محمود اول

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمود اول
 

معلومات شخصیت
پیدائش 2 اگست 1696ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادرنہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 13 دسمبر 1754ء (58 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قسطنطنیہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن استنبول  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد مصطفی ثانی  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ صالحہ سلطان  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان عثمانی خاندان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
20 ستمبر 1730  – 13 دسمبر 1754 
احمد ثالث 
عثمان سوم 
عملی زندگی
پیشہ حاکم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سلطان محمود اول (پیدائش: 2 اگست 1696ء – وفات: 13 دسمبر 1754ء ) سلطنت عثمانیہ کے چوبیسویں حکمران تھے جنھوں نے 1730ء سے 1754ء تک حکمرانی کی۔

سوانح[ترمیم]

پیدائش[ترمیم]

سلطان محمود اول کی پیدائش 2 اگست 1696ء کو ادرنہ محل میں ہوئی۔سلطان محمود کی والدہ صالحہ سلطان اور والد سلطان مصطفیٰ ثانی تھے۔

عہد حکومت[ترمیم]

انکشاریہ کے ہنگاموں کے سبب جو افراتفری پھیلی، اُس کے بعد جب حالات سازگار ہوئے تو سلطان محمود اول نے فوجی معاملات کے لیے فرانس سے اپنے لیے ایک مشیر منگوایا جس کا نام کسندر کاؤنٹ ڈی بونفال تھا۔ سلطان نے اُس کی یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ توپ خانہ کی ایک یونٹ کو نئے سرے سے تشکیل دے اور فوج کو فرانسیسی اور آسٹریا کے فوجی خطوط پر نئے سرے سے منظم کرے تاکہ عسکری ملازمت ایک دفعہ پھر حقیقی پیشہ بن جائے۔ اُس کے لیے بھاری تنخواہوں اور مالی اِمداد کی ضرورت تھی۔سلطان نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ انکشاریہ کو چھوٹی چھوٹی یونٹوں میں تقسیم کر دیا جائے جن کی قیادت ایک جوان افسر کے ہاتھ میں ہو۔ لیکن انکشاریہ نے اِس پروگرام کے نفاذ سے اِختلاف کیا اور اِس پر انھوں نے عمل درآمد روک دیا جس کی وجہ سے بونفال کی ساری توجہ توپ خانہ پر مرکوز ہوکر رہ گئی۔ اُس نے توپ سازی کے کارخانوں، بارود، بندوقوں اور بارودی سرنگوں اور توپوں کے لیے چھکڑوں کی تیاری کی طرف خاص توجہ دی۔ ایک اسکول کھولا جس میں عسکری انجنئیرنگ کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن انکشاریہ نے اِن تمام سکیموں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے اِن کو ناقابل عمل بنا دیا۔ اِن تمام چیزوں کے علاوہ کاغذ سازی کے لیے بھی ایک فیکٹری لگائی گئی، لیکن بالآخر یہ تمام اصلاحات تباہ ہوکر رہ گئیں۔[1][2]

ترک صفوی تعلقات[ترمیم]

سلطنت عثمانیہ صفوی شیعوں سے جنگ کرنے کی طرف متوجہ ہوئی اور طہماسپ دؤمپر غلبہ حاصل کر لیا جس نے 1731ء میں صلح کا مطالبہ کیا اور یوں عثمانی تبریز، ہمدان اور لورستان سے دستبردار ہو گئے لیکن خراسان کے حاکم نادر شاہ نے اِس معاہدہ کو قبول نہ کیا۔ نادر شاہ اصفہان کی طرف چلا گیا اور شاہ طہماسپ دؤم کو تخت سے معزول کر دیا اور اُس کی جگہ شاہ عباس سوم کو حاکم مقرر کرکے اُس پر مجلس وصایہ قائم کی۔[3] اِس کے بعد عثمانیوں سے جنگ کی خاطر آگے بڑھا۔ فروری 1733ء سے جولائی 1733ء تک جنگ جاری رہی جس میں عثمانیوں کو شکست ہوئی۔ نادر شاہ نے آگے بڑھتے ہوئے بغداد کا محاصرہ کر لیا۔ عثمانی حکومت نے صلح کی درخواست کی۔ 1736ء میں تفلیس نامی شہر میں صلح کا معاہدہ ہوا جہاں نادر شاہ نے ایران پر اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کیا اور اِس بات پر اتفاق ہوا کہ جتنے علاقے عثمانیوں نے ایرانی شیعوں سے لیے ہیں‘ وہ انھیں واپس کردیے جائیں گے۔[4][5]

یورپی ممالک سے جنگ[ترمیم]

10 اکتوبر 1733ء کو روس اور آسٹریا نے پولینڈ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا اور روس نے پولینڈ پر قبضہ کر لیا۔فرانس نے دولت عثمانیہ سے ایک معاہدہ کر لیا تاکہ پولینڈ کو آسٹریا اور روس یعنی ہردو ملکوں سے آزادی دلوائی جائے۔ آسٹریا نے فرانس کو ورغلایا، جس کے نتیجے میں 18 نومبر 1738ء کو ویانا کا معاہدہ عمل میں آیا۔ دوسری طرف اِن دونوں کے درمیان اِس بات پر اتفاق ہوا کہ دولت عثمانیہ کے ساتھ جنگ کی جائے۔ روس نے دولت عثمانیہ کے خلاف جنگ چھیڑدی۔ عثمانی فوجوں نے روس کو صوبہ بغدان کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔ اِسی طرح بوسنیا، سرب اور افلاق کی طرف آسٹریا کو بڑھنے سے روک دیا اور سربوں اور آسٹریا پر فتح حاصل کرلی۔ نتیجتاً آسٹریا نے جنگ سے دستبرداری کا اعلان کردیااور فرانس کی وساطت سے صلح کا مطالبہ کر دیا۔ بالآخر 1739ء میں بلغراد میں صلح کے معاہدہ پر دستخط ہو گئے۔ آسڑیا بلغراد کے شہر اور سربیا و افلاق کے علاقوں سے دستبردار ہو گیا اور روس نے عہد کیا کہ وہ بحر اسود میں کوئی جہاز نہیں بھیجے گا۔ روس نے معاہدہ کے مطابق آزوف کی بندرگاہ پر جتنے بھی قلعے تعمیر کیے تھے‘ وہ گرا دیے۔[6][7]

وفات[ترمیم]

سلطان محمود کی وفات 13 دسمبر 1754ء کو توپ قاپی محل میں ہوئی۔ بوقت وفات سلطان کی عمر 58 سال تھی۔

کتابیات[ترمیم]

  • احمد عبد الرحيم مصطفىٰ: في اصول تاریخ العثماني، قاہرہ، مصر، 1407ھ/1986ء۔
  • ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی: سلطنت عثمانیہ، ترکوں کی مفصل سیاسی تمدنی اور تہذیبی تاریخ، مترجم از: علامہ محمد ظفر اقبال کلیار، ضیاء القرآن پبلیکیشنز، لاہور، اگست 2008ء
  • محمود شاکر: التاریخ الاسلامي ، مطبوعہ المکتب الاسلامي، بیروت، لبنان، 1421ھ / 2000ء۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. احمد عبد الرحيم مصطفىٰ: في اصول تاریخ العثماني،  صفحہ 162-163۔
  2. ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی: سلطنت عثمانیہ،  صفحہ 365۔
  3. ڈاکٹر محمد علی علی الصلابی نے اپنی تصنیف ’’سلطنت عثمانیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ نادر شاہ نے شاہ طہماسپ دؤم کو معزول کرنے کے بعد اپنے بیٹے کو حاکم بنایا ، جبکہ یہ بات تاریخی طور پر غلط ہے کیونکہ شاہ طہماسپ دؤم کی معزولی کے بعد شاہ عباس سوم کو صفوی سلطنت کا حکمران مقرر کیاتھا جو شاہ طہماسپ دؤم کا بیٹا تھا نہ کہ نادر شاہ کا۔
  4. ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی: سلطنت عثمانیہ،  صفحہ366۔
  5. محمود شاکر: التاریخ الاسلامی، صفحہ 110-112۔
  6. اسماعیل سرہنک: تاریخ دولۃ العثمانیہ،  صفحہ 208-212۔
  7. ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی: سلطنت عثمانیہ،  صفحہ366۔
محمود اول
پیدائش: 2 اگست 1696 وفات: 13 دسمبر 1754[عمر 58]
شاہی القاب
ماقبل  سلطان سلطنت عثمانیہ
20 ستمبر 1730 – 13 دسمبر 1754
مابعد 
مناصب سنت
ماقبل  خلیفہ
20 ستمبر 1730 – 13 دسمبر 1754
مابعد