محمد یوسف بنوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد یوسف بنوری
معلومات شخصیت
پیدائش 7 مئی 1908ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مردان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 اکتوبر 1977ء (69 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کمبائنڈ ملٹری ہسپتال، راولپنڈی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد سید سلیمان یوسف بنوری الحسینی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
چانسلر (1  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1954  – 17 اکتوبر 1977 
در جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن  
 
مفتی احمد الرحمٰن  
صدر نشین (3  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
30 مئی 1973  – 17 اکتوبر 1977 
در وفاق المدارس پاکستان  
‏مولانا خير محمّد جالندھرى  
مفتی محمود  
امیر (5th  )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1974  – 17 اکتوبر 1977 
در عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت  
مولانا محمد حیات  
خواجه خان محمّد  
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند
جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ انور شاہ کشمیری ،  شبیر احمد عثمانی ،  محمد رسول خان ہزاروی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص عبدالرزاق اسکندر ،  مفتی زرولی خان ،  مولانا حبیب اللہ مختار ،  مفتی عبدالمجید دین پوری ،  مفتی جمیل خان   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل ماوراء الطبیعیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل ،  جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد یوسف بنوری یا علامہ سید یوسف بنوری (ولادت: 7 مئی 1908ء - وفات: 17 اکتوبر 1977ء) پاکستانی عالم دین، جامعہ العلوم الاسلامیہ کے بانی اور 30 مئی 1973ء سے 17 اکتوبر 1977ء تک وفاق المدارس العربیہ کے صدر اور نائب صدر تھے۔[2][3][4] جس جگہ آپ کا مدرسہ واقع ہے اس جگہ کا نام کا سرکاری طور پر اندراج آپ کے نام نامی پر علامہ بنوری ٹاؤن کیا گیا۔

ولادت[ترمیم]

آپ 4 ربیع الثانی 1326ھ بمطابق 1906ء کو پشاور کے قریب ایک گاؤں بنور میں پیدا ہوئے۔

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے والد اور ماموں سے حاصل کی۔ اس کے بعد کابل کے ایک دینی مکتب میں عربی اور ثانوی تعلیم حاصل کی۔ 1945ء سے 1947ء تک آپ نے مختلف علوم و فنون اور حدیث کی تعلیم دار العلوم دیوبند میں حاصل کی۔

اساتذہ[ترمیم]

آپ کے اساتذہ میں عالم دین علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے اپنے دور کے نامور علما سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا۔

تدریس[ترمیم]

فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں صدر مدرس اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد دار العلوم ٹنڈوالٰہ یار میں شیخ التفسیر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 3سال بعد کراچی تشریف لائے اور ایک مدرسہ عربیہ اسلامیہ یعنی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن قائم کیا، جس کے بانی و مہتمم آپ تھے۔ جہاں آُ نے 45 سال تک مسند تدریس کو رونق بخشی اور درس حدیث میں مصروف رہے۔

بیعت و اجازت[ترمیم]

آپ اشرف علی تھانوی سے بیعت ہوئے اور انہی سے خلافت حاصل کی۔

تصانیف[ترمیم]

آپ کی تصانیف میں عربی کی 4 بڑی کتابیں اور درجنوں مقدمات شامل ہیں۔ جن میں معارف شرح جامع ترمذی (6 جلدوں میں) ایک علمی اور نفحۃ العنبر فی حیاۃالانور ایک ادبی تالیفات ہیں۔

1- بغیة الأریب فی مسائل القبلة والمحاریب : اپنے موضوع پر عربی میں منفرد کتاب ہے ،پہلی بار قاہرہ سے 1357ئھ میں شائع ہوئی،اس کے بعد ”مجلس دعوت و تحقیق اسلامی“ کی طرف سے بھی شائع ہو چکی ہے ۔

2-نفحة العنبر فی حیاة امام العصر الشیخ محمد انور: اپنے محبوب شیخ کے علمی کمالات وحالات ، علمی مزایا وخصوصیات ، اشعار ، علما واکابر کی ان کے بارے میں رائے ، ان کے فضائل وکمالات کا حسین مرقع ہے ، آپ نے اس کتاب کو نہایت عمدہ اور اعلی عربی ادب میں پیش کیا ہے ، چنانچہ علما عرب نے اس کی بہت قدر کی ، ایک چوٹی کے عالم نے آپ کو لکھا ” قرأت کتابک فسجدت لبیانک“ یہ کتاب پہلی بار دہلی میں 1353ئھ میں شائع ہوئی ، دوبارہ پاکستان میں ٹائپ سے بہترین شکل میں شائع ہو چکی ہے ۔

3- یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن : علوم قرآن پر ایک بے نظیر علمی شاہکار ہے ، جو دراصل امام العصر مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی کتاب ”مشکلات القرآن “ کا مقدمہ ہے ، 1936ءء میں دہلی سے اور پھر بعد میں پاکستان میں ”مجلس دعوت و تحقیق اسلامی “ کی طرف سے مستقل کتابی صورت میں ٹائپ سے شائع ہو چکی ہے ۔

4-معارف السنن شرح سنن الترمذی : جامع ترمذی کی بے نظیر محققانہ شرح ہے ، چھ جلدوں میں ”کتاب المناسک“ تک ہوئی ہے ، ”کتاب الجنائز “ سے آخر تک کا حصہ باقی رہ گیا ہے ، افسوس یہ کتاب مکمل نہ ہو سکی ورنہ علوم نبوت کے شائقین اور حدیث کے پڑھانے والوں کے لیے بہا ذخیرہ ہوتی ، آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اس کو پورا کرنا ہے لیکن: ما کل یتمنی المرأ یدرکہ تجری الریاح بما لا تشتہی السفن کچھ دنوں ”دارالتصنیف “ میں بیٹھ کر معارف السنن کی چھٹی جلدکے اخیر ابواب مکمل کیے ، ”معارف السنن“ کے مقدمہ ”عوارف المنن “ پر کچھ کام کیا لیکن پھر گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے اوپر چڑھنا دشوار ہو گیا اور کام معطل ہو گیا۔

6- عوارف المنن مقدّمہ معارف السنن: مستقل کتابی صورت میں ایک جلد پر مشتمل ہے ، دو تہائی حصہ مکمل ہو چکا تھا ، فرمایا کرتے تھے کہ اسے چھاپنا شروع کردو ، ساتھ ساتھ مکمل کردوں گا ، مشاغل اور مصروفیات کی وجہ سے آپ کی زندگی میں اس کے طبع ہونے کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہو سکا ،اب عنقریب انشاء اللہ چھپ کر منصہ شہود پر آنے والی ہے ۔

7- الأستاذ المودودی وشییٴ من حیاتہ وأفکارہ : یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ،اس کتاب میں حضرت بنوری رحمہ اللہ نے مولانا مودودی صاحب کے ان غلط نظریات وافکار کو پیش کیا ہے جن سے عام لوگ ناواقف ہیں اور جو ان کے نظریات وافکار وعقائدکے خراب ہونے کا ذریعہ بن سکتی ہیں،اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے،یہ آخری تالیف ہے جو حضرت بنوری رحمہ اللہ نے تحریر فرمائی اس کا تیسرا حصہ بھی آپ نے لکھنا تھا لیکن وقت اجل آپہنچا ۔

8- القصائد البنوریة :حضرت بنوری رحمہ اللہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ، عربی زبان میں نہایت عمدہ اور آبدار شعر کہتے تھے ، یہ کتاب آپ کی وفات کے بعد شائع کی گئی ،اس میں آپ کے تمام منظوم کلام کو یکجا کر دیا گیا ہے جس میں اسلامی شاعری کی مشہور اصناف حمد ، مناجات ، نعت اور رثاء کے علاوہ بھی کافی نظمیں شامل ہیں جو آپ نے مختلف مواقع پر کہیں، ان قصائد میں سے بعض نعتیں ایسی بھی ہیں جو مصر اورشام کے مجلات کی زینت بن چکی ہیں ۔

9- المقدمات البنوریة : حضرت بنوری رحمہ اللہ کے بہار آفریں قلم سے عربی ، فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں پر علمی و تحقیقی مقدمات ہیں، ان مقدمات میں اپنے موضوع سے متعلق انتہائی نفیس اور قیمتی مباحث ہیں جو آپ جیسی علمی شخصیت ہی کا خاصہ ہے ،ان مقدمات میں حدیث کی مشہور کتابوں پرانتہائی تفصیلی مقدمات بھی شامل ہیں جو عالم اسلام کے اہل علم و تحقیق سے داد تحسین بھی حاصل کرچکے ہیں،جس میں مقدمہ ”نصب الرایہ“ ، مقدمہ ”فیض الباری “، مقدمہ ”اوجز المسالک “اور مقدمہ”لامع الدراری“شامل ہیں، اس کتاب کی اشاعت بھی آپ کی وفات کے بعد عمل پزیر میں آئی ۔

10-بصائر وعبر :اردوزبان میں حالات حاضرہ ، قومی وملی مسائل اور ردّ الحاد وزندقہ پر آپ کے علمی و تحقیقی مضامین اور آپ کے بے باک قلم کے اچھوتے شاہکار جامعہ کے ترجمان ”بینات “ کے صفحات پر قارئین کے لیے ہمیشہ ”بصائر وعبر“ کے نام سے بصیرت وعبرت کا سامان بہم پہنچاتے رہے ، ان تمام مضامین کو موضوعات کی ترتیب سے الگ الگ عنوانات سے دو جلدوں میں شائع کر دیا گیا ہے ،یہ کتاب بھی آپ کی وفات کے بعد طبع ہوئی

اہم کارنامے[ترمیم]

  • آپ نے تحفظ ختم نبوتﷺ کے سلسلے میں جو کارنامہ انجام دیا اس کو صدیوں تک مسلمانوں میں یاد رکھا جائے گا۔
  • پاکستان میں قادیانیت کے خلاف جو تحریک اٹھی، آپ کی قیادت میں اس تحریک نے پورے ملک میں جوش و خروش پیدا کی۔
  • ان کی تحریک میں اس قدر والہانہ پن اور شدت تھی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس مسئلہ کو متفقہ طور پو منظور کیا اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔

یوسف بنوری کی خدمات[ترمیم]

  • بانی وشیخ الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاوٴن کراچی۔
  • رکن ”المجمع العلمی العربی“جمہوریہ سوریہ، شام۔
  • نگران اعلیٰ مجلس علمی جنوبی افریقہ ،ہندوستان ،کراچی۔
  • رکن ”مجمع البحوث الاسلامیہ“ قاہرہ ، مصر۔
  • شیخ التفسیر دار العلوم الاسلامیہ ٹنڈوالہ یار،سندھ۔
  • صدر ”وفاق المدارس العربیہ “پاکستان۔
  • رکن ”رابطہ عالم اسلامی“،مکہ مکرمہ۔
  • رکن انتخاب اساتذہ کمیٹی کراچی یونیورسٹی۔
  • صدر مجلس دعوت و تحقیق اسلامی ،کراچی۔
  • رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان۔
  • شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل۔
  • امیر وقائد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ۔
  • صدر کل پاکستان مجلس عمل ۔
  • جنرل سیکریٹری جمعیت علما ہند۔
  • صدر جمعیت علما گجرات و بمبئی

وفات[ترمیم]

17 کتوبر 1977ء بمطابق 3 ذی قعدہ 1397ھ بروز اتوار کو وفات پائی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب http://www.banuri.edu.pk/en/page/muhaddith-ul-asr
  2. "List of Presidents in Urdu language (sadoor صدور)"۔ wifaqulmadaris.org۔ 27 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2020 
  3. "Naib Sadoor نائب صدور"۔ wifaqulmadaris.org۔ 12 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جولا‎ئی 2020 
  4. سید محبوب رضوی۔ History of The Dar al-Ulum Deoband (Volume 2) (PDF)۔ ترجمہ بقلم Prof. Murtaz Husain F. Quraishi (1981 ایڈیشن)۔ Idara-e-Ehtemam, دار العلوم دیوبند۔ صفحہ: 120-121۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2020 
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔