سلسلہ نقشبندیہ
مضامین بسلسلہ |
سلسلہ نقشبندیہ یا طریقتِ نقشبندیہ روحانیت کے مشہور سلاسل میں سے ہے، اس سلسلے کے پیروکار نقشبندی کہلاتے ہیں جو پاکستان، بھارت کشمیر کے علاوہ وسطِ ایشیا اور ترکی میں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ اس روحانی سلسلہ کے بانی شیخ بہاؤ الدین نقشبند ہیں جو بخارہ (ازبکستان) کے رہنے والے تھے۔
ابتدا
[ترمیم]نقشبندیہ سلسلے کا قیام سب سے پہلے ترکستان میں ہوا۔ یہ اپنی تعلیم محبت کے باعث ان کی اجتماعیت کا اہم جز بن گیا۔ خواجہ احمدیسوی (المتوفی1166ء)اس سلسلہ کے سرخیل ہیں۔ جنھیں لوگ خواجہ عطا کہتے تھے۔ ان کے بعد خواجہ عبد الخالق غجدوانی (المتوفیٰ 1179ء )کے ذریعہ اس سلسلے کے روحانی نظام کو اِستحکام ملا۔ ان کے بعد خواجہ بہا الدین نقشبند (1389ء-1318ء) کی ذات با برکات تھی جن کی وجہ سے اس سلسلے کو قُبولیتِ عام اور شہرت تام ملی۔ ان کی بے پناہ جدوجہد کی وجہ سے ہی آپ کے بعد اس سلسلہ کا نام سلسلۂ نقشبندیہ کے طور پر مشہور ہو گیا۔
ہندوستان میں آمد
[ترمیم]اکبر بادشاہ کے عہد میں خواجہ باقی باللہ نے نقشبندی سلسلے کو ہندوستان میں اِستحکام بخشا۔ اُن کے حلقۂ مرید ین میں سے ایک بڑی ہی نام ور شخصیت شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی ہیں۔ اس سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحریک تصوف میں مجدّد صاحب کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انھوں نے شریعت اور سنت کی اِتباع پر زور دے کر رسمی طور پر داخل ہو جانے والے غیر اِسلامی عناصر کو اسلا می فکر سے بالکل علاحدہ کر دیا۔ اور تحریک تصوف میں پھر سے نئی جان ڈال دی۔ اس سلسلے کے مشہور بزرگوں نے مثلاً : خواجہ محمد معصوم خواجہ سیف الدین، شاہ ولی اللہ، مرزا مظہر جان جاناں اور شاہ غلام علی دہلوی، خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری، ، میاں شیر محمد شرقپوری، سید محمد اسماعیل شاہ بخاری مرشد عالم پیر غلام حبیب نقشبندی مجددی دورِ حاضر میں حضرت جی پیر حافظ ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی ، حضرت جی پیر محمد نعیم اللہ فاروقی نقشبندی مجددی، [1]سید میر طیب علی شاہ بخاری، حضور گنج عنایت، خواجہ سید عبدالمالک شاہ خواجہ نور محمد فنا فی الرسول بابا نظام الدین اولیاء کیانوی وغیرہ نے سلسلے کی ترویج و اِشاعت میں بے حد کامیاب کوششیں کیں۔
سلاسل اور ان کے مشائخ کے اسماء
[ترمیم]∗چار بڑے سلاسل چل رہے ہیں۔ جو چشتیہ، نقشبندیہ، قادریہ اور سہروردیہ ہیں۔ سلسلہ چشتیہ کے سرخیل خواجہ معین الدین چشتی ہیں۔ ان کے آگے پھر دو شاخ ہیں چشتیہ صابریہ کے سرخیل صابر کلیری ہیں اور چشتیہ نظامیہ کے سرخیل خواجہ نظام الدین اولیاء ہیں، سلسلہ قادریہ کے سرخیل شیخ عبد القادر جیلانی، سلسلہ سہروردیہ کے شیخ شہاب الدین سہروردی اور سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ بہاؤ الدین نقشبندی ہیں۔ نقشبندیہ کی بہت سی شاخیں ہیں، اسی طرح آج کل سلسلہ سیفیہ بھی اسی کی ایک شاخ ہے۔ جس کے بانی آخوندزادہ سیف الرحمن مبارک لاہوری ہیں۔شیخ خالد کردی سے سلسلہ خالدیہ بنا اسی طرح سلسہ حقانیہ یورپ میں مشہور و معروف ہے یہ بھی سلسلہ نقشبندیہ کی شاخیں ہیں۔
نقشبندیہ سے پہلے اسماء
[ترمیم]سلسلہ نقشبندیہ کے القاب زمانے کے اختلاف سے مختلف رہے سیدنا صدیق اکبر سے لے کر شیخ طیفور ابن عیسیٰ ابو یزید بسطامی تک اس طریقے کے کو طریقہ صدیقیہ کہا جاتا تھا شیخ طیفور سے لے کر خواجہ خواجگان شیخ عبد الخالق غجدوانی تک طیفوریہ کہا جاتا تھا خواجہ عبد الخالق غجدوانی سے لے کر امام طریقت شیخ بہاؤ الدین محمد اویسی بخاری تک خواجگانیہ کہا جاتا تھا اور آپ سے لے کر نقشبندیہ کہلایا[2]
طریقہ کی خصو صیات
[ترمیم]ذکرِ خفی:
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ بنیادی خصوصیت وہ ذکرِلطائف ہے جو طالببینِ حق کو اپنے شیخ کامل سے ملتا ہے۔ انسان کے وجود میں موجود سات مقامات ہیں کہ جن کو عالم امر سے روحانی نسبت ہے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہونے والے طالبین کا قلب اپنے شیخ کامل کی توجہ سے ذاکر ہوجاتا ہے۔ اسم ذات کا یہ ذکر ہی طالبین میں محبت شیخ اور سنت ِ رسول ﷺ پر دوام بخشتا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے کہ جو صحابہ کرام ؓ اور نبی کریم ﷺ کی صحبت مبارکہ کا طریقہ تھا۔
محبت شیخ
[ترمیم]∗ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی امتیازی خصوصیات میں پہلا زینہ متابعت رسول ؐ اور دوسرازینہ محبت شیخ ہے۔ محبت شیخ کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ طریقہ نقشبندیہ کا دارومدار دو اصولوں پر ہے۔ پہلا سنت رسول ؐ پر اس حد تک استقامت کر نا کہ اُ سکے چھوٹے اور معمولی آداب بھی ترک نہ ہونے پائیں۔ اور دوسرا شیخ طریقت کی محبت اور خلوص میں اس قدر راسخ اور ثابت قدم ہو کہ اُ س پر کسی قسم کے اعتراض اورانگشت نمائی کا خیال بھی دل میں نہ لا سکے بلکہ اُ س کی تمام حرکات و سکنات مرید کی نظر میں محبوب دکھائی دیں۔ اس لیے اگر اللہ تعالیٰ کی مہر بانی اور فضل و کرم سے یہ دو اصول درست ہو گئے تو دنیا وآخر ت میں سعادت اُس کا مقدر ہے۔
صحبت شیخ
[ترمیم]صحبت شیخ بھی محبت شیخ کے ضمن میں آتی ہے۔ جس قدر صحبت شیخ زیادہ ہو گی اسی قدر محبت شیخ میں اضافہ ہو گا۔ اسی لیے مشائخ نقشبندیہ نے صحبت شیخ زیادہ سے زیادہ اختیا ر کر نے کی تا کید فرما ئی ہے۔ تاکہ طالب شیخ کی مجلس میں رہ کر فیض و برکت حاصل کر ے۔
امام ربانی محبو ب سبحانی مجدد الف ثانی نے فرمایا ہے کہ اس طریقہ یعنی سلسلہ نقشبندیہ میں افادہ و استفادہ کا دارومدار صحبت شیخ پر ہے۔ خواجہ نقشبندقد س سرہ‘ نے فرما یا ہے کہ ہمارا طریقہ شیخ طریقت کی محبت پر ہے۔ اور صحبت کی بہت ہی فضیلت ہے۔
ہر کہ خوا ہدہم نشینی با خدا او نشیند در حضور اولیاء اصحاب کرام رضوان اللہ اجمعین خیر البشر ؐ کی صحبت کی وجہ سے ہی اولیا ء امت سے افضل ہیں بڑے سے بڑا ولی اللہ بھی صحابی کے درجے سے کم تر ہے۔ کوئییی ولی اﷲ صحابی کے درجہ کو ہر گز نہیں پہنچ سکتا خوا ہ وہ اویسِ قرنی ہی کیوں نہ ہوں۔
رابطہ شیخ
[ترمیم]ہروقت ہر جگہ قلب میں تصور شیخ کے ذریعے شیخ طریقت سے اپنا رابطہ قائم رکھے۔ کیونکہ بعض اوقات بدنی صحبت میسرنہیں ہو تی تو تصور شیخ سے بھی رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ رابطہ شیخ وہ کیمیا اثر نسخہ ہے جس کے ذریعے فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسولؐ کے بعد فنا فی اﷲ جیسے اعلیٰ مقامات تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اور اس سے قربِ الی اﷲ کی منا زل جلد اور سہل طریقے سے طے ہو جا تی ہیں۔ مر شد کو وسیلہ ٔہدایت جانے اور اُ س کی خیالی صورت بطریق محبت و تعظیم سامنے رکھے۔ جو لوگ شیخ کے ساتھ دل نہیں لگاتے۔ وہ فیض اور ترقی سے محروم رہتے ہیں۔ مختلف صوفیائے کرام کے مختلف نظریات ہیں لیکن اکثر صو فیا ئے عظام اس بات پر مشترک و متفق ہیں کہ وحی اور الہام ہی علم کا ماخذ و منبع ہے۔ صوفیائے کرام تزکیۂ نفس پر زور دیتے ہیں۔ جو عبادات، مراقبہ، مجاہدہ، عشق اور ترک ِماسوا کے واسطے سے ممکن ہے۔ کیو نکہ عبادت ریاضت اور مجاہدے سے انسان کی طبیعت ضبطِ نفس کو پالیتی ہے۔ اور جب سالک اس قوت پر حاوی ہو جائے تو دیگر مخالف قوتیں مسخر ہو جا تی ہیں۔ جس کی وجہ سے خواہشاتِ نفسانی قا بو میں رہتی ہیں۔ بہاؤ الدین نقشبند فرماتے ہیں۔ ’’جس قدر نفوس ہیں۔ اسی قدر خدا سے ملنے کی راہیں ہیں۔ ہر نفس اپنی حقیقت سے ملنے کا راستہ رکھتا ہے۔ لیکن دینِ کبریٰ نے بالاتفاق تین راہوں کو اخذ کیا ہے۔ یہ تین راستے سب راستوں سے افضل ہیں۔ اور انہی راستوں پر چلنے سے لاکھوں ولی اللہ بن گئے۔ اور ان کی تصدیق تواتر سے حق الیقین تک پہنچتی ہے یہ راستے بے شک سب راستوں سے افضل ہیں وہ یہ ہیں۔#۔ ذکر (2)۔ فکر (3)۔ رابطہ شیخ خواجہ معصوم ؒ کا فرمان ہے ’’ذکر رابطہ کے بغیر خدا تک نہیں پہنچاتاالبتہ رابطہ بغیر ذکر کے خدا تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ پس رابطہ شیخ انتہائی عمدہ اور مفید چیز ہے جس کی بنا پر طالب بوجہ اتصالِ روحانی و پرتو ِ کمال باطنی اپنے شیخ سے ایسا کمال حاصل کر لیتا ہے۔ کہ جیسے مہر کی نقل کاغذ پر جلوہ گر ہوتی ہے۔[3]
اصطلاحات نقشبندیہ
[ترمیم]∗حضرات نقشبندیہ نے اپنے طریقہ کی بنیاد گیارہ کلمات پر رکھی ہے۔ ان میں سے آٹھ کلمات خواجہ خواجگان عبد الخالق غجدوانی سے اور تین کلمات بانئ سلسلہ نقشبندیہ خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی بخاری سے مروی ہیں یہ اصطلاحات اشغال و اعمال کی طرف اشارہ کرتی ہیں آٹھ کلمات یہ ہیں۔ 1۔ ہو ش در دم۔ 2۔ نظر بر قدم۔ 3۔ سفر در وطن۔ 4۔ خلوت درا نجمن۔ 5۔ یاد کر د۔ 6۔ باز گشت۔ 7۔ نگہداشت۔8۔ یاداشت۔ شاہ نقشبندبخاری کے تین کلمات یہ ہیں۔1۔ وقوف زمانی 2۔ وقوف قلبی3۔ وقوف عددی
ہو ش در دم
[ترمیم]∗یہ اصل میں پا س انفاس ہی ہے۔ یہ کہ سالک کا ہر سانس حضورو آگاہی یعنی ہر دم ہو ش میں ہو۔ تاکہ کوئییی سانس غفلت و معصیت میں نہ گذرے۔ اور ہر وقت سانس کی حفاظت کر ے تاکہ رابطہ ٹو ٹنے نہ پائے اور وابستگی قائم رہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ کہ ہو شیار وہ شخص ہے جس نے اپنے نفس کو ڈرایا۔
خواجہ نقشبند بخاری نے فرما یا ہے کہ کسی سانس کو ضائع نہ ہو نے دیں۔ یعنی سانس کے دخول و خروج اور خروج و دخول کے درمیان محا فظت درکار ہے۔ کہ کوئییی غفلت میں نہ گذرے۔ اگر غفلت محسوس کرے تو استغفارکرے۔ اورآئندہ غفلت ترک کر نے کا ارادہ کر ے۔ کیونکہ اسی غفلت کے سبب انسان معا صی کا مرتکب ہو تا ہے۔ ہو ش دردم تفرقہ اندرونی کے لیے ہے۔
نظربر قدم
[ترمیم]∗یعنی اپنی نگاہ اپنے پاؤں کی طرف رکھنا۔ کیونکہ نیچی نظر رکھنا سنت رسول ؐ ہے۔ تاکہ نظر کی محافظت ہو سکے۔ اور کوئییی بصری آلائش یا نقش و نگار پردہ و درحسن و جما ل خوبرویاں دل کو پرا گندہ نہ کر سکیں۔ اس لیے سالک کو راہ چلتے ادھر اُدھر نہ دیکھنا چاہیے۔ کیو نکہ نظر کی آلو دگی ایک ایسا زہر آلودہ تیر ہے۔ جس سے شکار اور شکاری دونوں ہلاک ہو جا تے ہیں۔ اور یہ ہلاکت نقص ایمان ہے۔ رسوائی و تباہی دارین ہے۔ رنگ برنگ اشیاء دیکھنے سے خیالا ت صالحہ منتشر ہو جا تے ہیں۔ اور سالک کا مطلو ب سے بر گشتہ ہو کر اپنی منزل سے بھٹک جانے کا اندیشہ ہے۔ دیگر اس سے مرا دیہ ہے۔ کہ سالک کا قدم باطن اس کی نظر باطن سے پیچھے نہ رہے۔ سالک اپنی برائی اور نیکی کے قدم کودیکھے اگر برا ئی میں قدم دیکھے تو پیچھے ہٹائے اور نیکی کے قدم کو مزیدآگے بڑھائے۔ وقت رفتن برقدم با ید نظر ہست سنت حضرت خیر ا لبشر اندریں حکمت بس است و بے شمار دیدہ خواہد طالب حق آشکار
شاہ ولی فرما تے ہیں۔ کہ نظر کو نیچے رکھنا یہ مبتدی کے لیے ہے۔ منتہی پر تو واجب ہے۔ کہ اپنے حال میں تامل کرے۔ کہ و ہ کس نبی کے قدم پر ہے۔ کہ بعض اولیاء سید المر سلین خاتم النبین ؐکے قدم پرہوتے ہیں۔ اور اُن کوپوری جا معیت ِکمالات حاصل ہو تی ہے۔ اور بعض مو سیٰ علیہ السلام کے قدم پر ہو تے ہیں۔ جب منتہی اپنے پیشوا کو پہچان لے تو چاہیے۔ کہ اُس کے اپنے حالات اور واقعات اپنے پیشوا کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں۔ دیگر حضور ؐکے قدم یعنی اسوہ و سنت پر ہر دم نگاہ رکھے
کہ میری زندگی حضور ؐ کے قدم یا اسوہ سے ہٹ تو نہیں رہی۔
سفر در وطن
[ترمیم]∗سفر در وطن کے معنی ہیں۔ اپنے باطن میں سفر کر نا۔ اس سے مراد یہ ہے۔ کہ انسان کی اصل تخلیق ملکی ہے۔ جو اس جسد بشری سے پہلے واقع ہو ئی تھی۔ جب روحی وملکی تخلیق کے بعد ما دی و بشری تخلیق میں روح نے نزول کیا تو وہ روح بھی صفا ت ذمیمہ کا شکار ہو گئی۔ اب اصل وطن کی طرف رجو ع کر نے سے مراد یہ ہے۔ کہ اپنے اند ران صفات حسنہ کو تلا ش کر ے جن کی استعداد اس کے اندر رکھ دی گئی ہے۔ اور جو اس کی روح کی پہلی کائنات ہے۔ لہٰذا آدمی صفا ت بشریہ کو چھوڑ کر صفا ت ملکیہ حاصل کرے یعنی طلب جاہ، بغض، حسد، کینہ کو دل سے نکال با ہر پھینکے اور اپنے دل کو اُن سے بالکل پاک کر دے دوسرے لفظوں میں صفات ذمیمہ سے صفات حمیدہ کی طرف انتقال کرنا ہے۔ کیونکہ جب تک رذائل دل میں بھر ے ہو نگے۔ تو خدا کا دل میں دخول کیونکر ممکن ہو گا۔ اگر حُبِ خلق کا غلبہ محسوس کرے۔ تو لاالہ سے نفی ٔمحبت خلق اور الا اللہ سے اللہ کی محبت اس کی جگہ ثبت کرے۔ چنانچہ اول المؤ منین ابو بکر صدیق‘فرماتے ہیں۔ جس نے اللہ سے محبت کا مزا چکھا تو اُ س نے اس کو طلب دنیا سے باز رکھا۔ خواجگان نقشبند سفر ظاہری اتنا ہی کر تے ہیں کہ پیر کامل تک پہنچ سکیں۔ دوسری حرکت جا ئز نہیں رکھتے۔ اور شیخ سے دوری ہر گز نہیں چاہتے بلکہ آگاہی کے حصول کے لیے نہایت کو شاں رہتے ہیں۔ یہ سیر آفاقی کوسیرانفسی سے طے کر تے ہیں۔ با قی سلاسل میں سلو ک سیر آفاقی سے شروع ہو تا ہے۔ سیرانفسی سے ابتدا کرنا سلسلہ نقشبندیہ کاخاصہ ہے۔ اندراج نہایت درہد ایت کے یہی معنی ہیں۔
خلوت در انجمن
[ترمیم]∗خلوت در انجمن کا مطلب یہ ہے۔ کہ دل سے خدا کے ساتھ مشغول رہے۔ اور اپنے تمام مشاغل روز مرہ از قسم طعام و قیام اکل و شرب۔ نشست و بر خا ست، معاملات فہم وادراک و غیر ہ پر اللہ جل شانہ‘ کے ساتھ تعلق کو قائم رکھے۔ اس کے لیے طہار ت کوئییی شر ط نہیں ہے بلکہ رو ز مرہ زندگی میں اللہ تعالیٰ سے اس قدر قربت عین اسلام ہے۔ اور یہ طلب دنیا کے ضمن میں بھی نہیں ہے۔ تمدنی و معا شرتی زندگی میں جہاں قدم قدم پر معصیت و گمراہی منہ کھولے خلق خدا کو ہڑپ کر رہی ہے۔ فقط اسی طریقہ سے اپنے آپ کو بچایا جا سکتا ہے۔ چونکہ اسلام ایک دین ہے۔ ایک نظام زندگی ہے۔ اس لیے اس میں زندگی کے ہر پہلو سے متعلق ضابطے مو جو د ہیں خلوت درانجمن ہمارے لیے سلسلہ نقشبندیہ نے وہ اصول وضع کر کے دیا ہے۔ جس پر عمل کر کے ہم تہذیب و تمدن معاشرت، ثقافت، اقتصادے ات معا شیا ت، معا ملات غر ضیکہ زندگی کے ہمہ گو شوں کو اسلام کے عین مطابق قائم کر کے صحیح اسلامی معا شرت قائم کر سکتے ہیں۔ ع: دل بہ یار دست بکار خلوت در انجمن سے مرا د یہ بھی ہے کہ پوری کا ئنا ت تو مو جو د ہے۔ لیکن دل میں ما سوائے اللہ کسی کا خیال تک نہ ہو۔ ؎ بندگاں باید کہ در وقت سخن قلب با حق قالبے در انجمن ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نہ تو عالموں والا لباس پہنتا ہوں۔ اور نہ درویشوں والا تاکہ لو گ مجھے در ویش اورعالم نہ سمجھیں۔ بلکہ عام لو گوں کا لبا س پہنتا ہوں۔ تاکہ پہچانا نہ جائوں۔ صحابہ کبار کا بھی یہی طریقہ کار تھا۔ کہ عام لو گوں کی طرح رہتے تھے۔ اور اپنی کوئییی خصو صی حیثیت اور شان خود ظاہر نہ فر ما تے تھے۔ یہی طریقہ خو اجگان نقشبندکا بھی ہے۔ خو اجہ احرار کا قول ہے۔ کہ ذکر میں جہد و اہتما م بلیغ کے ساتھ مشغول ہو نے سے سالک کو پا نچ روز میں یہ دولت اور سعادت نصیب ہو سکتی ہے۔ خو اجہ خوا جگان شاہ نقشبند بخاری کے نزدیک خلوت در انجمن ظاہر میں خلق کے ساتھ اوربا طن میں حق کے ساتھ ہو نا ہے۔
یاد کر د
[ترمیم]∗یاد کردذکر اورگیان کے ہم معنی ہے۔ مرادیہ ہے کہ اپنے شیخ سے سیکھے ہوئے ذکر بر وقت ادا کرنا ہے ذکر اس کثر ت سے کر ے کہ اللہ جل شانہ‘ کی حضوری حاصل ہو جائے۔ امام طریقت شاہ نقشبند فرماتے ہیں کہ ذکر سے مقصود یہ ہے۔ کہ ہمیشہ حق کے ساتھ حاضر رہے۔ ذکر غفلت سے باز رکھتا ہے۔ اسی لیے ابتدائییی طور پر ذکر اثبات و نفی یا مجرد ذکر کی تلقین کی جا تی ہے۔ نیز ذکر سے مراد کتاب اللہ و سنت رسول اللہ کی تعلیمات کے علاوہ صفات الٰہیہ کو اپنے معا نی کے ساتھذہن نشین کر نا ہے۔
باز گشت
[ترمیم]∗یعنی رجو ع کر نایا پھر نا اس سے مرا د یہ ہے۔ کہ تھوڑے تھوڑے ذکر کے بعد تین بار یا پانچ بار مناجات کی طرف رجو ع کر ے شاہ نقشبند کی یہ دعا تھی۔ الٰہی مقصود من توئی و رضائے تو محبت مغفرت خود بدہ " اے اللہ میرا مقصو د تو ہی ہے۔ اوراپنی خو شنودی اپنی محبت اور مغفرت عطا کر۔ حق یہ ہے کہ ذکر اور فکر کے درمیان میں اگر کچھ غیب سے نظر آئے۔ تو اُ س پر سالک کو مغرور نہ ہو نا چاہیے۔ اور اُسے مطلو ب ہی نہ سمجھ لے۔ کیو نکہ ذات الٰہی تو کجا صفات الٰہی میں سے ایک صفت میں اگر سالک لاکھوں سال گزار دے تو سیر ختم نہ ہو۔ نقشبند قدس سرہ‘ فرماتے ہیں کہ ہر چہ دیدہ شد و دانستہ شد۔ آں ہمہ غیر است بحقیقت کلمہ لا نفی آں باید کرد۔ یعنی جو کچھ دیکھا سنا جائے اور جانا جائے وہ سب غیر خدا ہے کلمہ طیبہ کی لا سے سب کی نفی کرنی چاہیے۔
نگہداشت
[ترمیم]∗اس سے یہ مطلب ہے کہ ذاکر اپنے قلب کے خطرات اور احادیث نفس نگا ہ میں رکھے۔ اور کمال ہو شمندی سے رہے۔ اور جو وساوس و خیالات غیر خدا دل میں آئیں۔ اُن کا ابتد ا ہی سے تدارک کر ے۔ اور ظہور طبیعت کااس طرف مائل ہو نے کا خطرہ ہے۔ پھر نجات بھی مشکل ہے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ خطرہ کو ایک ساعت بھی دل میں نہ رکھنا چاہیے۔ بزرگوں کے نزدیک یہ بہت اہم ہے۔ اولیاء کاملین کو یہ د ولت طویل عرصہ تک حاصل رہتی ہے۔
یاداشت
[ترمیم]∗یاداشت فکر اور دھیان کے ہم معنی ہے۔ اور اس سے مراد دوام آگاہی بحق سبحانہ‘وتعالیٰ ہے۔ دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے۔ کہ یاد کرو نگہداشت اور یاداشت میں کیا فرق ہے۔ نگہداشت میں طالب اپنی کو شش سے اللہ تعالیٰ کی طرف مشغول رہتا ہے۔ لیکن یا داشت میں بلا کو شش اور خود بخود اللہ تعالیٰ کی طر ف مشغول ومخاطب ہو تا ہے۔ اوریہ مقام منتہی ان ولایت کو حاصل ہو تا ہے۔ یاداشت حاصل شود بعد از فنا بلکہ حاصل می شود بعد از بقا بعد ازیں غافل نہ باشد یک زباں خواہ باشد فرح و غم سود وزیاں در جماعت اولیاء داخل شودجملہ طُرق اُ و واصل شود اس کے بعد اب تین اصطلاحات جو امام طریقت شاہ نقشبند بخاری کی طرف سے ہیں اُن کا بیان کیاجا تا ہے۔
وقوف زمانی
[ترمیم]∗وقوف زمانی اور ہو ش دردم تقریباً ہم معنی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے۔ کہ ہو ش دردم مبتدی کے واسطے ہے۔ ہر لحظہ اور ہر لمحہ احتیاط ہے۔ اور وقوف زمانی متو سط کے لیے مناسب ہے۔ کہ کچھ کچھ دیر بعد تامل کرے اور وقوف زمانی سے محاسبہ بھی کیا جا تا ہے۔ کہ نفس کس سمت کو جا رہا ہے۔
وقوف عددی
[ترمیم]∗ وقوف عددی سے مراد سالک کا اثنائے ذکر سے واقف رہنا ہے۔ اور جب ذکر حق کرے تو طاق عدد پر کرے۔ نہ کہ جفت عد د پر۔ کیونکہﷲ وترویحب الوتر۔ لیکن ذکر عدد ی کے ساتھ ذکر قلبی بھی ضروری ہے۔
وقوف قلبی
[ترمیم]∗وقوف قلبی سے مرادیہ ہے کہ سالک ہر وقت ہر لحظہ اپنے قلب کی طرف متو جہ رہے۔ اور قلب خدا کی طر ف متوجہ رہے۔ تاکہ سب طرف سے تو جہ ٹو ٹ کر معبو د حقیقی کی طر ف ہو جائے۔ اور وساوس و خطرات دل میں داخل ہی نہ ہونے پائیں۔ خصو صاًجلسہ ذکر کے دوران میں اُس کا پورا خیال رکھے۔ یہاں زندگی کو پیش آنے والے مختلف مراحل میں خدا کے پسندیدہ و نا پسندیدہ کام کا سوال بھی سامنے آتا ہے۔ گو یا ہر پیش آنے والے امر پر یہ فیصلہ کرے کہ یہ کام خدا کو نا پسند ہے۔ اس لیے مجھے اس کا ترک کر نا ضروری ہے۔ اور اس میں خدا کی پسندید ہ صور ت یہ ہے جس پر کار بند ہونا میر ے لیے لازمی ہے بس اسی کانام وقوف قلبی ہے۔ وقوف قلبی شاہ نقشبند بخاری کے نزدیک بہت ضروری ہے اور یہ رکن عظیم ہے۔ طریقہ سلسلہ نقشبند یہ کا دارومدار اسی پر ہے۔[4]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ سلسلہ نقشبند
- ↑ تحفہ نقشبندیہ صفحہ36محمد بن سلیمان بغدادی دار الاخلاص لاہور
- ↑ "طریقہ کی خصو صیات"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2014
- ↑ "بیان اصطلاحات سلسلہ نقشبندیہ"۔ 04 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2014