مغل فن مصوری
مغل فن مصوری ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے عہد میں اپنے منفرد اور انوکھی وضع کا ایک فن ہے جسے مغل حکمران اپنے ساتھ وسط ایشیاء سے لائے۔ دراصل اِس فن کا مرکز ایران تھا۔ اولاً مغلوں کا فن مصوری خالصتاً ایرانی تھا تاہم بعد میں اِس میں ہندوستانی فن مصوری کی آمیزش سے یہ ایک نیا انداز اِختیار کرگیا۔ ایرانی اور ہندوستانی فن مصوری کے امتزاج کو مغل فن مصوری کہا جاتا ہے۔
تاریخ
[ترمیم]مغل فن مصوری ہندوستانی اور ایرانی فن ہائے مصوری کا امتزاج ہے۔مؤرخ شیخ محمد اکرام (متوفی 1973ء) کی مغل فن مصوری کے متعلق یہ رائے ہے کہ:
”مصوری میں 1400ء کے لگ بھگ تیمور کی فتوحات کے بعد ایک نیا باب شروع ہوا۔ اُس کا بیٹا شاہ رخ اور پوتا حسین بایقرا مشہور مصور خلیل مرزا اور کمال الدین بہزاد کے سرپرست تھے۔ یہ دونوں میناتوری مصوری میں عظیم ترین نام ہیں۔ نفاست سے بنی ہوئی شبیہ، رویاتی، سجاوٹی، قدرتی مناظر، پہاڑیاں، بلند اُفق، تناظر کا روایتی اِظہار، یہ چند خصوصیات اِن مصوروں کی اِمتیازی شان تھیں۔“[1]
ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر تارا چند کے مطابق:
”جس زمانے میں بابر نے ہندوستان فتح کیا، بہزاد کا ستارۂ اِقبال معراجِ کمال پر تھا۔ اُس کا انداز، معیارِ کمال تھا۔ ناقدین فن، بابر اور اُس کے مصاحبین اور اِس کے بعد جب ہمایوں جلاوطنی کے دِن گزار کر ایران سے ہندوستان آیا تو چغتائی شرفاء نے بھی ہندوستانی نقاشوں کے سامنے بہزاد کو اُستاد کے طور پر پیش کیا کہ اُس کے نقوشِ قدم پر ہندوستانی نقاش چلیں اور اُس کی طرزِ مصوری کی تقلید کریں۔ چنانچہ بہزاد اور اُسی کا مکتب ہندوستانی مصوروں کے لیے ایک مثال بن گیا اور اِس طرح تیموری مکتبِ خیال کے عناصر نے اجنتا کی روایات میں پیوند لگایا۔“[2]
خاندانِ مغلیہ کے نہایت ہی دلیر اور بہادر بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کو اِس وجہ سے خاص شہرت حاصل ہے کہ وہ ہر شے کا گہری نظر سے مشاہدہ کرتا تھا اور فطرت کے حسن و جمال میں اِنتہائی دِلچسپی لیا کرتا تھا۔ تزک بابری میں جو تصاویر ملتی ہیں، اُن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مصوروں کی بڑی حوصلہ افزائی کیا کرتا تھا۔ پروفیسر این این لا کے مطابق:
”بابر کو مصوری سے دلچسپی تھی۔ وہ اپنے آبا و اجداد (تیموریہ) کے کتب خانے سے جتنی عمدہ کتابیں لا سکتا تھا، اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ اِن میں سے بعض کتابیں نادر شاہ دہلی پر فتح پانے کے بعد واپس ایران لے گیا۔ مذکورہ کتابوں کے قلمی نسخوں کا ہندوستان کے فن مصوری پر بہت زیادہ اثر پڑا تھا۔“[3]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ شیخ محمد اکرام: پاکستان کا ثقافتی ورثہ (انگریزی)، ترجمہ اُردو افتخار احمد شروانی، صفحہ 92، مطبوعہ لاہور، مارچ 2001ء
- ↑ ڈاکٹر تارا چند: تمدنِ ہند پر اسلامی اثرات، صفحہ 499۔ مطبوعہ لاہور، 2002ء
- ↑ پروفیسر این این لا: عہدِ اِسلامی میں تعلیمی ترقی (انگریزی)، اُردو ترجمہ اخلاص حسین زبیری، صفحہ 141، مطبوعہ اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ، کراچی، 1965ء