بھارت کا پرچم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بھارت کا ترنگا
نام ترنگا
استعمالات قومی پرچم قومی پرچم
تناسب 2:3
اختیاریت 22 جولائی 1947ء
نمونہ مستطیل شکل کا ترنگا (زعفرانی، سفید اور سبز)۔ درمیان میں نیلے رنگ کا 25 پتیوں والا اشوک چکر۔
نمونہ ساز پنگلی وینکیا -[ح 1]

بھارت کا قومی پرچم تین مختلف رنگوں کی افقی مستطیل پٹیوں پر مشتمل ہے، جو زعفرانی، سفید اور سبز رنگوں کی ہیں۔ اس پرچم کے درمیان میں نیلے رنگ کا اشوک چکر ہے جو وسطی سفید پٹی پر نظر آتا ہے۔ اس پرچم کو ڈومنین بھارت کے اجلاس مورخہ 22 جولائی، 1947ء کے موقع پر اختیار کیا گیا اور بعد ازاں جمہوریہ بھارت کے قومی پرچم کے طور پر اسے برقرار رکھا گیا۔ بھارت میں لفظ ترنگا (ہندی: तिरंगा) سے مراد ہمیشہ اسی پرچم کو لیا جاتا ہے۔ یہ پرچم سوراج کے جھنڈے سے مشابہت رکھتا ہے جو انڈین نیشنل کانگریس کا جھنڈا تھا اور اس کے خالق پنگلی ونکیا تھے[ح 1]

گاندھی کی خواہش کو دیکھتے ہوئے قانونی طور پر اس جھنڈے کو کھادی (ہاتھوں سے بنا گیا کپڑا) اور ریشم کے کپڑے سے بنایا جاتا ہے۔ اس جھنڈے کو بنانے کے مراحل کی نگرانی بیورو آف انڈین سٹینڈرڈ کرتا ہے۔ اسے بنانے کے حقوق کھادی ڈیولپمنٹ اینڈ لیج انڈسٹریز کمیشن مختلف علاقوں کو جاری کرتا ہے۔ 2009ء تک کرناٹک کھادی گرام ادیوگ سنیوکتا سنگھ ہی اس جھنڈے کو بنانے والی واحد کمپنی تھی۔

بھارتی قانون کے مطابق اس پرچم کے استعمال کے قواعد مقرر ہیں جو دیگر قومی علامات پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق عام شہری اسے صرف قومی دن جیسے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ بھارت وغیرہ پر لہرا سکتے ہیں۔ 2002ء میں ایک شہری ناوین جندل کی درخواست پر بھارتی عدالت عظمیٰ نے حکومت بھارت کو حکم دیا کہ وہ عام شہریوں کو پرچم کے استعمال میں رعایت دیں۔ اس پر کابینہ بھارت نے شہریوں کو بعض حدود میں اسے استعمال کرنے کی رعایت فراہم کی۔ 2005ء میں قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اس پرچم کو کچھ خاص قسم کے کپڑوں سے تیار کرنے کی اجازت دی گئی۔ ملک کا فلیگ کوڈ اس قومی پرچم کے لہرانے اور خصوصاً دیگر قومی اور غیر قومی پرچموں کے ساتھ اسے لہرانے کے اصول و ضوابط بیان کرتا ہے۔

نقشے اور بناوٹ کی تفصیلات

قومی پرچم کا سائز
پرچم کا سائز[1] لمبائی اور چوڑائی (ملی میٹر) اشوک چکر کا سائز (ملی میٹر)[2]
1 6300 × 4200 1295
2 3600 × 2400 740
3 2700 × 1800 555
4 1800 × 1200 370
5 1350 × 900 280
6 900 × 600 185
7 450 × 300 90[3]
8 225 × 150 40
9 150 × 100 25[3]

بھارت کے ضابطۂ پرچم کی رو سے بھارتی پرچم 2/3 کا تناسب رکھتا ہے (جس سے پرچم کی لمبائی چوڑائی سے 1.5 گنا زیادہ ہے)۔ سبھی رنگ کی پٹیاں (زعفرانی، سفید اور سبز) لمبائی اور چوڑائی میں مساوی ہونا چاہیے۔ اشوک چکر کا ناپ ضابطۂ پرچم میں مذکور نہیں ہے، تاہم اس چوبیس خانے ہیں جن کے درمیان میں جگہ مساوی حد تک پھیلی ہوئی ہے۔[4] "IS1: Manufacturing standards for the Indian Flag" (اًئی ایس 1: بھارتی پرچم کی تیاری کے معیارات) کی شِق 4.3.1 میں ایک چارٹ موجود ہے جس میں اشوک چکر کے ناپ کو قومی پرچم کے نو مختلف ناپوں کے تحت بیان کیا گیا ہے۔[2] ضابطہ پرچم اور اًئی ایس 1 دونوں کے مطابق اشوک چکر کو پرچم کی دونوں جانب گہرے نیلے رنگ میں ہونا چاہیے۔[4][2]

ذیل میں قومی پرچم میں شامل سبھی رنگوں کی گہرائی بتائی گئی ہے، سوائے نیلے گہرے رنگ کے جو "اًئی ایس 1: بھارتی پرچم کی تیاری کے معیارات" سے ماخوذ ہے جیساکہ 1931ء سی آئی ای رنگوں کی تفصیلات میں مستعمل ہے۔[2] گہرے نیلے رنگ کو معیار:1803-1973 کے تحت دیکھا جا سکتا ہے۔

مواد3.1.2.2: رنگ[2]
رنگ X (ایکس) Y (وائی) Z (زیڈ) چمک
سفید 0.313 0.319 0.368 72.6
بھارتی زعفران 0.538 0.360 0.102 21.5
بھارتی سبز 0.288 0.395 0.317 8.9

یاد رکھیے کہ اوپر دی گئی اقدار سی آئی ای رنگوں کی جگہ (CIE 1931 color space) سے مطابقت رکھتی ہیں۔

علامتی طور پر

بھارتی پرچم، نئی دہلی

گاندھی نے پرچم کی تجویز کانگریس کے 1921ء والے اجلاس میں پیش کی تھی۔ اس پرچم کو آندھرا پردیش کے پنگلی ونکیا نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس پرچم کے وسط میں روایتی گھومتا پہیا تھا جو بھارت کو خود کپڑے بنا کر خومختار بنانے کی گاندھی کی سوچ کو ظاہر کرتا تھا۔ اس کے بعد جھنڈے کے درمیان یعنی پہیا کے پس منظر میں سفید پٹی رکھی گئی جو اقلیتوں کو ظاہر کرتی تھی۔ بعد میں فرقہ وارانہ تعلق کو ختم کرنے کے لیے زعفرانی ،سفید اور سبز پٹی رکھی گئی جو ہمت، قربانی ،سچائی،ایمان اچھائی کو ظاہر کرتی تھی۔[5]

بھارتی آزادی سے کچھ دن قبل قانون ساز اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ بھارتی پرچم کو اس طرز پر بنایا جائے کہ تمام فریقین کو قابل قبول ہو[6]۔ لہذا سواراج جماعت کے پرچم کو چنا گیا جس میں تمام پرانی چیزیں رکھی گئیں ماسوائے چکر کہ جسے اشوک چکر سے بدلا گیا جو ابدی قانون کی علامت ہے۔ بھارتی فلسفی سروپلی رادھا کرشنن جو بعد میں بھارت کے سب سے پہلے نائب صدر اور پھر دوسرے وزیر اعظم بنے نے پرچم کی تعریف یوں کی۔

بھگوا یا زعفرانی رنگ غیر تعلقی یا غیر دلچسپی کی علامت ہے۔ہمارے رہنماؤں ذاتی نفع نقصان کو دیکھے بغیر کام کرنا چاہئے۔درمیان میں کا سفید رنگ روشنی ہے جو ہمیں ہمارے کام میں رہنمائی دیتا ہے۔سبز ہمیں ہمارے اور زمین کے تعلق کا بتاتی ہے جہاں ہم رہتے ہیں اور جس پر تمام جاندار منحصر ہیں۔درمیان میں کا اشوک چکر دھرما کے قانون کا بتاتی ہے۔ سچائی ،ستیا، دھرما یا فضیلت ان اشخاص کو سنبھالنے والے اصولوں کی جو اس علم تلے کام کرتے ہیں۔پھر پہیا حرکت کو ظاہر کرتی ہے۔ساکن ہونے میں موت ہے۔اور حرکت میں زندگی ہے۔بھارت کو ارتقاء کی مزاحمت نہیں کرنی چاہئے بلکہ اسے آگے بڑھتے رہنا ہے۔پہیا پرامن تبدیلی کی جہتوں کو ظاہر کرتی ہے۔[7]

تاریخ

بھارت کی آزاد سے قبل تک مختلف سیاسی جماعتوں اور نوابی ریاستوں کے اپنے اپنے الگ پرچم تھی 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے پورے ہندوستان کے لیے ایک ہی جھنڈا متعارف کروایا،جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت براہ راست قائم ہوئی۔ ابتدائی پرچم کے خدوخال دیگر برطانوی نوآبادیات جیسے آسٹریلیا اور کینیڈا جیسے تھے ان کے نقوش مغربی شاہی معیارات کو ظاہر کرتے تھے؛اس کے نیلے حصے بائیں جانب یونین کا پرچم تھا جبکہ وسطی حصے سے کچھ دائیں جانب ستارہ ہند جسے شاہی تاج نے گھیر رکھا تھا۔ یہ ستارہ ہند کیسے ہندوستانیوں کے تشخص کو ابھارتی تھی،اس کے لیے ملکہ وکٹوریہ نے آرڈر آف سٹار آف انڈیا نامی اعزاز تخلیق کیا جس کا مقصد ان کے ہندوستانی عوام میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والوں کے کاموں کو سراہنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی نوابی ریاستوں نے ایسے پرچم وصول کرنے شروع کیے جو یورپی شاہی معیارات کے مطابق تھے۔ نیز انھیں برطانوی علامات میں ردوبدل کرنے کا بھی پروانہ دیا گیا تھا۔[8][9][10]

20ویں صدی کی ابتدا میں جب ایڈوارڈ ہفتم کی تاج پوشی ہوئی تو شہنشاہ ہندوستان کی نمائندگی کے لیے ایک حکومتی علامات کی ضرورت پر باتیں شروع ہوئیں۔ پھر برطانوی سول سروس کے ایک افسر ولیم کولڈ سٹریم نے ایک مہم چلائی جس کامقصد ستارے کے نشان کو بدلنا تھا ان کا خیال تھا کہ یہ ایک عام سی علامت ہے اس کی بجائے اسے ایک موزوں علامت سے بدل دینا چاہیے ۔ ان کے اس تجویز کو حکومت نے پسند نہیں کیا لارڈ کرزن نے کئی جھنڈوں کے بن جانے کے خدشے پر اس تجویز کو رد کیا۔[11]ان دنوں قوم پرستوں کی رائے نمائندگی کے لیے مذہبی علامات کو استعمال کرنے کی حامی تھی۔ ان معروف علامات میں ایک علامت گنیشا کی تھی جس کی وکالت بال گنگا دھر تلک، کالی اوروبندو گھوش اور بنکم چندر چٹرجی جیسے رہنما کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور علامت گائے ،یا گائے ماتا (گائے ماں) کی تھی۔ اس کے باوجود یہ علامات ہندوستانی مسلم آبادی کو متحد نہیں رکھ سکتی تھی کیونکہ یہ علامات ہندوانہ تھے۔[12]

تقسیم بنگال کے نتیجے میں ایک نئے پرچم نے جنم لیا یہ آزادی پسند لوگوں کی تخلیق تھی جو ہندوستان کے مختلف رنگ ونسل کے لوگوں کو متحد رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سودیشی کی انگریز مخالف تحریک کا پرچم مشرقی طرز کا جھنڈا تھا جو مذہبی رنگ میں رنگا ہو تھا۔ اس تین رنگی پٹیوں والے جھنڈے کے سب سے اوپرسبز پٹی میں آٹھ سفید کنول کے پھول تھے جو آٹھ صوبوں کو ظاہر کرتے تھے سب سے نیچے کی سرخ پٹی میں ایک ہلال و صلیب بنی تھی جبکہ درمیان میں کی پیلی پٹی میں وندے ماترم کا نعرہ درج تھا۔ یہ پرچم کلکتہ کی کسی اداس سی تقریب میں سامنے لایا گیا جبکہ اخباروں نے بھی اسے مختصرا اپنے صفحات پر جگہ دی۔ اگرچہ سیاسی اور حکومتی طور پر اس جھنڈے نے اتنی توجہ نہیں پائی البتہ یہ کانگریس کے سیشن میں مستعمل رہی۔ ہلکی سی ترمیم شدہ حالت میں اس جھنڈے کو سٹٹگارٹ میں ایک عالمی سوشلسٹ میٹنگ میں میڈم بیکاجی کاما کی جانب سے استعمال کیا گیا۔ اس جھنڈے کے مختلف استعمالات کے باوجود یہ پر ہندوستانی قوم پرستوں میں کوئی جوش و خروش نا بھر سکی۔[13]

ایک تین رنگی جھنڈا جس کے درمیان میں گھومتا پہیا ہے۔
سواراج کا جھنڈا جسے کانگریس نے 1931 میں اپنا لیا۔[14]

اسی دوران میں سوامی ویویکانند کی ایک پیروکار سسٹر نیودیتا جو ایک ہندو مصلحہ تھیں، نے ایک نئے جھنڈے کی تجویز دی۔ اس جھنڈے کے درمیان میں ایک برق دکھائی گئی تھی جس کے قریب وندے ماترم کا نعرہ درج تھا اور کناروں پر ایک سو آٹھ دیے تھے۔[15]اسے کانگریس کے 1906ء کے اجلاس میں پیش کیا گیا اسی طرح دیگر کئی تجاویز اس حوالے سے سامنے آئیں لیکن کسی نے بھی قوم پرستوں کی تحریک کی توجہ نہیں پائی۔

1909 میں لارڈ امفٹل لندن ٹائمز میں اس حوالے سے لکھتے ہیں"مجموعی طور پر ہندوستان یا اس کے کسی صوبے کا کوئی بھی واحد نمائندہ پرچم نہیں۔ یقینا یہ دیکھنا ایک تعجب کی بات ہے لیکن ہندوستان کے لیے کوئی بھی سلطنت نہیں ہوگی"۔"[16]

1916ء میں پنگالی ونکایا نے مدراس ہائی کورٹ کی تعاون سے ایک کتابچہ تیار کیا جس میں تیس نئے ڈیزائن سامنے لائے گئے۔ اتنے سارے تجاویز نے پرچم کے اس تحریک کو زندہ رکھنے سے کچھ زیادہ کام کیا۔ اسی سال انی بیسنت اور بال گنگادھر تلک نے ہوم رول تحریک کے لیے ایک نیا جھنڈا اپنایا۔ اس پر حکومت مخالفت کا خیال کرتے ہوئے کوئمبٹور کی مجسٹریٹ نے پابندی عائد کردی۔ اس پابندی نے عوام میں قومی جھنڈے کی اہمیت کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔[17]

1920ءکے اوائل میں برطانیہ اور آئرلینڈ کے درمیان معاہدہ امن کے باعث دیگر برطانوی ڈومینین میں قومی جھنڈے کی اہمیت ابھری۔1920ء میں لیگ آف نیشنز کے اجلاس میں ہندوستانی وفد نے ایک ہندوستانی جھنڈے کو استعمال کرنا چاہا،اس کے سبب برطانوی ہند نے نئے سرے سے قومی جھنڈے کی اہمیت پر زور دینا شروع کیا۔

1920ء میں موہن داس گاندھی نے اپنے رسالے ینگ انڈیا میں جھنڈے کی اہمیت کے حوالے سے لکھا اور جھنڈے میں چرخہ یا گھومتا ہو اپہیا کے اضافے کی تجویز دی۔[18]گاندھی جی نے ایک کمیشن بنائی جس میں لالہ ہنس راج اور پنگالی ونکایا شامل تھے انھوں نے سرخ پٹی جو ہندوں کی نمائندہ تھی اور سبز مسلمانوں کی پٹی پر اس پہیے کو رکھا۔گاندھی اسے 1921 کے اجلاس میں پیش کرنا چاہتے تھے لیکن اس کی بجائے ایک اور جھنڈے کو پیش کیا گیا۔گاندھی بعد میں بتاتے ہیں کے اسی وجہ سے انھیں اس بات کا پتہ چلا کہ جھنڈے میں دیگر ادیان کی نمائندگی نہیں رکھی گئی ہے جس پر انھوں نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے اس میں سفید پٹی کا اضافہ کیا جو دیگر مذاہب کی علامت تھی۔ بعد میں یعنی 1929 میں مذہبی حساسیت کو دیکھتے ہوئے گاندھی نے اس جھنڈے کی ایک سیکولر تعریف کی اور کہا کہ لال رنگ سے مراد لوگوں کی قربانی ،سفید پاکیزگی اور سبز امید کی علامت ہیں۔[19]

13 اپریل 1923ء میں ناگپور کے میں جلیانوالہ باغ کے واقعہ کی یادگاری اجلاس میں مقامی کانگرسی رضا کاروں نے پنگلی ونکایا کا بنایا گیا سوراج جھنڈا لہرایا۔ اس جھنڈے کے سبب کانگریسیوں کا سامنا پولیس سے ہو اور پانچ کارکن جیل میں گئے۔ا یک اجلاس کے بعد سینکڑوں مظاہرین نے اس جھنڈے کو تواتر سے لہرایا۔ اس کے ساتھ مئی میں جمنالال بجاج ،ناگپور میں کانگریس کے سیکٹری کی تحریک پرچم ستیہ گرہ نے قومی سطح پر لوگوں کی توجہ پائی اور اس تحریک نے جھنڈے کی تحریک میں جان ڈال دی۔ اس تحریک کو کانگریس نے قومی سطح پر بڑھاوا دیا جس کے سبب تنظیم میں رخنہ پیدا ہوا جس کی وجہ سوراج کارکنوں کا اسے غیر اہم سمجھا جانا اور گاندھی کے پیروکاروں کا اسے پر جوش تحریک خیال کرنا تھا۔[20]

بالآخر جولائی 1923ء میں کانگریس کی ایک میٹنگ میں نہرو اور سروجنی نائیڈو کے اصرار پر کانگریس نے اس مہم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس تحریک کے روح رواں سردار پٹیل تھے اس میں عام لوگ پرچم لیے پھرتے تھے۔ تحریک کے اختتام تک 15 سو لوگ پورے ہند میں گرفتار کیے گئے۔ بمبئی کرونیکل کے مطابق اس میں حصہ لینے والے لوگوں کا تعلق متنوع گروہوں سے تھا جس میں طلبہ ،کسان،تاجر،مزدور اور "قومی خدمتگار" شامل تھے۔ جبکہ مسلمانوں کا کردار معتدل رہا،نیز یہ تحریک عورتوں کو بھی سیاسی میدان میں لے آئی جو اب تک اس قدر سیاسی طور پر غیر فعال تھیں۔[20]

اگرچہ اس تحریک نے گاندھی کی تحریر و تقریر سے تقویت پائی لیکن اس میں اہم کردار ناگپور کے واقعہ کا بھی رہا۔ نیز اخبارات ،کالم اور مختلف جرائد میں لکھے گئے مضامین نے قوم اور پرچم کو باہم یکجا کیا۔ اس کے بعد جلدہی پرچم نے تحریک آزادی میں عزت اور وقار پیدا کیا۔ دوسری طرف مسلمان حضرات اب بھی سہ رنگی سورارج جھنڈے سے قلبی طور پر وابستہ رہے جو مسلم رہنماوں میں بھی مقبولیت رکھتی تھی اور اسے تحریک خلافت میں استعمال کیا گیا۔

تحریک پرچم کے ناخداؤں بشمول موتی لال نہرو نے سوراج کے جھنڈے کو قومی اتحاد کی علامت قرار دیا۔ اس لیے انتظامی طور پر ہندوستان میں جھنڈے کی اہمیت واضح ہو گئی۔ ماضی کے مقابلے میں اب انگریزوں نے جھنڈے کی اہمیت کو سمجھنا شروع کیا اور اس حوالے ایسی پالیسی وضع کی گئی۔[21]بررطانوی راج نے اب عوامی طور پر جھنڈے کے استعمالات پر گفتگو کی اور انگلستانی شہ پر برطانوی ہند کی حکومت نے ان انتظامی اکائیوں کو مالی امداد اور تعاون روک لیا جس کی انتظامیہ سوراج جھنڈے کے عوامی استعمالات کو روکنے سے قاصر نظر آئی۔ سواراج کا جھنڈا کانگریس کا دفتری جھنڈا قرار پایا اور اس نے تحریک آزادی کی علامت کی حیثیت حاصل کرلی۔[22]

ایک ڈاک کا ٹکٹ جس میں لفظ بھارت کے اوپر لہراتا پرچم ہے۔ بائیں جانب "15 اگست۔ 1947" اور"3½ As."; جبکہ دائیں جانب "जय हिंन्द" اوپر"POSTAGE"۔
21 نومبر 1947 کو جاری کیا گیا ایک ٹکٹ۔[23][24]

اگست 1947ء میں بھارت کی آزادی سے کچھ دن قبل قانون ساز اسمبلی بنائی گئی۔ جھنڈے کے تعین کے لیے اسمبلی نے 23 جو 1947ء کوراجندر پرساد کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جس میں ابو الکلام آزاد ،سروجنی نائیڈو،سی راجا گوپال چری ،کے ایم منشی اور بی آرامبدکار بطور رکن شامل تھے۔

14 جولائی 1947ء کو کمیٹی نے یہ سفارش کی کہ کانگرس کے جھنڈے کو ہی قومی جھنڈے کے طور پر قبول کیا جائے نیز اس میں کچھ ترامیم بھی کی جائیں تاکہ تمام فریق اسے قبول کر سکیں۔ اس میں یہ بھی سفارش کی گئی کہ جھنڈے کے نقوش میں نوآبادیاتی دور کی کوئی بھی جھلک نہ ہو۔[4] کانگریس کے متحرک پہیے کی بجائے جھنڈے کے وسط میں اشوک چکرا کو ڈالا گیا اس نشان کو اشوک کے ببرشیروں کے ستون کو دیکھ کر بنایا گیا۔سروپلی رادھاکرشن کے مطابق اشوک چکر کو لانے کا مقصد چونکہ قانون دھرما تھا اس لیے اسے استعمال کیا گیا۔ اگرچہ نہرو کے مطابق ایسا کرنے سے جھنڈے کے کسی بھی رخ سے ترتیب میں برابر ہونا تھا۔گاندھی کو یہ تبدیلی پسند نہیں آئی لیکن بعد میں انھوں نے قبول کر لیا۔

نہرو نے 22 جولائی 1947ء کو قانون ساز اسمبلی میں تین رنگی عمودی گہرے زعفرانی ،سفید اور گہرے سبز جو سائز میں برابر تھے جبکہ کے عین وسط سفید پٹی میں نیلے رنگ کا اشوک کا پہیا تھا پیش کیا۔ نہرو نے دو پرچم پیش کیے ایک کھادی میں جبکہ دوسرا ریشمی کپڑے میں۔ اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔[25]یہ پرچم ڈومینین آف انڈیا میں 15 اگست 1947ء سے 26 جنوری 1950ء تک مستعمل رہا، پھر اسے بھارت کے جمہوریہ بننے کے بعد سے اب تک مستعمل ہے۔[6]

تیاری کا عمل

Lettering written and printed on a canvas strip
ایک بھارتی پرچم پر لگا سرنامہ جس کی منظوری بیورو آف انڈین سٹینڈرڈ نے دی ہے۔

بھاتی پرچم کی تیاری اور ڈیزائن کے مراحل کو احاطہ کرنے کے لیے تین دستاویز بیورو آف انڈین سٹینڈرڈ نے جاری کر رکھے ہیں۔ اس کے مطابق تمام جھنڈے کھادی،ریشم یا کاٹن سے تیار کیے جانے چاہیے۔ یہ معیارات 1968ء میں تخلیق کیے گئے جبکہ سنہ 2008ء میں ان کی تجدید ہوئی۔[26] قانون کے مطابق پرچم کے نو معیاری سائز ہیں۔۔[1]

1951ء میں بھارت کے جمہوریہ بننے کے بعد بی آئی ایس نے پہلی دفعہ سرکاری طور پر جھنڈے کے معیارات متعارف کروائے۔ پھر 1964ء میں ان میں ترامیم کی گئیں جس کی وجہ عالمی نظام اکائیات سے جھنڈے کے ناپ تول کو ہم آہنگ کرنا تھا اور بھارت نے ان دنوں یہ نظام نیا نیا اپنایا تھا۔17 اگست 1968ء کو یہ معیارات مزید قبول کرلی گئیں۔[4] یہ تمام معیارات بھارتی پرچم کے سائز،رنگ،چمک ،دھاگوں اور رسیوں کا احاطہ کرتے تھے۔ ان معیارات کا تحفظ بھارتی قانون کرتا ہے اور ان پر عمل نا کرنے کی صورت میں سزا کے طور پر جرمانہ یا قید ہو سکتی ہے۔[27][28]

کھادی یا ہاتھ سے بننے ہوئے کپڑے کو ہی پرچم کے بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے علاوہ کسی دیگر طریقے سے بنا پرچم کا کپڑا قانون کے مطابق ناقابل استعمال ہے جس پر تین سال قید مع جرمانا ہو سکتا ہے۔ کھادی کے لیے کاٹن ،ریشم اور اوون کی قید ہے۔ کڈی دو قسم کی ہوتی ہے ایک جو پورے پرچم پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ ایک وہ حصہ جو کھمبے کے ساتھ پرچم کے حصہ پر ہوتی ہے یہ حصہ رنگین ہوتی ہے۔ کڈھی کے کپڑے کو تین دھاگوں کو ایک ساتھ بن کر بنایا جاتا ہے جبکہ عام طور پر اس میں دو دھاگے استعمال ہوتے ہیں۔ بننے کا یہ طریقہ نہایت کم ہی دیکھا جاتا ہے اور پورے بھارت میں 20 سے بھی کم ایسے ادارے ہیں جو یہ ہنر سیکھاتے ہیں۔ ہدایات کے مطابق یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ایک سکوائر سینٹی میٹر میں 150 دھاگے استعمال ہونے چاہئیں جبکہ ایک سکوائر فٹ کا وزن 205 گرام ہونا چاہیے۔

یہ بننے ہوئے کھادی شمالی کرناٹکہ کے اضلاع دھرواڈ اور بگل کوٹ کے دو دستکاری مراکز سے مہیا کیے جاتے ہیں۔ فی الحال کرناٹکا گرمیودگا سمیوکتا سنگھا جو ہوبلی میں قائم ہے ہی سرکاری اجازت کے مطابق پورے بھارت میں جھنڈوں کی تیاری اور ترسیل کا کام کرتی ہے۔ ان ادروں کو جھنڈے بنانے کے حقوق کھادی ڈویلپمنٹ اور ولیج انڈسٹریز کمیشن جاری کرتے ہیں اگرچہ بی آئی ایس کے پاس قائدے سے ہٹ کر کام کرنے والوں کے حقوق کی تنسیخ کا اختیار ہے۔ ابتدا میں قومی جھنڈے کے ہاتھ سے بننے کے کام کا آغاز دھرواد ضلع کے ایک چھوٹے گاؤں گراگ میں ہوا۔ ایک مرکز آزادی کے لیے لڑنے والوں نے 1954 میں دھارواڑ تِلک کشتریا سیوا سنگھ کے نام سے کھولا تھا اسی مرکز نے ہی پھر جھنڈے بنانے کا اجازت نامہ حاصل کیا۔

جھنڈے کو بننے کے بعد بی آئی ایس کے ہاں بھیجا جاتا ہے جو معیار کی جانچ کرتی ہے۔ مواد کی جانچ کے بعد منظوری کی صورت میں اسے دوبارہ فیکٹری میں بھیجا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے زعفرانی ،سفید اور سبز رنگ دیے جاتے ہیں۔ اشوک کے چکرا کو پرنٹ یا سوئ دھاگے سے سفید حصے پر چھاپا جاتا ہے۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ آیا یہ نشان دونوں جانب بھی نظر آتے ہیں یا نہیں اور کیا یہ دونوں حصوں سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد جھنڈوں کے تینوں حصوں کو سیا جاتا ہے اس کے یہ مواد استری کے لیے بھیجی جاتی ہے اور پھر اس کی پیکجنگ ہوتی ہے۔ بی آئی ایس اس کے بعد رنگوں کا دیکھتی اور اس کے بعد ہی جھنڈے کو بیچا جا سکتا ہے۔

پروٹوکول

افقی اور عمودی نمائش

جھنڈے کی نمائش اور استعمالات کو فلیگ کوڈ آف انڈیا 2002ء (یہ قانون فلیگ کوڈ آف انڈیا ،اصلی قانون کے بعد بنائی گئی) ،ایمبلم اینڈ نیمز (غلط استعمال پر روک) اور قومی چیزوں کی تحقیر کی روک ایکٹ 1971ء کے مطابق کی جاتی ہے۔[4]جھنڈے کی جان بوجھ کر توہین یا اس کے وقار میں کمی کرنا یا اسے اس طرح استعمال کرنا جس کی قانون اجازت نہیں دیتا قابل مواخذہ عمل ہے جس کی سزا تین سال قید ،جرمانا یا بیک وقت دونوں بھی ہو سکتے ہیں۔ سرکاری قانون کے مطابق پرچم زمین یا پانی کو نہیں چھونا چاہیے یا کسی بھی شکل میں ایک پردے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔[4] پرچم کو جان کر الٹا نہیں لگایا جا سکتا زعفرانی پٹی کو اوپر ہونا جاہیے، کسی بھی چیز میں ڈبویا نہیں جانا چاہیے، نہ ہی اس میں کوئی چیز ڈالی جانی جاہے ما سوائے پھول کی پنکھڑیوں کے جو کو پرچم کو لہرانے سے قبل ڈالی جاتی ہیں۔[4] پرچم پر کچھ بھی لکھا نہیں جا سکتا۔ جب اسے باہر کھلے میں لگایا جائے تو موسمی حالات سے قطع نظر اسے ہمیشہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک لہرایا جانا چاہے۔[4][29]

جھنڈے کو کبھی بھی الٹا نہیں دیکھانا چاہیے۔ جھنڈے کو عمودی رکھتے ہوئے 90 کے زاویے سے زیادہ نہیں موڑنا چاہیے نا ہی اس کے الٹ کرنے کی اجازت ہے۔ جھنڈے کو کتاب کی صورت ہونی چاہیے یعنی جیسے اوراق کو اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں پڑھا جاتا ہے اور اسے الٹ موڑنے کی صورت میں نتیجہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اگر نمائش کے لیے رکھے جھنڈے کی حالت خراب ہو یا پھٹا ہو یا اسے لگائے جانے والے کھمبے کی حالت بھی دگروں ہو تو اسے بھی توہین سمجھی جائے گی۔[1]

بھارتی قانون کے مطابق عام شہری جھنڈوں کو ماسوائے یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے علاوہ استعمال نہیں کرسکتے۔2001ء میں امریکا میں رہنے والے بھارتی صنعت کار نوین جندال نے اپنے دفتر میں جھنڈے کا استعمال کیا تو حکام نے یہ جھنڈا ان سے ضبط کیا اور انھیں اس حوالے سے تنبیہ کی۔ بعد میں دلی کی ہائی کورٹ میں انھوں نے ایک عوامی پٹیشن دائر کی جس میں انھوں نے کہا کے عوام کی جانب سے جھنڈے کو باوقار اور تعظیم سے استعمال کرنا ان کا حق ہے ،اور اس طرح وہ اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔[30][31]

کیس کے اختتام پر سپریم کورٹ نے جندال کی بات کی تائید کی اور حکومت کو اس حوالے سے کام کرنے کا کہا۔کابینہ بھارت نے تب 26 جنوری 2002ء سے تمام شہریوں کو سال کے کسی بھی دن جھنڈے لہرانے کی اجازت دی اس بات پر کہ اس کا وقار مجروح نہ ہو۔ یہ بات بھی کہی گئی کہ یہ اجازت قانون کی حیثیت نہیں رکھتا جبکہ پرانے کوڈ کے حدود بھی لاگو رہیں گے، نیز جھنڈے کا ستعمال ایک اخذ کردہ حق ہے نا کہ اصل انسانی حق جو ہر شہری کو میسر ہوتے ہیں اور اسے بھی بھارتی آئین کی 19ویں ترمیم کے مطابق دیکھا جانا چاہیے۔[4]

اصل کوڈ کے مطابق جھنڈے کا وردی،لباس یا کسی دوسری چیز پر چھاپنا منع ہے۔2005 میں حکومت ہند نے اس حوالے سے کچھ رعایتیں دیں۔ اس کے مطابق جھنڈے کو کولہوں سے نیچے یا زیرجامہ اس مقام پر چھاپنا،تکیوں پر اسے چھاپنا یا کسی دوسرے لباس پر چھاپنا منع ہے۔[32]

خراب جھنڈو ں ٹھکانے نے لگانے کا عمل بھی فلیگ کوڈ میں شامل ہے۔ تباہ حال یا پرانے جھنڈوں کو بے ادبی کے ساتھ ختم کرنا منع ہے ؛اس کی بجائے اسے پرائیوٹ طور پر با عزت طریقے سے ختم کرنا چاہیے جس کی اول صورت اسے جلانا ہے یا اس کے علاوہ کوئی صورت ہونی چاہیے جو جھنڈے کے احترام کو ملحوظ رکھے۔[1]

نمائش

بھارتی پرچم کی کسی دوسرے پرچم کے ساتھ نمائش کا پروٹوکول

جب دو جھنڈوں کی نمائش مقصود ہو تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انھیں پوڈیم کے پیچھے دیوار پر افقی طور پر پھیلایا جاتا ہے۔ جھنڈوں کے شروع کا حصے ایک دوسرے کی طرف ہونے چاہیے جبکہ زعفرانی پٹی اوپر ہونی چاہیے۔ پرچم کبھی بھی میز کو ڈھانپنے والے غلاف، گرجوں میں لکھنے یا گانے کے ڈیسک، پوڈیم یا عمارات اور جنگلے سے نہیں لپٹایا جانا چاہیے۔[1]

جب کبھی بھی کسی ہال کے اندر جھنڈے کو رکھا جائے تو اسے ہمیشہ دائیں جانب یعنی ناظرین کے بائیں ہاتھ کی جانب رکھا جائے یہ مقام جھنڈے کے با اختیار ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ لہذا کسی ہال یا کسی دوسرے میٹنگ میں جھنڈے کو رکھا جائے تو اسے مقرر کے دائیں جانب رکھا جائے۔ اگر ہال میں یہ کہیں اور ہو تو اسے تمام سامعین کے دائیں جانب رکھا جائے۔ جھنڈے کو نمائش کے وقت مکمل طور پر پھیلایا جانا چائے۔ اگر جھنڈے کو پوڈیم کے دیوار پر عمودی طور پر رکھا جائے تو زعفرانی رنگ ناظرین کے بائیں جانب ہونی چاہیے۔[1]

جھنڈے برداروں میں بھارتی پرچم کے مقام کی تصویر

اگر جھنڈا کسی جلوس یا پیراڈ میں دیگر جھنڈوں کے ساتھ ہو تو پرچم کو تمام جھنڈوں کے دائیں جانب رکھا جانا چاہیے جبکہ درمیان میں ہونے کی صورت میں اسے سب سے آگے رکھا جانا چاہیے۔ پرچم کو کسی مجسمے ،یادگار یا تختی کے تقریب نقاب کشائی کے طور پر تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے کسی چیز کو بھی ڈھانپنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پرچم کو احترام کے طور پر کبھی بھی کسی شخص کے پاس یا چیز پر ڈپ نہیں کیا جانا چاہیے اس وقت جب یہ پرچم کسی دوسرے ریاستی ،تنظیمی یا دیگر کسی پرچم کے سامنے ہو جنھیں احترام کے طور پر ڈپ کیا جاتا ہے۔ پرچم کشائی کی کسی تقریب میں جب جھنڈا حاضرین کے سامنے سے گذرے تو تمام حضرات کو ادب سے اس کا سامنا کرنا چاہیے اور اس دوران میں سب کو مستعد رہنا چاہیے۔ جبکہ باوردی لوگوں کو پرچم کو صحیح سلیوٹ پیش کرنا چاہیے۔ جب پرچم قطار سے گذرے تو اسے سیلوٹ کرنا یا مستعد رہنا چاہیے۔ کسی معزز کا بنا ٹوپی پہنے سلیوٹ دینا جائز ہے۔ پرچم کے تسلیمات کے بعد قومی ترانے کا آغاز کیا جانا چاہیے۔[1]

لال قلعہ پر لہراتا ترنگا

قومی جھنڈے کو سواری پر لگانے کا اعزاز صرف صدر،نائب صدر ،وزیر اعظم،ریاستی گورنر،ریاستی وزیر اعلیٰ،وفاقی وزراء،ارکان پارلیمان ،وفاق اور ریاستوں کے اسمبلی کے ارکان،عدالت عظمیٰ،ہائی کورٹ کے ججز،اور بری ،بحری فضائی فوج کے فلیگ آفیسر کو میسر ہے۔ جھنڈے کو گاڑی کے سامنے درمیان یا سامنے دائیں جانب لگایا جاتا ہے۔ جب کسی غیر ملکی معزز شخصیت کو حکومت سواری دیتی ہے تو پرچم دائیں جانب جبکہ غیر ملکی پرچم بائیں جانب لگائی جاتی ہے۔[4]

قومی پرچم کو اس جہاز پر بھی لگایا جاتا ہے جس نے صدر یا نائب صدر کو دوسرے ملک لے جانا ہوتا ہے۔ قومی پرچم کے ساتھ جس ملک کا دورہ ہو وہاں کا جھنڈا بھی لگایا جاتا ہے،اگر راستے میں کسی ملک میں جہاز کا پڑاو ہو تو اس صورت میں وہاں ٹھہرنے کے عرصے تک متعلقہ ملک کا جھنڈا بھی لگایا جاتا ہے۔ جب صدر کا پڑاو بھارت میں ہی ہو تو پرچم کو جہاز کے اس مقام پر جہاں سے صدر نکلتے ہیں یا داخل ہوتے ہیں پر لگایا جاتا ہے ؛اسی طرح پرچم کو ریل گاڑی پر بھی لگایا جاتا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب ٹرین کھڑی ہو یا اسٹیشن پہنچ چکی ہو۔[1]

جب بھارتی پرچم کو دیگر کئی غیر ملکی پرچموں کے ساتھ بھارت میں لگایا جائے تو اسے سب کے شروع میں لگایا جائے۔ جب سیدھے قطار میں جھنڈے ہوں تو بھارتی پرچم کو دائیں جانب (ناظر کے بائیں جانب) لگایا جائے جبکہ دیگر جھنڈوں کو ممالک کے نام کے حروف تہجی کی ترتیب میں رکھا جائے۔ اس موقع پر دیگر تمام جھنڈوں کے سائز برابر ہونے چاہیے جبکہ کوئی بھی پرچم کا سائز بھارتی پرچم سے بڑا نہیں ہونا چاہیے۔ بھارتی پرچم کو نہ صرف سب سے پہلے رکھا جائے بلکہ قطار میں موجود پرچموں میں حروف تہجی کے لحاظ سے بھی بھارتی پرچم کو رکھا جائے۔ جھنڈے کو بالمقابل رکھتے ہوئے بھارتی جھنڈے کو دائیں جانب رکھا جائے۔ لیکن جب اقوام متحدہ کا جھنڈا رکھا جائے تو اس میں رعایت ہو سکتی ہے۔[1]

بھارتی اصول کہتے ہیں کہ جب پرچم کو اشتہاری بینروں یا غیر قومی جھنڈیوں کے ساتھ دکھایا جائے تو اسے ناظر کے دائیں جانب یا باقی تمام جھنڈوں میں سب سے اوپر دکھایا جائے یا اسے درمیان میں رکھا جائے۔ پرچم کے کھمبے کو قطار کی صورت میں سب کے درمیان میں رکھاجائے لیکن اگر دیگر تمام پرچم ایک ہی ہوں تو پرچم کو سب سے اونچا دکھا یا جائے۔[1]

سرنگوں

پرچم سرنگوں کرنے کا مقصد سوگ کو ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ اس بات کا فیصلہ کہ پرچم سرنگوں رہے گا یا نہیں،بھارتی صدر کرتا ہے جن کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ مدت کا تعین کریں کہ پرچم کتنے عرصے تک سرنگوں رہے گا۔ جب بھارتی پرچم کو سرنگوں کرنا ہو تو سب سے پہلے پرچم کو پول (لوہے کا ستون سا جس پر پرچم لگایا جاتا ہے) کے بالکل اوپر پہنچایا جاتا ہے۔ سوگ کے دن یا دنوں میں صرف بھارت کے قومی پرچم سرنگوں رہتے ہیں باقی تمام تر دیگر پرچم (جیسے پرچم وزیر اعظم،ریاستی پرچم،وغیرہ) سرنگوں نہیں کیے جاتے۔

صدر بھارت،ننائب صدر بھارت یا وزیر اعظم کے وفات پر بھارت بھر میں قومی پرچم نیم سرنگوں رہتا ہے۔ اس کے علاوہ مکلم پارلیمان (اسپیکر)، چیف جسٹس اور وفاقی یا مرکزی وزراء کی وفات پر نئی دہلی اور اس ریاست میں جہاں یہ عہدیدار پیدا ہوتا ہے وہاں پرچم نیم سرنگوں رہتا ہے۔ کسی گورنر یا ریاستی وزیر اعلیٰٰ کے وفات پر بھارتی پرچم اس ریاست میں نیم سرنگوں رکھا جاتا ہے جس ریاست یا علاقے کا گورنر یا وزیر اعلیٰٰ وفات پاگیا ہو۔

بھارتی پرچم کو کچھ مواقع پر سرنگوں نہیں رکھا جاتا ان مواقع میں یوم جمہوریہ (26 جنوری)، یوم آزادی بھارت (15 اگست) ۔گاندھی جینتی (2 اکتوبر) اور دیگر ریاستی تقاریب شامل جن ان کی تشکیل سے تعلق یادگار دن بھی ہیں جن کے ماسوائے ان عمارتوں سے جن کا تعلق اعلیٰ مرگ شخصیتوں سے ہو، پرچم کو سرنگوں نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ کسی میت ایک مخصوص کو عمارت سے نکال دینے کی صورت میں بھی ان عمارات پر پرچم مکمل سرنگوں رہتا ہے۔

جب کوئی بیرونی ملک سے تعلق رکھنے والا معزز شخص وفات پاتا ہے تو اس کے یوم وفات پر پرچم سرنگوں رہے گا یا نہیں اس کا فیصلہ وزارت داخلہ کے ہدایات کے مطابق کیا جاتا ہے۔

جب کسی ریاستی ،فوج یا نیم فوجی دستے کا اہلکار مارا جاتا ہے تو اس کے تابوت کو بھارت کے قومی پرچم میں لپیٹا جاتا ہے، تاہم اس پرچم کو نہ تو جنازے کے ساتھ قبر میں دفنایا جاتا ہے اور نہ ہی جلایا جاتا ہے۔[1]

مزید دیکھیے

حواشی

  1. ^ ا ب موجودہ پرچم سریہ طیبجی کا ڈیزائن ہے۔ flag.

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د "Flag Code of India"۔ Ministry of Home Affairs, Government of India۔ 25 جنوری 2006۔ 10 جنوری 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2006 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ Bureau of Indian Standards (1968)۔ "IS 1 : 1968 Specification for the national flag of India (cotton khadi)"۔ Government of India۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولا‎ئی 2012  >
  3. ^ ا ب Bureau of Indian Standards (1979)۔ "IS 1 : 1968 Specification for the national flag of India (cotton khadi)، Amendment 2"۔ Government of India 
  4. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ "Flag code of India, 2002"۔ Fact Sheet۔ Press Information Bureau, Government of India۔ 4 اپریل 2002۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2006 
  5. "Flag of India"۔ دائرۃ المعارف بریٹانیکا۔ Encyclopædia Britannica Online۔ 2009۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جولائی 2009 
  6. ^ ا ب Željko Heimer (2 جولائی 2006)۔ "India"۔ Flags of the World۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2006 
  7. "Flag Code of India, 2002"۔ Press Information Bureau۔ Government of India۔ 3 اپریل 2002۔ 09 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 Novmber 2014 
  8. Virmani 1999, p. 172
  9. Roy 2006, p. 498
  10. Volker Preuß۔ "British Raj Marineflagge" (بزبان جرمنی)۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 ستمبر 2005 
  11. Virmani 1999, p. 173
  12. Virmani 1999, p. 174
  13. Virmani 1999, pp. 175–176
  14. Roy 2006, p. 505
  15. Roy 2006, pp. 498–499
  16. "A Flag for India"۔ Luton Times and Advertiser۔ 21 مئی 1909۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2015British Newspaper Archive سے۔ (تتطلب إشتراكا (معاونت)) 
  17. Virmani 1999, pp. 176–177
  18. Virmani 1999, pp. 177–178
  19. Roy 2006, pp. 503–505
  20. ^ ا ب Virmani 1999, pp. 181–186
  21. Virmani 1999, pp. 187–191
  22. Roy 2006, p. 508
  23. انڈیا پوسٹیج Stamps 1947–1988۔(1989) Philately branch, Department of Posts, India.
  24. Souvenir sheet of the Independence series of stamps, Indian Posts, 1948
  25. Jha 2008, pp. 106–107
  26. "Indian Standards" (PDF)۔ Bureau of Indian Standards۔ 11 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2008 
  27. Shyam Sundar Vattam (15 جون 2004)۔ "Why all national flags will be 'Made in Hubli'"۔ دکن ہیرالڈ۔ 22 مئی 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اکتوبر 2006 
  28. Aruna Chandaraju (15 اگست 2004)۔ "The Flag Town"۔ The Hindu۔ Chennai, India۔ 27 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2010 
  29. پریس ٹرسٹ آف انڈیا (24 دسمبر 2009)۔ "Now, Indians can fly Tricolour at night"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 11 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2010 
  30. "My Flag, My Country"۔ Rediff.com۔ 13 جون 2001۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 نومبر 2007 
  31. "Union of India v. Navin Jindal"۔ Supreme Court of India۔ 24 دسمبر 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 جولائی 2005 
  32. Chadha, Monica (6 جولائی 2005)۔ "Indians can wear flag with pride"۔ BBC۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 فروری 2012 

بیرونی ربط