قلعہ مئو مبارک
قسم | قلعہ |
---|---|
متناسقات | 28°31′53″N 70°21′45″E / 28.531337°N 70.362479°E |
تعمیر | قبل مسیح |
قلعہ مئو مبارک جس کی باقیات آج بھی رحیم یار خان شہر سے 10 کلومیٹر شمال میں موجود ہیں۔قلعہ مئو مبارک ان 6 قلعوں میں سے ایک ہے جو ’’رائے ساہرس ‘‘ نے 498 سے 632 کے درمیان بنائے۔ بعض روایات کے مطابق یہ قلعہ 5000 سال قدیم ہے۔ ساہرس کے بنائے تمام قلعوں میں یہ وہ واحد قلعہ ہے جو تاریخ سے لڑ کر اپنا وجود قائم رکھنے میں کام یاب رہا ہے۔ تاریخ کی کتابیں اس قلعے کی مستند معلومات کے حوالے سے خاموش ہیں۔ اس قلعے کے بارے میں جو معلومات آج ہم تک پہنچی ہیں وہ یہاں کے باسیوں کے ذریعے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہیں۔آم کے گھنے اور تاحدِ نگاہ پھیلے باغات کے درمیان ایستادہ یہ قلعہ تقریباً 549 میٹر کی فصیل پر محیط تھا جس کے 20 مینار اور برج تھے۔ قلعے کے وسیع و عریض ڈھانچے کو مٹی سے بھرا گیا تھا جب کہ پُختہ اور موٹی اینٹوں سے بنی اس کی دیواریں انتہائی مضبوط اور چوڑی تھیں۔ آج بھی کہیں کہیں قلعے کی فصیل اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔ اس قلعے کے متعلق مقامی افراد میں بہت سی کہانیاں اور روایتیں مشہور ہیں۔ یہاں موجود ایک بڑے اور پُراسرار پتھر کے بارے میں یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پتھر جنات کا وزن کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ اس کا وزن 5 ٹن ہوا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب اس کا وزن 1 ٹن رہ گیا ہے۔ اس پر مختلف نشانات بھی ہیں۔یہ قلعہ ہماری شان دار ثقافت کا اہم حِصہ ہے جو آج بھی کھنڈر کی شکل میں حکم رانوں کی نظرِ کرم کا منتظر ہے۔ رحیم یارخان سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر مؤ مبارک کا قدیم قلعہ موجود ہے۔ شمال مغرب میں اب بھی کئی جگہ پر فصیل کے حصے نمایا ں نظر آتے ہیں اور پچاس ساٹھ فٹ مٹی کے ڈھیر کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔یہ قلعہ راجا ساہنس نے اپنی ماں کی رہائش کے لیے بنوایا تھا۔اس عہد کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہم عصر خیال کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ماں کے نام پر اس جگہ کا نام ماؤ رکھا تھا۔ کبھی قلعہ کے بیس برج تھے اور چار دمدمے تھے،فصیل پختہ اور مضبوط تھی۔ مدتوں بعد اسہی خاندان کے ایک راجا کیلاش نے اس کو مرمت کرایا تھا۔سلطان محمود غزنوی نے اپنے حملوں کے دوران اس قلعہ کو فتح کیااور اس کو مرمت کرایا تھا۔ 1569ء میں سلطان حسین ارغون نے پھر اس قلعہ کو فتح کر لیا۔چھٹی صدی ہجری میں حضرت شیخ حمید الدین حاکم ؒ جو حضرت شاہ رکن عالم ؒ کے خلیفہ خاص تھے۔ اس جگہ کو اپنی رہائش کے لیے منتخب کر لیا اور یہاں کے ہزاروں خاندانوں کو مسلمان کیا۔انتقال کے بعد آپ کے جسد خاکی کو یہیں سپرد کر دیا گیا۔ ۔[1]
حوالہ جات
[ترمیم]