشاہ کو معلوم ہوا کہ اس شکار گاہ کی کچھ عمارتیں مکمل ہو گئی ہیں چنانچہ 16؍فروری بروز جمعہ شاہجہاں مخلص پور کے لیے روانہ ہو گیا یہ جمنا کے کنارے کنارے سیروتفریح کا لطف اٹھایا اور شکار کھیلتا ہوا بارہ مارچ 1657ء میں بنائی تھی بادشاہ نے اس شکار گاہ میں بنائے گئے محل، دولت خانہ، خواب گاہ، غسل خانہ، جھروکہ، درشن گاہ اور دربار خاص وعام کی تعمیرات کو دیکھ کر نہایت خوش ہوا شاہی باغ میں لگے پھلدار درخت، پھولوں کی روشوں اور وہ نہر جو باغ کی سینچائی اور عمارتوں کے چاروں طرف گھوم کھا جانے کے لیے بنائی تھی کہ دیکھ کر اپنی مسرت کا اظہار کیا اور عملہ کے کام کو سراہا حالانکہ اب بھی اس شکارگاہ میں کئی دوسرے کام باقی تھے اور ان کاموں پر مزید ایک لاکھ روپیہ خرچ ہونے کا اندازہ تھا جتنا کام مکمل ہو چکا تھا۔ اس پر پانچ لاکھ روپیہ خرچ ہو چکا تھا اس نشیمن کا خاکہ اس طرح پر تھا۔ دولت خانہ کی تعمیر جمنا دریا کے پانی کی سطح سے نوگز یعنی ستائیس فٹ اونچی کرسی دے کر بنائی گئی تھی یہ نہر عمارتوں کے چاروں طرف گھماکر اس میں آبشار اور فوارے بنائے گئے تھے اس باغ میں چالیس مربع گز کا ایک حوض تھا باغ کی چار روشوں میں چھ گز یعنی اٹھارہ فٹ چوڑی نہر بنائی گئی تھی۔ شاہجہاں نے یہاں پر شدید گرمی کے موسم میں ٹھنڈی اور فرحت بخش ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہوکر کہا تھا کہ واقعتا اس جگہ پر ہوا کشمیر کی آب وہوا کے معیار پر چل رہی ہے شاہجہاں نے اس پُرکیف عالم میں مخلص پور کو فیض آباد کے نام سے شاہی کاغذات میں لکھنے کا حکم دیا اور اس شکارگاہ کی حفاظت اور مرمت کے خرچہ کے لیے پچھتّرہزار روپیہ سالانہ کی آمدنی کے مزید علاقے پرگنہ فیض آباد میں شامل کردیے شاہجہاں اس شکارگاہ کے محل وقوع خوبصوتی اور آب وہوا سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنے پوتے شاہ بلند اقبال کو دولاگھ اور سلطان سلیمان شکوہ کو ایک لاکھ روپئے دیے تاکہ وہ اپنی اپنی پسند کی حویلیاں اس شاہی شکارگاہ میں تعمیر کرائیں شاہجہاں کا دور حکومت اس اعتبار سے سے تمام مغل بادشاہوں سے ممتاز ہے کہ اس کے زمانے میں تاج محل، موتی مسجد آگرہ، لال قلعہ کے آخری دومہینوں میں شاہجہاں کے بیمار پڑجانے کی وجہ سے اس کے چاروں بیٹوں داراشکوہ، شاہ تشجاع مراد اور اورنگ زیب کے درمیان سلطنت پر قبضہ حاصل کرنے کی خاطر خانہ جنگی شروع ہو گئی 1658ء میں آخر کار اورنگ زیب اور مراد کی چالیس ہزار فوجیوں کے لشکر نے شاہ شجاع اور داراشکوہ کی ایک لاکھ فوج کے لشکر کو آگرہ سے بیس کوس مئی 1658ء میں باغ اعزا آباد کے مقام پر اورنگ زیب کی تخت نشینی کی رسم ادا کی گئی اور محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر کا لقب اختیار کیا اس نے تمام شاہی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر شاہجہاں کو آگرہ کے قلعہ میں نظربند کر دیا شاہجہاں تخت سے معزولی ہونے کے ساتھ سال بعد 1666ء میں وفات پاگیا۔ شاہجہاں بادشاہ اپنے زمانے کا ایک خداترس، نیک دل، فیضا طبع حکمراں تھا اس کا دست فیض رساں ہمیشہ دولت لٹا رہا۔ اس نے کروڑوں روپیہ اپنوں اور غیروں پر تقسیم کیا۔ لاکھوں روپیہ مدینہ منورہ بھیجا۔ عید اور بقرعید کے دن جتنی دولت اس نے لٹائی اتنی کسی دوسرے کے حکمراں نے کبھی خیرات نہیں کی عیاشی اور بداکاری سے اس کو سخت نفرت تھی گویہ کبھی کبھی شراب پی لیتا تھا مگر شرابی نہ تھا۔ شاہجہاں پر مذہب اسلام کا غالب اثر تھا اس نے بڑی بڑی نفیس مسجدیں بنوائیں یہ اپنی نظر بندی کے دوران تو بالکل سچا عابد اور زاہد بن گیا تھا اس کی زندگی اول سے آخر تک نہایت صاف و پاک رہی۔ شاہجہاں کی لاڈلی بیٹی جہاں آراء نے اپنی پرسکون عیش وآرام کی زندگی کو خیرباد کہہ کر باپ کے ساتھ نظربند رہنا اور باپ کی خدمت کرنا پسند کیا جہاں آراء نے باپ کی معیت میں ساتھ دے کر ایک ایساریکارڈ قائم کیا جس کی مثال بادشاہی تواریخ میں نہیں ملتی۔

شاہجہاں کی حکومت کے دوران 1644ء میں شہر سہارنپور میں شہر کا عامل غیث بیگ تھا اسی سال شہزادی جہاں آراء کپڑوں میں آگ لگ جانے کی بیماری سے صحت یاب ہو گئی تھی شہر سہارنپور کے امیر لوگوں نے شہزادی کی صحت یابی کی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے ایک جامع مسجد محلہ قضیات میں تعمیر کرائی اس مسجد کی تاریخ اول غ دوم ن اور سوم د(یعنی غ+ن+د-1644ء 1054ھ) لکھی گئی ہے۔ 1767ء میں سکھوں نے اس مسجد کو آگ لگانے کی ناپاک کوشش کی تھی 1645ء میں جب بادشاہ شاہجہاں آگرے سے لاہور اور کشمیر کی سیر کو جا رہا تھا سرساوہ کے زمینداروں اور شاہی ملازمتوں نے جمنا کے کنارے ایک بستی بساکر شاہجہاں پور کے نام سے منسوب کی انبالہ، سہارنپور روڈ آج اسی گاؤں کے نزدیک سے ہوکر جاتی یہ نومبر 1648ء کے دوران شاہجہاں نے دہلی سے خضرآباد تک جمنا میں کشتیوں سے سفر کیا تھا۔ 19 نومبر کو شاہی سواری اور اس لشکر نے اس گاؤں شاہجہانپور کے میدان پر اپنے ڈیرے ڈالے اور اگلے دن کی صبح کو خضرآباد کے لیے سفر کیا۔ شاہجہاں بادشاہ نے علی مردان خاں انجینئر کو جمنا کے پوربی کنارے سے ایک ایسی نہر بنانے کے لیے مقرر کیا تھا جس کا پانی ہو سکے تو غازی آباد تک لے جایا جائے۔ اسی انجینئر نے 1653ء سے 1657ء تک اس نہر کی کھدائی کو جاری رکھا اور یہ نہر موضع غوث گڑھ (متصل جلال آباد وتھانہ بھون) تک مکمل ہو گئی اسی زمانے میں شوالک پہاڑ کے قریب شاہی شکار کی تعمیر جاری تھی کہ 26 اپریل 1657ء میں علی مردان انجینئر کا کشمیر میں انتقال ہو گیا دوسری طرف سلطنت میں شہزادوں کی خانہ جنگی نے اس نہر اور شاہی شکار گاہ کی تعمیر کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے نہ دیا سلطنت کے وارث شاہجہاں کے بیٹے اورنگ زیب نے ان منصوبوں کو پورا کرانے کی طرف بالکل دھیان نہ دیا۔ میرے خیال میں اورنگ زیب نے ان منصوبوں کو ادھورا رکھ کر قومی اور ملی جرم کا ارتکاب کیا۔ اورنگ زیب کی یہ لاپروائی دوراندیشی سے خالی اور باپ کی دلی خواہش کے منافی تھی ملک وملت کے حساس دل رکھنے والے دانشور اورنگ زیب کی اس حرکت کو ہمیشہ ہی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے رہیں گے اور اس کی بدذوقی کو کبھی نہ کیا جائے گا اس نے تو شاہی شکار گاہ میں مکمل عمارتوں اور باغیچوں کی حفاظت کی طرف بھی مطلق دھیان نہ دے کر قابل مذمت کام کیا ہے کاش یہ نام نہاد ولی بادشاہ ان دریابردی سے محفوظ کرلیتا تو آج اس شکار گاہ کی عمارتیں اپنی مثال آپ ہوئیں اورنگزیب عالگیر نے کالکا کے نزدیک پنجور میں لاہور کے اپنے صوبہ دار قدر خاں سے ایک شکار گاہ تو بنوائی مگر باپ کی بے مثال شکارگاہ کی حفاظت کرنے میں کوتاہی برت کر اپنی تنگ نظری اور خود پرستی کا ناقبل معاف اور قابل مذمن مظاہرہ کیا کٹّر ہندو اور کٹّر مسلم مؤرخوں اور سیاسی لوگوں کو اورنگ زیب کی اس حرکت پر غور کرکے فیصلہ کرنا چاہیے کہ اورنگ زیب کتنا ہندو دشمن یا مسلمان پرور تھا جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ علی مردان انجینئر کے سپرد شاہی شکارگاہ اور جمن شرقی نہر (بڑی نہر) کی تکمیل کی ذمہ داری تھی اس نے شہر سہارنپور میں 1654ء کے دوران دہلی، سہارنپور کے درمیان ان شاہی کاریگروں اور افسروں کے ٹھہرنے کے لیے ایک سرائے تعمیر کرائی جوشکارگاہ مذکورہ نہر کے سلسلے میں دہلی اور سہارنپور کے درمیان کام کرنے آتے جاتے تھے اس سرائے میں بیکوقت ایک سو سوار لوگوں کے ٹھہرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی جس جگہ یہ سرائے تعمیر ہوئی تھی آج اس کو سرائے مردان علی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یوں تو اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہجہاں کی زندگی ہی میں سلطنت پر قبضہ کرکے اس کو آگرہ کے قلعہ میں نظر بند کر دیا تھا اور مئی 1653ء میں رسمی طور پر تخت نشین ہو گیا تھا مگر پوری سلطنت کے حالات کو اپنے موافق بناکر 1659ء میں بڑے تزک واحتشام سے اورنگ زیب نے اپنی تاجپوشی کا جشن منایا اور ابوالمظفر محی الدین محمد اورنگ رزیب بہادر عالمگیر غازی کا لقب اختیار کیا جب 1658ء کے دوران اجین کے قریب دارا شکوہ کے سپہ سالار راجا جسونت سنگھ کی فوج کو اورنگ زیب نے شکست دیدی تھی اس زمانے میں دارا شکوہ کا لڑکا سلیمان شکوہ کو لکہ بھیجا تھا کہ تم اور باقی بیگ عرف بہادر خاں دریائے گنگا کو درہ کوہل اور دریائے جمنا کو دمجھیڑہ بوڑیہ کے گھاٹوں سے پاکر رکے مجھ سے سرہند یا لاہور آن ملو۔ اور یہی مشورہ سلیمان شکوہ کو سادات بارہ کے سید صلابت خاں نے دیا تھا مگر اورنگ زیب کی نقل وحرکت اور ناکہ بندیوں کے باعث وہ ان دریاؤں کو مذکورہ گھاٹوں سے عبور نہ کرپایا سری نگر پہنچ گیا اور وہاں پر سلیمان شکوہ گرفتار ہو گیا اورنگ زیب نے اپنے دور حکومت میں شیخ باکا محمد کو شہر سہارنپور بخش کر شہر کا منتظم مقرر کر دیا تھا شیخ باکا محمد مسراۃ عالم کا مصنف تھا اس نے مسراۃ عالم میں اورنگ زیب کی سوانح عمری لکھی تھی یہ اس علاقے مین اپنے زمانہ کا مشہور ادیب اور عالم تھا شیخ باکا محمد نے رائے والا تالاب کے آس پاس کالونی بسائی اور کئی ایک مسجدیں تعمیر کرائیں اور کنویں بنائے۔ شیخ باکا محمد ستاون سال کی عمر میں 1683ء میں مرگیا۔ گتہ مل اور لارڈ شنامل کے قریب آج بھی اس کا مزار دکھائی پڑتا ہے۔

دوسری تیسری جمادی الاول 1072ھ کو اورنگ زیب عالمگیر نے خان خا خان عرف خان سپہ سالار کی قیادت میں میر مرتضیٰ کو توپ خانہ دلبر خان کو ہرا دل، رشید خاں وآغر خاں کو نائب سپہ سالار بناکر آسال کو فتح کرنے پر مقرر کیا ان بہادروں اور وفا شعاروں نے بڑی جدوجہد اور جانفشانی سے سلطنت آسام کو فتح کرکے اورنگ زیب کی حکومت میں شامل کر دیا اس لڑائی کے دوران 463 مختلف قسم کی کشتیاں 739 توپیں جن میں 65 آہنی توپیں تھی اور ایک آہنی بچہ دارتوپ ایسی تھی جس میں تین من بارود کا گولہ چلتا تھا 1343 زنبورک 200 رام چنگی 657 بندوقیں 340من بارود کا کھلا ذخیرہ 1960 بکس بارودی ایسے جن میں ہر ایک میں ڈھائی ڈھائی من بارود بھری تھی 728 سپر، شورہ گوکھرو آہنی وسرب، 80 ملاح 82 ہاتھی 30 لاکھ کا سونا چاندی 173 غلہ کے گودام جن میں چاول، آرڈ اور ماکولات بھرا تھا سامان غنیمت ہاتھ آیا۔ اورنگ زیب کا دور حکومت بڑا ہی عجیب رہا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اورنگ زیب کی تخت نشینی بھی میدان جنگ میں ہوئی اور جب یہ مرا اس وقت بھی دکن کے میدان جنگ میں تھا اور اس کی تجہیز وتکفین وتدفین بھی میدان جنگ ہی میں ہوئی تھی۔ 20؍فروری 1707ء کے دن یہ حکمراں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ کٹّر ہندو مؤرخوں نے اورنگ زیب کو ہندودشمن اور مندر شکن ثابت کرنے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا دوسری طرف بعض مسلمان مؤرخوں نے اورنگ زیب کو زاہد، متقی ہی نہیں بلکہ ولی اللہ پہنچا ہوں کہ اورنگ زیب نہ تو ہندودشمن اور مندر تشکن تھا اور نہ وہ کوئی ولی اللہ یا زاہد تھا وہ عام حکمرانوں سے کچھ ہٹ کر شکی دماغ بادشاہ تھا وہ اپنی حکومت کے خلاف پیدا ہونے والی ہررکاوٹ کو نہایت سختی اور بیدردی سے اکھاڑ پھینکتا تھا۔ اگر یہ ہندودشمن ہوتا تو پھر اس کی فوج کے بیرسنگھ، راجا امرسنگھ، کیرت سنگھ التتمش، راجا ماروجی، راجا پہلا دھی، نیتاجی اور اودے بھان سنگھ یہ سولہ ہندوسپہ سالار کیوں ہوتے؟ اورنگ زیب کامل جیسے سو فیصد مسلم آبادی والے صوبہ کا راجا جسونت سنگھ کو کیوں صوبیدار بنایا۔ اسی راجا جسونت سنگھ کو شیواجی کے مقابلہ پر فوج کشی کرنے کے لیے کیوں مقرر کرتا۔ ہندوستان سب سے بڑا مؤرخ سرجادوناتھ مغل تاریخ میں اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے بنگال اور دوسرے صوبوں کے کئی مندروں کو جاگیر میں زمین بخشش کیں اور ہندوؤں کو منصب دار اور گورنر مقرر کیے 1688ء میں بنارس کے عامل (کلکٹر) کو اورنگ زیب نے اپنے فرمان کے ذریعہ ہدایت کی کہ جو زمین مندر کو الاٹ کی گئی ہے اس پر مندرر کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ ہرگز نہ پیدا ہونے دینا 1659ء میں اورنگ زیب نے ایک حکم جاری کیا کہ بنارس کے کسی بھی برہمن کو اس کے مذہبی کام کی ادائیگی سے نہ روکا جائے اگر کسی بادشاہی ملازم یار غایا کے کسی آدمی نے اس ہدایت کے خلاف کام کیا تو نہایت سخت وعبرتناک سزادی جائے یہ حقیقت ہے کہ جو ہندویا مسلمان اس کی حکومت کے خلاف ذرا سا بھی کام کرتا یا اس کو کسی پر شک ہوجاتا تو وہ اس کو عبرتناک سزا دیتا مصلحتوں کے لیے باپ کو سالت سال تک نظر بند رکھا اور اپنے تاج وتخت کی حفاظت کی خاطر اپنے بیٹے (ولی عہد) سلطنت محمد سلطان کو جیل میں ڈاخل کر موت کے منہ میں جھونک دیا اپنے حقیقی بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کرایا پھر وہ اپنے مخالف یا کسی دوسرے کو کس طرح بخش سکتا تھا یہ حقیقت ہے کہ وہ دوسرے مسلمان بادشاہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیندار اور اسلام پرست تھا۔ جس نے اپنی حکومت کو قائم رکھنے کی خاطر اپنے بھائی مراد کو قید کیا ہو دوسرے بھائی داراشکوہ کو قتل کراکر اور ہاتھی پر اس کی لاش کو رکھ کر سارے شہر میں دکھایا ہو اور اپنے بیٹے محمد سلطان کو قید کر دیا ہو اور وہ بیٹا قیدہی میں مرگیا ہو اپنے بھتیجے سپر شکوہ کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا ہو اپنے باپ جیسی لائق احترام ہستی کو قید میں نظر بند کر دیا ہو اپنی بہن جہاں آراء کو نظر بند کر دیا ہو بھلا وہ کسی طرح زاہد متقی اور ولی اللہ ہو سکتا ہے اورنگ زیب کی مذہبی رواداری کے متعلق انگریز مؤرخ کپتان ہملٹن لکھتا ہے سلطنت کا مسلمہ مذہب اسلام ہے لیکن تعداد میں مسلمان دس فیصدی ہیں اور غیر مسلموں کے ساتھ نہایت رواداری برتی جاتی ہے ہندو اپنے برت رکھنے اور تہوار منانے میں بالکل آزاد ہیں اور یہ لوگ اسی طرح سے مذہب کی ادائیگی میں آزاد ہیں جس طرح وہ پچھلے زمانے میں ہندوراجاؤں کی حکومت میں آزاد تھے یہی مؤرخ آگے چل کر لکھتا ہے کہ سورت شہر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ان کے عقائد جدا جدا ہیں اور طریقۂ عبادت بھی بہت مختلف ہے مگر طریقۂ عبادت یا اختلاف عقائد کی بنا پر ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں اور کوئی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ مذہبی جھگڑا یہاں نام کو بھی نہیں۔ اقتدار وحاکمیت کے بارے میں کئی ایک دوسرے سے دست وگریباں ہی نہیں بلکہ قتل وبربادی کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اسی طرح مسٹر چارلس گرانٹ لکھتا ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے اپنی حکومت کے دوران ہندوؤں کی قدیم تہذیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ محمد بن قاسم کی حکومت میں ہندوزیادہ تر عہدوں پر فائز تھے 1979ء کے دوران مجھ کو الہ آباد ہائی کورٹ میں جانے کا موقع ملا مجھ کو وہاں کے دستاویزی میوزیم میں اورنگ زیب کے ایک فرمان کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس فرمان میں مندر کی دیکھ بھال کے لیے زمین کی آمدنی کا عطیہ دیا گیا ہے یہ حقیقت ہے کہ اورنگ زیب شریعت اسلام کی طرف جھکا ہوا تھا اور وہ شریعت اسلامی اور قانون اسلامی پر کاربند رہنے کی پوری کوشش کرتا تھا اس اسلامی تعلیم وہدایت کی وجہ سے وہ کسی کی مذہبی ادائیگی کی راہ میں رخنہ نہ ڈالتا کیونکہ اسلام نے انصاف کے لیے ہر قسم کی فرقہ داری، تنگ نظری اور اقرباء پروری کو انصاف دینے دلانے اور حاصل کرنے کی راہ سے رکھنے کی سخت تاکید کی ہے۔ اورنگ زیب نے اپنی زندگی ہی میں حکومت کا انتظام اپنے تینوں لڑکوں کے سپرد کر دیا تھا بڑے لڑکے شہزادہ محمد معظم شاہ عالم کو شمالی اور شمال مشرق صوبے اور دہلی کو دار الحکومت کے طور پر استعمال کرنے کی تاکید کی تھی چھوٹے بیٹے کام بخش کو بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاست اور منجھلے لڑکے اعظم شاہ کو آگرہ دکن اور جنوب ومغرب کا سارا علاقہ دیدیا تھا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا جس وقت اورنگ زیب کی وفات ہوئی اس نے اپنے لڑکوں کے لیے اتنی بڑی حکومت چھوڑی جس کی مثال ہندوستان کے کسی ہندوراجہ اور مسلمان حکمراں کے دور حکومت میں نہیں ملتی مگر اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنے کی صلاحیت اس کی اولاد میں نہ تھی اور ایک بھی ایسا نہ نکلا جو اس حکومت کو قائم رکھ سکتا ویسے تو اورنگ زیب کی وفات کے بعد بھی تقریباً ڈیڑھ سو سال تک اسی کے خاندان کے بادشاہ ہوتے رہے۔

اورنگزیب کی وفات کے بعد

اورنگ زیب کو دفن کرنے کے فوراً بعد محمد معظم نے اپنی بادشاہ کا اعلان کر دیا محمد معظم عرف شاہ عالم ولی عہد سلطنت اس وقت پشاور میں تھا جب شاہ عالم کو محمد اعظم کی اس حرکت کی خبر ملی تو وہ اپنا لشکر لے کر دہلی کی طرف چل پڑا۔ 20؍اپریل 1707ء کو اس نے بھی اپنی تخت نشینی کا اعلان کرکے شاہ عالم بہادر شاہ کا لقب اختیار کر لیا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا اور سکہ جاری کر دیا اس زمانے میں دو آبے (مظفرنگر، سہارنپور) کے علاقے شاہ عالم کے زیرحکمرانی تھے یا تو مسلم اطین اور بادشاہوں کے دور حکومت میں سہارنپور میں عام طور سے امن وامان قائم رہا یا پھر ایسے مخصوص واقعات یہاں پر ہوئے ہی نہیں کہ جن کو کوئق وقائع اور تاریخ نویس اپنی توجہ کا مرکز بناکر ضبط تحریر میں لاتا یہ تو حقیقت ہے عام طور سے اس دوآبی علاقہ کا انتظام سیدھاد ہلی کے منتظم اعلیٰ ہی کرتے رہے اگر چہ اکبر بادشاہ نے اس علاقہ میں دوسری سرکاروں کو شامل کرکے سہارنپور کا الگ اسے صوبہ بنادیا اور اس کا صوبیدار الگ سے مقرر کر دیا جاتا یا میرٹھ اور سنبھل کے صوبیدار کی نگرانی اسی طرح اکبر کی سلطنت کے وارث بھی اسی طریقہ پر عمل کرتے رہے یہ علاقہ اپنی زرخیزی کے باعث بادشاہ کو غلے اور چارے کے گوداموں کا کام دیتا تھا۔ چونکہ سہارنپور صنعتی شہر تونہ تھا مگر اپنی زبرخیزی کی وجہ سے اقتصادی اہمیت کا حامل ضرور تھا اسی وجہ سے یہ شہر معمولی معمولی لوگوں کو بخشش دیا جاتا رہا اور اس شہر کا انتظام ایسے ہی غیر مغروف لوگوں کے سپرد کر دیا جاتا رہا اورنگ زیب کی وفات کے بعد محمد معظم عرف شاہ عالم بہادر شاہ اول کے دورِ حکومت میں 1710ء میں سکھوں نے مغل شہزادوں کی خانہ جنگی سے پیدا ہوئی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سہارنپور پر حملہ کر دیا مؤرخین سکھوں کے اس حملہ سے پیدا ہوئے اُتار چڑھاؤ کے واقعات کو پہلی بار ضبط تحریر میں لانے کی طرف متوجہ ہوئے اسی طرح سیدوں اور روہیلوں نے ان دو آبی علاقوں (مظفرنگر، سہارنپور اور دہرہ دون) پر اپنی حکومت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی محمد معظم عرف شاہ عالم اور محمد اعظم کے درمیان فیصلہ کن لڑائی آگرہ کے جاجونامی مقام پر لڑی گئی اس لڑائی میں شاہ عالم بہادر شاہ اول کو فتح نصیب ہوئی اور یہ اورنگ زیب کی سلطنت کا مالک بن گیا۔ 1708ء میں شاہ عالم بہادر شاہ اول کو دکن کی بغاوت کو دبانے کے لیے دہلی سے باہر جانا پڑا اور یہ وہاں پر تقریباً دوسال تک بغاوتوں کو دبانے میں لگا رہا 1710ء میں سکھوں نے بندہ بیراگی عرف سچا بادشاہ کی قیادت میں پنجاب میں لوٹ مار اور قتل وغارتگری پھیلادی یہاں تک کہ سرہند کے گورنر وزیر خاں کو شکست دے کر سرہند پر اپنا قبضہ جمالیا اس کے بعد جمنا کے تمام پچھمی علاقہ انبالہ پر بھی قابض ہو گئے ان حالات میں سہارنپور پر سکھوں کا یہ پہلا حملہ تھا۔ سکھوں کا یہ لشکر ابھی سہارنپور تک پہنچ بھی نہ پایا تھا کہ شہر سہارنپور کا عامل علی محمد خاں بھاگ کر دہلی چلا گیا اس کے چلے جانے کے بعد سہارنپور کے باشندوں نے متحدہوکر سکھوں کے مقابلہ کی تیاریاں کیں اور اپنی عورتوں بیٹوں کو بے آبروئی سے بچانے کے لیے خود ہی قتل کر دیا کچھ عورتوں نے اپنی عصمت دری کی بے آبروئی سے بچنے کے لیے خود ہی کنوؤں میں ڈوب کر جان دیدی۔ اس زمانے میں پاؤں دھوئی، ندی موجود بازار شہید گنج کے قریب سے گذرتی تھی اس ندی نے اس جگہ پر بہت گہرے غار ڈالے ہوئے تھے سینکڑوں عورتوں نے اس کنڈ میں چھلانگ مار کے خود کو ڈبودیا تھا اس دردناک واقعہ سے اس جگہ کو شہید گنج کہا گیا جب سکھ سہارنپور کی طرف بڑھے تو سہارنپور کے باشندوں نے بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور اس سکھ فوج کے یہاں پاؤں نہ جمنے دیے لیکن یہاں کے باشندوں کو بے حد جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا سہارنپور کے بعد یہ سکھ لشکر نانوتہ، رام پور، امبیٹھ اور ان کے متصل گاؤں میں لوٹ مار، قتل وغارت گری کرتا ہوا جلال آباد جا پہنچا مگر یہاں کے فوجدار اور جلال خاں اور یہاں کے باشندوں نے سکھوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس لشکر کو شکست دیدی، اس شکست کے فوراً ہی بعد تقریباً اتنای ہی بڑا سکھ لشکر کنجپورہ کے گھاٹ سے دریائے جمنا کو پار کرکے شکست خوردہ سکھ لشکر کی مدد کو آن پہنچا چنانچہ سکھوں کے ان ساٹھ ہزار فوجیوں نے جلال آباد کا چاروں طرف سے محاصرہ کر لیا مگر شاہی، فوج، افغان باشندوں اور جلال آباد کی ہندو مسلم رعایا نے اس سکھ لشکر کے یہاں پھر بھی پیر نہ جمنے دیے اور یہاں سکھوں کو کوئی خاص کامیابی نہ ملی اگر چہ تمام قصبہ برباد ہو گیا تھا یہ سکھ فوج کرنال کی طرف واپس چلی گئی 1711ء میں سکھوں نے پھر سراٹھایا مگر گڑھ کے مقام پر بادشاہی فوج نے ان کو سخت ماردی بہادر شاہ سکھوں کے غیر انسانی مظالم (عورتوں کی عصمت دری، مسجدوں اور فصلوں کو آگ لگانے) کی وجہ سے اتنا متنفر ہو گیا تھا کہ وہ غیر مسلمان پر ڈاڑھی نہ رکھنے کی پابندی لگانے پر مجبور ہو گیا۔ 1712ء میں شاہ عالم بہادر شاہ اول وفات پاگیا اس کی وفات کے اگلے دن جہاندار شاہ اپنے تینوں بھائیوں کو ٹھکانے لگا کر معزالدین کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ یہ نہایت عیش پرست اور بیوقوف قسم کا انسان تھا اس لیے سب بھتیجوں کو گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا اور اپنے بھائیوں کے حمایتیوں کو نہایت بے دردی سے قتل کرایا اس کا ایک بھتیجہ فرّخ سیر سپر عظیم الشان بنگال کا گورنر تھا فرخ سیر نے بہار کے حاکم سید حسین علی خاں اور اس کے بھائی سید عبد اللہ حاکم الہ آباد کی حمایت اور امداد سے آگرہ اور کنجپورہ نے کے مقام پر جہاندار شاہ کی فوج کو شکست دیدی اس ہار کی وجہ سے جہاندار شاہ کی گیارہ مہینے کی حکومت ختم ہو گئی اور فرخ سیر 1713ء میں راج گدی کا مالک بن گیا اس نے سید حسین علی خاں کو امیر الامراء اور محمد امین خاں کو اعتمادالدولہ کا خطاب دیا اس بیوقوف نے جہاندار شاہ کے حمایتیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرایا اس نے سید عبد اللہ کو وزیر مقرر کیا معمولی شک کی وجہ سے اس نے ہدایت کش شاہ قدرت اللہ کو بھی قتل کرادیا تھا فرخ سیر صرف نام کا بادشاہ تھا ورنہ حقیقت میں سید برادران حکومت کر رہے تھے ان سید زادوں نے فرخ سیر کو راج گدی سے معزول کرنے کے لیے راجپوتوں سے سازش کی تھی 1714ء تک تو سکھ خاموش سے رہے مگر بعد میں سکھوں نے پھر سر اٹھانا شروع کیا 1716ء میں فرخ سر نے مغل سردار عبد الصمدخاں کو ایک بڑا لشکر دے کر سکھوں کے فتنہ دبانے کے لیے مقرر کیا اس زمانے میں محمد امین خاں شہر سہارنپور کا فوجدار اور عامل تھا عبد الصمد خاں گورنر لاہور نے دوتین ہزار سکھوں کو اس لڑائی میں قتل کیا اور بندہ بیراگی کو گرفتار کرکے دہلی میں شارع عام پر قتل کرایا۔ اس کمرتوڑ ہار کی وجہ سے سکھ کافی عرصہ تک کوئی فساد کرنے سے مجبور رہے 1719ء میں مرہٹے مذکور سید برادران کی حمایت اور امداد سے دہلی کی حکومت پر قابض ہو گئے انھوں نے فرخ سیر بادشاہ کو گرفتار کرکے اندھا کر دیا اور پھر قید میں ڈال دیا۔ اب مرہٹوں نے بہادر شاہ اول کے پوتے شمس الدین ابوالبرکات کو قید خانے سے نکال کر دہلی کی راج گدی پر بٹھادیا۔ پھر مرہٹوں نے تین ماہ کے بعد اس گدی سے معزول کرکے رفیع الدولہ کو شاہجہاں ثانی کی لقب سے گدی نشین کر دیا اس کے زمانے میں مرہٹے وہ چادر جس کو شاہجہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی قبر پر ڈالنے کی بنوائی تھی لوٹ کر لے گئے تھے۔ شاہجہاں ثانی بادشاہ تین ماہ گیارہ دن کی حکومت کرکے وفات پاگیا اس کے بعد روشن اختر کو محمد شاہ کے لقب سے راج گدی پر بٹھادیا یہ بہار شاہ کا پوتا تھا۔ اور برائے نام یا نام نہاد بادشاہ تھا ورنہ اصل میں رتن چندوزیر ہی حکومت کرتا تھا۔ ابوالبرکات، رفیع الدولہ اور روشن اختر سیدوں، مرہٹوں اور نظام الملک آصف جاہ اور اس کے لڑکے غازی الدین کے کٹ پتلی بنے رہے سیدوں نظام الملک آصف جاہ اور اس کے لڑکے غازی الدین کی نمک حرامی نے مغلیہ حکومت کو غیر مستحکم بنادی، بندہ بیراگی کے قتل کے بعد دوآبہ (سہارنپور، دہرہ دون اور مظفرنگر) کے علاقوں میں سکھوں نے بالکل کوئی جھگڑا اور لڑائی نہیں لڑی دراصل اس امن وامان کی خاص وجہ سادات بارہ کے سرغنہ سید حسین علی خاں اور سیدعبداللہ خاں کی اس علاقہ میں بڑھتی ہوئی فوجی اور سیاسی طاقت تھی اس دور میں نشر پسندوں اور فسادیوں کو فتنہ وفساد پیدا کرنے کی ہمت نہ ہو سکی کیونکہ اس علاقہ میں سیدوں کو حاکم اعلیٰ کی قوت اور حیثیت حاصل ہو چکی تھی لیکن یہ علاقہ ان کی جاگیری حیثیت حاصل کرچکا تھا اور سید حسین علی خاں اس علاقہ کا صوبہ دار بنا ہوا تھا ان سیدوں اور ان کی برادری کے زمینداروں نے بادشاہ کے خاندان اور اس کی رعایا پر جو مظالم توڑیملک کے عوام میں ان کے خلاف سخت قسم کی خاموش نفرت پیدا ہو گئی 1720ء میں حسین علی خاں کو قتل کر دیا گیا۔ 1721ء کی جنگ میں سید عبد اللہ خاں کو کمرتوڑ شکست نصیب ہوئی اس کو گرفتار کرکے قیدخانہ میں ڈال دیا گیا وہ قید خانے ہی میں مرگیا ان بداندیشوں کا خاتمہ ہوجانے پر بادشاہ نے ان کی ضبط شدہ جائداد محمد امین خاں عرف اعتماد الدولہ کے سپرد کردی محمد امین خاں بادشاہ کے خاص معتمدوں میں سے تھا۔ محمدامین خاں کے دور میں سہارنپور میں آباد روہیلہ تاجروں نے اپنے ہم قوم اور روہیلوں کے ٹھہرنے اور آرام کرنے کی خاطر ایک ایسی سرائے بنوائی جس میں بیکوقت دوسو آدمیوں کے ٹھہرنے کی گنجائش تھی اور ان کی سواری کے جانوروں کے لیے گندہ نالہ (کرگھی نالہ) کے کنارے کنارے سایہ دار درخت لگائے گئے تھے روہیلہ تاجروں نے اس سرائے کو اپنے روہیلہ سرغنہ سردار داؤد خاں کے نام سے منسوب کیا تھا اس کے زمانے میں روہیلہ سوداگروں کاسہارنپور کی منڈی پر پورا قبضہ تھا محمد امین خاں دوآبے میں نہایت تیزی اور خوش انتظامی سے اپنی گرفت کو مضبوط کرتا جا رہا تھا لیکن عمر نے وفا نہ کی اور یہ 1721ء میں ہی وفات پاگیا اس کے مرنے کے بعد امیرالدین وزیر کو دوآبے کا منتظم مقرر کیا گیا یہ بھی محمد امین خاں کی طرح سیدوں کا سخت ترین محالف تھا اس نے سیدوں کو تمام اہم عہدوں سے نکال باہر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر یہ اپنے منصوبہ پر عمل نہ کرسکا۔ کیونکہ یہ پہلے ہی سے سلطنت کے دوسرے کاموں میں الجھا رہا جب اس کو اپنی اس ناکامی کا احساس ہوا تو اس نے رحمت خاں روہیلہ کو سہارنپور کا گورنر بناکر ان سیدوں کی جاگیریں اور جائدادیں ضبط کرنے کی ہدایت کی لیکن رحمت خاں سے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں کچھ غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوگئیں غرض یہ منصوبہہ بالکل ناکام ہو گیا سیدوں کو بادشاہ کے خلاف سازشیں کرنے کا موقع ہاتھ آ گیا اور سیدوں نے رحمت خاں کو قتل کرڈالا۔ ایسا ہوجانے سے وزیرامیرالدین کو وہ موقع ہاتھ آ گیا جس کی اس کو تلاش تھی اس نے تورانیوں اور روہیلہ افغانوں کا ایک لشکر بناکر روہیلہ سردار علی محمد خاں کی قیادت میں سیدوں کے گڑھ جانسٹھ پر حملہ کرے اس کو تاخت وتاراج کرنے کے لیے بھیجا یہی وہ علی محمد خاں تھا جو سابقہ ریاست رام پور کا نواب اور حکمراں تھا علی محمد خاں نے بھیسانی کے مقام پر سیدوں کے سرغنہ سیف الدین علی خاں کو ایسی کراری شکست دی کی سیدوں کی طاقت چکنا چور ہوکر رہ گئی اور سید لوگ ملک کے دوسرے علاقوں میں چلے گئے اور بالکل خاموش زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے اس کے بعد ملک کے کسی بھی حصہ میں سیدو ں نے سیاست میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حکمران وقت کی اطاعت کرنے کو اپنا شعار بنالیا۔ 1738ء میں بادشاہ نے عظیم اللہ خاں کو جو اس علاقہ (مظفرنگر، سہارنپور) میں اچھا اثر رکھتا تھا سیدون کی جائدادوں پر قبضہ دیدیا۔ عظیم اللہ خاں نے از سر نو اس علاقے کا انتظام کیا 1739ء میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ درانی جو پہلے ایک ڈاکو تھا اپنی سپہ گری اور قابلیت سے ایران کا بادشاہ بن گیا تھا اس نے پہلے تو کابل اور قندھار کو فتح کرکے اپنی بادشاہت میں شامل کر لیا یہ صوبے بھی دہلی کی حکومت کے ہی زیرنگیں تھے دہلی کے بادشاہ محمد شاہ اور اس کے وزیروں اور درباریوں کو مذکورہ صوبوں کے چھن جانے کی خبر تک نہ ہوئی نادرشاہ جلال آباد اور پشاور کو روندتا ہوا پنجاب آن پہنچا اس نے ہر جگہ خوب لوٹ مار کی گولاہور کے گورنر اور دوسرے شاہی افسران نے نادرشاہ کو روکنا چاہا مگر نادر شاہ کی فوج سب کو شکست دے کر دہلی کی طرف بڑھتی بڑھتی گئی کرنال کے قریب محمد شاہ اور نادر شاہ کی فوجوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور نادرشاہ فتحیاب ہو گیا نادر شاہ نے دہلی میں ڈیڑھ لاکھ انسانوں کا وہ قتل عام کرایا اور لوٹ مار کی جس کو تاریخ رہتی دنیا تک بھلا نہیں سکے گی۔ نادر شاہ نے اٹھارہ دن تک دہلی میں قیام کیا محمد شاہ بادشاہ نے نادرشاہ کو دوکروڑ روپیہ نقد اور ہیرے جواہرات کا نذرانہ دے کر ایران لوٹ جانے پر راضی کر لیا تھا مگر نادر شاہ جاتے وقت تخت طاؤس جس کو شاہجہاں بادشاہ نے بنوایا تھا اٹھاکر اپنے ساتھ ایران لے گیا اور تقریباً بیس کروڑ روپیہ کی قیمت کے ہیرے جواہرات اور دوسری اشیاء کو لدواکر ایران لے گیا اس نے دہلی میں اپنے قیام کے دوران اپنے لڑکے نصیراللہ خاں کی شادی ممد شاہ کی حسین وجمیل لڑکی سے نہایت دھوم دھام سے کی تھی نادر شاہ وعدہ کرکے منکر ہوجانے کا عادی تھا محمد شاہ بادشاہ نہایت عیاش اور عیش پرست بادشاہ تھا ہر روز اس کے دربار میں رنگارنگ کے گانے اور ناچنے کی محفلیں جمتیں اور محمدشاہ ان میں شریک ہوتا اسی وجہ سے اس بادشاہ کو محمد شاہ رنگیلا کے نام سے بھی جانتے اور پکارتے تھے نادرشاہ ایران جاکر قتل ہو گیا اور ایران کی یہ سلطنت اس کے سپہ سالار احمد شاہ ابدال کے ہاتھ آئی اس نے غزنی اور قندھار کو فتح کیا احمد شاہ ابدالی نے کامل کے صوبیدار ناصر خاں سے پانچ لاکھ روپیہ بطور خراج مانگا مگر ناصر خاں نے خراج نے خراج ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ابدالی نے کابل پر حملہ کرکے فتح کر لیا اور ناصر خاں صوبیدار کابل کا پیچھا کرتا ہوا پشاور تک آیا 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان کی مغلیہ حکومت میں پھیلی ہوئی ابتری اور اور کمزوری کی خبر ملی تو وہ ہندوستان کی طرف متوجہ ہوا اور پنجاب کو لوٹتا اور روندتا ہوا لاہور پہنچا لاہور اور سرہند پر قبضہ کرنے کے بعد ابدالی دہلی کی طرف بڑھتا رہا ابدالی کو ولی عہد سلطنت احمد شاہ نے دہلی سے پرے ہی شکست دیدی 1748ء میں محمد شاہ رنگیلا مرگیا اور راج گدی اس کے بیٹے احمد شاہ کو ملی یہ بھی اپنے باپ محمد شاہ رنگیلے کی ہی عیش پرست حکمراں تھا اس کے زمانے میں صفدر جنگ صوبیدار کی سازش کی وجہ سے مرہٹوں کا دباؤ اودھ پر برابر بڑھ رہا تھا جب احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان کے بادشاہ محمد شاہ کے مرنے کی خبر ملی تو اس نے دوبارہ ہندوستان پر حملہ کر دیا ہندوستان کے بادشاہ احمد شاہ نے ایران کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو ملتان اور لاہور کے دوصوبے دے کر صلح کرلی۔ ابدالی کے واپس چلے جانے کے بعد نمک حرام غازی الدین نے مرہٹہ سرداروں سے سازش کرکے احمد شاہ کو گدی سے معزول کر دیا اور اندھا کرکے قید خانے میں ڈال دیا۔ اس کمینے نے اس زمانے کے زرخرید مولویوں سے باشاہ کوتخت سے معزول کرنے کے حق میں فتویٰ حاصل کر لیا تھا احمد شاہ کے زمانہ میں مغلیہ حکومت بالکل کمزور ہو چکی تھی کچھ صوبوں پر مرہٹے قابض تھے اور کچھ پر روہیلوں کا قبضہ تھا۔ لاہور اور پنجاب احمد شاہ ایرانی کے تحت تھے جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ محمد شاہ نے دوآبے کا انتظام اور سیدوں کی جائداد عظیم اللہ خاں کو سونپ دی تھی اس علاقہ پر ابھی وہ اپنی گرفت پوری طرح سے مضبوط نہ کرپاتا تھا کہ اس کا تبادلہ مالوہ کے لیے کر دیا گیا اور سہارنپور کا انتظام حفیظ الدین کے سپرد کر دیا گیا لیکن دوسال بعد ہی تورانیوں کے سرداروں اور معزالدین نے حفیظ الدین کے خلاف بادشاہ سے شکایت کی اور بادشاہ نے اس کو سہارنپور سے ہٹادیا محمد شاہ کے دور حکومت میں ایک گورنر ظفر خاں عرف روشن الدین تھا اس نے امبیٹھ شاہ محمد باقر کو بخش دیا ٹھا یہ وہ ظفر اں ہے جس نے دہلی کے چاندنی چوک بازار میں ایک چھوٹی مگر نہایت خوبصورت مسجد بنوائی آج بھی اس مسجد کو رشن الدولہ کی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے ی مسجد اپنی خوبصورتی اور تعمیری فن کی بہترین یادگار ہے اور مغلیہ دور حکومت کے عمارتی ہنرمندوں کی یاد دلا رہی ہے۔

بادشاہ افغانستان احمد شاہ ابدالی

1748ء میں احمد شاہ کے بادشا بنتے ہی اودھ کے نواب وزیر صفدر جنگ سپہ سالار اور غازی الدین کے درمیان دربار میں اقتدار حاصل کرنے کی خاطر کشمکش پیدا ہو گئی تھی یہ کشمکش پیدا ہو گئی تھی یہ کشمکش دوآبے کے علاقوں پر برتری قائم کرنے کے لیے تھی وزیر صفدر جنگ نے اندرگیر گاؤں سیان کی قیادت میں ایک فوج دوآبے میں لوٹ مار اور گڑبڑ پیدا کرنے کے لیے بھیجی مگر اس فوج کو غازی الدین نے روہیلوں کی امداد سے سہارنپور پہنچنے سے پہلے ہی شکست دیدی۔ روہیلہ سردار محمد علی خاں کی حوت کے بعد صوبیدار صفدر جنگ نے مرہٹوں اور جاٹوں کی حمایت اور امداد سے روہیلوں کو تو اودھ سے نکال باہر کیا مگر اودھ کے علاقوں پر مرہٹوں کا دباؤ بڑھ گیا اور انھوں نے اودھ کو بری طرح سے لوٹا اور برباد کیا اسی زمانے میں سردار نجیب اللہ خاں روہیلہ جو علی محمد خاں کی فوج میں سپاہی کے عہدہ پر ملازم تھا اور اپنی غیر معمولی سپہ گری کی قابلیت اور اہلیت کے باعث فوج کا سپہ سالار بن گیا تھا یہ علی محمد خاں سابق ریاست رامپور کا بانی تھا اس نے نجیب اللہ خاں کی فوجی اور انتظامی خدمات سے خوش ہوکر گنگا کے کنارے ضلع بجنور میں ایک پرگنہ کی زمین جاگیر میں دیدی تھی بعد میں والیٔ رامپور عی محمد خاں نے بڈھانہ (مظفرنگر) اور کچھ زمین سہارنپور کی بھی دیدی مظفرنگر اور سہارنپور کے یہ پرگنے پہلے سیدوں کی جاگیری ملکیت تھی 1757ء میں نجیب اللہ خاں نے مغلیہ حکومت کی گرتی ہوئی طاقت کا فائدہ اٹھا کر اپنی فوجی کارروائی سے پورے دہرہ دون سہرنپور اور مظفرنگر کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا اس نے مشرق میں جمنا کے پوربی کنارے پر غوث گڑھ تک اور شمال میں کوہ ہمالیہ کی پہاڑیوں اور جنوب میں گنگا کے کنارے سکرتارپور تک کے علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی جاگیر میں شامل کر لیا اور خود ساختہ نجیب الدولہ کے لقب سے اپنی جاگر کا حکمراں بن گیا اس نے اپنی جاگیر اور اپنی فوجی قلعہ (موجودہ جیل) اور دوسرا قلعہ اپنی رہائش کے لیے اس فرحت باغ میں جو انتظام الدولہ نے اٹھارویں صدی کی دوسری یا تیسری دہائی میں لگایا تھا تعمیر کرایا سردار نجیب اللہ خاں نے فوجی قلعہ (موجودہ جیل) کو تعمیر کراکر احمدگڑھ کے نام سے منسوب کیا تھا یہ عجب حسن اتفاق کہ اس زمانے میں دہلی کی سلطنت کے بادشاہ کا نام بھی احمد شاہ تھا ور ایران کی بادشاہت کا وارث بھی احمد شاہ ابدالی تھا اور شاہ ابدالی والیٔ ایران اس زمانے میں ہندوستان کے لیے درد سر بنا ہوا تھا شاید نجیب اللہ خاں کو یہ سیاسی چال چل کر ایک ہی تیر سے دوشکار کرنے کا خیال آیا ہو سردار نجیب اللہ خاں سے پہلے کسی بھی جاگیر دار صوبیدار نے مستقل طور سے سہارنپور میں اپنی رہائش نہیں کی تھی عوام نے اسی وجہ سے اس رہائشی قلعہ کو نواب گنج کا نام دیا گیا سردار نجیب اللہ خاں کی سیاسی حکمت عملی عالمگیر ثانی اور اس کے وارث کو صفدر جنگ کے پنجہ سے چھٹکارا دلانے میں معاون ثابت ہوئی چنانچہ عالمگیر ثانی نے اپنی بادشاہت کی طرف سے اس کو نجیب الدولہ اور امیرالامراء کا خطاب دیا تھا شاہی دربار میں نجیب اللہ خاں کا اثر ورسوخ بڑھنے لگا عالمگیر ثانی نے غازی الدین سے اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں لیا تھا عالمگیر ثانی نے نجیب اللہ خاں کو پھلے ہی سے شہزادہ علی گوہر کا نگراں اور اتالیق مقرر کیا ہوا تھا غازی الدین نمک حرام کو نجیب اللہ خاں کییہ عزت افزائی ایک آنکھ نہ بھائی اور جلن پیدا ہو گئی غازی الدین چونکہ سپہ سالار ارو وزیر فوج بھی تھا چنانچہ اس نے فوجی کارروائی کرکے احمد شاہ ابدالی کے صوبے ملتان اور لاہور پر قبضہ کر لیا اور سردار نجیب اللہ خاں کو دہلی سے سہارنپور جانے پر مجبور کر دیا احمد شاہ ابدالی کو جب پنجاب کے صوبوں کے نکل جانے کی خبر ملی تو وہ 1757ء میں تیسری بار ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور قندھار سے ہوتا ہوا لاہور آدھمکا جب نجیب اللہ خاں کو احمد شاہ ابدالی کا پرزور استقبال کیا اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا احمد شاہ ابدالی سردار نجیب اللہ خاں کو ساتھ لے کر دہلی چلا گیا۔ بادشاہی فوجوں سے معمولی سی لڑائی کے بعد احمد شاہ ابدالی نے دہلی کی حکومت پر قبضہ کر لیا اور تمام شاہی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے اس نے سردار نجیب اللہ خاں کو سپہ سالار اعظم اور عالمگیر ثانی کا وزیر اعظم مقرر کیا، احمد شاہ ابدالی نے محمد شاہ رنگیلا کی حسین وجمیل لڑکی سے اور اپنے لڑکے تیمور شاہ بادشاہ کی بھتیجی سے شادی کی یہ اپنے لڑکے تیمور شاہ کو لاہور، ملتان اور ٹھٹھہ کا حاکم مقرر کرکے واپس ایران چلا گیا اس کی وطن واپسی کے فوراً بعد غازی الدین نے مرہٹوں کی امداد سے نجیب اللہ خاں کو سہارنپور اپنی جاگیر میں جانے پر مجبور کر دیا۔ اسی عرصہ میں شہزادہ علی گوہر ملقب شاہ عالم ثانی دہلی سے کھسک گیا تھا۔ نجیب اللہ خاں نے پھر اس کو خوش آمدید کہا اور اس کی امداد سے بنگال چلا گیا تھا۔ 1759ء میں احمد شاہ ابدالی چوتھی بار ہندوستان میں سکھوں اور مرہٹوں کے فتنوں سے نبٹنے کے لیے آیا یہ لڑائی سکھوں اور احمد شاہ ابدالی کی فوجوں کے درمیان لدھیانہ کے قریب لڑی گئی تھی اس لڑائی میں بیشمار سکھ قتل ہوئے اور قیدی بنائے کیے اس لڑائی کو کولھولگارہ کے نام سے سکھی کتابوں میں جانا جاتا ہے دوسرے سکھ سرداروں کے علاوہ اس لڑائی میں سابق ریاست پٹیالہ کا پانی آلا سنگھ بھی گرفتار ہوا تھا اس زمانے میں احمد شاہ سے اپنے خاوند کو قید سے رہا کرانے کی خاطر رابطہ قائم کیا ارو آخرکار اس نے پانچ لاکھ روپیہ کا نذرانہ دے کر اور احمد شاہ کی اطاعت کا دم بھر کر اپنے خاوند کو احمد شاہ ابدالی کی قید سے آزاد رکرالیا احمد شاہ ابدالی نے اپنے لڑکے تیمور شاہ ہی کی سفارش پر آلا سنگھ کو راجا کی سند بھی عنایت کردی اب آلا سنگھ ڈاکو یا لٹیرے کی بجائے ایک علاقہ (پٹی) کا راجا جانا جانے لگا اوراس کی حکومت کو پٹی آلا سنگھ کہا جانے لگا بگڑتے بگڑتے اس کو پٹیالہ کا نام ملا۔ اسی عرصہ میں احمد شاہ ابدالی نے تیمور شاہ کو جہان خان کا خطاب دے کر پنجاب کا گورنر مقرر کر دیا تھا اسی بادشاہ نے تھوڑے ہی دنوں بعد سردار آلاسنگھ کو سرہند کا گورنر مقرر کر دیا اور مرہٹوں کی سرکشی پر توجہ دی احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کی خوب مرمت کی سکھوں اور مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالی کی حمایت میں سردار نجیب اللہ خاں نے اہم رول ادا کیا تھا اس لیے ایک بار پھر نجیب اللہ خاں دہلی کی ابدالی کی حمایت میں سردار نجیب اللہ خاں نے اہم رول ادا کیا تھا اس لیے ایک بار پھر نجیب اللہ خاں دہلی کی سلطنت کا امیر الامراء بنا اور سلطنت کا بخشی بھی مقرر ہوا۔ عالمگیر ثانی کے قتل کے بعد یہی شہزادہ جواں بخت سیرعالی گوہر شاہ عالم ثانی کا نگہبان بنا رہا۔

1759ء کے دوران احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان میں اپنا نائب نور الدین خاں کو مقرر کر دیا تھا غازی الدین نے احمد شاہ ابدالی کی وطن واپسی کے بعد عالمگیر ثانی کو قتل کراکر شہزادہ عالی گوہر کو شاہ عالم ثانی کے لقب سے تخت شاہی پر بٹھادیا۔ شاہ عالم ثانی نے غازی الدین کی گرفت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی خاطر روہیلہ سرداروں حافظ رحمت خاں دوندے خاں اور شجاع الدولہ صوبیدار اودھ کو اپنے ساتھ ملالیا دوسری طرف غازی الدین نے مرہٹوں کو روہیلوں پر حملہ کرنے کے لیے ابھارا اور اپنا لشکر جھانکو کی قیادت میں دوآبے (مظفرنگر اور سہارنپور) کے علاقوں میں لوٹ مار اور فساد بند کرانے کے لیے بھیجدیا مگر جھانکو معمولی سی فوجی جھڑپ ہی میں بجنور کے علاقہ گنگا کے کھادر میں لوٹ مار کرنے اور اپنا اثر قائم کرنے کی خاطر روانہ کردی تھی اس فوج کے خطرے کی وجہ سے سردار نجیب اللہ خاں اپنے مضبوط ترین قلعہ شکر تارپور میں محصور ہونے کی نیت سے گنگا دریا کے کنارے کنارے چل پڑا تھا اس زمانے میں نجیب اللہ خاں کو بہت ہی کٹھن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس پریشانی کی حالت میں سردار نجیب اللہ خاں نے اپنے ہم قوم روہیلہ سرداروں اور وزیر اودھ سے امداد مانگی مگر کسی نے بھی اس کی امداد نہ کی۔

شجاع الدولہ وزیراودھ نے روہیلوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے اور روہیلوں پر اپنی گرفت قائم کرنے کی خاطر روہیل کھنڈ پر حملہ کر دیا ایسا لگتا ہے کہ روہیلہ سردار شجاع الدولہ کی اس فوجی کارروائی میں الجھے رہنے کی وجہ سے ہی سے نجیب اللہ خاں کی امداد نہ کرپائے ہوں۔ شجاع الدولہ نے غازی الدین اور اس کے حمایتوں کو روہیل کھنڈ سے نکال باہر کیا سردار نجیب اللہ خاں دریائے گنگا کو ہردوار کے گھاٹ سے عبور کرکے سہارنپور آ گیا پ۔ نی پت کی جنگ میں کمرتوڑ شکست کے بعد 1763ء میں بھرتپور کے ایک جاٹ سورج مل نے سراٹھایا مگر وہ اس عرصہ میں مرگیا 1764ء میں اس کے لڑکے جواہر سنگھ نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کردی مگر نجیب اللہ خاں کی سیاسی حکمت علی سے یہ بغاوت دب کر رہ گئی کوئی بھی مؤرخ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ سردار نجیب اللہ خاں مغلیہ حکومت کی گرتی ہوئی طاقت کو سہارا دینے کے لیے ہر وقت بے لوث خدمت انجام دیتا رہا اس زمانے میں صرف سردار نجیب اللہ خاں ہی ایک ایسا وفاشعار آدمی تھا جو اپنے لڑکے زبیۃ خاں کی مخالفت کے باوجود مغلیہ حکومت کی امداد کرتا رہا۔ اس نے اپنے لڑکے زبیۃ خاں کی شاہ دشمنی کی پالیسی کو کبھی بھی پسند نہیں کیا اور زبیۃ خاں کو بادشاہ کی مخالفت کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کرتا رہا اور اس کے منصوبہ کو ناکام بنانے میں دل وجان سے کوشاں رہا غرض نجیب اللہ خاں کو اپنی لمبی بیماری اور صحت خرابی کی وجہ سے بادشاہی عہدوں سے استعفیٰ دے کر نجیب آباد جانا پڑا وہاں چند سال گذرانے کے بعد 1770ء میں وفات پاگیا اس کے زمانے میں اس کی جاکیر کا افسر اعلیٰ اور سہارنپور کا منتظم (کلکٹر) انورخاں تھا۔ اگر چہ نجیب اللہ ایک بہادر اور منتظم سپہ سالار تھا مگر یہ اپنی جاگیر کو بیرونی حملہ سے محفوظ نہ کرسکا۔

غازی الدین جیسے حاسد مرہٹوں، سکھوں اور جاٹوں کو دوآبے میں لوٹ مار اور فتنہ وفساد کرنے کی خاطر ابھارتے رہتے اور نجیب اللہ خاں کو دہی دربار سے دور رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ 1762ء میں سردار غریب سنگھ کی قیادت میں سکھوں کی ایک بڑی فوج نے بو ڑیہ، دمجھیڑ اور سرساوہ کے گھاٹوں سے جمنا کو پار کرکے چلکانہ سرساوہ اور اس کے گرد و نواح میں خوب لوٹ مار کی۔

مرہٹہ اور سکھ دور

1764ء میں سکھ فوج نے سہارنپور پر حملہ کر دیا سردار نجیب اللہ خاں نے اس سکھ فوج پر نانوتہ اور اسلام نگر کے درمیان حملہ کر دیا اور سکھ فوج کو دو حصوں میں تقسیم کرکے شکست دینے میں کامیاب ہو گیا یہ سکھ فوج جمنا کو کنجپورہ (کرنال) کے گھاٹ سے عبور کرکے پنجاب میں واپس چلی گئی۔ اگلے سال سکھوں کے مشہرو بڈھا دل لشکر نے سہارنپور، مظفرنگر یعنی پورے دوآبے میں اپنی فوجی کارروائی سے بھاری تباہی مچائی یہاں تک کہ میرٹھ کے علاقوں کو بھی اپں ی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا نشانہ بناڈالا اس کارروائی میں گوجروں نے بھی سکھوں کی بھرپور حمایت کی تھی اس زمانے میں نجیب اللہ خاں دہلی ہی میں تھا گوروہیلہ سردرا سکھوں کے اس فساد کو دبانے کے لیے دیر سے سامنے آئے مگر پھر بھی روہیلہ سرداروں نے سکھوں کو جمنا پار بھاگ جانے پر مجبور کر دیا 1766ء مے سکھ فوجوں نے پھر سردار بھگیل سنگھ اور سردار کروڑا سنگھ کی قیادت میں جمنا دریا کو بوڑیہ اور دمجھیڑہ کے گھاٹ سے عبور کیا یہ سکھ فوج دوآبے کے جنوب ومغرب کے گاؤں اور رام پور، نانوتہ، اسلام نگر قصبوں کو لوٹتی اور برباد کرتی ہوئی میرٹھ کی طرف بڑھتی گئی مگر وہاں کے بادشاہ کی فوج سے سکھ فوج کر لڑائی ہو گئی نتیجہ کے طور پر سکھوں کو ہار نصیب ہوئی ابھی بادشاہی فوج دہلی کی طرف روانہ ہوئی تھی کہ ان سکھ بھگوڑوں نے اسلام نگر، نانوتہ اور رامپور کے دیہات کو لوٹ مار اور بربادی کا نشانہ بنایا مگر نجیب اللہ خاں کی حکمت عملی اور فوجی کارروائی نے سکھوں کی اس فوج میں بھی دراڑ پیدا کر دیا اس دراڑ کے پڑجان سے سکھ فوج دوحصوں میں بٹ کر کمزور ہو گئی آخر اسلام نگر کے سامنے سے سکھ فوج نے جمنا کو پار کیا اور پنجاب میں چلی گئی نجیب اللہ خاں کی وفات کے بعد اس کی جاگیر کا وارث اس کا لڑکا زبیۃ خاں بنا۔ زبیۃ خاں (ضابطہ خاں) 1767ء میں مہاراجا پٹیالہ کی ریاست میں وزارت کے عہدے پر تھا اس نے بھی اپنی جاگیر کا انتظام کرنے کے لیے سہارنپور کو مرکزی حیثیت دے رکھی تھی اس زمانے میں نجیب اللہ خاں کا مقرر کردہ جمال خاں سہارنپور کا عامل (کلکٹر) تھا زبیۃ خاں نے موضع سکروڈھ کے راؤ قطب الدین کو بھگوان کے پرگنہ کا منتظم مقرر کرکے مال گزاری وصول کرنے کی ذمہ داری سونپ دی تھی اگر چہ زبیۃ خاں بھی اپنے باپ کی طرح مغلیہ دربار میں کافی اثرورسوخ کا مالک تھا مگر شاہ عالم ثانی کی اس نے مرہٹوں کے دباؤ ی وجہ سے زبیۃ خاں سے نظر پھیر لی تھی شاہ عالم ثانی کی اس بے التفاتی کی وجہسے زبیۃ خاں دربار میں بے اثر ہوکر رہ گیا زبیۃ خاں نے شاہ عالم ثانی کی اس بے توجہی کو نجیب اللہ خاں کے گھر کی بے عزتی اورتوہین سمجھا اور سہارنپور جاگیر میں چلاگیا دسمبر 1771ء میں اس کو خبر ملی کی مرہٹوں نے دریا گنگا کو ہردوار کے گھاٹ سے پار کر لیا ہے اس نے نہایت پھرتی سے مرہٹوں کا مقابلہ کیا مگر ہار گیا اور سوائے غوث گڑھ کے اس کی ساری جاگیر مرہٹوں کے قبضہ میں چلی گئی اس کے بہت سے ساتھی جنگلوں میں جاکر چھپ گئے اس عرصہ میں ضابطہ خاں (زبیۃ خاں) نے شجاع الدولہ سے امداد مانگی تھی جون 1772ء کے دوران دوآبے میں امن قائم رہا کیونکہ مرہٹے اپنے آبائی گھروں کو جانے کے لیے جلدبازی کر رہے تھے مرہٹوں کی واپسی کے بعد زبیۃ خاں کو سنبھلنے کا موقع آ گیا اور دوبارہ اپنی جاگیر پر قابض ہو گیا مگر روہیلہ سردار حافظ رحمت خاں شجاع الدولہ کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا اور اس کے قتل ہوجانے سے روہیلوں کی طاقت چکنا چور ہو چکی تھی مگر زبیۃ خاں نے مرہٹوں سے یارانہ گانٹھ کر امیرالامراء کا عہدہ حاصل کر لیا اور دربار شاہی میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی جدوجہد کرنے لگا پھر بھی یہ نجف خاں کے مقابلہ کا نہ ہو سکا اور نجف خاں دربار شاہی پر چھایا رہا یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف بن کر اپنی طاقت کو ہی کمزور نہیں کرتے رہے بلکہ مغلیہ حکومت کی جڑوں پر کلہاڑا چلانے کا سبب بن گئے۔ 1774ء میں سردارتارا سنگھ، سردار کھٹک سنگھ، سردار مادھو سنگھ، سرادر صاحب سنگھ، سردار چیت سنگھ اور سردار کھنڈا سنگھ سکھ سپہ سالاروں کی قیادت میں سکھوں کیایک لاکھ فوجی لشکر نے دریائے جمنا کو بوڑیہ، مجھیڑھ، سرساوہ اور کنجپورہ کے گھاٹوں سے پار کرکے پورے دوآبے میں تباہی مچادی، زبیۃ خاں نے سکھ سرداروں کو پچاس ہزار روپیہ نذرانہ دے کر اپنا پیچھا چھڑایا اور اس نے سکھ لوگوں کی دن دونی رات چوگنی بڑھتی فوجی طاقت سے متاثر ہوکر سکھوں سے دوستی کے لیے رابطہ قائم کیا اس نے سکھوں کو اپنی حمایت اور وفاداری کا بھروسا دلایا زبیۃ خاں شاہ عالم ثانی سے اپنے خاندان کی بے عزتی کا بدلہ لینے کی خاطر سکھوں کا انتہائی حمایتی بن گیا اس نے سکھوں کو اپنی حمایت اور وفاداری کا یقین دلانے کے واسطے اپنا نام دھرم سنگھ رکھ لیا اور سکھوں نے اس کو بخشی کا خطاب دیا 1776ء میں اس نے باشاہ کو مال گزاری ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیا اور کھلم کھلا باشاہ کی مخالفت کرنے لگا یہ اپنے بچاؤ کے لیے غلہ اکٹھا کرنے اور شکرتاپورکے اپنے قلعہ کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں لگ گیا اِدھر مرہٹوں نے دوآبے کے علاقہ نجیب اللہ خاں کی جاکیر میں فوجی کارروائی کردی یہ مرہٹہ فوج شاہی فوج سے جس کی سپہ سالاری نجف خاں کر رہا تھا مل کئی زبیۃ خاں نے اپنے اہل و عیال کو معہ متعلقہ ضروری سامان کے گنگا پار بجنور کے علاقہ کی طرف روانہ کر دیا اور خود شکرتاپور کے قلع کی طرف کوچ کرگیا یہاں پر وہ حافظ رحمت خاں اور دوسرے روہیلہ سرداروں سے ملا۔ مارچ 1776ء میں سکھوں نے اپنے مخالفوں کو سخت سزاد دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور نجف خاں کے بھائی عبد القاسم کو قتل کرکے سارے دوآبے پر قبضہ کر لیا تھا نجف خاں نے پھر ان کو ٹوکا بعد میں سکھوں اور نجف خاں میں باہمی صلح ہو گئی سکھوں کی اس صلح سے زبیۃ خاں کی طاقت کمزور پڑ گئی بادشاہ سے اس نے کسی طرح دوبارہ اپنی جاگیر کی سند حاصل کرلی اور سیاست سے دست بردار ہوکر اپنی جاگیر کا انتظام چلاتا رہا سکھوں نے اس کی عہد شکنی کو کبھی نہیں بھلایا اور اس سے بدلہ لینے کے خاطر 1778ء اور 1781ء کے درمیانی عرصہ میں ہر سال دریائے جمنا کو عبور کرکے آتے رہے اور لوٹ مار بھی کرتے رہے مگر ہر بار مرزا محمد شفیع گورنر صوبہ، سہارنپور سکھوں کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا وہ ان کو کرنال اور انبالہ کے علاقوں میں دھکیلتا رہا۔ 1783ء میں دوآبے مین خشک سالی کی وجہ سے قحط پڑا ہوا تھا سکھوں نے سہارنپور پر اچانک حملہ کر دیا اور دل کھول کر اس کے قصبات ودیہات میں لوٹ مار اور کاٹ کی اسی اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دہرہ دون میں ہریدوار کے راستے میں گھس کر پوری تباہی مچادی اس زمانے میں زبیۃ خاں بے یارومددگار اپنے غوث گڑھ کے قلعہ میں محصور ہو گیا تھا نہ معلوم کس طرح یہ ان سکھوں سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ 1785ء میں یہ بدبخت وبدعہد واحسان فراموش اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے غلام قادر کو عروج حاصل ہوا یہ نہایت کمینہ خصلت اور بددماغ آدمی تھا پہلے تو اس نے اپنے رشتہ داروں اور خاص طور سے اپنے چچا افضل خاں روہیلہ کی جائداد ہڑپ کی پھر اس کے بعد اس نے اپنے دادا نجیب اللہ خاں کی ساری جائداد پر معہ دہرہ دونہ کے قبضہ حاصل کر لیا اس نے غوث گڑھ کے قلعہ کو مضبوط اور محفوظ بنانے پر توجہ دی اس نے بھی اپنے باپ زبیۃ خاں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سکھوں سے ناتا جوڑا اور دوآبے میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا سکھوں نے اس کی دوستی کی قدر کی گو یہ حالت بہت تھوڑے عرصہ تک ہی قائم رہی غلام قادر روہیلہ نے بادشاہ کے خلاف کھلے طور پر بغاوت کردی۔ بیگم سمروے سردھنہ کے قریب اس کی جنگ ہوئی اور اس کی شکست نصیب ہوئی شکست کھاکر گنگا پار چلا گیا۔ غلام قادر حملہ کرنے کے لیے پھر لوٹا۔ مرزا نجف خاں پھر بادشاہ کی امداد کو آیا اس موقع پر بھی یہ مقابلہ کی تاب نہ لاکر اپنے علاقہ میں چلا گیا بعد میں غلام قادر اور مرزانجف کے مابین صلح ہو گئی 1787ء میں منصور عی خاں شاہی محل کا انچارج تھا اور اس زمانے میں امیرالامراء کا عہدہ خالی پڑا ہوا تھا اس نے غلام قادر کو امیرالامراء کا عہدہ حاصل کرنے کی دعوت دی منصور علی خاں بھی روہیلہ افغان ہی تھا اسی سال مرزا بخت خاں مرگیا نجف خاں کی موت اور منصور علی خاں کی بادشاہ کے خلاف سازش سے وہ موقع ہاتھ آ گیا جس کا وہ خواہش مند تھا اس دور میں بادشاہ کے پردے میں مرہٹے راج کر رہے تھے غلام قادر نہایت مغرورانہ انداز سے اپنے لشکر کو سہارنپور سے لے کر دہلی کی طرف چل دیا اس وقت مرہٹے بھی شاہ عالم ثانی کی امداد کو نہ آسکے کیونکہ مرہٹے ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں الجھے ہوئے تھے دہلی پہنچ کر غلام قادر نے منصور علی خاں کی سازش سے شاہی محل اور قلعہ پر قبضہ کر لیا حکومت کا سارا اقتدار غلام قادر روہیلہ اور اسماعیل بیگ کے ہاتھ میں آ گیا مرہٹوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا بادشاہ پر قابو حاصل کرنے کے بعد غلام قادر نے متھرا جاکر مرہٹوں سے لڑنے کا ارادہ کیا مگر اس کو اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا خزانے کا پیشہ لگانے کی خاطر غلام قادر نے بادشاہ کو مارپیٹ کی اسپر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ بیگمات اور شہزادیوں کے گالوں پر تھپڑ مارمار کر برا حال کر دیا اور ان کے جسم پر کوڑے مارے۔ آخر اس کو جب خزانے کا پتہ نہ چلا تو اس بیوقوف، کمینہ اور ظالم نے بادشاہ کی آنکھیں نکال دیں اور اندھا کر دیا جب مرہٹوں کو متھرا مے روہیلوں کے ہاتھوں بادشاہ کی اس دُرگکت کی خبر ملی تو مرہٹے اپنا لشکر لے کر متھرا سے دہلی آئے غلام قادر کو جب مرہٹہ فوج کے آنے کی خبر ملی تو یہ میرٹھ کے راستے سے بھاگ کھڑا ہوا مگر مرہٹہ فوج نے اس کا پیچھا کرکے اس کی فوج کو شکست دیدی اور غلام قادر بدہنجار کو گرفتار کرکے متھرا لے گئے مرہٹوں نے مردود غلام قادر روہیلہ کو وہ سزادی جس کا وہ انسانی اور اخلاقی طور پر مستحق تھا مرہٹوں نے اس کا سرمنڈوا کر گدھے پر الٹا سوار کیا اور گھر گھر دکان دکان سے ایک ایک کوڑی منگوائی پھر اس کی زبان کٹوائی اس کے بعد اس کے ہاتھ اور پیر کٹوائے باقی جسم کا لوتھڑا بادشاہ کے پاس دہلی بھجوایا مگر دہلی پہنچنے سے پہلے ہی یہ انسانیت سوز تڑپ تڑپ کر مرگیا مردہ جسم کا لوتھڑا بادشاہ کے سامنے لایا گیا۔ لوگوں نے اس کی لاش کے اس لوتھڑے کا قیمہ کیا اور گندگی کے ڈھیر پر ڈال کر چیل اور کوؤں کو کھلایا گیا کاش اس دنیا کا مالک اور بادشاہ خطا کاروں کو ان کے جرم کے مطابق بلاواسطہ ہروقت موذی کو سزا دے دیا کرے تو پوری دنیا سے ہر قسم کی برائی ختم ہوکر رہ جائے اور انسان تذبذب سے نکل کر نہ مٹنے والی یقین کی حالت میں آجائے۔ اس واقعہ کے بعد اس دوآبے سے روہیلوں کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا اور مرہٹوں کی بالادستی قائم ہو گئی۔ 1789ء میں مرہٹوں نے ضلع باندہ کے غنی بہادر کو سہارنپور صوبے کا گورنر مقرر کیا 1794ءمیں اس گورنر نے جگادھری کے سکھ سردار رائے سنگھ اور شیرسنگھ ب رہی ا کو منگلور کے علاقہ میں کھیتی باڑی کے بہت بڑے بڑے فارم الاٹ کردیے یہ سردار کچھ عرصہ کے لیے خاموش ہو گئے مگر دوسال بعد 1791ء میں مرہٹوں نے بھیسروں پنت تانیتا کو سہارنپور کے صوبے کا گورنر مقرر کیا اس گورنر نے ان دونوں سکھ سرداروں کو ان کی زمینوں سے بے دخل بناکر کہیں چلے جانے پر مجبور کر دیا آخر کار انھوں نے چلکانہ، سلطان پور اور پرگنہ نکوڑ کے کئی گاؤں پر اپنا قبضہ جزوی طور سے جمائے رکھا ان دونوں اور دوسرے ان سکھ سرداروں نے جو ضلع مظفرنگر کے دیہات پر قابض تھے سہارنپور کے گورنر بھرون نپت تانیتا سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کو سہارنپور کے صوبے میں فتنہ برپا کرنے سے روکنے کے ذمہ دار ہوں گے اور مرہٹہ حکومت کے اطاعت گزار اور وفادار بن کر رہیں گے مگر سکھوں میں پھوٹ پڑجانے کی وجہ سے یہ اپنا وعدہ نہ نبھاسکے 1794ء میں مرہٹہ سردار مادھوجی سندھیا مرگیا سکھوں میں پھوٹ پڑجانے کی وجہ سے یہ اپنا وعدہ نہ نبھاسکے 1794ء میں مرہٹہ سردار مادھوجی سندھیا مرگیا سکھوں نے جمنا دریا کو عبور کرکے دوآبے کے علاقوں میں لوٹ مار کرنی شروع کردی سردار رائے سنگھ نے مرہٹوں کو اپنی امداد کے لیے بلایا مگر مرہٹہ فوج کی ہار ہو گئی اور مرہٹوں کی شکست خوردہ فوج سہارنپور سے جلال آباد کی طرف بھاگ جانے پر مجبور ہوئی پھر لاکو اڈاڈاکو ان بربادشدہ ضلعوں کا چارج لینے کو سہارنپور بھی گیا 1796ء میں لاکواڈاڈانے آئرش جارج تھا مس کو دوآبے اندری کرنال (سہارنپور، مظفرنگر، دہرہ دون) کے انتظام اور سکھوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سپرد کی جارج تھا مس نہایت ہمت والا آدمی تھا اس زمانے میں یہ علاقہ تقریباً بالکل برباد ہو چکا تھا کچہ عرصہ بعد تک توجارج تھامس بابو سندھیا کا دوست اور معاون بن کر رہا بعد میں بابوسندھیا نے سہارنپور کا چارج لے لیا لیکن مذکورہ سکھ سرداروں کے ہم قوم رشتہ داروں نے اس کے انتظام میں رکاوٹیں پیدا کر دیں اسی عرصہ میں ترکمان لوگ جو بہرمند علی خاں کی قیادت میں بغاوت کرنے کی تیاریاں کرنے میں معروف تھے جارج تھامس نے لکھنوتی مغل اور شاملی پر فوج کشی کرکے ان کو کچل ڈالا اس نے کرنال کے چار مقامات پر سکھوں کو بھی شکست دید 1797ء کے زمانے میں لاکواڈاڈا نے امام بخش خاں کو سہارنپور کا عامل (کلکٹر) مقرر کیا اور شمبھوناتھ کو جوقوم کا ایک بنیا تھا امام بخش خاں کا نائب منتظم بنایا شمبھو ناتھ نے لاکواڈاڈا کے معتمد کی حیثیت میں جنرل بروں جو علی گڑھ کی فوج کا کمانڈر تھا سے سہارنپور کی فوج کا چارج اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ شمبھو ناتھ نے سکھوں سے رابطہ قائم کرکے جنرل بروں کی فوج کو رشوت دینے کی سازش کی جنرل بیروں کو اس سازش کا بروقت پتہ چل گیا چنانچہ 1800ء میں جنرل بیروں نے کھتولی کے نزدیک شمبھوناتھ اور سکھوں کی فوجوں پر حملہ کر دیا اور ماربھگایا بیروں نے ان سکھوں کی تمام جاگیریں ضبط کر لیں بعد میں نجف خاں کی وفات کے بعد شاہ عالم ثانی کی وزارت میں تبدیلیاں ہوئیں اس تبدیلیٔ وزارت کے نتیجہ میں بادشاہ پورے طور پر مرہٹوں کا کٹ پتلی بن گیا مرہٹوں نے شاہ عالم ثانی کی پینسٹھ ہزار روپیہ سالانہ پنشن مقرر کردی۔ بادشاہ کشمکش کی حالت میں جدھر اپنی سلامتی یا فائدہ دیکھا جھک جاتا تھا۔ 30؍دسمبر 1803ء میں لارڈ بیگ نے مرہٹوں کو شکست دے کر دہلی سے مار بھگا دیا اور بادشاہ کی ایک لاکھ روپیہ سالانہ پنشن مقرر کردی اس طرح مغلیہ حکومت کی مہر بن کر نام کا بادشاہ ہو گیا 1806ء میں شاہ عالم ثانی حالت نے بسی میں مرگیا اس کے مرنے کے بعد انگریزوں نے معین الدین کو تخت نشین کر دیا اس کی تخت نشینی کی رسم برائے نام ہوئی تھی ورنہ حکومت تو انگریز ہی کر رہے تھے اکبر ثانی جو اس پنشن کی رقم سے پ؍رے شاہی خاندان کی کفالت نہیں کر سکتا تھا اس لیے بادشاہ نے جواہرات اور اپنا قیمتی سامان بیچ بیچ کر شاہی خاندان کے لوگوں کے اخراجات زنندگی پورے کیے یہ نام نہاد (نام چارے) کی بادشاہی کی کٹھن زندگی کو اکتیس سال متواتر گذارتے ہوئے 1837ء میں مرگیا مرتے وقت اس کی عمر اسّی برس تھی اس کے بعد اِسی سال انگریزوں نے محمد سراج الدین بہادر شاہ کو جانشین مقرر کر دیا اس نام نہاد بادشاہ کے زمانے میں مئی 1857ء میں میرٹھ کے کچھ فوجیوں نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔ ان باغیوں اور دوسرے شاہ پرستوں نے بادشاہ کے انکار کے باوجود دوبارہ تخت پر بٹھا کر مغلیہ حکومت کی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ شاہ پرستوں اور باغیوں کی انگریزوں سے 72-73 جگہوں پر لڑائی ہوئی مگر انگریزوں ہی کی فتح ہوتی رہی یہ لڑائیاں مئی سے ستمبر تک ہوتی رہیں آخر انگریزوں نے دہلی کو دوبارہ فتح کر لیا انگریزوں نے بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے اس کے جوان لڑکوں کو قتل کرکے بادشاہ ہی کے روبرو سیرپیش کیے پھر بادشاہ کو گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا دہلی کے ہزاروں معززین کو شارع عام پر پھانسی دیدی گئی عورتوں اور بچوں کو قتل کرڈالا گیا چونکہ یہ بغاوت کسی منظم منصوبہ کے تخت نہیں ہوئی تھی اس لیے نہایت آسانی سے انگریزوں نے اس کو دبادیا اور اس بغاوت کا خمیازہ خصوصیت کے ساتھ مغلیہ شاہی خاندان اور ہندوستان کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔

انگریز دور

انگریزوں نے مغل حکومت کی بوسیدہ اور گھن لگی ہوئی ہڈیوں پر جس عیاری اور مکاری سے اپنی حکوت قائم کی وہ تاریخ کا نہایت ہی شرمناک باب ہے اور اس پر رہتی دنیا تک انسانیت تھوکتی رہے گی کیونکہ انگریزوں نے بہادروں اور فاتحوں کی حیثیت سے ہندوستان کی سلطنت حاصل نہیں کی تھی بلکہ وہ چوروں اور دھوکا بازوں کی طرح تاجروں کے بھیس میں آئے اور مغلوں سے روزی روٹی کی بھیک مانگتے اور دامن پھیلا پھیلا کر اور گڑگڑا کر تجارتی سہولیتیں حاصل کرتے رہے۔ انگلستان کے ان مچھیروں کو اپنی گردن نہ اٹھانی چاہیے تھی مگر احسان فراموش جابر حاکم بن گئے۔ یہ جاگیری زمین لنڈھورہ کے راجا رام دیال سنگھ اور دوسرے سکھوں کو دیدی گئی 1801ء میں راجا رام دیال سنگھ نے اپنی طاقت کا اس وقت مظاہرہ کیا جب اس نے اعجاز خاں کو بچیٹی کے مقام پر شکست دی یہ اعجاز خاں اپنے کو غلام قادر روہیلہ کے خاندان کا بتلاتا تھا مگر اصل میں اس کا غلام قادر خاں کے خاندان سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا یہ گوجروں کے خلاف مسلمانوں کو فساد کے لیے ابھارنے پر لگا ہوا تھا۔ 30؍دسمبر 1803ء کو لارڈ لیک نے مرہٹہ سردار سندھیا کو شکست دینے کیب عد نجیب اللہ خاں والی جاگیر کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا اور اس پر قبضہ جمانے کے بعد اس نے اس علاقہ کو ایسٹ اندیا کمپنی کی حکومت میں شامل کرلیتا اور مسٹر گھتری کو سہارنپور کا کلکٹر مقرر کر دیا۔ 11؍ستمبر 1804ء کو کرنل برن دہلی کے قریب جنگ کرکے شاہی محل اور شاہجہانی قلعہ پر قابض ہو گیا اس عرصہ میں کرنل برن کو سہارنپور پر سکھوں کے حملے کی خبر ملی اس نے لفٹنٹ بچ (Butch) کو فوج کی ایک ٹکڑی دے کر جمنا کے گھاٹوں کی حفاظت کرنے اور ناکہ بندی کرنے کے لیے روانہ کیا اور فوراً کرنل جیمس شیکسپیرکی قیادت میں دوسری گھوڑ سوار فوج کو سکھوں کے فتنہ سے نبٹنے کے لیے روانہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی اس فوج نے جمنا پار کرکے سکھوں پر اچانک حملہ کر دیا کچھ سکھ قتل ہوئے اور باقی نے ہتھیار ڈال کر معافی مانگ لی۔ اب سہارنپور کے علاقوں میں لوٹ مار اور فساد برپا کر دیا نام کے مغل بادشاہ نے اپنی ذاتی فوج کو جمنا کے گھاٹوں پر لگادیا اس علاقہ کے لوگ مرہٹہ سردار ہلکر کے متبنّیٰ شمبھو ناتھ کے حملے کے خلاف متحد ہو گئے سہارنپور کے بینوں ے اس زمانے میں ایک بستی بسا کر ہرناتھ پورہ سے منسوب کیا تھا اکتوبر 1804ء میں سکھوں نے آخری بار جگادھری کے رائے سنگھ اور ب رہی ا کے شیرسنگھ کی سرکردگی میں سہارنپور پر حملہ کیا۔ اس سکھ فوج نے جمنا کو سرساوہ کے سامنے سے عبور کیا اور جمنا کے کنارے کے گاؤں دمجھیڑہ اور سلطان پور چلکانہ کے اِرد گرد کے دوسرے گاؤں میں لوٹ مار کرتی ہوئی سہارنپور کی طرف بڑھتی گئی چونکہ جنرل گھتری کے پاس اتنی فوج نہ تھی کہ سکھ فوج کا خاطر خواہ مقابلہ کرتے اس لیے اپنے بچاؤ کی خاطر وہ قلعہ نجیب اللہ (موجودہ جیل) میں محصور ہو گیا آپ پہلے پڑھ چکے ہیں اس قلعہ کو سردار نجیب اللہ خاں روہیلہ نے تعمیر کراکر احمد شاہ ابدالی کی نذر کر دیا تھا اور اس کو احمد گڑھ کے نام سے منسوب کر دیا تھا نجیب اللہ خاں کے پوتے کمینہ خصلت آدمی کے اٹھان کے دوران اس قلعہ کو غلام قادر کا قلعہ کے نام سے پکارا جانے لگا ہندوستان کی سلطنت پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہوجانے پر گو اس قلعہ کو جزوی طور پر جیل خانہ میں تبدیل کر دیا تھا مگر قلعہ کے زیادہ تر حصہ کو فوجی ضرورتوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جب کرنل برن کو سکھوں کے حملے اور قلعہ میں مسٹر گھتری کے محصور ہونے کی اطلاع ملی تو وہ چھ توپیں اور دو بٹالین گھوڑسوار فوج لے کر جلدی سے سہارنپور کی طرف چل پڑا راستے میں کاندھلے کے قریب اس کو مرہٹہ سردار ہلکر کی گھوڑسوار فوج کا ایک دستہ ملا مگڑ کرنل برن مرہٹوں کے مقابلے میں نہ آکر شاملی (مظفرنگر) کے قلعہ میں محصور ہو گیا اور اپنی حفاظت کرتا رہا 3؍نومبر 1804ء کو لارڈ لیک کی فوج نے کرنل برن کو رہائی دلائی لارڈ لیک کی فوج کے پہنچنے کی خبر مل جانے پر مرہٹہ فوج نو دوگیارہ ہو گئی یہاں سے لارڈ لیک کھتولی کی طرف بڑھتا گیا یہاں پر جنرل گھتری جس کو بیگم سمرو نے سہارنپور میں سکھوں سے چھٹکارا دلایا تھا لارڈ لیک کی فوج سے آن ملا۔ اس زمانے میں سکھوں نے دو آبے کے علاقوں میں دور دور تک لوٹ مار اور فساد پیدا کر رہا تھا مگر مظفرنگر میں ان کی پیش قدمی رکی ہوئی تھی کیونکہ تھانہ بھون سے گور جیت سنگھ نے سکھوں کوباہر نکال ڈالا تھا اس کے بعد سکھوں نے پھر اپنی منتشر طاقت کو اکٹھا کرکے ہنڈن ندی کے کنارے دیوبند سے سات میل دور موضع چراؤؤں کے مقام پر مضبوط پوزیشن لی مگر اس علاقہ کے گوجر اور رانگڑھ (راجپوت) اپنی بہو، بیٹیوں، ماں اور بہنوں کی عصمت کو بچانے کے لیے سکھوں کے خلاف کرنل برن کے حمایتی ہو گئے اور یہ لوگ اپنے گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں پر سوار ہوکر تلواریں لے کر سکھوں پر حملہ کرنے کے لیے میدان میں نکل آئے ان لوگوں کے ٹڈی دل کی کثرت کو دیکھ کر سکھ فوجوں پر ایسا خوف طاری ہوا کہ سکھ بلا مقابلہ کیے ہی بھاگ کھڑے ہوئے اس دن انگریزی توپ خانے نے اہم رول ادا کیا کیونکہ اس دن سکھوں کے پاس ایک بھی توپ نہ تھی سکھوں اور کرنل برن کے درمیان معمولی جھڑپ ہوئی اس جھڑپ میں ب رہی ا کے شیرسنگھ کی ایک ٹانگ توپ کا گولہ لگنے سے اُڑ گئی تھی اس کا چچازاد بھائی رائے سنگھ اس نیم مردہ شیرسنگھ کو اٹھاکر لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا مگر شیرسنگھ جانبرنہ ہو سکا اور مرگیا اس جنگ میں منگلور کے قاضی محمد علی اور شیخ کلن نے بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی امداد کی تھی برطانوی حکومت نے ان کی خدمات کے صلہ میں لنڈھورہ کے راجا رام دیال سنگھ کی جاگیری زمین میں سے کچھ زمین قاضی محمد علی اور شیخ کلن کو معافی تمام بخشش کردی تھی۔ اگر چہ سکھ فوجیں قدم قدم پر شکست کھاکر بھاگتی رہیں مگر پھر بھی یہ تھانہ بھون نانوتہ اور رام پور قصبات اور ان کے اِرد گرد کے دیہات میں لوٹ مارکرتی رہیں۔ 19؍دسمبر 1804ء کو نہایت پھرتی سے کرنل برن نے ان سکھوں کا پیچھا کیا اور تھانہ بھون ایک طرف چھوڑتے ہوئے پرگنہ گنگوہ کے گاؤں ٹھولو کے مقام پر ان بھاگتے ہوئے سکھوں پر اچانک حملہ کر دیا۔ سکھ اس کے حملے کا مقابلہ نہ کرکے چلکانہ کے قریب سے دمجھیڑہ اور بوڑیہ کے گھاٹ سے جمنا دریا کو عبور کر گئے کرنل برن کو دہلی سے جمناپار نہ جانے کا حکم موصول ہوا اور کرنل برن جمنا کنارے سے واپس سہارنپور لوٹ آیا جنوری 1805ئ؁ میں سکھوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں جمنا کو عبور کرکے سہارنپور آتی رہیں مگر ان سکھ ٹکڑیوں کو گاؤں کے لوگ ہی مار بھگاتے رہے۔