منفعت علی بہرائچی
منفعت علی بہرائچی | |
---|---|
پیدائش | منفعت علی 04 رمضان المبارک 1334ھ بمطابق 05جولائی1916ء ریولیا ،ضلع بہرائچ صوبہ متحدہ برطانوی بھارت |
وفات | 1990-1991 |
مدفن | ریولیا ،ضلع بہرائچ اتر پردیش، ہندوستان |
تعلیم | عالم |
مادر علمی | جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ،دار العلوم دیوبند |
مؤثر شخصیات | حسین احمد مدنی،محفوظ الرحمن نامی |
مذہب | اسلام |
مولانا منفعت علی کی ولادت 4 رمضان المبارک 1334ھ بمطابق 05جولائی1916ء کوریولیا ،ضلع بہرائچ صوبہ متحدہ برطانوی بھارت میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کانام مدد علی تھا۔[1]
حالات
[ترمیم]آپ نے ابتدائی تعلیم مڈل اسکول قیصرگنج میں تعلیم حاصل کی، 1935ء میں جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ میں داخلہ لیا1937ء تک نور العلوم میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند برائے حصول تعلیم تشریف لے گیےـ پھر دوبارہ کسی عذر کی بنا پر1940ءمیں نور العلوم واپس تشریف لے آئے اور اس وقت جامعہ مسعودیہ نور العلوم کے مایہ ناز اساتذہ عظام سے بھر پور اکتساب فیض کیاـ آپ مظاہر العلوم سہارنپور بھی اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لیے تشریف لے گئے، اس کے بعد شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے بھی تعلیمی استفادہ کیا۔ وابستہ ہوئے۔ اور وقتاً فوقتاً دیوبند حضرت کی مجلس میں حاضری دیتے، بالخصوص رمضان المبارک کا آخری عشرہ حضرت مدنی کے ساتھ ہی گزارتے اور جب دیوبند تشریف لے جاتے تو اپنے شیخ ومرشد کے لیے حسب استطاعت تحفہ وغیرہ لے کر جاتے، مولانا مرحوم چونکہ گاؤں سے تعلق رکھتے تھے اس لیے حضرت مدنی کے لیے دیسی گھی بنواکر گھڑے میں لے کر ضرور جاتے تحصیل علم سے فراغت کے بعد جب اپنے علاقہ کی جانب توجہ فرمائی تو پورا کا پورا گاؤں بلکہ قرب و جوار میں بھی شرک و بدعت کا زور تھا، تعزیہ داری اور طرح طرح کے رسم و رواج کے دلدل میں دھنسا پڑا تھا، اس کو لے کر مولانا مرحوم بہت زیادہ فکر مند ہوئے؛ لہذا شرک و بدعات کے خاتمے اور غیر شرعی رسم و رواج کے روک تھام کے لیے بھر پور جدوجہد شروع کی اور اپنے علاقہ میں اولاً اپنے شیخ و مرشد کے نام کی جانب نسبت کرتے ہوئے ایک مکتب قائم کیا جو بعد میں مدرسہ اسلامیہ حسینیہ ریولیا کے نام سے مشہور ہوا۔ اور گاؤں گاؤں جاکر لوگوں کے درمیان وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کیا اور وہاں سے معصوم بچوں کو لاکر دِینی تعلیم دینی شروع کی۔تحصیل علم سے فراغت کے بعد آپ کی دینی حمیت و خدمات اور جہد مسلسل کو دیکھتے ہوئے اکابر نور العلوم نے آپ کو شوری کا رکن منتخب کیا اور تا دم حیات آپ نور العلوم کی مؤقر مجلس شوری کے رکن رہے۔[2]
وفات
[ترمیم]مولانا منفعت علی بہرائچ کا انتقال 1990؍1991ء کے درمیان میں آبائی وطن ریولیا ضلع بہرائچ میں اور آپ کی تدفین بھی مقامی قبرستان میں ہوئی تھی۔ [3]
بیرونی روابط
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- تذکرۂ مشاہیر بہرائچ