"عجائب گھر، لاہور" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 28: سطر 28:


[[فائل:Close_view_of_Lahore_Museum.jpg|250px|تصغیر|عجائب گھر کے سامنے سے لی گئی تصویر]]
[[فائل:Close_view_of_Lahore_Museum.jpg|250px|تصغیر|عجائب گھر کے سامنے سے لی گئی تصویر]]
'''لاہور میوزیم''' [[1894ء]] میں تعمیر کیا گیا جو [[جنوبی ایشیاء]] کے چند اہم ترین تاریخ کے مراکز میں سے ایک ہے۔ لاہور میوزیم کو '''مرکزی میوزیم''' بھی کہا جاتا ہے اور یہ [[لاہور]] کی معروف شاہراہ [[مال روڈ لاہور]] پر واقع ہے۔ [[رڈیارڈ کپلنگ]] کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے اور ان کا ناول کئم لاہور میوزیم کے گرد گھومتا ہے۔ [[2005ء]] میں اس میوزیم میں تشریف لانے والے سیاحوں کی تعداد تقریباً 250،000 سے زیادہ تھی۔<ref>[http://www.statpak.gov.pk/depts/fbs/statistics/social_statistics/visitors_to_areas_of%20attraction.pdf سیاحتی مقامات - حکومت پاکستان]</ref>
'''لاہور میوزیم''' [[1894ء]] میں تعمیر کیا گیا جو [[جنوبی ایشیاء]] کے چند اہم ترین تاریخ کے مراکز میں سے ایک ہے۔ لاہور میوزیم کو '''مرکزی میوزیم''' بھی کہا جاتا ہے اور یہ [[لاہور]] کی معروف شاہراہ [[مال روڈ لاہور]] پر واقع ہے۔ [[رڈیارڈ کپلنگ]] کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے اور ان کا ناول کئم لاہور میوزیم کے گرد گھومتا ہے۔ [[2005ء]] میں اس میوزیم میں تشریف لانے والے سیاحوں کی تعداد تقریباً 250،000 سے زیادہ تھی۔<ref>{{Cite web |url=http://www.statpak.gov.pk/depts/fbs/statistics/social_statistics/visitors_to_areas_of%20attraction.pdf |title=سیاحتی مقامات - حکومت پاکستان |access-date=2010-01-06 |archive-date=2007-06-10 |archive-url=https://web.archive.org/web/20070610192346/http://www.statpak.gov.pk/depts/fbs/statistics/social_statistics/visitors_to_areas_of%20attraction.pdf |url-status=dead }}</ref>
<br/>
<br/>
یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس میوزیم میں [[مغل]] اور سکھوں کے دور کی نوادرات ہیں، جس میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے اور دوسرے نوادرات جو [[مغل]]، [[سکھ]] اور [[برطانوی دور]] حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔<br/>
یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس میوزیم میں [[مغل]] اور سکھوں کے دور کی نوادرات ہیں، جس میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے اور دوسرے نوادرات جو [[مغل]]، [[سکھ]] اور [[برطانوی دور]] حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔<br/>

نسخہ بمطابق 15:45، 30 دسمبر 2020ء

لاہور عجائب گھر
Lahore Museum
View of entrance to the Lahore Museum
لاہور عجائب گھر
سنہ تاسیس1865, بعد میں موجودہ مقام پر 1894 میں منتقل کر دیا گیا
موجودہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا: 3 فروری 1890ء
محلِ وقوعمال روڈ, لاہور, پنجاب, پاکستان
متناسقات31°34′06″N 74°18′29″E / 31.568226°N 74.308174°E / 31.568226; 74.308174
نوعیتعلم الآثار, آرٹ گیلری, ورثہ، جدید تاریخ، مذہبی
حجمِ مجموعاتمہاتما بدھ کے مجسمے, پرانی پینٹنگز
زائرین250,000 سن 2005
ویب سائٹدفتری ویب سائٹ Edit this at Wikidata
عجائب گھر کے سامنے سے لی گئی تصویر

لاہور میوزیم 1894ء میں تعمیر کیا گیا جو جنوبی ایشیاء کے چند اہم ترین تاریخ کے مراکز میں سے ایک ہے۔ لاہور میوزیم کو مرکزی میوزیم بھی کہا جاتا ہے اور یہ لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔ رڈیارڈ کپلنگ کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے اور ان کا ناول کئم لاہور میوزیم کے گرد گھومتا ہے۔ 2005ء میں اس میوزیم میں تشریف لانے والے سیاحوں کی تعداد تقریباً 250،000 سے زیادہ تھی۔[1]
یہ میوزیم یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس میوزیم میں مغل اور سکھوں کے دور کی نوادرات ہیں، جس میں لکڑی کا کام، مصوری کے فن پارے اور دوسرے نوادرات جو مغل، سکھ اور برطانوی دور حکومت سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس میوزیم میں چند آلات موسیقی بھی رکھے گئے ہیں، اس کے علاوہ قدیم زیورات، کپڑا، برتن اور جنگ و جدل کا ساز و سامان شامل ہیں۔ یہاں قدیم ریاستوں کی یادگاریں بھی ہیں جو سندھ طاس تہذیب کی یاد دلاتی ہیں۔ یہ بدھا دور کی یادگاریں بھی ہیں۔ بدھا کا ایک مجسمہ جس کو نروان بدھا کا نام دیا جاتا ہے اس میوزیم کی سب سے مشہور یادگار تصور کی جاتی ہے۔ 2004ء میں نوبواکی تاناکا جو پاکستان میں جاپانی سفیر تھے، انھوں نے پہلی بار جاپان کی جامعات کو یہاں اس مجسمے پر تحقیق کے لیے دعوت دی اور پاکستانی حکومت اور جامعات کے شعبہ جات تاریخ کو اس بارے مزید تحقیق سے روشنائی ہوئی، کیونکہ بدھا جاپان میں انتہائی قابلِ احترام تصور ہوتے تھے اور محققین کا کام قابل ستائش ہے۔[2]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. "سیاحتی مقامات - حکومت پاکستان" (PDF)۔ 10 جون 2007 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جنوری 2010 
  2. نریوان بدھا پاکستان کے محققین کو امداد دلائیں گے — بدھا چینل

بیرونی روابط