"پارسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 23: سطر 23:
سکھر میں پارسیوں کا ٹیمپل کئی سالوں سے ویران پڑا ہے۔ عمارت کے ماتھے پر ٹیمپل کی تعمیر کا سال انیس سو تئیس اور ماما پارسی لکھا ہوا ہے۔
سکھر میں پارسیوں کا ٹیمپل کئی سالوں سے ویران پڑا ہے۔ عمارت کے ماتھے پر ٹیمپل کی تعمیر کا سال انیس سو تئیس اور ماما پارسی لکھا ہوا ہے۔


کراچی کی پارسی کمیونٹی کے اہم رکن ادیشن مارکر نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ما ما پارسی کے نام سے کراچی میں پارسیوں کے سکول ہوا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر میں اس کی کسی برانچ کا انہیں علم نہیں۔
کراچی کی پارسی کمیونٹی کے اہم رکن ادیشن مارکر نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ما ما پارسی کے نام سے کراچی میں پارسیوں کے سکول ہوا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر میں اس کی کسی برانچ کا انہیں علم نہیں۔ ہمارے والدعمارت کے چوکیدار ہوا کرتے تھے مگر ہم نے اب پارسیوں سے تنخواہ لینی چھوڑ دی ہے: خورشید
ادیشن مارکر کے مطابق پارسی کمیونٹی کے تاجر زمانہ قدیم سے سکھر اور دوسرے شہروں میں آباد تھے مگر پچاس کی دہائی کے بعد وہ نقل مکانی کرکے بیرون ملک چلے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر کے سابق پارسیوں کی اولاد اب کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور کئی دیگر ممالک میں مقیم ہے۔ سکھر کی ماما پارسی عمارت شہر کے قلب میں واقع پرانی گوشت مارکیٹ کے قریب وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی۔اس کی چاردیواری کے اندر ایک ٹیمپل ہے، جسے مقامی لوگ انگاری کہتے ہیں۔ اس پر کئی سالوں سے تالا لگا ہوا ہے۔ عمارت کے موجودہ رہائشی خورشید بتاتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ٹیمپل کے اندر آگ جلا کر عبادت کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ پارسی سال میں دو یا ایک مرتبہ چند گھنٹوں کے لیے آتے ضرور ہیں مگر ہمیں ٹیمپل کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔ سکھر میں اکثریتی مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ ساتھ اقلیتی ہندو کمیونٹی کے چھوٹے بڑے دس کے قریب مندر ہیں جبکہ عیسائی کمیونٹی کے بھی دو بڑے قدیمی چرچ ہیں جن کو شام ہوتے ہی روشن کیا جاتا ہے مگر پارسیوں کی شہر میں واحد عبادتگاہ ہے جو ہر شام اندھیرے میں کاٹتی ہے۔ کوئٹہ سے منسلک پارسیوں کی ایک انجمن کے زیر انتظام سکھر کی یہ عبادگاہ اب منہدم ہونے کے قریب پہنچی ہے۔ مقامی رہائشی خورشید کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں کے دوران عمارت کی چودیواری گرگئی جسے ان لوگوں نے اپنے خرچے سے مرمت کروایا۔ خورشید کا کہنا تھا کہ ’ہم سات کے قریب خاندان پشتوں سے رہائش پذیر ہیں۔اب اگر مرمت کے کام پر کوئی خرچہ لگتا ہے تو ہم اس لیے خوشی سے کر دیتے ہیں کیونکہ پارسیوں نے کبھی ہم سے کرایہ وصول نہیں کیا۔‘ خورشید نے واضع کیا کہ عمارت پر ان کا کوئی قبضہ نہیں ہے اور وہ صرف نگہداشت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پارسیوں کے مندر کی چاردیواری کے اندر ایک اور عمارت دھرم شالہ کی ہے جس کی دیواروں پر خان بہادر مارکر پارسی دھرم شالہ لکھا ہوا ہے۔عمارت کے حالیہ مکینوں کا کہنا ہے ان کے بڑے بزرگوں نے ان کو بتایا تھا کہ خان بہادر مارکر پارسی کی بیوہ یہ دھرم شالہ چلاتی تھیں۔ کوئٹہ میں مقیم سائرس پارسی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں بتایا کہ وہ کبھی سکھر نہیں گئے البتہ ان کی کمیونٹی کے دوسرے افراد کا آنا جانا رہتا ہے۔ سندہ کےمقبول شاعر اور سکھر کی قدیمی عمارتوں کو فوٹوز میں محفوظ رکھنے کے شائق ایاز گل نے بی بی سی کو بتایا کہ پارسی سکھر کے ماضی قریب کا حصہ رہے ہیں اوران کے یادگار اور قدیمی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ پارسی کمیونٹی اب سکھر میں رہائش پذیر نہیں مگر ان کے ورثے کو کسی ایک دو افراد کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ان کو محفوظ بنایا جائے تا کہ آنے والے کل میں سکھر کا شاندار ماضی زندہ رہ سکے۔‘پاکستان میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بہت ہی کم تعداد میں رہنے والی اقلیتوں میں شمار ہوتی ہے۔ کراچی کے ادیشن مارکر کے اندازے کے پاکستان میں پارسیوں کی کل تعداد دو ہزار کے قریب ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں پارسی پاکستان کے صرف تین بڑے شہروں کراچی،کوئٹہ اور لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔
ہمارے والدعمارت کے چوکیدار ہوا کرتے تھے مگر ہم نے اب پارسیوں سے تنخواہ لینی چھوڑ دی ہے: خورشید

ادیشن مارکر کے مطابق پارسی کمیونٹی کے تاجر زمانہ قدیم سے سکھر اور دوسرے شہروں میں آباد تھے مگر پچاس کی دہائی کے بعد وہ نقل مکانی کرکے بیرون ملک چلے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر کے سابق پارسیوں کی اولاد اب کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور کئی دیگر ممالک میں مقیم ہے۔

سکھر کی ماما پارسی عمارت شہر کے قلب میں واقع پرانی گوشت مارکیٹ کے قریب وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی۔اس کی چاردیواری کے اندر ایک ٹیمپل ہے، جسے مقامی لوگ انگاری کہتے ہیں۔ اس پر کئی سالوں سے تالا لگا ہوا ہے۔

عمارت کے موجودہ رہائشی خورشید بتاتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ٹیمپل کے اندر آگ جلا کر عبادت کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ پارسی سال میں دو یا ایک مرتبہ چند گھنٹوں کے لیے آتے ضرور ہیں مگر ہمیں ٹیمپل کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔
پارسیوں کے مندر کی چاردیواری کے اندر ایک اور عمارت دھرم شالہ کی ہے جس کی دیواروں پر خان بہادر مارکر پارسی دھرم شالہ لکھا ہوا ہے۔ خان بہادر مارکر پارسی کی بیوہ یہ دھرم شالہ چلاتی تھیں

سکھر میں اکثریتی مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ ساتھ اقلیتی ہندو کمیونٹی کے چھوٹے بڑے دس کے قریب مندر ہیں جبکہ عیسائی کمیونٹی کے بھی دو بڑے قدیمی چرچ ہیں جن کو شام ہوتے ہی روشن کیا جاتا ہے مگر پارسیوں کی شہر میں واحد عبادتگاہ ہے جو ہر شام اندھیرے میں کاٹتی ہے۔

کوئٹہ سے منسلک پارسیوں کی ایک انجمن کے زیر انتظام سکھر کی یہ عبادگاہ اب منہدم ہونے کے قریب پہنچی ہے۔

مقامی رہائشی خورشید کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں کے دوران عمارت کی چودیواری گرگئی جسے ان لوگوں نے اپنے خرچے سے مرمت کروایا۔

خورشید کا کہنا تھا کہ ’ہم سات کے قریب خاندان پشتوں سے رہائش پذیر ہیں۔اب اگر مرمت کے کام پر کوئی خرچہ لگتا ہے تو ہم اس لیے خوشی سے کر دیتے ہیں کیونکہ پارسیوں نے کبھی ہم سے کرایہ وصول نہیں کیا۔‘

خورشید نے واضع کیا کہ عمارت پر ان کا کوئی قبضہ نہیں ہے اور وہ صرف نگہداشت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔

پارسیوں کے مندر کی چاردیواری کے اندر ایک اور عمارت دھرم شالہ کی ہے جس کی دیواروں پر خان بہادر مارکر پارسی دھرم شالہ لکھا ہوا ہے۔عمارت کے حالیہ مکینوں کا کہنا ہے ان کے بڑے بزرگوں نے ان کو بتایا تھا کہ خان بہادر مارکر پارسی کی بیوہ یہ دھرم شالہ چلاتی تھیں۔

کوئٹہ میں مقیم سائرس پارسی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں بتایا کہ وہ کبھی سکھر نہیں گئے البتہ ان کی کمیونٹی کے دوسرے افراد کا آنا جانا رہتا ہے۔

سندہ کےمقبول شاعر اور سکھر کی قدیمی عمارتوں کو فوٹوز میں محفوظ رکھنے کے شائق ایاز گل نے بی بی سی کو بتایا کہ پارسی سکھر کے ماضی قریب کا حصہ رہے ہیں اوران کے یادگار اور قدیمی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ پارسی کمیونٹی اب سکھر میں رہائش پذیر نہیں مگر ان کے ورثے کو کسی ایک دو افراد کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ان کو محفوظ بنایا جائے تا کہ آنے والے کل میں سکھر کا شاندار ماضی زندہ رہ سکے۔‘

پاکستان میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بہت ہی کم تعداد میں رہنے والی اقلیتوں میں شمار ہوتی ہے۔ کراچی کے ادیشن مارکر کے اندازے کے پاکستان میں پارسیوں کی کل تعداد دو ہزار کے قریب ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں پارسی پاکستان کے صرف تین بڑے شہروں کراچی،کوئٹہ اور لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔


**Kulke, Eckehard: ''The Parsees in India: a minority as agent of social change.'' München: Weltforum-Verlag (= Studien zur Entwicklung und Politik 3), ISBN 3-8039-00700-0
**Kulke, Eckehard: ''The Parsees in India: a minority as agent of social change.'' München: Weltforum-Verlag (= Studien zur Entwicklung und Politik 3), ISBN 3-8039-00700-0

نسخہ بمطابق 18:59، 18 مارچ 2013ء

مذہب زردشت ، زرتشت ۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے پیرو۔ عربوں نے ایران فتح کیا تو ان میں سے کچھ مسلمان بن گئے، کچھ نے جزیہ دینا قبول کیا اور باقی (آٹھویں،دسویں صدی عیسوی) ترک وطن کرکے ہندوستان آگئے۔

پارسی خاندان

ان کا دعوی ہے کہ ان کے مذہبی رہنما کے پاساوستا کا وہ قدیم نسخہ موجود ہے جو ان کے پیغمبر زردشت یا زرتشت پر نازل ہوا تھا۔پارسی اپنے مردوں کو جلانے یا دفنانے کے بجائے ایک کھلی عمارت میں رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے گدھ وغیرہ کھا جائیں۔ اس خاص عمارت کو دخمہ ’’منار خاموشی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دخمہ ایسے شہروں میں تعمیر کیا جاتا ہے جہاں پارسیوں کی معتدبہ تعداد آباد ہو، مثلا بمبئی ، کراچی۔ جہاں دخمہ نہیں ہوتا وہاں ان کے قبرستان ہوتے ہیں جن میں مردوں کو بہ امر مجبوری دفن کیا جاتا ہے، لاہور كا پارسی قبرستان۔

جسمانی طہارت اور کھلی فضا میں رہائش پارسیوں کے مذہبی فرائض میں داخل ہے۔ پاکیزگی کی مقدس علامت کے طور پر ، ان کے معابد اور مکانات میں ، ہر وقت آگ روشن رہتی ہے۔ خواہ وہ چراغ ہی ہو۔ ہندو ’’سناتن دھرم‘‘ اور یہودیوں کی طرح ، پارسی مذہب بھی غیر تبلیغی ہے۔ یہ لوگ نہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں اور نہ ان کے ہاں شادی کرتے ہیں۔ ان کڑی پابندیوں کے باعث ابھی تک دوسرے طاقتور مذاہب ’’اسلام ، ہندو مت ، عیسائیت‘‘ کے ثقافتی اثرات سے محفوظ ہیں۔ حصول علم ان کا جزوایمان ہے ۔ ہر پارسی معبد میں ایک اسکول ہوتا ہے۔ دنیا میں پارسیوں کی کل تعداد لاکھوں میں ہے اور اس میں بھی ان لوگوں میں شادی کے رجحان کے کم ہونےسے مزید کمی واقع ہورہی ہے۔

قريبی اکثریت بمبئ اوراس کے گردو نواح میں آباد ہے۔ یہ لوگ عموما تجارت پیشہ ہیں اور سماجی بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ بمبئی اور کراچی کے کئی سکول ہسپتال اور کتب خانے ان کے سرمائے سے چل رہے ہیں۔ ہندوستان کا پہلا فولاد کا کارخانہ جمشید ٹاٹا نے جمشید پور میں بنائی۔ ہندوستان میں جدیدسٹیج ڈرامے اور فلم سازی کے بانی بھی یہی ہیں۔

بھارت کی قدیم پارسی برادری کے بارے میں مشہور فوٹوگرافر سونی تارا پورے والا کی تصاویر کی نمائش ممبئی میں جاری ہے۔ ’ممبئی کی شام‘ نامی یہ تصویر 1982 میں لی گئی اور زیرِ نمائش 108 تصاویر میں سے ایک ہے

پارسی زرتشت عقیدے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے۔مس تارپورے والا 36 برس سے پارسی برادری کی تصاویر اتار رہی ہیں

روایات کا تحفظ معدوم ہوتی پارسی برادری کے لیے نہایت اہم ہے۔ آج دنیا میں ایک اندازے کے مطابق صرف ایک لاکھ چالیس ہزار پارسی باقی رہ گئے ہیں جن میں سے بیشتر بھارت میں آباد ہیں۔

کم تعداد میں ہونے کے باوجود پارسی بھارتی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹاٹا خاندان سمیت ملک کے اہم صنعت کار پارسی ہیں۔

پہاڑی چاڑھیوں والے سندہ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کی سینٹ سیویئر چرچ والی چاڑھی اترتے ہی ایک قدیمی عمارت نمودار ہوتی ہے جس کوشہر کی بلڈر مافیا کے علاوہ ہر ایک شہری نے بھلا دیا ہے۔

یہ قدیمی عمارت پارسیوں کی عبادتگاہ اور دھرم شالا ہوا کرتی تھی۔مگر اب سکھر اور اندرون سندہ میں کوئی ایک پارسی بھی نہیں جو سکھر کے اس اداس مندر کی انگاری میں آگ جلا سکے۔

شہر کی اس قدیم اور قریبا لاوارث عمارت کے باہر لگے ہوئے چائے کے کھوکھے پر چائے پیتے ہوئے عمارت کے موجودہ رہائشی پینتالیس سالہ خورشید احمد نے بی بی سی کو بتایا ان کے والد محمد بشیر عمارت کے چوکیدار ہوا کرتے تھے مگر انہوں نے اب پارسیوں سے تنخواہ لینی چھوڑ دی ہے۔ خورشید احمد کے والد محمد بشیر کی اولاد کے سات خاندان اب پارسیوں کی عبادتگاہ کی چودیواری کے اندر رہائش پذیر ہیں۔

سکھر میں پارسیوں کا ٹیمپل کئی سالوں سے ویران پڑا ہے۔ عمارت کے ماتھے پر ٹیمپل کی تعمیر کا سال انیس سو تئیس اور ماما پارسی لکھا ہوا ہے۔

کراچی کی پارسی کمیونٹی کے اہم رکن ادیشن مارکر نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ ما ما پارسی کے نام سے کراچی میں پارسیوں کے سکول ہوا کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر میں اس کی کسی برانچ کا انہیں علم نہیں۔ ہمارے والدعمارت کے چوکیدار ہوا کرتے تھے مگر ہم نے اب پارسیوں سے تنخواہ لینی چھوڑ دی ہے: خورشید ادیشن مارکر کے مطابق پارسی کمیونٹی کے تاجر زمانہ قدیم سے سکھر اور دوسرے شہروں میں آباد تھے مگر پچاس کی دہائی کے بعد وہ نقل مکانی کرکے بیرون ملک چلے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ سکھر کے سابق پارسیوں کی اولاد اب کینیڈا، سوئٹزرلینڈ اور کئی دیگر ممالک میں مقیم ہے۔ سکھر کی ماما پارسی عمارت شہر کے قلب میں واقع پرانی گوشت مارکیٹ کے قریب وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی۔اس کی چاردیواری کے اندر ایک ٹیمپل ہے، جسے مقامی لوگ انگاری کہتے ہیں۔ اس پر کئی سالوں سے تالا لگا ہوا ہے۔ عمارت کے موجودہ رہائشی خورشید بتاتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ٹیمپل کے اندر آگ جلا کر عبادت کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ پارسی سال میں دو یا ایک مرتبہ چند گھنٹوں کے لیے آتے ضرور ہیں مگر ہمیں ٹیمپل کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔ سکھر میں اکثریتی مسلمانوں کی مساجد کے ساتھ ساتھ اقلیتی ہندو کمیونٹی کے چھوٹے بڑے دس کے قریب مندر ہیں جبکہ عیسائی کمیونٹی کے بھی دو بڑے قدیمی چرچ ہیں جن کو شام ہوتے ہی روشن کیا جاتا ہے مگر پارسیوں کی شہر میں واحد عبادتگاہ ہے جو ہر شام اندھیرے میں کاٹتی ہے۔ کوئٹہ سے منسلک پارسیوں کی ایک انجمن کے زیر انتظام سکھر کی یہ عبادگاہ اب منہدم ہونے کے قریب پہنچی ہے۔ مقامی رہائشی خورشید کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں کے دوران عمارت کی چودیواری گرگئی جسے ان لوگوں نے اپنے خرچے سے مرمت کروایا۔ خورشید کا کہنا تھا کہ ’ہم سات کے قریب خاندان پشتوں سے رہائش پذیر ہیں۔اب اگر مرمت کے کام پر کوئی خرچہ لگتا ہے تو ہم اس لیے خوشی سے کر دیتے ہیں کیونکہ پارسیوں نے کبھی ہم سے کرایہ وصول نہیں کیا۔‘ خورشید نے واضع کیا کہ عمارت پر ان کا کوئی قبضہ نہیں ہے اور وہ صرف نگہداشت کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پارسیوں کے مندر کی چاردیواری کے اندر ایک اور عمارت دھرم شالہ کی ہے جس کی دیواروں پر خان بہادر مارکر پارسی دھرم شالہ لکھا ہوا ہے۔عمارت کے حالیہ مکینوں کا کہنا ہے ان کے بڑے بزرگوں نے ان کو بتایا تھا کہ خان بہادر مارکر پارسی کی بیوہ یہ دھرم شالہ چلاتی تھیں۔ کوئٹہ میں مقیم سائرس پارسی سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں بتایا کہ وہ کبھی سکھر نہیں گئے البتہ ان کی کمیونٹی کے دوسرے افراد کا آنا جانا رہتا ہے۔ سندہ کےمقبول شاعر اور سکھر کی قدیمی عمارتوں کو فوٹوز میں محفوظ رکھنے کے شائق ایاز گل نے بی بی سی کو بتایا کہ پارسی سکھر کے ماضی قریب کا حصہ رہے ہیں اوران کے یادگار اور قدیمی عمارتوں کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’گو کہ پارسی کمیونٹی اب سکھر میں رہائش پذیر نہیں مگر ان کے ورثے کو کسی ایک دو افراد کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ان کو محفوظ بنایا جائے تا کہ آنے والے کل میں سکھر کا شاندار ماضی زندہ رہ سکے۔‘پاکستان میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بہت ہی کم تعداد میں رہنے والی اقلیتوں میں شمار ہوتی ہے۔ کراچی کے ادیشن مارکر کے اندازے کے پاکستان میں پارسیوں کی کل تعداد دو ہزار کے قریب ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں پارسی پاکستان کے صرف تین بڑے شہروں کراچی،کوئٹہ اور لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔

    • Kulke, Eckehard: The Parsees in India: a minority as agent of social change. München: Weltforum-Verlag (= Studien zur Entwicklung und Politik 3), ISBN 3-8039-00700-0
  • Ervad Sheriarji Dadabhai Bharucha: A Brief sketch of the Zoroastrian Religion and Customs
  • Dastur Khurshed S. Dabu: A Handbook on Information on Zoroastrianism
  • Dastur Khurshed S. Dabu: Zarathustra an his Teachings A Manual for Young Students
  • Jivanji Jamshedji Modi: The Religious System of the Parsis
  • R. P. Masani: The religion of the good life Zoroastrianism
  • P. P. Balsara: Highlights of Parsi History
  • Maneckji Nusservanji Dhalla: History of Zoroastrianism; dritte Auflage 1994, 525 p, K. R. Cama, Oriental Institute, Bombay
  • Dr. Ervad Dr. Ramiyar Parvez Karanjia: Zoroastrian Religion & Ancient Iranian Art
  • Adil F. Rangoonwalla: Five Niyaeshes, 2004, 341 p.
  • Aspandyar Sohrab Gotla: Guide to Zarthostrian Historical Places in Iran
  • J. C. Tavadia: The Zoroastrian Religion in the Avesta, 1999
  • S. J. Bulsara: The Laws of the Ancient Persians as found in the "Matikan E Hazar Datastan" or "The Digest of a Thousand Points of Law", 1999
  • M. N. Dhalla: Zoroastrian Civilization 2000
  • Marazban J. Giara: Global Directory of Zoroastrian Fire Temples, 2. Auflage, 2002, 240 p, 1
  • D. F. Karaka: History of The Parsis including their manners, customs, religion and present position, 350 p, illus.
  • Piloo Nanavatty: The Gathas of Zarathushtra, 1999, 73 p, (illus.)
  • Roshan Rivetna: The Legacy of Zarathushtra, 96 p, (illus.)
  • Dr. Sir Jivanji J. Modi: The Religious Ceremonies and Customs of The Parsees, 550 Seiten
  • Mani Kamerkar, Soonu Dhunjisha: From the Iranian Plateau to the Shores of Gujarat, 2002, 220 p
  • I.J.S. Taraporewala: The Religion of Zarathushtra, 357 p
  • Jivanji Jamshedji Modi: A Few Events in The Early History of the Parsis and Their Dates, 2004, 114 p
  • Dr. Irach J. S.Taraporewala: Zoroastrian Daily Prayers, 250 p
  • Adil F.Rangoonwalla: Zoroastrian Etiquette, 2003, 56 p
  • Rustom C Chothia: Zoroastrian Religion Most Frequently Asked Questions, 2002, 44 p