سورہ روم
سورة الروم Sūrat al-Rūm سورت الروم | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مکی |
عددِ پارہ | 21 واں پارہ |
اعداد و شمار | 6 رکوع, 60 آیات, 818 الفاظ, 3,388 حروف |
قرآن مقدس |
---|
متعلقہ مضامین |
قرآن مجید کی 30 ویں سورت جس میں 6 رکوع اور 60 آیات ہیں۔
نام
پہلی ہی آیت کے لفظ غلبت الروم سے ماخوذ ہے۔
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے: الروم آیت 17
آغاز ہی میں جس تاریخی واقعے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے زمانۂ نزول قطعی طور پر متعین ہو جاتا ہے۔ اس میں ارشاد ہوا ہے کہ "قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہو گئے ہیں"۔ اس زمانے میں عرب سے متصل رومی مقبوضات اردن، شام اور فلسطین تھے اور ان علاقوں میں رومیوں پر ایرانیوں کا غلبہ 615ء میں مکمل ہوا تھا۔ اس لیے پوری صحت کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سورت اسی سال نازل ہوئی تھی اور یہ وہی سال تھا جس میں ہجرت حبشہ واقعہ ہوئی۔
تاریخی پس منظر
جو پیشین گوئی اس سورت کی ابتدائی آیات میں کی گئی ہے، وہ قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رسولِ برحق ہونے کی نمایاں ترین شہادتوں میں سے ایک ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان تاریخی واقعات پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالی جائے جو ان آیات سے تعلق رکھتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت سے 8 سال پہلے کا واقعہ ہے کہ قیصرِ روم ماریس (Mauric) کے خلاف بغاوت ہوئی اور ایک شخص فوکاس (Phocas) تختِ سلطنت پر قابض ہو گیا۔ اس شخص نے پہلے تو قیصر کی آنکھوں کے سامنے اس کے پانچ بیٹوں کو قتل کرایا، پھر خود قیصر کو قتل کراکے باپ بیٹوں کے سر قسطنطنیہ میں برسرِ عام لٹکوادیے اور اس کے چند روز بعد اس کی بیوی اور تین لڑکیوں کو بھی مروا ڈالا۔ اس واقعے سے ایران کی ساسانی سلطنت کے بادشاہ خسرو پرویز کو روم پر حملہ آور ہونے کے لیے بہترین اخلاقی بہانہ مل گیا۔ قیصر ماریس اس کا محسن تھا۔ اسی کی مدد سے پرویز کو ایران کا تخت نصیب ہوا تھا۔ اسے وہ اپنا باپ کہتا تھا۔ اس بنا پر اس نے اعلان کیا کہ میں غاصب فوکاس سے اس ظلم کا بدلہ لوں گا جو اس نے میرے مجازی باپ اور اس کی اولاد پر ڈایا ہے۔ 603ء میں اس نے سلطنت روم کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور چند سال کے اندر وہ فوکاس کی فوجوں کو پے در پے شکستیں دیتا ہوا ایک طرف ایشیائے کوچک میں ایڈیسا (موجودہ اورفا) تک اور دوسری شام میں حلب اور انطاکیہ تک پہنچ گیا۔ روم کے اعیانِ سلطنت یہ دیکھ کر کہ فوکاس ملک کو نہیں بچا سکتا، افریقا کے گورنر سے مدد کے طالب ہوئے۔ اس نے اپنے بیٹے ہرقل (Heraclius) کو ایک طاقت ور بیڑے کے ساتھ قسطنطنیہ بھیج دیا۔ اس کے پہنچتے ہی فوکاس معزول کر دیا گیا، اس کی جگہ برقل قیصر بنایا گیا اور اس نے بر سر اقتدار آکر فوکاس کے ساتھ وہی کچھ کیا جو اس نے ماریس کے ساتھ کیا تھا۔ یہ 610ء کا واقعہ ہے اور یہ وہی سال ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے تھے۔
خسرو پرویز نے جس اخلاقی بہانے کو بنیاد بنا کر جنگ چھیڑی تھی، فوکاس کے عزل و قتل کے بعد وہ ختم ہو چکا تھا۔ اگر واقعی اس کی جنگ کا مقصد غاصب فوکاس سے اس کے ظلم کا بدلہ لینا ہوتا تو اس کے مارے جانے پر اسے نئے قیصر سے صلح کر لینی چاہیے تھی۔ مگر اس نے پھر بھی جنگ جاری رکھی اور اب اس جنگ کو اس نے مجوسیت اور مسیحیت کی مذہبی جنگ کا رنگ دیا۔ مسیحیوں کے جن فرقوں کو رومی سلطنت کے سرکاری کلیسا نے ملحد قرار دے کر سالہا سال سے تختۂ ستم بنا رکھا تھا (یعنی نسطوری اور یعقوبی وغیرہ) ان کی ساری ہمدردیاں بھی مجوسی حملہ آوروں کے ساتھ ہو گئیں۔ اور یہودیوں نے بھی مجوسیوں کا ساتھ دیا، حتیٰ کہ خسرو پرویز کی فوج میں بھرتی ہونے والے یہودیوں کی تعداد 26 ہزار تک پہنچ گئی۔
ہرقل اس سیلاب کو نہ روک سکا۔ تخت نشین ہوتے ہی پہلی اطلاع جو اسے مشرق سے ملی وہ انطاکیہ پر ایرانی قبضے کی تھی۔ اس کے بعد 613ء میں دمشق فتح ہوا۔ پھر 613ء میں بیت المقدس پر قبضہ کرکے ایرانیوں نے مسیحی دنیا پر قیامت ڈھا دی۔ 90 ہزار مسیحی اس شہر میں قتل کیے گئے۔ ان کا سب سے مقدس کلیسا کینستہ القیامہ (Holy Sepulchre) برباد کر دیا گیا۔ صلیب اعظم، جس کے متعلق مسیحیوں کا عقیدہ تھا کہ اس پر مسیح نے جان دی تھی، مجوسیوں نے چھین کر مدائن پہنچا دی۔ لاٹ پادری زکریاء کوبھی وہ پکڑ لے گئے اور شہر کے تمام بڑے بڑے گرجوں کو انھوں نے مسمار کر دیا۔ اس فتح کا نشہ جس بری طرح خسرو پرویز پر چڑھا تھا اس کا اندازہ اس خط سے ہوتا ہے جو اس نے بیت المقدس سے ہرقل کو لکھا تھا۔ اس میں وہ کہتا ہے:
” | سب خداؤں سے بڑے خدا، تمام روئے زمین کے مالک خسرو کی طرف سے اس کے کمینے اور بے شعور بندے ہرقل کے نام،
تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسا ہے، کیوں نہ تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے بچا لیا؟ |
“ |
اس فتح کے بعد ایک سال کے اندر اندر ایرانی فوجیں اردن، فلسطین اور جزیرہ نمائے سینا کے پورے علاقے پر قابض ہو کر حدود مصر تک پہنچ گئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکۂ معظمہ میں ایک اور اس سے بدرجہا زیادہ تاریخی اہمیت رکھنے والی جنگ برپا تھی۔ یہاں توحید کے علمبردار سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں اور شرک کے پیروکار سرداران قریش کی رہنمائی میں ایک دوسرے سے بر سر جنگ تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ 615ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حبش کی مسیحی سلطنت میں (جو روم کی حلیف تھی) پناہ لینی پڑی۔ اس وقت سلطنت روم پر ایران کے غلبے کا چرچا ہر زبان پر تھا۔ مکے کے مشرکین اس پر بغلیں بجا رہے تھے اور مسلمانوں سے کہتے تھے کہ دیکھو ایران کے آتش پرست فتح پا رہے ہیں اور رومی و رسالت کے ماننے والے مسیحی شکست پر شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اس طرح ہم عرب کے بت پرست بھی تمھیں اور تمھارے دین کو مٹا کر رکھ دیں گے۔
ان حالات میں قرآن مجید کی یہ سورت نازل ہوئی اور اس میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ "قریب کی سرزمین میں رومی مغلوب ہو گئے ہیں، مگر اس مغلوبیت کے چند سال کے اندر ہی وہ غالب آجائیں گے اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی دی ہوئی فتح سے اہل ایمان خوش ہو رہے ہوں گے"۔ اس میں ایک کی بجائے دو پیشین گوئیاں ہیں۔ ایک یہ کہ رومیوں کو غلبہ نصیب ہوگا۔ دوسری یہ کہ مسلمانوں کو بھی اسی زمانے میں فتح حاصل ہوگی۔ بظاہر دور دور تک کہیں اس کے آثار موجود نہ تھے کہ ان میں سے کوئی ایک پیشین گوئی چند سال کے اندر پوری ہو جائے گی۔ ایک طرف مٹھی بھر مسلمان تھے جو مکے میں مارے اور کھدیڑے جا رہے تھے اور اس پیشین گوئی کے بعد بھی آٹھ سال تک ان کے لیے غلبہ و فتح کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا۔ دوسری طرف روم کی مغلوبیت روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ 619ء تک پورا مصر ایران کے قبضے میں چلا گیا اور مجوسی فوجوں نے طرابلس کے قریب پہنچ کر اپنے جھنڈے گاڑ دیے۔ ایشیائے کوچک میں ایرانی فوجیں رومیوں کو مارتی دباتی باسفورس کے کنارے تک پہنچ گئیں اور 617ء میں انھوں نے عین قسطنطنیہ کے سامنے خلقدون (Chalcedon موجودہ قاضی کوئی) پر قبضہ کر لیا۔ قیصر نے خسرو کے پاس ایلچی بھیج کر نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کی کہ میں ہر قیمت پر صلح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ مگر اس نے جواب دیا کہ "اب میں قیصر کو اس وقت تک امان نہ دوں گا جب تک وہ پا بہ زنجیر میرے سامنے حاضر نہ ہو اور اپنے خدائے مصلوب کو چھوڑ کر خداوندِ آتش کی بندگی نہ اختیار کر لے"۔ آخر کار قیصر اس حد تک شکست خوردہ ہو گیا کہ اس نے قسطنطنیہ چھوڑ کر قرطاجنہ (Carthage موجودہ تیونس) منتقل ہو جانے کا ارادہ کر لیا۔ غرض انگریز مؤرخ گبن کے بقول :
"قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کے بعد بھی سات آٹھ برس تک حالات ایسے تھے کہ کوئی شخص یہ تصور تک نہ کر سکتا تھا کہ رومی سلطنت ایران پر غالب آجائے گی، بلکہ غلبہ تو درکنار اس وقت تو کسی کو یہ امید بھی نہ تھی کہ اب یہ سلطنت زندہ رہ جائے گی"۔[1]
قرآن کی یہ آیات جب نازل ہوئیں تو کفار مکہ نے ان کا خوب مذاق اڑایا اور ابی بن خلف نے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے شرط باندھی کہ اگر تین سال کے اندر رومی غالب آ گئے تو دس اونٹ میں دوں گا ورنہ دس اونٹ تم کو دینے ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس شرط کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا قرآن میں فی بضع سنین کے الفاظ آئے ہیں اور عربی زبان میں بضع کا اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے ہے، اس لیے دس سال کے اندر کی شرط کرو اور اونٹوں کی تعداد بڑھا کر سو کردو۔ چنانچہ حضرت ابوبکر نے ابی سے پھر بات کی اور نئے سرے سے یہ شرط طے ہوئی کہ دس سال کے اندر فریقین میں سے جس کی بات غلط ثابت ہوگی وہ سو اونٹ دے گا۔
622ء میں ادھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہجرت کرکے مدینۂ طیبہ تشریف لے گئے اور ادھر قیصر ہرقل خاموشی کے ساتھ قسطنطنیہ سے بحیرۂ اسود کر راستے طرابزون کی طرف روانہ ہوا جہاں اس نے ایران پر پشت سے حملہ کرنے کی تیاری کی۔ اس جوابی حملے کی تیاری کے لیے قیصر نے کلیسا سے روپیہ مانگ اور مسیحی کلیسا کے اُسُقفِ اعظم سرجیس (Sergius) نے مسیحیت کو مجوسیت سے بچانے کے لیے گرجاؤں کے نذرانوں کی جمع شدہ دولت سود پر قرض دی۔ ہرقل نے اپنا حملہ 623ء میں آرمینیا سے شروع کیا اور دوسرے سال 624ء میں اس نے آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقامِ پیدائش ارمیاہ (Clorumia) کو تباہ کر دیا اور ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ خدا کی قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ یہی وہ سال تھا جس میں مسلمانوں کو جنگ بدر میں مشرکین کے مقابلے میں فیصلہ کن فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح وہ دونوں پیشین گوئیاں جو سورۂ روم میں کی گئی تھیں، دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے بیک وقت پوری ہوگئیں۔
پھر روم کی فوجیں ایرانیوں کو مسلسل دبانی چلی گئیں۔ نینوا کی فیصلہ کن لڑائی (627ء) میں انھوں نے سلطنت ایران کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد شاہان ایران کی قیام گاہ دست گرد (دسکرۃ الملک) کو تباہ کر دیا گیا اور آگے بڑھ کر ہرقل کے لشکر عین طیفون (Ctesiphon) کے سامنے پہنچ گئے جو اس وقت ایران کا دار السلطنت تھا۔ 628ء میں خسرو پرویز کے خلاف گھر میں بغاوت رونما ہوئی۔ وہ قید کیا گیا، اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے 18 بیٹے قتل کر دیے گئے اور چند روز بعد وہ خود قید کی سختیوں سے ہلاک ہو گیا۔ یہی سال تھا جس میں صلح حدیبیہ واقع ہوئی جسے قرآن "فتحِ عظیم" کے نام سے تعبیر کرتا ہے اور یہی سال تھا جس میں خسرو کے بیٹے قباد ثانی نے تمام رومی مقبوضات سے دستبردار ہو کر اور اصلی صلیب واپس کرکے روم سے صلی کرلی۔ 629ء میں قیصر "مقدس صلیب" کو اس کی جگہ رکھنے کے لیے خود بیت المقدس گیا اور اسی سال نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عمرۃ القضا ادا کرنے کے لیے ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔
اس کے بعد کسی کے لیے بھی اس امر میں شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہی کہ قرآن کی پیشین گوئی بالکل سچی تھی۔ عرب کے بکثرت مشرکین اس پر ایمان لے آئے۔ ابی بن خلف کے وارثوں کو ہار مان کر شرط کے اونٹ ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے حوالے کرنے پڑے۔ وہ انھیں لے کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے حکم دیا کہ انھیں صدقہ کر دیا جائے کیونکہ شرط اس وقت ہوئی تھی جب شریعت میں جوئے کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا، مگر اب حرمت کا حکم آ چکا تھا، اس لیے حربی کافروں سے شرط کا مال تو لے لینے کی اجازت دے دی گئی مگر ہدایت کی گئی کہ اسے خود استعمال کرنے کی بجائے صدقہ کر دیا جائے۔
موضوع اور مضمون
اس سورت میں کلام کا آغاز اس بات سے کیا گیا ہے کہ آج رومی مغلوب ہو گئے ہیں اور ساری دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ سلطنت کا خاتمہ قریب ہے، مگر چند سال نہ گذرنے پائیں گے کہ پانسا پلٹ جائے گا اور جو مغلوب ہے وہ غالب ہو جائے گا۔
اس تمہید سے یہ مضمون نکل آیا کہ انسانی اپنی سطح بینی کی وجہ سے وہی کچھ دیکھتا ہے جو بظاہر اس کی آنکھوں کو سامنے ہوتا ہے، مگر اس ظاہر کے پردے کے پیچھے جو کچھ ہے اس کی اسے خبر نہیں ہوتی۔ یہ ظاہر بینی جب دنیا کے ذرا ذرا سے معاملات میں غلط فہمیوں اور غلط اندازوں کی موجب ہوتی ہے اور جبکہ محض اتنی سی بات نہ جاننے کی وجہ سے کہ "کل کیا ہونے والا ہے" آدمی غلط تخمینے لگا بیٹھتا ہے، تو پھر بحیثیت مجموعی پوری زندگی کے معاملے میں ظاہر حیاتِ دنیا پر اعتماد کر بیٹھنا اور اسی کی بنیاد پر اپنے پورے سرمایۂ حیات کو داؤ پر لگا دینا کتنی بڑی غلطی ہے۔
اس طرح روم و ایران کے معاملے سے تقریر کا رخ آخرت کے مضمون کی طرف پھر جاتا ہے اور مسلسل تین رکوعوں تک طریقے طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آخرت ممکن بھی ہے، معقول بھی ہے، اس کی ضرورت بھی ہے اور انسانی زندگی کے نظام کو درست رکھنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ آدمی آخرت کا یقین رکھ کر اپنی موجودہ زندگی کا پروگرام اختیار کرے، ورنہ وہی غلطی واقع ہوگی جو ظاہر پر اعتماد کر لینے سے واقع ہوا کرتی ہے۔
اس سلسلے میں آخرت پر استدلال کرتے ہوئے کائنات کے جن آثار کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے، وہ بعینہ وہی آثار ہیں جو توحید پر بھی دلالت کرتے ہیں۔ اس لیے چوتھے رکوع کے آغاز سے تقریر کا رخ توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کی طرف پھر جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ انسان کے لیے فطری دین اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ بالکل یکسو ہو کر خدائے واحد کی بندگی کرے۔ شرط فطرتِ کائنات اور فطرت انسان کے خلاف ہے، اسی لیے جہاں بھی انسان نے اس گمراہی کو اختیار کیا ہے وہاں فساد رونما ہوا ہے۔ اس موقع پر پھر اس فسادِ عظیم کی طرف،جو اس وقت دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتوں کے درمیان جنگ کی بدولت برپا تھا، اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ فساد بھی شرک کے نتائج میں سے ہے اور پچھلی انسانی تاریخ میں بھی جتنی قومیں مبتلائے فساد ہوئی ہیں وہ سب بھی مشرک ہی تھیں۔
خاتمۂ کلام پر تمثیل کے پیرایہ میں لوگوں کو سمجھایا گیا ہے جس طرح مردہ پڑی ہوئی زمین خدا کی بھیجی ہوئی بارش سے یکایک جی اٹھتی ہے اور زندگی و بہار کے خزانے اگلنے شروع کر دیتی ہے، اسی طرح خدا کی بھیجی وحی و نبوت بھی مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے حق میں ایک بارانِ رحمت ہے جس کا نزول اس کے لیے زندگی اور نشو و نما اور خیر و فلاح کا موجب ہوتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ گے تو یہی عرب کی سونی زمین رحمت الٰہی سے لہلہا اٹھے گی اور ساری بھلائی تمھارے اپنے لیے ہی ہوگی۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے، پھر پچھتانے کا کچھ حاصل نہ ہوگا اور تلافی کا کوئی موقع تمھیں میسر نہ آئے گا۔
حوالہ جات
- ↑ Gibbon, Decline and Fall of the Roman Empire, Vol. II, p, 788, Modern Library, New York.