پیلاطس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پیلاطس
(لاطینی میں: Pontius Pilatus ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش دسمبر12 ق مء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبروزو   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت قدیم روم   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ زوجۂ پیلاطس   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
رومی گورنر   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
26  – 36 
در یہودیہ  
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  سرکاری   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان یونانی زبان ،  لاطینی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات

پیلاطُس 25ء سے 35ء تک یہودیہ کا حاکم تھا۔ اس کا نام سب مسیحی عقیدوں میں آتا ہے۔[2] 25ء میں تبیریس قیصر نے اسے یہودیہ کا پانچواں حاکم مقرر کیا۔ چونکہ رومی صدر عدالت نے اپنا پرانا فیصلہ کیا کہ یہودیہ کا حاکم اپنی بیوی لے جا نہیں سکتا، فیصلہ بدل دیا تھا اس لیے پیلاطس اپنے ساتھ اپنی بیوی بھی لے گیا۔[3] وہ اپنے علاقے کا پورا حاکم تھا اور اس کے تحت پانچ ہزار سے زائد رسالہ اور پیادہ فوج تھی جو قیصریہ کی چھاؤنی میں مقیم تھی۔ اس کی فوج کا کچھ حصہ انطونیہ کے برج (قلعہ) میں دیکھ بھال کے لیے متعین تھا۔ یہودیہ کے حاکم کے اختیار بڑے وسیع تھے۔ وہ موت اور زندگی کا فیصلہ کر سکتا تھا۔ وہ یہودی صدر عدالت کے فیصلے بدل سکتا تھا[4] اس لیے سب فیصلے توثیق کے لیے اُس کے سامنے پیش کیے جاتے تھے۔ سردار کاہن کا تقرر اور ہیکل کے نظم و نسق میں بھی اس کا ہاتھ تھا۔ سردار کاہن کا خاص لباس صرف اُسی کی حفاظت میں رکھا جاتا اور صرف عیدوں پر نکالا جاتا تھا۔ عیدوں کے ایام میں حاکم خود بھی یروشلم میں قیام کیا کرتا تھا۔ غیر مسیحی رومی مورخ پیلاطس کا ذکر یسوع مسیح کی سزائے موت کے سلسلے میں کرتے ہیں۔[5] یہودی مورخ یوسیفس اور یہودی فلسفی فیلو پیلاطس کی ایک بھیانک تصویر کھینچتے ہیں۔ اُن کے مطابق وہ ضدی، ظالم، سنگ دل اور لٹیرا حاکم تھا۔ وہ ضابطہِ عدالت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لوگوں کو سزا سنا دیتا تھا۔ یُوسفیس مختلف واقعات کے ذریعہ اُس کی اِن خرابیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ پیلاطُس سے پہلے رومی حاکم، یہودیوں کی دل آزاری کے خیال سے یروشلم میں قیصر کے جھنڈے نہیں لاتے تھے، کیونکہ اُن جھنڈوں پر قیصر کی شبیہ ہوتی تھی جس کے آگے سپاہی جھکتے تھے لیکن پیلاطس جب حاکم مقرر ہوا تو اُس نے خفیہ طور پر رات کو جھنڈے منگوا لیے اور جب یہودیوں نے متواتر 5 دن قیصریہ میں احتجاج کیا تو ان سب کو ایک کھیل کے میدان میں جمع کروایا اور اپنے سپاہیوں کو اُن پر پل پڑنے کا حکم دیا۔ اُس نے ہیکل کے خزانے سے رقم نکلوا کر پانی بہم پہنچانے کا منصوبہ بنوایا۔ اگرچہ یہ شہریوں کے مفاد میں تھا اس لیے یہودیوں کی ایک بِھیڑ اکٹھی ہو گئی۔ پیلاطس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ عام لباس میں لوگوں میں گُھل مِل جائیں۔ جب انھیں ایک اشارہ دیا گیا تو قتلِ عام شروع کر دیا۔[6] ان میں اکثر لوگ گلیلی تھے جو ہیرودیس بادشاہ کے رعایا تھے۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ اس سانحہ سے ہیرودیس اور پیلاطس کے درمیان میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔[7] اسی لیے پیلاطس نے موقع غنیمت جان کر یسوع پکڑوائے جانے کا فائدہ اُٹھایا اور اُسے ہیرودیس کے پاس بھیجا۔[8] یوں اُن دونوں کے درمیان میں پھر تعلقات اُستوار ہو گئے۔ پیلاطس نے 35ء میں سامریوں کے ایک مذہبی جلوس پر جو کوہ گرزیم پر اکٹھا ہو رہا تھا ہلّہ بولنے کا حکم دیا۔ بہت لوگوں کا خون بہایا گیا اور بیشتر کو قید کیا گیا۔ سامریوں نے مذہبی نے ایک رومی حاکمِ اعلیٰ کے سامنے شکایت کی جس نے پیلاطُس کو روم میں قیصر کے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا۔ اس کے بعد تاریخ میں اُس کے متعلق کوئی تصدیق شدہ بیان نہیں۔ ایک روایت کے مطابق اُس نے خودکشی کر لی تھی۔ دوسری روایت کے مطابق وہ مسیحی ہو گیا تھا۔[9]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://gw.geneanet.org/genitree_w?n=pilato&oc=0&p=poncio+pilato&type=fiche&i=274
  2. لوقا باب 3 آیت 1
  3. متی باب 27 آیت 19
  4. یوحنا باب 19 آیت 10
  5. تستُس (Tacitus) اطالوی مورخ کی تواریخ 15-44
  6. لوقا باب 13 آیت 1
  7. لوقا باب 23 آیت 16
  8. لوقا باب 23 آیت 6 تا 7
  9. قاموس الکتاب صفحہ 228