مندرجات کا رخ کریں

1924ء کی بالی ووڈ فلموں کی فہرست

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

1924ء کی بالی ووڈ فلموں کی فہرست حسب ذیل ہے۔[1][2][3][4][5][6]

1924ء میں بھارتی فلمی صنعت

[ترمیم]

خبریں اور نکات

[ترمیم]
  • 31 جولائی 1924ء، کو مدراس پریزیڈنسی ریڈیو کلب میں بھارتی تاریخ میں پہلی بار ریڈیو پروگرام نشر ہوا۔ یہ اسٹیشن تین سال تک قائم رہا۔[7][8]
  • بنگالی اداکار دھیریندر ناتھ گنگولی نے اس سال حیدرآباد میں قائم اپنے اسٹوڈیو لوٹس فلم کمپنی کے زیر اہتمام نانو بھائی ڈیسائی اور بھگوتی پرساد مشرا (بی پی مشرا) کے ساتھ فلم رضیہ بیگم بنائی، فلم کی کہانی ایک مسلمان شہزادی کے بارے میں تھی جو ایک ہندو شخص کی محبت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اس فلم پر نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم نے ناراض ہوکر دھیریندر ناتھ گنگولی کو حیدرآباد سے نکل جانے کا حکم دیا۔[8]
  • 1924ء میں کئی مشہور اداکارو ں نے اپنے فلمی کیرئیر کی شروعات کی جن میں ماسٹر وٹھل جو فلم کلیان کھجینا میں نظر آئے، ماسٹر وٹھل 1931ء کی ہندوستان کی پہلی بولتی فلم عالم آرا کے ہیرو بھی رہے۔ اس سال فلم اسٹار خلیل نے بھی فلم کالاناگ اور گُل بکاؤلی سے اداکاری کی ابتدا کی۔ خلیل کا شمار ہندوستانی سینما کے اولین مقبول ہیرو میں ہوتا ہے۔
  • اس سال نانو بھائی ڈیسائی نے اپنے اسٹوڈیو سرسوتی فلمز اور مانیک لال پٹیل نے اپنے اسٹوڈیو کرشنا فلمز کی بنیاد رکھی۔ پنجابی فلموں کے بانی روشن لال شوری نے لاہور میں کملا مووی ٹون اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، جو بعد میں پنجاب اسٹوڈیو اور پھر شاہ نور اسٹوڈیو میں تبدیل ہو گیا۔[8]
  • 1924ء میں سینما کے متعلق ہندوستان کا پہلا میعادی جریدہ (میگزین) گجراتی زبان میں موج مجا کے نام سے شایع ہونا شروع ہوا۔ اس رسالہ کے مدیر جے کے دیویدی تھے۔ ہیمندر کمار رائے اور پریم انکور اتورتھی نے ناچ گھر کے نام سے بنگالی ہفت روزہ میگزین کی ابتدا کی جس میں تھیٹر، آرٹ اور فلم کے موضوع پر مضامین شایع ہوتے تھے۔[8]

بھارتی فلمی صنعت میں پیدائش

[ترمیم]

جنوری تا اپریل

[ترمیم]
  • ہنسا واڈکر: پیدائش 24 جنوری 1924ء، ہندی اور مراٹھی فلموں کی اداکارہ۔ ہندی فلم کروکشیتر، نوجوان، ماڈرن یوتھ، شین لگنا، درگا، نو جیون، گنہگار، آزاد، اپنا پرایا، سنت سکھو، دل لگی، رام شاستری، میں کیا کروں، دھنیاواد، مائی سن، دھن والے اور سینٹ جنابائی میں اداکاری کی، مراٹھی فلموں میں رام شاستری، لوک شاعر رام جوشی، پڑچا پھول، شلنگانا چہ سونے، نیکی نی چہ سزا، ماتیون بل، سنگتے ایکا نامی فلموں میں کام کیا، انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس پر 1977ء میں بھومیکا (نصیر الدین شاہ، سمیتا پاٹل، امول پالیکر) نامی ہندی فلم بنی۔[9]
  • پی کیلاش : پیدائش 3 فروری 1924ء، ہندی فلموں کے معروف اداکار۔ ہندی فلم شیریں ف رہا د (1956ء ) میں خسرو پرویز کے کردار سے جانے جاتے ہیں۔ دیگر ہندی فلموں میں جے ہنومان، بھولے پیا، پاپی، فٹ پاتھ، بہت دن ہوئے، آبِ حیات، پرستان، بلیک کیٹ، چاند کی دنیا، ہیرا موتی، میں نے جینا سیکھ لیا، رستم سہراب، ہریش چندر تارامتی، ہالی ڈے ان بمبئی، لیڈر، ہرکولیس، گوپال کرشنا، غبن، لو اینڈ مرڈر، پکنک، پائل کی جھنکار، نادر شاہ، تھیف آف بغداد میں کام کیا، اس کے علاوہ راجھستانی فلم باباسا ری لاڑی اور سنسکرت و بھوجپوری فلم گوسوامی تلسی داس میں اداکاری کی۔[10]
  • طلعت محمود  : پیدائش 24 فروری 1924ء، ہندی فلموں کے لیجنڈ گلوکار، بطور اداکار راج لکشمی، تم اور میں، آرام، دلِ نادان، ڈاک بابو، وارث، رفتار، دیوالی کی رات، ایک گاؤں کی کہانی، لالہ رخ، سونے کی چڑیا اور مالک نامی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ بطور گلوکار دیوداس، بوٹ پالش، حقیقت، ٹیکسی ڈرائیور، بابُل، سزا، ترانہ، نادان، مدہوش، سنگدل، داغ، انوکھی، فٹ پاتھ، بارہ دری، سجاتا، ایک پھول چار کانٹے، پریم پتر جیسی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ان کے یادگار گیتوں میں ’جائیں تو جائیں کہاں ‘، ’جلتے ہیں جس کے لیے ‘، ’ اے غمِ دل کیا کروں ‘، ’پھر وہی شام وہی غم‘، ’پیار پر بس تو نہیں ‘، ’میرا پیار مجھے لوٹا دو ‘، ’ شامِ غم کی قسم ‘، ’حسن والوں کو‘، ’یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی ‘، ’تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی‘، ’تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘، ’میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا‘، ’‘، ’اے میرے دل کہیں اور چل‘، ’سینے میں سلگتے ہیں ارمان، ‘، ’اتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا‘، ’راہی متوالے ‘، ’زندگی دینے والے سُن‘، ’دیکھ لی تیری خدائی‘، ’ہم درد کے ماروں کا‘، ’اندھے جہاں کے اندھے راستے ‘، ’کوئی نہیں میرا اس دنیا میں ‘، ’ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا‘، ’دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ‘، ’نبے چین نظر بے تاب جگر‘، ’آئی جھومتی بہار‘، ’ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا‘، وغیرہ شامل ہیں۔[11]
  • گلشن رائے : پیدائش 2 مارچ 1924ء، ہندی فلموں کے معروف فلمساز۔ ہدایتکار راجیو رائے کے والد، اداکارہ سونم کے سسر۔ بطور پروڈیوسر، جونی میرا نام، جوشیلا، دیوار، ڈریم گرل، ترشول، ودھاتا، یدھ، تری دیو، وشواتما، مہرہ، گُپت اور پیار عشق اور محبت نامی فلمیں بنائیں۔[12]
  • اتپل سین : پیدائش 12 مارچ 1924ء، ہندی اور بنگالی فلموں کے موسیقار۔ ہندی فلم میری بہن، بابُلا کے علاوہ انجان گڑھ، دگبھرنتا، جے دیو، کلندی، شری بتشا چنتا، دانر مریادا، بچارک سمیت کئی بنگالی فلموں میں موسیقی دی۔[13]
  • پی بھاسکرن  : پیدائش 21 اپریل 1924ء، ملیالم فلموں کے ہدایت کار۔ بطور ہدایت کار 50 فلمیں بنائیں جن میں نیلاک کوئل، شری کرشنا پرانتھو، کالی چلّما اور آرکلّن موکلّن مقبول رہیں۔ چند ملیالم فلموں میں بطور کریکٹر آرٹسٹ بھی کام کیا۔[14]
  • نارائن سانیال : پیدائش 26 اپریل 1924ء، ہندی اور بنگالی فلموں کے لکھاری و کہانی نویس۔ ہندی فلم ستیہ کام (1969ء، دھرمندر، راجیوکمار، شرمیلا ٹیگور) کے علاوہ بنگالی فلم جدی جنتم، اشلیلتر دائی، نیلمائے نیل اور گجامکتا کی کہانی لکھی۔[15]
  • ایم راجن (راجن لال ملہوترا): پیدائش 27 اپریل 1924ء، ہندی فلموں کے اداکار، فلمساز روشن لال ملہوترا کے بھائی، بطور ہیرو ان کی مشہور فلموں میں سہارا، شعلہ اور شبنم، سہرا، ففٹی ففٹی، شامل ہیں جبکہ زنجیر، سلاخیں، رفوچکر، ہمالیہ سے اونچا، عدالت، انکار، سہاگ، پروفیسر پیارے لال، گھمنڈی، دیش پریمی، دھرم کانٹا اور کئی دیگر فلموں میں کریکٹر آرٹسٹ رہے۔ فلم زنجیر میں امیتابھ بچن اور دھرم کانٹا میں راجیش کھنہ کے والد کا کردار بخوبی نبھایا۔[16]

مئی تا اگست

[ترمیم]
فائل:K. Asif (1924 – 1971).jpg
کے آصف (1924ء تا 1971ء)
  • کے آصف (آصف کریم) : پیدائش 14 جون 1924ء، ہندی فلموں کے معروف فلمساز و ہدایتکار جو 1960ء میں بنی تاریخی فلم مغل اعظم کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فلم پھول(1945ء)، ہلچل (1951ء)، لو اینڈ گاڈ نامی فلموں بنائیں۔[17]
  • اے بھیم سنگھ : پیدائش 15 جولائی 1924ء، ہندی، تمل، تیلگو، ملیالم، کنڑا فلموں کے ہدایتکار و کہانی نویس، بطور ہدایت کار ہندی فلموں میں گوپی، آدمی، لوفر، مہربان، میں چپ رہوں گی، جورو کا غلام، خاندان، سادھو اور شیطان، نیا دن نئی رات، بھائی بہن، پوجا کے پھول، گوری، یاروں کے یار، راکھی، مالک، سب کا ساتھی، آئی پھر سے بہار، دیا کا ساگر بنائی۔ تمل فلموں میں کلاتھر کنمّا، پالم پازھامم، پاوا منِّپّو، پسمالار، بھاگا پریونے، پڈکدھا میڈھائی، سادھو مراندال مقبول رہیں۔ ان کی کئی تمل اور ہندی فلموں کو تیلگو، ملیالم اور کنڑا زبان میں دوبارہ بنایا گیا۔[18]
  • ایم ایس ریڈی (ملامما سندر رامی ریڈی): پیدائش 15 اگست 1924ء، تیلگو فلموں کے فلمساز۔ بطور فلمساز تیلگو فلم تھاتھیا پریم لیلالو، پلنتی سمہم اور رامائنم بنائی۔ بطور اداکار تیلگو فلم انکُشم میں چیف منسٹر کا کردار نبھایا۔[19]

ستمبر تا دسمبر

[ترمیم]
  • سچترا مترا : پیدائش 19 ستمبر 1924ء، بنگالی فلموں کی گلوکارہ و اداکارہ۔ بطور گلوکارہ، بنگالی فلم اننیا، بھالوباشا، کابلی والا اور دیش میں گیت گائے اور ہندی فلم دہن (1998ء) میں اداکاری بھی کی۔[20]
  • نذیر حسین: پیدائش 1 اکتوبر 1924ء، بھارتی فلمی اداکار، ہدایت کار اور منظر نویس تھے۔ ہندی اور بھوجپوری فلموں میں کام کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں صاحب بی بی اور غلام، دیوداس، نیادور، دو بیگھہ زمین، پاری نیتا، بمبئی کا بابو، گنگا جمنا، لیڈر، پرکھ، کشمیر کی کلی، انوراگ، میرے جیون ساتھی، رام اور شیام، جیول تھیف، امر اکبر انتھونی، پے انگ گیسٹ، کٹی پتنگ، مزدو، دھرم کانٹا، برننگ ٹرین، چرس، پاکٹ مار، بمبے ٹو گوا اور کئی دیگر فلمیں شامل ہیں۔ بھوجپوری سینما کی نشو و نما میں اہم کردار ادا کیا اور پہلی بھوجپوری فلم ’’گنگا میا تو ہے پیاری چادہائی بو‘‘ بنائی، دیگر بھوجپوری فلموں میں بالم پردیسیا، لاگی نہیں چھوٹے رام، چٹکی بھر سینور، محبت زندگی مقبول ہیں۔[21]
  • تپن سنہا : پیدائش 2 اکتوبر 1924ء، ہندی اور بنگالی فلموں کے لکھاری، نغمہ نویس اور ہدایت کار۔ مشہور ہندی فلم باورچی کی کہانی لکھی، اس کے علاوہ ہندی فلموں میں ایک ڈاکٹر کی موت، دیدی، سگینہ، سفید ہاتھی، زندگی زندگی، آج کا روبن ہُڈ، آدمی اور عورت، انوکھا موتی، ڈاٹر آف دِس سینچری، ہٹے بازارے اور بنگالی فلموں میں کابلی والا، کلامتی، امر دیش، آروہی، اتیتھی، گلپا ہوئلو ساتیے، ہارمونیم، ابھیمنیو، وھیل چئیر اور دیگر فلمیں بنائیں۔[22]
  • کنیکا بینرجی : پیدائش 12 اکتوبر 1924ء، بنگالی فلموں کی گلوکارہ۔ آل انڈیا ریڈیو پر گیت گائے، بطور گلوکارہ، بنگالی فلم نمنترن اور بگلیتو کروُنا جنہابے جمنا میں گیت گائے۔[23]
  • راجہ نواتھے : پیدائش 14 اکتوبر 1924ء، ہندی فلموں کے معروف فلمساز و ہدایتکار۔ بطور اسسٹنٹ ہدایت کار راج کپور کی فلم آگ، برسات اور آوارہ میں کام کیا، بطور ہدایت کار آہ، بسنت بہار، سوہنی ماہیوال، گمنام، پتھر کے صنم، بھائی بھائی اور منچلی نامی فلمیں بنائیں۔[24]
  • ہرسکھ جگنیشور بھٹ : پیدائش 24 اکتوبر 1924ء، ہندی فلموں کے ہدایتکار۔ معروف ہدایت کار وجے بھٹکے بھائی۔ بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنے بھائی وجے بھٹ کی مقبول فلم بیجو باورہ (بھارت بھوشن، مینا کماری) میں کام کیا۔ بطور ہدایت کار، نو لکھا ہار، تلسی داس، جے شری، چھوٹے بابو، بل یوگی اپمنیو، سمراٹ پرتھوی راج چوہان، ریشمی رومال، پیاسے پنچھی، دیپک، کتے کی کہانی، لمبو ان ہانگ کانگ، ہولی آئی رے، ویر چھترسال اور گائتری ماہیما نامی ہندی فلمیں بنائیں۔[25]
  • سوریا کانتم  : پیدائش 28 اکتوبر 1924ء، تیلگو فلموں کے معروف اداکارہ، جو فلموں میں عموماً سنگدل اور کٹھور ساس کے کرداروں سے جانی جاتی ہیں۔ تیلگو فلم مایا بازار، کنڈمّا کتھا، لو کوسا، گووندا گوندا، یمودکی موگدو، نارتھنسلا، یماگولا، کنیا سلکم، متھیالا موگو، اپو چیسی پپو کوڈو، موگا مونسولو، شریمانتھوڈو، رخت سمبندھن، پیلی چیسی چوڈوُ سمیت کئی فلموں میں این ٹی راما راؤ، اکھنینی ناگیشور راؤ، کرشنا گھٹامنینی اور چرن جیوی جیسے لیجنڈ تیلگو اداکاروں کے ساتھ کام کی۔[26]
  • ٹی پرکاش راؤ : پیدائش 24 نومبر 1924ء، ہندی، تیلگو اور تمل فلموں کے معروف ہدایتکار و لکھاری۔ بطور اسسٹنٹ تیلگو فلم پلنتی یدہم، دروہی، منادیشم، شوکر، سنسارم اور تمل فلم پاتال بھیروی میں کام کیا، بطور ہدایت کار 10تمل، 15 تیلگو فلموں کے علاوہ 17 ہندی فلموں کی ہدایت کی جن میں امردیپ، سمتگر، کالج گرل، سسرال، ہمراہی، بہو رانی، بہو بیٹی، سورج، دنیا، عزت، واسنا، ننھا فرشتہ، گھر گھر کی کہانی، رواج، ہمارا سنسار، گنگا بھوانی، کب تک چپ رہوں نامی گھریلو فلمیں شامل ہیں۔[27]
فائل:Raj kapoor.gif
راج کپور (1924ء تا 1988ء)
  • راج کپور  : پیدائش 14 دسمبر 1924ء، ہندوستان کے نامور اداکار، ہدایت کار و فلمساز، ان کی مشہور فلموں میں آوارہ، شری 420، میرا نام جوکر، سنگم، برسات، آگ، جاگتے رہو، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، چوری چوری، انداز، نیل کمل، دل ہی تو ہے اور دھرم کرم قابل ذکر ہیں بطور فلمساز بوبی، ستیم شیوم سندرم، پریم روگ، رام تیری گنگا میلی جیسی فلمیں بنائیں۔[28]
فائل:Muhammed rafi.jpg
محمد رفیع (1924ء تا 1980ء)
  • محمد رفیع  : پیدائش 24 دسمبر 1924ء، ہندی فلموں کے معروف پس پردہ گلوکار، انھوں نے انمول گھڑی، میلہ، انداز، دیدار، بیجو باورہ، دوبیگھا زمین، دیوداس، چوری چوری، پیاسا، کاغذ کے پھول، تیرے گھر کے سامنے، گائیڈ، ارادھنا، ابھیمان، نیا دور، کشمیر کی کلی، مغل اعظم، جنگلی، پروفیسر، چائنا ٹاؤن، تاج محل، میرے محبوب، سنگم، دوستی، وقت، خاندان، جانور، تیسری منزل، میرا سایہ، دل دیا درد لیا، کھلونا، دوستانہ، پاکیزہ، کاروان، لیلیٰ مجنوں سمیت تقریباً ہزار کے قریب فلموں میں گیت گائے، ان کے یادگار گیتوں میں ’کیا ہوا تیرا وعدہ‘، ’بہاروں پھول برساؤ‘، ’لکھے جو خط تجھے ‘، ’چُرا لیا ہے تم نے جو دل کو‘، ’تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے ‘، ’دل کے جھرکوں پے تجھ کو بٹھا کے ‘، ’چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے ‘، ’چودھویں کا چاند ہو‘، ’بابل کی دعائیں لیتی جا‘، ’تعریف کروں کیا اس کی‘، ’چاہوں گا میں تمھیں سانجھ سویرے ‘، ’یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں ‘، ’تیری آنکھوں کے سوا‘، ’چھپ گئے سارے نظارے ‘، ’پردہ ہے پردہ ‘، ’او میری محبوبہ‘، ’یہ ریشمی زلفیں ‘، ’آنکھوں ہی آنکھوں میں ‘، ’اٹھرا برس کی تو‘، ’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘، ’تجھے جیون کی ڈور سے ‘، ’یونہی تم مجھ سے بات کرتی ہو‘، ’مجھے تیری محبت کا سہارا‘، ’بھری دنیا میں آخر دل کو سمجھانے ‘، ’آدمی مسافر ہے ‘، ’میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے ‘، ’رم جہم کے گیت ساون گائے ‘، ’یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں ‘، ’آجا تجھ کو پکارے میرے گیت‘، ’سہانی رات ڈھل چکی‘، ’زندہ باد زندہ باد اے محبت‘، ’تمھاری نظر کیوں خفا ہو گئی‘، ’تیری دنیا سے دور‘، ’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘، ’میرے متوا میرے میت رے ‘، ’میرے پیار کی آواز پے چلی آنا‘، ’وعدہ کرلے ساجنا‘، ’یہ چاند سا روشن چہرہ‘، ’اکیلے اکیلے کہاں جا رہے ہو‘، ’ایسا موقع پھر کہاں ملے گا‘، ’آنے سے اس کے آئے بہار‘، ’خوش رہے تو سدا‘، ’بار بار دیکھو‘، ’باغوں میں بہار ہے ‘، ’ہوئے ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے ‘، ’میرے دوست قصہ یہ ‘، ’سلامت رہے دوستانہ‘، وغیرہ شامل ہیں۔[29]

مقبول فلمیں

[ترمیم]

گُل ِ بکاؤلی

[ترمیم]

گل بکاولی سب سے زیادہ کامیاب خاموش فلموں میں سے ایک ہے۔ گل بکاولی ایک فارسی مثنوی ہے، [30] جس کے تخلیق کار دیا شنکر نسیمہیں۔ اس کہانی کو کئی لوگوں نے بھی پیش کیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے نہال چند لاہوری نے اپنی کتاب مذہب عشق کے ذریعے ہندوستان میں متعارف کروایا، اس کے علاوہ انیسویں صدی کے عزت علی بنگالی نے جان گلکرسٹ کے ساتھ اس کا ترجمہ کیا۔ اس کی کہانی مختصراً یہ ہے کہ ایک پری بکاولی (زبیدہ)ہے جس کے پاس ایک کراماتی پھول (گُل)ہے جو شفایابی طاقتوں کے لیے جانا جاتا ہے اور مشرق کا شہزادہ تاج الملوک (خلیل) اپنے باپ کے اندھے پن کا علاج کرنے کے لیے پریوں کی شہزادی بکاولی کے باغ سے پھول چرالیتا ہے۔ بکاولی اپنے پھول کی تلاش میں نکلتی ہے لیکن شہزادے کو دیکھ کرپہلی ہی نظر میں اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ بکاولی کی ماں اپنی بیٹی کو ایک آدم زاد کے ساتھ پاکر آگ بگولا ہو جاتی ہے اور شہزادے کو زیرِ زمین قید کر دیتی ہے۔ لیکن شہزادی کی وفادارسہیلی دلبر کی وجہ سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اورآخر میں تاج الملوک اور بکاولی کی شادی ہو جاتی ہے۔ گل بکاؤلی پریوں اور جادو کے موضوع ہر ہندوستان کی پہلی تخیلاتی اور افسانوی فلم تھے، اس داستان پر پہلی بار فلم 1924 ء میں بنائی گئی۔ پھر 1965 میں ہدایت کار دھلرو بھائی ڈیسائی نے پرستان کے نام سے، 1955 ء میں اداکار ایم جی رامچندرن کی تمل فلم، 1962ء میں این ٹی راما راؤ کی تیلگو فلم اسی کہانی پر بنائی گئی۔[31]

بسمی سدی (بیسویں صدی)

[ترمیم]

ٕ*بسمی سدی (بیسویں صدی) ہندوستان کی پہلی حقیقت پسندانہ سماجی اور میلو ڈراما فلم تھی، اس فلم کے اداکاروں میں راجا سینڈوز، مس موتی اور نور محمد چارلی شامل تھے جبکہ فلم کے ہدایت کار ہومی ماسٹر اور کہانی نویس موہن لال جی ڈیو تھے۔ فلم کی کہانی سڑک کے ایک خوانچہ فروش دیوداس کی ہے جو اپنی قسمت کی تلاش میں آتا ہے، لیکن ناجائز قبضہ کرکے ایک کپاس مِل کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ انگریزیوں کی سنگت میں وہ غریبوں کے لیے سنگدل اور گھمنڈی بن جاتا ہے اور فیکٹری سے ناجائز منافع کمانے لگتا ہے۔ ایک دن ظلم سے تنگ آکر بعض مشتعل مزدور بغاوت کردیتے ہیں، جس سے اس کی مہربان مشفق بیوی ہیرابائی متاثر ہوتی ہے اور اس کی بیٹی رکمنی کی عزت تار تار کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ فلم کے اختتام پر کپاس مل کا اصل وارث رکمنی کی عزت بچا لیتا ہے اور دیوداس بسترگ مرگ پر اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہے۔[32]

رتناولی (سمندر کی حور)

[ترمیم]

ساتویں صدی عیسوی میں شمالی ہند کے راجا ہرش (ہرش وردھن) کی بطور مصنف لکھی داستان، رتناولی کی کہانی کوشمبھی ریاست کا راجا اُدیانا اور سنہالا (سری لنکا) کی رانی رتناولی کی ہے۔ سنہالا (سری لنکا) کے راجا وکرم باہو کی بیٹی رتناولی کے متعلق جیوتشی بتاتے ہیں کہ اس کی شادی جس سے ہوگی وہ سب سے بڑا بادشاہ بن جائے گا۔ کوشمبھی ریاست کا راجا اُدیانا کا وفادار ملازم یوگیندھریانہ کی خواہش تھی کہ راجا اُدیانا رانی رتناولی سے شادی کرے تاکہ وہ ہند کا سب سے بڑا بادشاہ بن جائے۔ مگر اُدیانا کی رانی وسوادتّا اس بات کے خلاف تھی۔ یوگیندھریانہ نے چپکے یہ سنہالا سلطنت میں راجا اُدیانا کے رشتہ کا پیغام بھیج دیا اور یہ جھوٹی خبر بھی دے دی کہ رانی وسوادتّا محل کی آتشزنی میں جل کر مرگئی۔ سنہالا سلطنت کے راجا وکرم باہو اس رشتہ کو قبول کرلیتا ہے اور رتناولی کو جہاز کے ذریعے کوشمبھی ریاست بھیج دیتا ہے۔ لیکن بیچ سفر میں جہار تباہ ہوکر ڈوب جاتا ہے، رانی رتناولی کو قریب گذرنے والا تجارتی جہاز بچالیتا ہے، اپنی حفاظت کے لیے رانی رتناولی اپنی پہچان چھپالیتی اور ہیادداشت کھونے کا ناٹک کرتی ہے۔ جہاز کوشمبھی ریاست پر لنگر انداز ہوتا ہے تو تاجر اسے شاہی کنیز بناکر بیچ دیتے ہیں۔ جب وہ یوگیندھریانہ کے پاس پہنچتی ہے تو وہ اسے پہچان لیتا ہے اور رانی وسوادتّا کے ڈر سے اسے اپنی پہچان چھپا کر رکھنے کا کہتا ہے اور اس کا نام ساگریکا (سمندر کی حور) رکھتا ہے۔ ساگریکا محل میں رانی وسوادتّا کی ملازمہ بن کر رہنے لگتی ہے۔ ایک تہوار میں وہ اُدیانا اور ساگریکا کی ملاقات ہوتی ہے دونوں ایک دوسرے کی پہچان جانے بغیر ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ ساگریکا کو سہیلی سسنگتا سے اُدیانا کی اصلیت معلوم ہوتی ہے، سُسنگتا دونوں کو ملانے کی کوشش کرتی ہے۔ دونوں مل اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن لیکن رانی وسوادتّا پہنچ جاتی ہے اور ساگریکا کو محل میں قید کروادیتی ہے۔ اگلے روز چند جادوگر تماشا دکھانے آتے ہیں اوراس وقت رانی کے محل میں آف لگ جاتی ہے۔ اُدیانا آگ میں جاکر ساگریکا کو بچ الیتا ہے یہ دیکھ کر رانی وسوادتّا اپنی شرمندہ ہوتی ہے اور معافی مانگتی ہے۔ یوگیندھریانہ آک رساگریکا کی اصل پہچان بتاتا ہے کہ وہی رانی رتناولی ہے۔ یوں اُدیانا اور رتناولی کی شادی ہوجاتی ہے۔

اُوشا سوپنا (اُوشا کا خواب)

[ترمیم]

ہدایت کار آر ایس پرکاش کی فلم اُوشا سوپنا(ترجمہ: اوشا کا خواب) کی کہانی مہابھارت عہد کی ہے۔ دتیاس نامی راکھشس قبیلے کا راجا وانا (واناسُر ) کی ایک خوبصورت بیٹی اُوشا تھی۔ اُوشا کوایک خواب آتا ہے کہ ایک خوبصورت نوجوان اس کے پاس بیٹھا ہے اور اس کے آنکھوں میں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اُشا کو یہ خواب ہر رات آتا تھا اور وہ اس نوجوان سے محبت کرنے لگی تھی۔ مگر وہ جانتی نہیں تھی کہ وہ نوجوان کون ہے۔ اس کی ایک سہیلی چترلیکھا جو وزیر کی بیٹی ہوتی ہے مصوری میں ماہر ہوتی ہے وہ روز اس خواب کے بیان کے مطابق اس نوجوان کی تصویر بنانے کی کوشش کرتی ہے لیکن تصویر صحیح نہیں بن پاتی۔ آخر کار چترلیکھا کوششوں سے ایک تصویر بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جسے دیکھ کر اُوشا کہتی ہے کہ یہ وہ نوجوان نہیں پر اس نوجوان جیسا ہی نظر آتا ہے یہ کون ہے؟ چترلیکھا بتاتی ہے کہ یہ وشنو کے اوتار اور دوارکا کے راجا کرشن کی تصویر ہے۔ چترلیکھا پھر تصویر بناتی ہے جسے دیکھ کر اُوشا کہتی ہے کہ یہ وہ نوجوان نہیں پر اس نوجوان جیسا ہی نظر آتا ہے یہ کون ہے؟چترلیکھا بتاتی ہے کہ یہ دوارکا کے راجا کرشن کے بیٹے پردھیومن کی تصویر ہے۔ چترلیکھا پھر تصویر بناتی ہے جسے دیکھ کر اُوشا کہتی ہے کہ ہاں یہی میرے خوابوں کا نوجوان ہے یہ کون ہے؟چترلیکھا بتاتی ہے کہ کرشن کے پوتے اور پردھیومن کے بیٹے انیرُدھ کی تصویر ہے۔ اوُشا چترلیکھا سے کہتی ہے کہ یہی میرے خوابوں کا شہزادہ ہے اگر یہ نہیں ملا تو میں مرجاؤں گی۔ چترلیکھا اپنی سہیلی کی خواہش پر دوارکا جاتی ہے اور انیرُدھ سے ملتی ہے اور اسے اُوشا اور اس کے خواب کے متعلق بتاتی ہے، انیرُدھ کہتاہے کہ کہیں وہ وہی لڑکی تو نہیں جو روز میرے خوبوں میں آتی ہے۔ چترلیکھا انیرُودھ کو لے کر اپنی ریاست واپس پہنچتی ہے۔ اور چھپا کر راجکماری کے محل میں اسے اُوشا سے ملواتی ہے۔ محل کا ایک شخص یہ دیکھ لیتا ہے اور راجا واناسُر کو بتادیتا ہے۔ واناسُر کی فوج اور انیرُدھ کے درمیان مقابلہ ہوتاہے انیرُدھ بہادری سے مقابلہ کرتا ہے لیکن دھوکا سے اسے باندھ کر قید کرلیاجاتا ہے۔ یہ خبر دوارکا پہنچتی ہے تو کرشن اور کرشن کا بھائی بلرام دتیاس پر فوج کشی کرتا ہے گھمسان جنگ کے بعد راجا واناسُر شکست کھا جاتا ہے اورکرشن، انیرُدھ اور اُوشا کو لے کر واپس دوارکا آتے ہیں جہاں دونوں کی شادی ہوجاتی ہے۔[33] یہ داستان بھگوت پُران میں لکھی ہے۔[34]

سمدرا منتھن

[ترمیم]

سمدرا منتھن فلم کی کہانی وشنو پُران، بھگوت پُران اور مہابھارت میں بیان کی گئی دیومالائی داستان سمدرا منتھن (سمندر مکھن کی طرح بلونے ) ہے۔ اسور کے راجا بلی کے دور حکومت میں راکھشس بہت طاقتور ہو گئے تھے۔ ایسے میں دیوتاؤں کے راجا اندر کو ان کے غصہ کی وجہ سے ایک سادھو درواسا نے بدعا دی۔ جس کی وجہ سے اندر کی سلطنت کمزور پڑنے لگی اور اسور راکھشس اس پر قابض ہو گئے۔ سارے دیوتا وشنو سے مدد مانگنے پہنچے تو وشنو نے کہا کہ تم ان اسوروں سے دوستی کرکے ان کی ہر شرط مان کر اپنا کام نکلواؤ۔ انھوں نے چال چلی اور اسوروں کے راکھشس کو ئ یہ لالچ دیا کی اگر وہ سمندر کو مکھن کی طرح پلوئیں گے تو اس میں سے امرت (آب حیات) ملے گا اور یوں راکھشس جاویداں زندگی پالیں گے۔ اسور راضی ہوجاتے ہیں وہ مندراچل پہاڑ کو متھنی مرکز اور اور ایک بڑے ناگ واسوُکی کو نیتی بناتے ہیں، وشنو اپنے دوسرے اوتار کور یعنی کچھوے کے روپ میں پہاڑ کو پیٹھ پر اٹھا کر اس کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ اسور سمندر کو بلونا شروع کرتے ہیں تو ناگ کا زہر سمند میں مل کر اسے زہریلا کردیتا ہے اور اسور اس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آخر میں ذکر کو شیوا پی لیتے ہیں تبھی سے ان کا جسم نیلا ہو گیا۔ جب سمندر بلونے سے امرت نکل آتا ہے تو باقی بچے اسوروں کو بھٹکانے کے لیے ایک اپسرا (حور) وشو موہنی آجاتی ہے جو دھوکے سے سار امرت دیوتاؤں کو بانٹ دیتی ہے۔ یوں دیوتا امر ہوجاتے ہیں اور راکھشس اسور پر حاوی آجاتے ہیں۔[35]

کالا ناگ (کلیگ کی ستی)

[ترمیم]

کوہ نور کمپنی، بمبئی کے تحت تیار کی گئی کالا ناگ 1924ء کی خاموش ایکشن تھرلر فلم ہے، جو کانجی بھائی راٹھور نے بنائی جبکہ ہومی ماسٹر نے بطوراسسٹنٹ ان کی مدد کی۔ یہ فلم جرم کے ایک حقیقی واقعہ بمبئی کے چیمپسی ہارڈیس قتل کیس کے کرداروں سے ماخوذ تھی۔ یہ فلم تجارتی طور پر کامیاب ہوئی۔۔ فلم کے اداکاروں میں بیگم فاطمہ، سلطانہ، زبیدہ، خلیل، ابراہیم، تارا، مس موتی، بہرام وسنیہ، آر این ویدیا، سویتا اور ہومی ماسٹر نے اہم کردار ادا کیا۔ فلم کی کہانی ایک امیر مل مالک کے بیٹے ویہاری کی ہے جو غنڈوں کے ایک گروہ کے چنگل میں پھنس جاتا ہے جس کا سرغنہ کالی داس ہے جو کالا ناگ کے نام سے مشہور ہے، اس کی نظر ویہاری کی بیوی نرملا پر ہوتی ہے۔ بھارتی اخبار بمبے کرونیکل ( 5 جنوری 1924ء) میں اس فلم کی بارے میں لکھا تھا کہ تھرلر موضوع پر مشتمل ایسی فلم جو دور جدید میں دھوکا دہی، قتل، پیسوں کی لالچ، جذباتیت، عصمت دری اور خطرناک شرپسند عناصر پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔[36]

کلیان کھجینا (کلیان خزانہ)

[ترمیم]

سترہویں صدی عیسوی کے ایک معمولی تاریخی واقعہ پر مبنی فلم کلیان کھجینا (کلیان کا خزانہ)۔ جب مراٹھا سلطنت کے راجا شیواجی (چیما صاحب بھوسلے) ایک غٖار میں کلیان کے صوبیدار (کے پی بھاوے ) سے ملتے ہیں۔ فلم کی بیشتر شوٹنگ غار کی طرح ڈیزائن کردہ اسٹوڈیو میں ہوئی ہے۔ فلم کی کہانی راجا شیواجی کے کلیان پر حملہ اور مغل خزانہ لوٹنے کے واقعہ پر مبنی ہے، جب غار میں خزانے کے صندوقوں کو کھولا جا رہا ہوتا ہے تو ایک صندوق سے ایک لڑکی (سلطانہ) برآمد ہوتی ہے جو کلیانہ کے صوبیدار کی بیٹی ہوتی ہے۔ لوگ اسے بھی خزانے کے ساتھ مال و غنیمت میں شمار کرتے ہیں مگر شیوا جی ایک عورت کی عزت اور قدر کو یوں پامال کرنا قبول نہیں کرتا اور اسے آن و شان سے واپس اس کے باپ کے پاس بھجوادیتا ہے۔ یہ اسٹنٹ سپر اسٹار ماسٹر ویٹل کی پہلی فلم تھی۔[37]

ستی سرداربا

[ترمیم]

1924ء میں آئی فلم ستی سرداربا سرسوتی فلم کمپنی کی پہلی پروڈکشن تھی، جو اردشیر ایرانی کے اسٹار اسٹوڈیو کی ایک شاخ تھی۔ فلم کے ہدایت کار و کہانی نویس نانو بھائی ڈیسائی تھے۔ فلم کی کہانی ایک شرابی اور جوئے کی لت میں مبتلا مولراج (موہن لال ) کی ہے، جو اپنی بہن سرداربا (زبیدہ) کو جوئے میں داؤ پر لگادیتا ہے اور ہار جاتا ہے۔ باقی فلم سردار با کی زندگی کے مصیبتوں اور مشقتوں پر مرکوز ہے کہوہ کیسے اس سے آزادی پاتی ہے۔ اس فلم میں دونوں اداکارہ بہنوں زبیدہ اور سلطانہ کے ساتھ ان کی فلم اسٹار ماں فاطمہ بیگم نے بھی اداکاری کی۔ اس کے علاوہ اس فلم میں گجرات کے اسٹیج اسٹار موہن لالا (جو 1932ء کی فلم نرسنگھ مہتا سے مقبول ہوئے) اور پُتلی بھی اہم کردار ادا کیا۔[38]

ستی پدمنی

[ترمیم]

1924 ء میں بابو راؤ پینٹر جو حسب روایت مراٹھا تاریخ پر فلمیں بناتے تھے اس بار گجراتی تاریخی داستان پدماوت پر ایک تاریخی فلم ستِی پدمِنی کی ہدایت دی۔ یہ فلم چودہویں صدی کے چِتّوڑ کی مہارانی پدمِنی کی تھی، چتوڑ کے راجا رتن سین، سنہل دیپ (موجودہ سری لنکا) کی راجکماری پدماوتی کو بیاہ کر چتوڑ لاتاہے، دونوں ہنسی خوشی رہ رہے ہوتے ہیں کہ اس دوران میں سلطان علاؤ الدین خلجی پدماوتی کے حسن و جمال کا چرچہ سن کر اسے پانے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے اور پدماوتی کو پانے کے لیے چتوڑ گڑھ قلعے کا محاصرہ کر لیتا ہے۔ خلجی راجپُوتوں کو تو ہرا دیتا ہے لیکن پدمِنی اُس کے ہاتھ آنے سے پہلے ہی جوہر کر لیتی ہے۔ فتح ہونے کے بعد جب سلطان قلعہ میں داخل ہوا تو سوائے عورتوں کے جلے ہوئے جسموں کے وہاں کچھ نہیں تھا۔ یوں سلطان رانی کے لیے ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اِس فلم کو اُس وقت انگلینڈ میں بہت پزیرائی ملی اور 1924ء کو ہونے والے ویمبلے ایگزیبیشن ( برٹش ایمپائر ایگزبیشن)میں بھی اس فلم کو نمائش میں پیش کیا گیا۔[39][40]

سد گُنی سشیلا

[ترمیم]

سدگُنی سُشیلا فلم، فتح چند کی گجراتی کہانی۔[41] سدگُنی سُشہلا (સદગુણી સુશીલા) سے ماخوذ ہے۔ اس فلم کی کہانی کو موہن لال جی ڈیو نے فلمی قالب میں ڈھالا اور ہدایت کار کانجی بھائی راٹھور تھے اور اس فلم میں تمل فلموں کے معروف اداکار راجا سینڈو پی کے نے اداکاری کی [42] فلم کی کہانی سشیلا اور پرتاب کی ہے جو خوشگوار ازدواجی زندگی گزا رہے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ایک نیا شخص جسونت داخل ہوتا ہے جو سُشیلا کا پرانا رشتہ دار ہوتا ہے، پرتاب سُشیلا پر شک کرتا ہے اور جسونت کو بت عزت کرکے گھر سے نکال دیتا ہے۔ اتفاق سے واپس گاؤں جاتے ہوئے جسونت، غنڈوں کے ایک ٹولے کے ہاتھوں مارا جاتا ہے اور غنڈوں کا سرغنہ اور پولیس انسپکٹر ونائیک مل کر پرتاب کو اس قتل میں پھنسادیتے ہیں۔ پرتاب فرار ہوجاتا ہے، کنویں سے ایک لاش ملتی ہے اور مشہور ہوجاتا ہے کہ پرتاب مرگیا۔ سُشیلا بیوہ ہوجاتی ہے اور انسپکٹر ونائیک اس پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔ چند برس بعد انسپکٹر اور غنڈوں کے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کرنے کے لیے پرتاب لوٹ آتا ہے، ساتھ ہی وہ اپنی ان سلوک پر پر پشیمان ہوتا ہے جو اس نے اپنی بیک خصلت بیوی کے ساتھ کیا۔[43]

تُرکی حور

[ترمیم]

آغا حشر کاشمیری نے ڈراما ترکی حور 1922ء میں میڈن تھیٹرز لمٹیڈ کی اوریجنل پارسی الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے لیے تصنیف کیا [44][45] اور 1924ء میں میڈن تھیٹرز کے زیر اہتمام ہدایت کار جے جے مدن نے اسے فلم کے قالب میں ڈھالا گیا۔ فلم کے اداکاروں میں پیشینس کوپر، ماسٹر موہن، ماسٹر ندمدا شنکر، منی لال، سورج رام، شریفہ، شامل ہیں۔ فلم کی کہانی میں قسطنطنیہ کے ایک امیر کبیر فرید بے کا داماد عارف، امیر زیاد کی صحبت میں مے نوشی اور بے راہ روی کا عادی بن جاتا ہے۔ بدمستی کے عالم میں اپنی بیوی رشیدہ اور خسرو فرید بے کے ساتھ بدکلامی کرتا ہے۔ فرید بے اس پر خفا ہو کر عارف کو اپنے گھر سے نکال دیتا ہے لیکن نیک اور وفا شعار بیوی اس حالت میں بھی شوہر کا ساتھ دیتی اور باپ کو چھوڑ کر عارف کے ساتھ ہوٹل میں رہنے لگتی ہے۔ ایک دن عارف ہوٹل کے منیجر سے کسی بات پر لڑ پڑتا ہے اور پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر ہتھکڑی پہننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ عارف کو نمک حلال بوڑھا ملازم ایاز اس کے ضمانت کا انتظام کر کے حوالات سے چھڑاتا ہے۔ عارف کی آوارگی اور فضول خرچی بڑھتی جاتی ہے اور آخرکار بدخواہ و خودغرض دوستوں ناظم اور غانم کے مشورے سے ساری جائداد کوڑیوں کے مول فروخت کر دیتا ہے۔ یہ کل رقم بری صحبت میں برباد ہوتی ہے۔ اس عرصہ میں وفادار ایاز 25 ہزار روپیہ کی رقم خاندان کو تباہی سے بچانے کے لیے عارف کی تجوری سے غائب کر لیتا اور کہیں چھپا دیتا ہے مگر عارف سوتے سے جاگ اٹھتا ہے اور ایاز کو پکڑ کر روپیہ طلب کرتا ہے۔ اس کے انکار کرنے پر ایاز کو ہنٹروں سے مارتا ہے اور پھر پولیس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس طرح بے گناہ ایاز کو چھ ماہ کے لیے قید با مشقت کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ عارف کا دوست امیر زیاد، رشیدہ کو دھوکے سے بلا کر اس کی عزت پر حملہ کرنا چاہتا ہے مگر وہ مردانہ وار مقابلہ کرتی اور آبرو بچا کر وہاں سے نکل جاتی ہے۔ رشیدہ کا نیک دل بھائی انور بہن کو سمجھاتا ہے کہ اس آوازہ منش شوہر کا ساتھ چھوڑ کر مصائب برداشت کرنے سے باز آئے اور ہمارے ساتھ آرام سے رہے۔ رشیدہ انکار کرتی ہے۔ عارف انور کو رشیدہ سے باتیں کرتے سن لیتا ہے اور اسے سخت سست کہہ کر گھر سے نکال دیتا ہے۔ بعد میں انور بہن کی مصیبتوں کو دیکھ کر عارف سے چوری چھپے رشیدہ کو خرچ کے لیے پانچ سو روپے دیتا ہے لیکن عارف ان روپوں کو دیکھ کر رشیدہ کے چال چلن پر شبہ کرتا ہے۔ اس دوران میں عارف ساری پونجی لٹا کر مفلس و قلاش ہو جاتا ہے اور رشیدہ محلہ والوں کے کپڑے سی کر تنگی ترشی سے گھر کا خرچ چلاتی ہے۔ عارف بیوی پر چھری سے حملہ کر کے اسے زخمی کر دیتا ہے، وہ بے ہوش ہو جاتی ہے۔ ایک گلفروش لڑکی لیلیٰ کی مدد سے اس موقع پر پولیس بلا لی جاتی ہے۔ عارف کو گرفتار ہوتا ہے۔ مگر رشیدہ ہوش میں آ کر پولیس کو بیان دیتی ہے کہ مجھے عارف نے چھری نہیں ماری، ترکاری کاٹتے ہوئے لگ گئی ہے۔ عارف کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ اس اثنا میں انور آ کر عارف کو پانچ روپیہ کے راز سے آگاہ کرتا اور لعنت ملامت کرتا ہے۔ عارف کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ وہ بیوی سے معافی مانگتا اور بد چلنی سے توبہ کرتا ہے۔ اس موقع پر ایاز جیل سے رہا ہو کر آتا اور 25 ہزار روپیہ کی رقم جواس نے کہیں زمین میں دفن کر رکھی تھی مالک کے قدموں میں ڈال دیتا ہے۔ جب بولتی فلموں کا آغاز ہوا تو میڈن تھیٹرز ہی میں اس کہانی کو دوبارہ فلم رشیدہ کے نام سے 1935ء میں بنایا۔

پرتھوی ولّبھ

[ترمیم]
  • پرتھوی ولّبھ ( पृथ्वी वल्लभ، ترجمہ: زمین کا جلال) اپنے دور کی مشہورتاریخی فلم تھی، یہ فلم گجراتی ادب کی روشن شخصیت کنہیا لال مانک لال منشی (کے ایم منشی) کے لکھے تاریخی ناول سے ماخوذ تھی۔[46] فلم کے ہدایت کار منی لال جوشی تھے، فلم کے اداکاروں میں واگلے سینڈو، فاطمہ بیگم، زبیدہ، سلطانہ، مس جینا، بھلجی پیندھارکر، پریشواناتھ یشونت التیکر شامل تھے۔ فلم کی کہانی 10 ویں صدی عیسوی کے دو بادشاہوں کی کہانی ہے۔ پرمار سلطنت (موجودہ مالوہ) کی ریاست اونتی پور (ارنتی)کا راجا وکپتی مُنج (واگلے سینڈو) جو پرتھوی ولبھ کے نام سے بھی مشہور ہے اور نیک دل و انصاف پسند بادشاہ ہے جبکہ اس کے پڑوس میں چالوکیہ سلطنت کا راجا تیلپ نہایت کٹھور اور سنگدل راجا ہے، جو اپنی مغرور بہن رانی منالوتی (فاطمہ بیگم) اور ساتھی ریاست کے راجا بھیلام (پریشواناتھ یشونت التیکر) کی مدد سے اونتی پور پر حملہ کرتا ہے اور راجا مُنج کو غلام بنالیتا ہے۔ دراصل منالوتی جو ایک بیوہ ہے، اپنے غرور میں راجا مُنج کی ہمت اور حوصلہ کو کچلنا چاہتی تھی۔ لیکن جب راجا مُنج کو قید کیا جاتا ہے تو وہ اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔ راجا تیلپ اور راجا بھیلام، مُج کو ہاتھی سے کچلنے کی سزا دیتے ہیں لیکن رانی منالوتی کی مدد سے وہ فرار ہوجاتا ہے۔ اور پھر واپس اپنی سلطنت اور تخت پانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ اس فلم کو 1943ء میں سہراب مودی نے دوبارہ پرتھوی ولّبھ نام سے بنایا۔[47] اس فلم سے ہندوستان میں ان تاریخی فارمولا فلموں کی ابتدا ہوئی جس میں بادشاہ یا شہزادہ کسی مکار راجا یا وزیر کی وجہ سے اپنی سلطنت کھودیتا ہے اور پھر واپس پانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ اسی فارمولا پلاٹ پر بنی فلموں کے تسلسل میں عالم آرا، بغاوت، پرزنر آف زینڈا، عجوبہ، باہوبلی اور پریم رتن دھن پایوجیسی فلمیں شامل ہیں۔

پونا پر ہللا

[ترمیم]
  • پونا پر ہللا (پونا ریڈیڈ) اپنے دور کی مہنگی ترین تاریخی فلم تھی، دکن پکس فلم اسٹووڈیو کے زیر اہتمام بنی اس فلم کے کہانی نویس اور ہدایت کار مراٹھی تھیٹر ڈراما نویس ماما واریرکر (بھورگو رام وٹّھل پواریرکر) تھے، فلم کے اداکاروں میں کرشن راؤ کیٹکر، شنکر راؤ سہسرابدھی، مس بھوانی، شنکر راؤ موگھے، وشنو پنت پگنس، مس کیسر، کرشن راؤ پیٹھکر، بابو راؤ سنسارے، دتّا ورنے، ہری پنت کلکرنی، نارائن راؤ پھاٹرپھیکر، شنکر راؤ شنڈے، پندھاری ناتھ کالے، لکشمی راؤ رانے اور محمد عرب شامل تھے۔ فلم کی کہانی 17 ویں صدی عیسوی کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر (شنکر راؤ سہسرابدھی)کے اس تاریخی حملے پر مبنی ہے جو اس نے پونا (موجودہ پونے، بھارت) پر کیا تھا اور مراٹھا سلطنت کے جنگجو راجا چھتراپتی شیواجی بھوسلے (کرشن راؤ کیٹکر) نے کس طرح اس کا دفع کیا۔[48][49] معروف تمل اداکار و ہدایت کار سُندر راؤ ندکرنی کی اولین فلموں میں سے ہے اس فلم میں انھوں نے مختصر کردار ادا کیا تھا۔

پتنی پرتاپ

[ترمیم]
  • میڈن تھیٹر کے زیر اہتمام ہدایت کار جے جے مدن کی فلم پتنی پرتاپ (ترجمہ: بیوی کی شان) 2 فروری 1924ء کو سینما میں پیش ہوئی۔ جس میں مشہور اداکارہ پیشینس کوپر تھی۔ اس فلم میں پیشینش کوپر نے بھارتی سکرین پر پہلی بار حقیقی ڈبل رول ادا کیا اور وہ جڑواں بہنوں کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئیں۔[50] پتنی پرتاپ کی کہانی دراصل الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے پنڈت نارائن پرشاد بیتاب نے 1910ء میں لکھی۔[51] اس کتاب کا شمار اردو زبان کی مایہ ناز کتابوں میں ہوتا ہے اس کتاب کے لیے الفاظ اردو لغت میں شامل ہیں۔۔[52][53] اس کہانی کو پہلے 1919ء میں کلکتہ کے تھیٹر میں پیش کیا گیا۔[54]بھارت کے عظیم شاعر اور موسیقار سُوریاکانت ترِپاٹھی نِرالا اپنے ناول بِلّیسُر بکرِہا میں اس تھیٹر کی شہرت کا تذکرہ کرتے ہوئے صفحہ 127 پر لکھتے ہیں کہ ’’شام ہوتے ہی پتنی پرتاب کے شو کے وقت بھیڑ کافی بڑھ جاتی ہے اور ٹکٹ ملنا مشکل ہوجاتی ہے ‘‘۔[55]

پاپ نو فیج

[ترمیم]
  • پاپ نو فیج (ترجمہ:گناہ کا قرض) جرم و سزا کے موضوع پر بنی ہندوستان کی پہلی فلم تھی۔ ہالی ووڈ کنونشنوں کو کامیابی سے ترجمہ کرتے ہوئے فلم کو ہدایت کار نول گاندھی اور اردشیر ایرانی نے بنائی۔ فلم کے اداکاروں میں بھگوتی پرساد مشرا، تارا، آسوجی، الیعزر شامل تھے۔ فلم کی کہانی ایک چالاک عورت سروجنی (تارا) کی ہے جو اپنے ایک عادی مجرم کزن جئیرن (بی پی مشرا) کی باتوں میں آکر اپنے شوہر کو ٹھگ کر اپنے پڑوسی ٹھاکرداس (آسوجی) سے عشق کی بینگیں بڑھاتی ہے اور گھوڑوں کی ریس اور شراب خانے جسے اخلاقی زوال اور فسق و فجور میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ یہ پہلی فلم تھی جس میں کار ریس (Chase) کے مناظر فلمائے گئے جو پولیس اور جیل سے فرار مجرم (جئیرن) کا پیچھا کرتے ہوئے تھے۔ فلم کے اختتام میں سروجنی اور ٹھاکرداس اپنے جرائم کی وجہ سے جیل پہنچ جاتے ہیں۔[56]

1924ء کی فلمیں

[ترمیم]

بلحاظ حروف تہجی (ا - ذ)

[ترمیم]
تاریخ فلم اداکار ہدایتکار موضوع تبصرہ
1924ء آتما بال الیعزر، آسو جی میجسٹک فلمز (اردشیر ایرانی) [57] دیگرعنوان: سندر کمار
1924ء اُوشا سوپنا
(ترجمہ: اوشا کا خواب)
ہومی ماسٹر آر ایس پرکاش دیومالائی [58] کرشن کے پوتے انیرُدھ اور اوشا کی داستان
1924ء بال شرینگی ہومی ماسٹر ایسٹر فلمز، بڑودا مذہبی/ دیومالا [59] راماین میں مذکور ایک رشی شرینگی श्रृंगी، جن کی شادی رام کی بہن شانتا سے ہوئی۔
1924ء بلی یگنہ نانو بھائی، بٹُک بھائی ویدیا وی کے پٹنی مذہبی/ دیومالا [60] اسور راجا بَلی، جس نے سورگ کی حکمرانی پانے کے لیے ہزار مقدس قربانیاں (یگنہ) دینے کی رسوم کیں، اُسے روکنے وشنو کے اوتار وامن نے جنم لیا۔
1924ء بسمی سدی
(بیسویں صدی)
راجا سینڈوز، مس موتی، نور محمد چارلی ہومی ماسٹر سماجی/ میلو ڈراما [61] ہندوستان کی پہلی حقیقت پسندانہ سماجی اور میلو ڈراما فلم
1924ء بمبئی نی سیٹھانی ہومی ماسٹر اردشیر ایرانی، نول گاندھی [62] دیگر عنوان: کال آف سیٹن
1924ء پاپ نو پسچاتاپ
(گناہ کا پچھتاوا)
ہومی ماسٹر نول گاندھی جرم و سزا [63]
1924ء پاپ نو فیج
(گناہ کا قرض)
بھگوتی پرساد مشرا، تارا، آسوجی، الیعزر نول گاندھی، اردشیر ایرانی جرم و سزا/ اخلاقی [64] جرم وسزا کے موضوع پر ایک عورت کی کہانی جو اپنے شوہر کو دھوکا دیتی ہے
2 فروری 1924ء پتنی پرتاپ
(بیوی کی شان)
پیشینس کوپر جے جے مدن سماجی [65]
1924ء پرتھوی راج چوہان ، ، ایسٹرن فلم کمپنی تاریخی [66] اجمیر کے راجا پرتھوی راج چوہان کی کہانی
1924ء پرتھوی ولّبھ
(ترجمہ: زمین کا جلال)
واگلے سینڈو، فاطمہ بیگم، زبیدہ، سلطانہ، مس جینا، بھلجی پیندھارکر، پریشواناتھ یشونت التیکر منی لال جوشی تاریخی [67]
1924ء پریم انجلی
(پیار کا نذرانہ)
درگاداس بینرجی، اہیندرا چوہدری، کالی داس جیوتش بینرجی ہومی ماسٹر [68]
1924ء پونا پر ہللا
(پونا ریڈیڈ)
کرشن راؤ کیٹکر، شنکر راؤ سہسرابدھی، مس بھوانی، شنکر راؤ موگھے، وشنو پنت پگنس، مس کیسر، کرشن راؤ پیٹھکر، بابو راؤ سنسارے، دتّا ورنے، ہری پنت کلکرنی، نارائن راؤ پھاٹرپھیکر، شنکر راؤ شنڈے، پندھاری ناتھ کالے، لکشمی راؤ رانے، محمد عرب بی وی راریرکر تاریخی [69]
1924ء پیپر پرینام
(کرائم اینڈ پنشمنٹ)
پربودھ بوس، نرملیندو لاہری، پربھا دیوی میڈن تھیٹرز جرم و سزا [70] روسی افسانہ نگار فیودر دوستوئیفسکی کے 1866ء کے ناول کرائم اینڈ پنشمنٹ کو فلمی قالب میں ڈھالا گیا [71]
1924ء ترکی حور پیشینس کوپر، ماسٹر موہن، ماسٹر ندمدا شنکر، منی لال، سورج رام، شریفہ جے جے مدن کاسٹیوم [72] آغا حشر کاشمیری کے ڈراما پر مبنی
1924ء جیادرتھ ودھ بابو راؤ داتر، بی پوار جی وی سانے مذہبی / دیومالائی [73] مہابھارت میں کورو کی اکلوتی بہن دُشالا کا شوہر اور وادیٔ سندھ کی تہذیب کی سندھو ریاست (موجودہ کوٹ مٹھن)کا راجا جیادرتھ جسے ارجن نے قتل مارا۔
1924ء چندن ملیاگیری ہومی ماسٹر نول گاندھی [74] راجا چندن اور رانی ملیاگیری کی راجستھانی لوک داستان
1924ء چندر ناتھ درگاداس بینرجی، نرمل بالا، نریش مترا، جوگیش چوہدری، ششوبالا، تارک بالا نریش مترا سماجی [75]
1924ء دتّا جنم
(دیگر نام: ستی انسویہ )
بابو راؤ داتر، بچو، اشرابین، موتی رام جی وی سانے مذہبی / دیومالائی [75] بھگوت پران اور راماین کی ایک کردار ستی انسویہ کی داستان، جس کے بیٹے کا نام دتّاتریہ تھا۔
1924ء دروپدی بھاگیہ ہومی ماسٹر آر ایس پرکاش مذہبی / دیومالائی [76] مہابھارت کی کہانی

بلحاظ حروف تہجی (ر -ف)

[ترمیم]
تاریخ فلم اداکار ہدایتکار موضوع تبصرہ
1924ء را منڈلک ہومی ماسٹر ہومی ماسٹر تاریخی [77] جوناگڑھ کی چُڈاسما سلطنت کے آخری جانشین رامُنڈلک، چودھویں صدی عیسوی میں گجرات کے سلطان محمود شاہ اول نے سومناتھ مندر پر حملہ کرنے کے ساتھ چُڈاسما ریاست کو بھی فتح کیا رامُنڈلک نے اسلام قبول کیا اور خانِ جہاں کا لقب پایا۔
1924ء راجہ ہریش چندر ہومی ماسٹر ڈی ڈی دابکے، نارائن دیوارے تاریخی / دیومالائی [78]
1924ء رام راون یدھ وسنت شنڈے، چون جی وی سانے تاریخی / دیومالائی [79] راماین کی داستان
1924ء رتناولی
(سی نیمف آف سیلون)
ہومی ماسٹر منی لال جوشی تاریخی [80] ساتویں صدی عیسوی میں شمالی ہند کے راجا ہرش (ہرش وردھن) کی بطور مصنف لکھی داستان،
1924ء رضیہ بیگم دھریندر ناتھ گنگولیہومی ماسٹر نانو بھائی ڈیسائی، بی پی مشرا تاریخی [81] ایک مسلمان شہزادی کی کہانی جو ایک ہندو شخص کی محبت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اس فلم پر نظام حیدرآباد آصف جاہ ہفتم نے ناراض ہوکر دھیریندر ناتھ گنگولی کو حیدرآباد سے نکل جانے کا حکم دیا۔
1924ء رنک دیوی ہومی ماسٹر شری ناتھ پٹناکر تاریخی [82] گجرات کی سوراشٹر ریاست کی رانی رنک دیوی
1924ء ستی پدمنی ویدی، گنپت باکرے، بالا صاحب یادو، مس نلنی، وی شانتا رام بابو راؤ پینٹر تاریخی/ ڈرراما [83]
1924ء ستی سرداربا فاطمہ بیگم، سلطانہ، زُبیدہ، موہن لال، پُتلی نانو بھائی ڈیسائی مذہبی/ سماجی [84]
1924ء ستی سیتا ہومی ماسٹر کانجی بھائی راٹھور مذہبی/ دیومالائی [85]
1924ء ستی سونے راجا سینڈو، جانی بابو، راجا بابو، مس موتی، جمنا ہومی ماسٹر مذہبی/ دیومالائی [86] دیگر عنوان : ہرمن جٹاوو ( گجراتی: હલામણ જેઠવો)
1924ء سداونت سولنگا ہومی ماسٹر میجسٹک فلم ہومی ماسٹر [87]
1924ء سدگنی سشیلا راجا سینڈو کانجی بھائی راٹھور ڈراما، تھرلر [88] گجراتی کہانی سدگُنی سُشہلا (સદગુણી સુશીલા) سے ماخوذ
1924ء سمدرا مدنم ہومی ماسٹر آر ایس پرکاش تاریخی/ دیومالائی [89]
1924ء سمدرا منتھن (سمندر بلونا) بٹُک بھائی ویدیا، نانو بھائی وی کے پٹانی تاریخی/ دیومالائی [90]
1924ء سند اپسند بابو راؤ داتر، بی پوار، پی جی سانے، کرشنا چوہان جی وی سانے مذہبی/ دیومالائی [91] سُند اُپسُند نامی دو راکھشسوں کی کہانی جن کی تپسیا سے خوش ہوکر مہادیو شیو نے انھیں کہا کہ جو مانگو گے ملے گا، وہ مانگنا کچھ اور چاہ رہے تھے مگر انھوں نے پاروتی ویوی کو مانگ لیا۔ شیو کو غصہ آیا لیکن اپنے وعدہ پر پاروتی ویوی کو ان کے حوالے کر دیا، پاروتی کی خوبصورتی کو دیکھ کر پاروتی کس کی ہے اس بات پر دونوں آپس میں جھگڑا کرنے لگے اور آپس میں لڑ لڑ کر مرگئے۔
1924ء سنیاسی ہومی ماسٹر نول گاندھی
میجسٹک فلم کمپنی
سماجی [92]
1924ء سیتا شدھی وسنت شنڈے، چون داداصاحب پھالکے مذہبی/ دیومالائی [93] دیگر عنوان : رام راون ودھ
1924ء سیتا ونواس ہومی ماسٹر وی ایس نرینتر تاریخی/ دیومالائی [94] والمیکی کی راماین سے ماخوذ، دیگر عنوان : اُتّر رام چرتر
1924ء شاہ جہاں بھگوتی مشرا، الیعزر، جلّو بائی نول گاندھی، اردشیر ایرانی تاریخی/سوانحی [95]
1924ء شریف بدمعاش ارمیلین، مدن رائے وکیل، شیراز علی حکیم، ڈورتھی کانجی بھائی راٹھور سماجی [96]
1924ء شیوا جی چی آگریاہن سٹکا بابو راؤ داتر، لکشمن مالوسرے، جردوس دادا صاحب پھالکے تاریخی [97] (شیوا جی کا آگرہ سے فرار)
1924ء شری دیانیشور ہومی ماسٹر شری ناتھ پٹناکر مذہبی/ دیومالائی [98]
1924ء شری کرشنا اوتار ہومی ماسٹر بابو راؤ پینٹر مذہبی/ دیومالائی [99]
1924ء عشق نو اُمیدوار ہومی ماسٹر سوراشٹر فلم ، ، [100]

بلحاظ حروف تہجی (ق - ے)

[ترمیم]
تاریخ فلم اداکار ہدایتکار موضوع تبصرہ
1924ء کالا ناگ بیگم فاطمہ، سلطانہ، زبیدہ، خلیل، ابراہیم، تارا، مس موتی، بہرام وسنیہ، آر این ویدیا، سویتا، ہومی ماسٹر کانجی بھائی راٹھور، ہومی ماسٹر جرم و سزا [101]
1924ء کلیان کھجینا سلطانہ، ماسٹر وٹھل، کملا دیوی، نلنی، زنزر راؤ پوار، بابو راؤ پینٹر، چیما صاحب بھوسلے، کے پی بھاوے بابو راؤ پینٹر تاریخی [102] کلیان خزانہ
1924ء کنیا وکریا (دیگر عنوان : شاردھا ) بابو راؤ داتر، کرشنا چوہان وی ایس نرنتر
دادا صاحب پھالکے
سماجی/ ڈراما [103] 1923ء کی فلم کنیا وکریا (بیٹی کی فروخت)کا ری میک
1924ء کنیا وکریا کی کہانی ہومی ماسٹر سماجی [104] دیگر عنوان : نوی سیٹھانی
1924ء کرن گھیلو
کرن واگھلے
شری ناتھ پٹناکر تاریخی [105]
1924ء قسمت کا شکار میڈن تھیٹر سماجی [106]
1924ء کرشنا کماری گنجنن ایس دیوڑے کاسٹیوم [107] دیگر عنوان :ڈاٹر آف شری پُور
1924ء گجیندر موکشم آر ایس پرکاش دیومالائی [108]
1924ء گؤ ماتا میڈن تھیٹر مذہبی [109] دیگر عنوان : سیکرڈ کاؤ
1924ء گل بکاؤلی خلیل، زُبیدہ، بیگم فاطمہ، سلطانہ، نور محمد چارلی، عبد الٖغنی، مس موتی جمنا کانجی بھائی راٹھور افسانوی، تخیلاتی [110]
1924ء منورما
(ہردیہ تِروُپتی)
زبیدہ، خلیل، سلطانہ ہومی ماسٹر سماجی [111] گجراتی شاعر کلپی (سور سنگھ تخت سنگ گوہل) کی معروف نظم ہردیہ تِروُپتی سے ماخوذ، اس فلم نے مسلسل 14 ہفتے چل کر ریکارڈ توڑ دیے تھے۔
6 دسمبر 1924ء مشر رانی
(مصر کی ملکہ)
درگاداس بینرجی، اہیندر چوہدری، کرشنا بھامنی، نہار بالا، نصیروانجی جیوتش بینرجی مذہبی/ تاریخی [112] داستانِ یوسف و زلیخا پر بنگالی تھیٹر کے ڈراما نویس اپریش چندر مکھرجی کی لکھی کہانی سے ماخوذ
1924ء میونسپل الیکشن
(میونسپل نیواڈنُک)
بی پوار، بابو ر داتر، سکھا رام یادو، شنڈے دادا صاحب پھالکے سماجی [113]
1924ء نندبتریسی
(نند وبتریشی)
ڈورلیس بیری، آسوجی میجسٹک فلم مذہبی [114] سترہویں صدی کے گجراتی شاعر شمل بھٹ گجراتی کتاب نند بتریسی નંદ બત્રીસી سے ماخوذ
1924ء نندنر
(بھکت نندن)
ہومی ماسٹر آر ایس پرکاش مذہبی [115] (دیکھیے : 1923ء کی فلم بھکت نندن)
1924ء نرسنگھ مہتا ہومی ماسٹر جی ایس دیواڑے مذہبی/ سوانحی [116] پندرہویں صدی عیسوی کے گجراتی شاعر اور سنت نرسنگھ مہتا کی زندگی پر مبنی
1924ء نوین بھارت
(نیا بھارت)
ہومی ماسٹر جیوتش بینرجی، کاشی ناتھ چیٹرجی سماجی [117]
1924ء وسنت پربھا
(بسنت پربھا)
پربودھ بوس، محمد حسین، کسوم کماری، پربھادیوی میڈن تھیٹرز سماجی [118]
1924ء ویر اہیر کے بی اتھاولے، جمنا ہومی ماسٹر تاریخی روایات [119]
1924ء ویر بھرت ہومی ماسٹر جیوتش بینرجی کاسٹیوم [120]
1924ء ویر درگا داس بھگوتی پرساد مشرا، جِلّو، آسوجی بھگوتی پرساد مشرا تاریخی [121] مغل عہد میں مرواڑ کے راجپوت راجا جسونت سنگھ کے وزیر دُرگا داس راٹھور کی بہادری کی داستان
1924ء وجئیا ہومی ماسٹر بھگوتی پرساد مشرا سماجی [122]
1924ء وکرم چریتر
(بدھی بل)
تارا، آسوبھائی، گوپال جی نانو بھائی ڈٰسائی، درابشا کولہا تاریخی [123]
1924ء ونچچا دنشا ہومی ماسٹر دادا صاحب پھالکے [124]
1924ء ویجز آف سن (گناہ کی اجرت) ہومی ماسٹر میڈن تھیٹرز [125]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

بالی ووڈ فلموں کی فہرستیں

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. 1924ء کی ہندوستانی فلمیں۔انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس
  2. "Year-1924"۔ indiancine.ma۔ Indiancine.ma۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015 
  3. "Database"۔ citwf.com۔ Alan Goble۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015 
  4. "SilentFilms 1924"۔ gomolo.com۔ Gomolo۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015 
  5. "Cinema History 1924"۔ businessofcinema.com۔ Businessofcinema.com۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015 
  6. "Hindi Movies of Year 1924"۔ 10ka20.com۔ 10ka20.com۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2015 
  7. آل انڈیا ریڈیو کی تاریخ
  8. ^ ا ب پ ت 1924ء انڈین سینما کی تاریخ - سنے ما
  9. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ہنسا واڈکر
  10. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر پی کیلاش
  11. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر طلعت محمود
  12. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر گلشن رائے
  13. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر اتپل سین
  14. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر پی بھاسکرن
  15. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر نارائن سانیال
  16. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ایم راجن
  17. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر کے آصف
  18. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر اے بھیم سنگھ
  19. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ایم ایس ریڈی
  20. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر سچترا مترا
  21. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر نذیر حسین
  22. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر تپن سنہا
  23. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر کنیکا بینرجی
  24. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر راجہ نواتھے
  25. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ہرسکھ جگنیشور بھٹ
  26. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر سوریا کانتم
  27. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر ٹی پرکاش راؤ
  28. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر راج کپور
  29. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس (IMDb) پر محمد رفیع
  30. گل بکاؤلی، مذیب عشقریختہ پر
  31. گُل بکاؤلی۔ انڈین سنے ما ویکی
  32. بیسویں صدی فلم۔ سنے ما
  33. اُوشا اور انیرُدھ کی داستان- سُریکھا ڈاٹ کام
  34. انیرُدھ کی داستان بھگوت پُران میں
  35. سمدرا منتھن کی داستان
  36. کالا ناگ۔ انڈین سنے ما ویکی
  37. کلیان کھجینا۔ انڈین سنے ما ویکی
  38. ستی سرداربا۔ انڈین سنے ما ویکی
  39. تاریخی فلموں کا دور۔ فلم ہی فلم بلاگ
  40. ستی پدمنی۔ انڈین سنے ما ویکی
  41. سدگُنی سُشیلا۔ آرکائیو
  42. راجا سینڈو، کانجی بھائی راٹھور کی فلم سدگنی سشیلا میں۔ گجراتی بلاگ
  43. سدگُنی سُشیلا۔ انڈین سنے ما ویکی
  44. تُرکی حور از آغا حشر کاشمیری آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ lib.bazmeurdu.net (Error: unknown archive URL)۔ بزمِ اردو لائبریری پر
  45. تُرکی حور از آغا حشر کاشمیری۔ ریختہ پر
  46. _ایم_منشی کے ایم منشی[مردہ ربط]۔ اردو دائرۃ معارف العلوم پر
  47. پرتھوی ولّبھ۔ انڈین سنے ما ویکی پر
  48. پونا پر ہللا۔ انڈین سنے ما ویکی
  49. پونا پر ہللا۔ انڈین سنے ما انفو
  50. عبدالحفیظ ظفر (2013-10-11)۔ "پیشنس کُوپر - روزنامہ دنیا"۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2017 
  51. پتبی پرتاپ۔ ریختہ پر
  52. پتبی پرتاپ[مردہ ربط]۔ اردو لغت پر
  53. پتبی پرتاپ[مردہ ربط]۔ اردو لغت پر
  54. پتنی پرتاپ۔ انڈین تھیٹر
  55. بِلّیسُر بکرِہا۔ گوگل کتاب پر
  56. نو فیج فلم[مردہ ربط]۔ سنے ما
  57. آتما بال آئی ایم ڈی بی پر
  58. اُوشا سوپنا آئی ایم ڈی بی پر
  59. بال شرینگی آئی ایم ڈی بی پر
  60. بَلی یگنہ آئی ایم ڈی بی پر
  61. بِسمی سدی آئی ایم ڈی بی پر
  62. بمبئی نی سیٹھانی آئی ایم ڈی بی پر
  63. پاپ نو پسچاتاپ آئی ایم ڈی بی پر
  64. پاپ نو فیج آئی ایم ڈی بی پر
  65. پتنی پرتاپ آئی ایم ڈی بی پر
  66. پرتھوی راج چوہان آئی ایم ڈی بی پر
  67. پرتھوی ولّبھ آئی ایم ڈی بی پر
  68. پریم انجلی آئی ایم ڈی بی پر
  69. پونا پر ہللا آئی ایم ڈی بی پر
  70. پیپر پرینام آئی ایم ڈی بی پر
  71. پراسرار اور جاسوسی موضوع پر خاموش فلموں کی فہرست، صفحہ 54۔ گوگل بُکس
  72. ترکی حور آئی ایم ڈی بی پر
  73. جیادرتھ ودھ آئی ایم ڈی بی پر
  74. چندن ملیاگیری آئی ایم ڈی بی پر
  75. ^ ا ب چندر ناتھ آئی ایم ڈی بی پر
  76. دروپدی بھاگیہ آئی ایم ڈی بی پر
  77. را مُنڈلک آئی ایم ڈی بی پر
  78. راجہ ہریش چندر آئی ایم ڈی بی پر
  79. رام راون یدھ آئی ایم ڈی بی پر
  80. رتناولی آئی ایم ڈی بی پر
  81. رضیہ بیگم آئی ایم ڈی بی پر
  82. رنک دیوی آئی ایم ڈی بی پر
  83. ستی پدمنی آئی ایم ڈی بی پر
  84. ستی سرداربا آئی ایم ڈی بی پر
  85. ستی سیتا آئی ایم ڈی بی پر
  86. ستی سونے آئی ایم ڈی بی پر
  87. سداونت سولنگا آئی ایم ڈی بی پر
  88. سدگُنی سُشیلا آئی ایم ڈی بی پر
  89. سمدرا مدنم آئی ایم ڈی بی پر
  90. سمدرا منتھن آئی ایم ڈی بی پر
  91. سند اپسند آئی ایم ڈی بی پر
  92. سنیاسی آئی ایم ڈی بی پر
  93. سیتا شدھی آئی ایم ڈی بی پر
  94. سیتا ونواس آئی ایم ڈی بی پر
  95. شاہ جہاں آئی ایم ڈی بی پر
  96. شریف بدمعاش آئی ایم ڈی بی پر
  97. شیوا جی چی آگریاہن سٹکا آئی ایم ڈی بی پر
  98. شری دیانیشور آئی ایم ڈی بی پر
  99. شری کرشنا اوتار آئی ایم ڈی بی پر
  100. عشق نو اُمیدوار آئی ایم ڈی بی پر
  101. کالا ناگ آئی ایم ڈی بی پر
  102. کلیان کھجینا آئی ایم ڈی بی پر
  103. کنیا ورنتر آئی ایم ڈی بی پر
  104. کنیا وکریا کی کہانی آئی ایم ڈی بی پر
  105. کرن گھیلو آئی ایم ڈی بی پر
  106. قسمت کا شکار آئی ایم ڈی بی پر
  107. کرشنا کماری آئی ایم ڈی بی پر
  108. گجیندر موکشم آئی ایم ڈی بی پر
  109. گؤ ماتا آئی ایم ڈی بی پر
  110. گل بکاؤلی آئی ایم ڈی بی پر
  111. منورما آئی ایم ڈی بی پر
  112. مِشر رانی آئی ایم ڈی بی پر
  113. میونسپل الیکشن آئی ایم ڈی بی پر
  114. نندبتریسی آئی ایم ڈی بی پر
  115. بھکت نندن آئی ایم ڈی بی پر
  116. نرسنگھ مہتا آئی ایم ڈی بی پر
  117. نوین بھارت آئی ایم ڈی بی پر
  118. وسنت پربھا آئی ایم ڈی بی پر
  119. ویر اہیر آئی ایم ڈی بی پر
  120. ویر بھرت آئی ایم ڈی بی پر
  121. ویر درگا داس آئی ایم ڈی بی پر
  122. وجئیا آئی ایم ڈی بی پر
  123. وکرم چریتر آئی ایم ڈی بی پر
  124. ونچچا دنشا آئی ایم ڈی بی پر
  125. ویجز آف سن آئی ایم ڈی بی پر