سید محمود حسن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید محمود حسن
پیدائش3 ستمبر 1903(1903-09-03)ء
محلہ قاضی پورہ شہر بہرائچ، یوپی، انڈیا
وفاتدسمبر 18، 1975(1975-12-18) (عمر  72 سال)
مکہسعودی عرب
آخری آرام گاہجنت المعلیٰمکہسعودی عرب
پیشہوکالت
زباناردو
قومیتبھارتی
شہریتبرطانوی ہند (1947–1903)بھارتی(1975-1947)
تعلیمایم اے(عربی) اور ایل ایل بی
مادر علمیعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی
اولادسید طاہر محمود، سید خالد محمود،سید قیصر محمود، سید ظفر محمود ،سید راشد محمود
رشتہ دارحکیم سید احمد حسن (والد)

سید محمود حسن (دیگر نام: سید محمود حسن علیگ)بہرائچ کے نامور وکیل تھے۔محمود صاحب کی ولادت 3 ستمبر 1903ءکو شہر کے محلہ قاضی پورہ میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام حکیم سید احمد حسن تھا۔جو مشہور حکیم تھے۔آپ کا نام آپ کی والدہ کو خواب میں ملی بشارت کے مطابق دیوبند کے بزرگ عالم دین اور شیخ الحدیث مولانا محمود حسن کے نام پر رکھا گیا تھا۔[1]

حالات[ترمیم]

سید محمود حسن نے دسویں تک کی تعیم شہر بہرائچ کے گورنمنٹ انٹر کالج سے حاصل کی۔اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے جہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1927 ء میں آپ نے عربی میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں لے کر فارغ ہوئے اور بہرائچ میں وکالت شروع کی۔جہاں آپ نے سید ضیغم علی وکیل مجن میاں کے والد اور منشی فیض الحسن سے آپ نے وکالت کی ٹریننگ حاصل کی۔آپ کے بیٹے پروفیسر سید طاہر محمود صاحب لکھتے ہیں:

والد محترم نےایک بے حد وجیہ شخصیت کے مالک تھے اور پیشہ وکالت میں جلد ہی بڑا نام پیدا کر لیا تھا۔عربی،فارسی ،اردو اور انگریزی زبانوں کے علاوہ اسلامیات پر عبور رکھتے تھے اور وقت کے ممتاز عالم دین مولانا اشرف علی تھانویؒ سے بیعت تھے ۔سیاست میں بھی تھے اورضلع مسلم لیگ کے صدر بھی ہوئے اور کئی ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں ۔تقسیم وطن کے بعد آپ نے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا اور سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی ۔1951ء میں دوبارہ سیاست میں آکر آچاریہ کرپلانی کی کسان مزدور پارٹی جوائن کی اورآئندہ سال ( 1952ء ) اس کے ٹکٹ پر کانگریس کے امیدوار نانپارہ راجہ سعادت علی خاں کے خلاف اسمبلی الکشن لڑکر بری طرح شکست کھائی۔بعد کے سالوں میں وہ کانگریس کی حمایت کرنے لگے تھے مگر عملی سیاست میں نہیں آئے۔

[2]

سید محمودحسن ملی خدمات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔درگاہ سید سالار مسعود غازیؒ کے ایک بار رسیور اور برسوں بعد درگاہ انتظامیہ کمیٹی کے صدر بھی بنے۔ تقسیم ہند سے پہلے مسعودیہ جناح ہائی اسکول اور اس کے بعد آزاد انٹر کالج کے منیجر رہے۔آپ صوبائی سطح پر یو پی کی دینی تعلیمی کاؤنسل کے بانیوں میں تھے۔آپ ایک با ر بہرائچ ڈسڑکٹ بار کے صدر بھی منتخب ہوئے۔آپ نے ایک امریکی اسکالر کی کتاب ’’ بڑھاپے کی روک تھام اور علاج ‘‘ کا اردومیں ترجمہ کرنا شروع کیا تھامگر مکمل نہیں کیا۔شروع سے مذہبی تھے لیکن زندگی کے آخری دور میں مذہبیت میں بہت شدت آگئی تھی۔ اور وکالت چھوڑ دی اور سارا وقت درس و مطالعہ میں صرف کرنے لگے ۔ ڈاکٹر عبرت بہرائچی آپ کے بارے میں لکھتے:

سیدمحمود حسن شہر بہرائچ کے مشہور و معروف اور A کلاس کے وکیلوں میں شمار ہوتے تھے۔عدالتیں آپ کا احترام ہی نہیں بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔شہر کے معزز لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔عربی،فارسی اردو اور انگریزی زبانوں پر حکمانہ قدرت رکھتے تھے،۔عربی زبان پر اتنا زبردست عبور ہونے کی وجہ سے کوئی بھی امام نماز ان کے آگے قرآن ٖغلط نہیں پڑھ سکتا تھا۔حافظ اور قاری تو در کنار جید سے جید عالم بھی ان سے گفتگوکرتے ہوئے گھبراتے تھے۔وکیلہوتے ہوئے جھوٹ سےگریز کرتے تھے،تنک مزاجی ان کا خاصہ تھی۔اعلٰی اخلاق و کردار دین دا ر،خوش پوش،سنجیدہ،وسیع النظر دور اندیش بھی تھے۔دینی تعلیمی کونسل اترپردیش کے مجلس عاملہ کے رکن تھے۔کسان ڈگری کالج بہرائچ ،تارا گرلس انٹر کالج کے رکن مدرسہ جواہر العلوم فخرپور و جنتا انٹر کالج کے صدر بھی تھے۔

[3]

تصنیف[ترمیم]

پروفیسر سید طاہر محمود نے اپنے والد کی سوانح حیات ’’حیات محمود‘‘ کے نام سے لکھی تھی جو 1977 میں شائع ہوئی۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں آپ نےقرآن کریم کی بیسک ریڈرکے نام سے فن تجوید پر اردو میں ایک کتاب لکھی تھی۔ جس کا مسودہ جو ان کی وفات کے بعد مکہ معظمہ سے واپس لائے ہوئے ان کے سامان میں ملا تھااور کئی سال بعد لکھنؤ کے’’ مکتبہ الفرقان ‘‘سے مولانا منظور نعمانی ؒ کے پیش لفظ کے ساتھ شائع ہوا ۔[4] سن 2000 میں آپ کی ’’قرآن کریم کی بیسک ریڈر ‘‘ کا ہندی ترجمہ دہلی میں اسلامک ونڈرس بیورو سے شائع ہوا جسے عبد اللہ اقبال نے اردو سے ہندی میں کیا تھا۔جبکہ 2002 میں آپ کے صاحبزادے پروفیسر سید طاہر محمود صاحب نے انگریزی میں ’’قرآن کریم کی بیسک ریڈر‘‘ تلخیص لکھی جس کو دہلی میں مولانا وحیدالدین خاں کے ادارہ گز ورڈ پبلی کیشنز نے شائع کیا ۔[5]

وفات[ترمیم]

1975 میں انتہائی خراب صحت اور جسمانی کمزور ی کی کیفیت میں براہ مسقط فریضہ حج کے لیے مکہ معظمہ گئے اس مکمل احساس بلکہ خواہش کے ساتھ کہ وہاں سے واپسی نہیں ہونی ہے۔ 18 دسمبر 1975 کو مکہ میں عمر کے تہترویں سال میں واصل بحق ہوئے اور تاریخی قبرستان جنت المعلیٰ میں مدفن ہوئے ۔[6]

مزید دیکھے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.rekhta.org/ebooks/hum-dasht-mein-detey-hain-azaan-tahir-mahmood-ebooks
  2. ہم دشت میں دیتے ہیں آذاں
  3. نقوش رفتگاں
  4. ہم دشت میں دیتے ہیں آذاں
  5. ہم دشت میں دیتے ہیں آذاں
  6. ہم دشت میں دیتے ہیں آذاں

بیرونی روابط[ترمیم]

https://www.rekhta.org/ebooks/hum-dasht-mein-detey-hain-azaan-tahir-mahmood-ebooks https://www.amazon.com/Basic-Reader-Holy-Quran-Recitation/dp/8178980959 https://www.goodreads.com/author/show/6861301.Syed_Mahmood_Hasan https://spineandlabel.com/Basic-Reader-for-the-Holy-Quran-Syed-Mahmood-Hasan