کھوار زبان
کھوار | ||
---|---|---|
چترالی، قشقاری، ارنیہ | ||
تلفظ | [ˈkhowar:] | |
مستعمل | پاکستان، ہندوستان، افغانستان (چین)۔ | |
خطہ | جنوبی ایشیاء | |
کل متتکلمین | 9 ملین واطن مکلمین (2007) کلیتاً 10 ملین (2015) [متنازع ] | |
رتبہ | 19–21 (واطن مکلمین)، فارسی اور اردو سے قریباً برابری [متنازع ] | |
خاندان_زبان | ہند۔یورپی | |
نظام کتابت | کھوار ابجد (نستعلیق، نسخ) | |
باضابطہ حیثیت | ||
باضابطہ زبان | سابق ریاست چترال کی سرکاری زبان تھی لیکن ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کے بعد اب کھوار زبان سرکاری زبان سے علاقائی زبان میں تبدیل ہو گئی ہے | |
نظمیت از | کھوار اکیڈمی (پاکستان) پاکستان کھوار اکیڈمی (پاکستان) | |
رموزِ زبان | ||
آئیسو 639-1 | khw | |
آئیسو 639-2 | khw | |
آئیسو 639-3 | khw | |
یادآوری: اس صفحے پر یکرمز میں IPA کی صوتی علامات استعمال ہوسکتی ہیں۔ |
کھوار زبان جسے چترال کی نسبت سے چترالی بھی کہا جاتا ہے ایک ہند-یورپی زبان ہے جو پاکستان، ہندوستان، سنکیانگ(چین) اور افغانستان میں بولی جاتی ہے۔
تاریخ
کھوار زبان چترال میں بولی جانے والی ایک ہند-یورپی زبان ہے۔ چترال میں یہ زبان اکثریتی آبادی کی زبان ہے اور اس زبان نے چترال میں بولی جانے والی دیگر زبانوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ چترال کے اہل قلم نے اس زبان کو بچانے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ چترال کے تقریباً اسی فیصد افراد کی یہ مادری زبان ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال اور شمالی علاقہ جات کی جن معدوم ہونے والی زبانوں کو بچانے کے لیے یونیسکو (UNESCO) سے اپیل کی ہے ان زبانوں میں کھوار (چترالی زبان) سر فہرست ہے۔ چترالی زبانوں کے فروع کے لیے ادبی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں لیکن حکومتی سطح پر یہ کام سستی کا شکار ہے۔ اور چترالی زبانیں امتیازی سلوک کی زد میں ہیں۔
کھوار زبان ایرانی زبانوں کے مغربی گروہ سے تعلق رکھتی ہے جو ہند-یورپی زبانوں کی ایک شاخ ہے۔ عالمی سطح یہ ہند یورپی، ہند ایرانی، ہند آرین، دردی زبان تصور کی جاتی ہے۔ اس زبان پر سب سے پہلے جن لوگوں کے قلم اٹھایا وہ مستشرقین تھے لیکن ان کا سارا کام رومن میں ہے اور ہر ایک کی دسترس سے باہر ہے۔
کھوار زبان کو آرنیہ، چھتراری، قشقاری، پتو اور چترالی بھی کہا جاتا ہے اور اس زبان نے سب سے زیادہ اثر اردو اور فارسی زبان سے قبول کیا ہے اور اپنا سب سے زیادہ اثر کالاشہ زبان پر چھوڑا ہے۔
چترالی زبان کو پرانے زمانے میں کاشکری اور آرنیہ بھی کہا جاتا تھا۔ یہ زبان افغانستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ افغانی زبان میں اس زبان کو "کوہواری" یا "کھواری" بھی کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب "پہاڑوں کے لوگ" یا زبان ھے_
کھوار بولنے والوں کی کل تعداد سمر انسٹیٹیوٹ آف لنگوسٹکس نے 1992ء میں صرف دو لاکھ بیالیس ہزار لکھی ہے لیکن چترالی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم ادبی تنظیم کھوار اکیڈمی نے رحمت عزیز چترالی کی حالیہ تحقیق کے حوالے سے پاکستان میں کھوار بولنے والوں کی کل تعداد 10 لاکھ لکھی ہے جو صحیح اعداد و شمار ہیں۔
کھوار بولنے والے مندرجہ ذیل علاقوں اور کے ضلع چترال، سوات، دیر اور شمالی علاقہ جات کے ضلع غذر، شیغنان (افعانستان)، سنکیانگ (چین) اور ہندوستان کے چتور ضلع میں بولی جاتی ہے، انگریزی میں اسے kohwari کہا جاتا ہے _
ملکوں میں آباد ہیں
- چترال، غذر، گوپس، یاسین، اشکومن
- گلگت بلتستان، اوشو، کالام [سوات]
- شیعنان (افعانستان)
- سنکیانگ (چین)
- ہندوستان
کھوار اکیڈمی کی حالیہ تحقیق کے مطابق چترال کے کھوار بولنے والوں نے پشاور، شمالی علاقہ جات، پشاور، اسلام آباد، کراچی اور لاہور نقل مکانی شروع کی ہے۔
لہجے
کھوار اکیڈمی نے کھوار زبان کے مندرجہ زیل چار لہجوں کی نشان دہی کی ہے
- تورکھو/موڑکھو کا لہجہ
- غذر کا لہجہ
- لوٹ کوہ کا لہجہ
- چترال خاص کا لہجہ
ان سارے لہجوں میں تورکھو کے لہجے کو اصل لہجہ تصور کیا جاتا ہے
کھوار زبان میں افغانستان میں "کوار" یا "کھوار" کے نام جانا جاتا ہے۔
کھوار اس زبان کا نسبتی نام ہے جو کھوہ قوم بولتی ہے (94)۔ پاکستان کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک خطہ چترال ہے جسے ’’مشرقی سویٹزرلینڈ ‘‘کا نام دیا جاتا ہے(95)خطے کی مناسبت سے اس زبان کو چترالی بھی کہا جاتا ہے۔ جسے علاقائی لہجے میں مقامی لوگ چھتراری پکارتے ہیں۔ چترال سے باہر اس زبان کو چتراری، چترالی،کھوہ وار،کھوار، قشقاری اور آرنیہ بھی کہا جاتا رہا ہے(96)۔ یہ زبان چترال کے علاوہ شمالی علاقہ جات کے ضلع غدر میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سوات، کالام، واخان، پامیر اور نورستان کے افغان اضلاع میں بھی مادری زبان کے طور پر کھوار بولنے والوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہیں(97)۔ دیگر زبانوں کی طرح کھوار ادب کی ابتدا بھی لوک ادب سے ہوئی البتہ کھوار ادب میں نظم اور نثر دونوں شامل ہیں۔ جن سے اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کھوار میں نثر قدیم ہے یا نظم۔ البتہ لوک گیتوں کی قدامت کے شواہد زیادہ ہیں۔ کیونکہ موزوں ضرب الامثال اور پہیلیوں کو آسانی سے نظم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔’’کھوار لوک ادب میں تین ہزار سال پرانی داستانوں، پہیلیوں، ضرب الامثال اور قصے کہانیوں کا سراغ ملتا ہے اور یہ ادب زیادہ تر لوک گیتوں پر مشتمل ہے‘‘(98)۔ کھوار میں لوک گیتوں کو ’’باشو نو‘‘ کہا جاتا ہے(99)۔ کھوار لوک ادب کو اپنے معیار اور مقدار کے حوالے سے دیگر زبانوں کے لوک ادب کے سامنے برابری کی سطح پر رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اس ادب میں خالص حمدونعت کے موضوعات بہت کم ہیں اگرچہ کہیں کہیں مناجات کا رنگ ضرور جھلکتا ہے جیسے کھوار لوری میں ہمیں اللہ کی طرف رحمت و برکت کی طلب بھری باتیں ملتی ہیں۔
بھارت میں کھوار بولنے والوں کی تعداد
سمر انسٹی ٹیوٹ آف لنگوسٹکس نے 1992ء میں انیس ہزار دو سو لکھی ہے اور کھوار بولنے والوں کو مسلمان ظاہر کیا ہے لیکن کھوار اکیڈمی نے اس اعداد و شمار سے اختلاف کیا ہے ان کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں کھوار بولنے والوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ نہیں۔
چترالی اخبارات
- چترال وژن
- آواز چترال
قدیم آرنیہ
قدیم آرنیہ ادب میں ہمیں تین سو سال قدیم شعری نمونے ملتے ہیں مگر ان کو حمد میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ البتہ حمدیہ عناصر سے انکار کرنا بھی مشکل ہے۔ کھوار ادب کا پہلانام اتالیق محمد شکور غریب (1695ء تا 1772ء) ہے۔ بنیادی طور پر ان کو فارسی کا شاعر مانا جاتا ہے البتہ ان کے فارسی دیوان کے آخری باب’’بلغت چتراری‘ ‘کو کھوار ادب میں اولیت کا درجہ حاصل ہے(100)۔ اتالیق محمد شکور غریب بیک وقت مصاحب شاہ، جنگجو، شمشیرزن اور اہل قلم تھے۔ ان کا کلام عشقیہ مضامین سے پُر ہے۔ جس میں عربی فارسی اصطلاحوں کے ساتھ ساتھ متصوفانہ رنگ بھی موجود ہے۔ کھوار غزل کے حوالے سے انھیں اولیت کا شرف حاصل ہے۔ ان کے ہاں حمد کے مضامین نہیں ملتے البتہ نقشبندی اولیاء کی منقبتیں ملتی ہیں۔ جن میں جزوی طور پر حمدیہ عناصر پائے جا سکتے ہیں مکمل حمدیہ اشعار نہیں۔
نظم
نظم کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی کام ہوا ہے اور اس کام کو نثر سے زیادہ وقیع کہا جا سکتا ہے۔ اس میں اگر غزل کے علاوہ تمام قسم کی شاعری کو شامل کر لیا جائے تو یہ کام قابل فخر ہے۔ اس میدان میں مثنوی کے حوالے سے اتالیق محمد شکور غریب کا نام ابتدائی حوالہ ہے جبکہ مثنوی کی صنف قدیم ہے۔ قطعات کے حوالے سے بھی اتالیق کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مرز امحمدسیئر کو بھی مثنوی اور نظم کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے جبین، آمان، زیارت خان زیرک گل اعظم خان وغیرہ کو گیتوں کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے جدید ادب میں نظم کے حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، گل نواز خاکی ،سلطان علی، صالع نظام، مبارک خان، عبد الولی خان عابد، محمد عرفان عرفان، محمد جناح الدین پروانہ، امتیاز احمد امتیاز، صمصام علی رضا اور سیلم الٰہی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ رحمت عزیز چترالی کی حمدیہ نظم کا ترجمہ پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: اے میرے پرودگار! یہ زمین تیری تخلیق ہے اور آسمان بھی تیری ہی تخلیق ہے۔ یہ چرند،پرند،حیوان اور انسان بھی تیری تخلیق ہیں۔ تمام روحوں کو بھی تو نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہمارے جسموں میں یہ جانیں بھی تیری ہی تخلیق ہیں یہ ناشکرا انسان پھر اس آیت کا مطب نہیں سمجھتا اور تیرا شکر ادا نہیں کرتا کہا’’تم انپے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘(41)
کھوار حمد نگاری پر ایک نظر
کھوار زبان آزمائشی ویکیپیڈیا، ویکیمیڈیا انکوبیٹر پر |
کھوار اس زبان کا نسبتی نام ہے جو کھوہ قوم بولتی ہے (94)۔ پاکستان کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ایک خطہ چترال ہے جسے ’’مشرقی سویٹزرلینڈ ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے(95)خطے کی مناسبت سے اس زبان کو چترالی بھی کہا جاتا ہے۔ جسے علاقائی لہجے میں مقامی لوگ چھتراری پکارتے ہیں۔ چترال سے باہر اس زبان کو چتراری، چترالی،کھوہ وار،کھوار، قشقاری اور آرنیہ بھی کہا جاتا رہا ہے(96)۔ یہ زبان چترال کے علاوہ شمالی علاقہ جات کے ضلع غدر میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سوات، کالام، واخان، پامیر اور نورستان کے افغان اضلاع میں بھی مادری زبان کے طور پر کھوار بولنے والوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہیں(97)۔ دیگر زبانوں کی طرح کھوار ادب کی ابتدا بھی لوک ادب سے ہوئی البتہ کھوار ادب میں نظم اور نثر دونوں شامل ہیں۔ جن سے اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کھوار میں نثر قدیم ہے یا نظم۔ البتہ لوک گیتوں کی قدامت کے شواہد زیادہ ہیں۔ کیونکہ موزوں ضرب الامثال اور پہیلیوں کو آسانی سے نظم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔’’کھوار لوک ادب میں تین ہزار سال پرانی داستانوں، پہیلیوں، ضرب الامثال اور قصے کہانیوں کا سراغ ملتا ہے اور یہ ادب زیادہ تر لوک گیتوں پر مشتمل ہے‘‘(98)۔ کھوار میں لوک گیتوں کو ’’باشو نو‘‘ کہا جاتا ہے(99)۔ کھوار لوک ادب کو اپنے معیار اور مقدار کے حوالے سے دیگر زبانوں کے لوک ادب کے سامنے برابری کی سطح پر رکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اس ادب میں خالص حمدونعت کے موضوعات بہت کم ہیں اگرچہ کہیں کہیں مناجات کا رنگ ضرور جھلکتا ہے جیسے کھوار لوری میں ہمیں اللہ کی طرف رحمت و برکت کی طلب بھری باتیں ملتی ہیں۔
قدیم کھوار ادب میں ہمیں تین سو سال قدیم شعری نمونے ملتے ہیں مگر ان کو حمد میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ البتہ حمدیہ عناصر سے انکار کرنا بھی مشکل ہے۔ کھوار ادب کا پہلانام اتالیق محمد شکور غریب (1695ء تا 1772ء) ہے۔ بنیادی طور پر ان کو فارسی کا شاعر مانا جاتا ہے البتہ ان کے فارسی دیوان کے آخری باب’’بلغت چتراری‘ ‘کو کھوار ادب میں اولیت کا درجہ حاصل ہے(100)۔ اتالیق محمد شکور غریب بیک وقت مصاحب شاہ، جنگجو، شمشیرزن اور اہل قلم تھے۔ ان کا کلام عشقیہ مضامین سے پر ُہے۔ جس میں عربی فارسی اصطلاحوں کے ساتھ ساتھ متصوفانہ رنگ بھی موجود ہے۔ کھوار غزل کے حوالے سے انھیں اولیت کا شرف حاصل ہے۔ ان کے ہاں حمد کے مضامین نہیں ملتے البتہ نقشبندی اولیاء کی منقبتیں ملتی ہیں۔ جن میں جزوی طور پر حمدیہ عناصر پائے جا سکتے ہیں مکمل حمدیہ اشعار نہیں۔
مرزا محمدسیر جنھیں پروفیسر اسرارالدین نے مولانا محمد سیئر ( 101) لکھا ہے چترال میں مہسیار کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کو چترال کاعظیم ترین شاعر خیال کیا جاتاہے۔ ان کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے البتہ ان کا کھوار رومان ’’یار من ہمیں‘‘ایک عظیم کھوار دستاویز ہے جو چترال میں زبان زدخاص وعام ہے۔ ان کے فارسی کلام میں حمدکے اعلٰی نمونے ملتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں بھی حمدیہ اشعار نہیں مل سکے۔ البتہ ان کے کھوار کلام میں تصوف، معرفت اور عشق مجازی کے بے شمار رنگ ملتے ہیں جو مجازی سے بڑھ کر حقیقی کی طرف نشان دہی کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر فتح محمد ملک لکھتے ہوئے ان کی شاعری کو شیرازخراسان اور ہندکی صوفیانہ شاعری کا حسین امتزاج قرار دیا ہے(102)َ۔ شہزادہ تجمل شاہ محوی کھوار ادب کا ایک اور معتبرنام ہے۔ آپ کٹور مہتر چترال کے فرزند تھے اور بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ وہ 1790ء میں پیدا ہوئے اور 1843ء میں شہید ہوئے۔ ان کا فارسی دیوان موجودہے مگرکھوار میں کچھ غزلیات اور قطعات بھی محفوظ ہیں۔ آپ کے کلام میں عارفانہ کلام کثرت سے ہے جس میں معرفت اور عشق و مستی کا خاص رنگ ملتا ہے۔ ان کے ہاں دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی فکر عام ہے۔ کلاسیکی دور کے شعرا جین ،آمان، زیارت خان زیرک،گل اعظم خان ،حسیب اللہ، باچہ خان ھما، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب، مہر گل ،اور منیر عزیزالرحمن بیغش شامل ہیں ان میں سے زیادہ تر کا کلام ابھی شائع نہیں ہوا۔
باچہ خان ہما کلاسیکی شعرا کے متا خرین میں ایک خصوصی اہمیت کے حامل شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں صنائع، بدائع، لطافت اور ظرافت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ وہ عالم باعمل اور صاحب دل بھی تھے۔ شگفتہ مزاجی ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ البتہ آپ ایک مشکل پسند شاعر تھے۔ آپ کے کلام میں عربی اور فارسی الفاظ کا بھاری پن ہے۔ اپنے گاؤں کے ایک مجذوب مجید کا ذکروہ اپنے کلام میں جا بجا کرتے ہیں۔ جس سے تصوف اور سلوک کی منازل کے حصول کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یاد رہے آپ کھوار زبان کے سب سے پہلے صاحب دیوان شاعر بھی ہیں(103)۔ ان کے ہاں ایک دو کی بجائے کئی جگہ حمدیہ مضامین ملتے ہیں گو انھوں نے حمد کے عنوان سے کچھ نہیں کہا۔ ان کے دو اشعار کا ترجمہ پیش ہے:۔ اے محبوب تم اپنے حجاب اور پردے کو ہٹا کر کیا کمال کرتے ہو کہ افلاطون جیسا عاقل بھی مجید جیسا فاترالعقل بن جاتا ہے۔ اے محبوب اپنے حسن کی بہار دکھادے جوزندگی کا سر چشمہ ہے۔ اس بہار کی مسکراہٹیں بکھیر کر مجھ جیسے لاکھوں عاقلوں کو مجید جیسا دیوانہ بنا دے۔( 104)
آپ16 دسمبر 1989ء کو سول ہسپتال دروش میں انتقال کر گئے۔ کلاسیکی دور کے ایک اہم نام امیر گل خان ہیں ان کے کلام میں تصوف اور معرفت کی چاشنی بھر پور طور پر موجود ہے۔ آپ کو چترال میں موسیقی کے حوالے سے خصوصی مقام حاصل ہے۔ آپ جتنے اچھے گیت نگار ہیں اتنے ہی اچھے مو سیقاربھی ہیں۔ آپ نے عشقیہ گانوں کے علاوہ حمد، نعت، مرثیے اور قومی ترانے بھی لکھے (105)۔ پروفیسر اسرار الدین کے مطابق آپ پہلے کھوار شاعر ہیں۔ جنہو ں نے باقاعدہ طور پر حمد لکھی۔ ان کا ایک حمدیہ بند حا ضر ہے جو صوفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ[L: 58]خداتعالی طرح طرح سے اپنا جلوہ ظاہر کرتا ہے کہیں صلیب کے اُوپر منصور کی مستی میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ اور )اس سب کے باوجود(اللہ تعالٰی لا شریک بادشاہ ہے۔ اور اس کی ہستی واحد اور بلند ہے(106)۔
قدیم دور کے مقابلے میں جدید دور میں کھوار ادب میں خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔ قدیم ادوار میں حکمرانوں کی زبان کیو ں کہ فارسی رہی ہے۔ اس لیے کھوار ادب بھی ترقی نہیں کر سکامگر قیام پاکستان کے بعد عموماً اور موجودہ دور میں خصوصاً کھوار ادب میں نئے نئے تجربے ہوئے اور شعرا نے دیگر اضاف ادب کے ساتھ ساتھ حمد اور نعت پر بھی توجہ صرف کی۔ کھوار ادب میں نعت تو کافی ملتی ہے البتہ حمد کے حوالے سے یہ ادب اتنا ثروت مند نہیں۔ روایت کے طور پر حمد تقریباً سارے شعرا کے ہاں ملتی ہے مگر ابتدا میں ہو،یہ ضروری نہیں۔ جدید دور کے شعرا کے ہاں کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام شعری کتب حمد و نعت سے شروع ہوں البتہ بسم اللہ سے دیوان کی ابتدا کرنے کا رجحان قدیم ہے۔ حمد کو صنف شاعری کے طور پر رواج دینے والے شعرا میں قاضی ملغت خان بڑے اہم شاعر ہیں۔ یہ تورکھو سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کا کلام دستیاب نہیں ہو سکا۔ ان کے بعد بابا فردوسی، باباایوب خان ایوب، ناجی خان ناجی، محمد چنگیز خان طریقی، مولاناپیر محمد چشتی، مولانا نقیب اللہ رازی، گل نواز خان خاکی، اقبال حیات، محمد جاوید حیات، جاوید حیات کاکا خیل، فداالرحمن فدا۔ عبد الولی خان، پروفیسر اسرارالدین، رحمت عزیزچترالی، نورالہادی، عنایت الرحمن پرواز وغیرہ حمد لکھنے والے شعرا میں شامل ہیں۔ مرزا فردوس فردوسی کو سبقت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے مجموعہ کلام میں حمدیہ اشعار شامل کیے ان کے بعد رحمت عزیز چترالی نے اپنے مجموعہ کلام ۔’’گلدستہ رحمت‘‘ میں کئی حمدیں شامل کیں جو ایک نیارجحان ہے۔ ان کی ایک نظم کا ترجمہ پیش ہے جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھی۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ[L: 58]اے اللہ! اے میرے خدایا! یہ زمین بھی تیری ،یہ آسما ں بھی تیرا، یہ پتھر ،یہ مٹی،یہ ریت اور پتے بھی تیرے۔ یہ پودے ،یہ فصلیں، گاجر اور آلو، سیب، خوبانی اور آرڑو کے یہ درخت بھی تیرے۔ تیری رحمتوں کا شکر میں ادا نہیں کر سکتا)یعنی تیری رحمتیں بے کنار ہیں(میری سانسیں بھی تیری عطا ہیں۔ میری حرکت اور جان بھی تیری ہے۔ میں گنہگار بندہ ہوں مگر پھر بھی تیری رحمت سے نا اُمید نہیں ہوں۔ تو ہی مجھ جیسے گنہگار پر رحم کر کیونکہ تو رحیم ہے۔ تو غفور بھی ہے، تو غفار بھی ہے۔ اے اللہ سب مسلمانوں کے گناہ معاف فرما کیونکہ یہ سب تیرے ہی بندے ہیں (107)۔
کھوار ادب میں اب ایک تحریک کی صورت میں حمد نگاری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اور ان تحریک کو فروغ دینے میں جمہور الاسلام، ماہنامہ شندور، ماہنامہ ژھنگ، صدائے چترال، ہندو کش، ھمکلام، بزم کھوار اورچترال وژن پیش پیش ہیں۔ کھوار ادب میں کچھ مجموعہ جات حمد سے خالی بھی دستیاب ہیں اس حوالے سے ذاکر محمد زخمی کے مجموعہ کلام کو پیش کیا جا سکتا ہے جس کی ابتدا حمد سے نہیں کی گئی (108)کھوار ادب میں بھی حمد سے زیادہ قدیم مناجات ہے گو مناجات بھی حمد کے ذیل میں شامل ہے مگر وہ مناجات بہت کم ہیں جن میں شاعر نے تعریف و توصیف کے بعد دعا مانگی ہے۔ اور تعریف و توصیف اور بڑائی کے بغیر مانگی گئی دعایا مناجات التجا، درخواست، منت اور زاری تو ہو سکتی ہے حمد نہیں۔ کھوار زبان میں ابھی تک کوئی حمدیہ مجمویہ شائع نہیں ہوا مگر چند مجموعے ایسے ہیں جن میں حمد و مناجات کو روایت سے ہٹ کرزیادہ صفحات دیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے رحمت عزیز چترالی کو اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے ’’ گلدستٗہ رحمت ‘‘میں پہلی دفعہ تیرہ حمدویں شامل کیں ان کے بعد پروفیسر اسرارالدین کے مجموعے ’’درون ہنو‘‘کی باری آتی ہے کہ اس میں 29 سے 66 صفحہ تک حمدومناجات کو جگہ دی گئی ہے۔ پروفیسر اسرارالدین کی حمد کا منظوم ترجمہ پیش ہے :۔ اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو لا شریک وحدہ لا الہ الا ھو اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو ارد گرد بھی تو درمیان میں بھی تو ادھر بھی تو ادھر بھی تو غائب بھی تو حاضر بھی تو اللہ ہو اللہ ہو تو ہی تو (109) مترجم)رحمت عزیز چترالی
موجودہ دور میں تاج محمد فگار، امین چغتائی، ذاکرمحمد زخمی، مولانا نقیب اللہ رازی اور پیر محمد چشتی نے حمد کو اپنے مجموعہ جات میں شامل کیا ہے۔ اب تو اکثر شعرا حمد کو اپنے مجموعے میں اولیت دیتے ہیں ان شعرا میں پروفیسر اسرارالدین، رحمت عزیز چترالی،محمد ناجی خان ناجی ، امین چغتائی، پیر محمد چشتی، ولی زار خان ولی، ولی الرحمن ولی اورتاج محمد فگار شامل ہیں۔1978ء میں جب انجمن ترقی کھوارچترال اور 1996میں کھوار اکیڈمی کراچی کا قیام عمل میں آیا تو کھوار ادب میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت تک یہ انجمن قابل قدر کام کر چکی ہے۔ اب اس انجمن کے ڈائریکڑ رحمت عزیز چترالی ہیں جو ایک ایثار پسند، ملنساراور علمی کام میں ہر وقت مدد کے لیے تیار رہنے والے شخص ہیں ان کی وجہ سے کھوار ادب میں خاطر خواہ ترقی ہوئی۔ ان کے قلم سے کئی ایک مجموعہ جات چھپ چکے ہیں۔ جبکہ حمدکے حوالے سے ایک نثری کتاب ’’کھوار حمد و نعت کی مختصر تاریخ‘‘اور ایک خاص حمدیہ شعری مجموعہ ’’حمد و ثنائے رب جلیل‘‘ عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہونے والا ہے۔ یہ دونوں کتب بلاشبہ کھوار ادب میں ایک نیا اور صحت مند اضافہ ہوں گی اور کھوار حمد و نعت کو اردو ،سندھی اور پنجابی کی صف لا کھڑا کرنے میں معاون ثابت ہو نگی۔ جاوید حیات کاکا خیل جدید دور کے شعرا میں سے ایک اہم شاعر ہیں ان کی ایک حمدیہ نظم پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ترجمہ[L: 58]اے میرے پروردگار!تو کیڑے مکوڑوں سے لے کر انسانوں تک سب کا رازق ہے تو سب کے لیے رحم کرنے والا ہے تو مہربان ہے۔ اے میرے پاک اللہ صرف ایک لفظ ’’کن‘‘سے تو نے اس حکمت سے بھر پورکائنات کو بنایا۔ تیری قدرت کی کوئی انتہا نہیں )بلکہ وہ لامحدودہے ( تیری قدرت عظیم الشان ہے ،اے میرے پاک اللہ !(110)۔ مترجم( رحمت عزیز چترالی)
صفدر ساجد اس دور کا شاعر ہے جو حمد و نعت، نظم اور غزل پر یکساں دسترس رکھتا ہے ان کا کلام قلمی صورت میں انجمن ترقی کھوار کی لائبریری میں شائع ہونے کے لیے منتظر ہے وہ اللہ جل شانہ کے حضور یوں عرض گزا رہے:۔ ترجمہ[L: 58]اے میرے خدا! اے میرے پروردگار، تیرا یہ بندا بڑا گنہگار ہے۔ میری زندگی نا فرمانیوں میںگزر رہی ہے، اے اللہ ! تو اس گناہ کے ملبے کو ختم کر کے میرے دل کو صاف کیجییو(111)۔ مترجم( رحمت عزیز چترالی)
کھوارشعراء کی توجہ حمد و نعت کی طرف مبذول ہو چکی ہے جس کا ثبوت نعتیہ مجموعہ’’ آقائے نا مدار‘‘ ہے جو مولانا محمد نقیب اللہ رازی کا تخلیق کردہ ہے (112)جسے کھوار ادب میں ایک خوش آئند اضافہ قرار دیا جا رہا ہے۔ انجمن کھوارچترال کی کوششوں سے ’’ققنوز‘‘ کے نام سے دو شعری انتخاب شائع ہوئے تھے جن میں حمد و نعت کے بھی قابل ذکر نمونے ملتے ہیں۔ بہرحال یہ انتخاب کھوار ادب کا بھرپور اور متوازن منظرنامہ ہے جس میں حمد و نعت کا پہلو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ کھوار ایک قدیم زبان ہے مگر اس کی ادبی تاریخ تین سو سال سے زیادہ قدیم نہیں البتہ لوک ادب کی قدامت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھوارلوک ادب زیادہ تر گیتوں پا مشتمل ہے جسے ’’باشونو‘‘کہا جاتا ہے (5)۔ باشونو کے آگے کئی سابقوں کے ساتھ اہم موقعوں کی مناسبت سے گائے جانے والے گیتوں کو الگ الگ نام دیا جاتا ہے۔ آشور جان بھی اس ادب کی ایک مقبول صنف ہے جو نہ صرف ہردلعزیز ہے بلکہ ہر عمر کے فرد کو کچھ نہ کچھ یاد ہے(6)۔ کھوار ادب میں ماں سے متعلق تمام گیتوں کو مہرو شونو (7)کہا جاتاہے اس میں ذیلی طور پر لوری )ہووئینی(شامل ہے جسے مائیں بچوں کو سلانے کے لیے گاتی ہیں۔ اس میں بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور کامیابی کی دعائیں مانگی گئی ہوتی ہیں۔ کھوار لوری میں حمد یہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے:۔ ترجمہ: دم دارستارہ آسمان کی ایک سمت سے چل کے دوسری طرف جائے گا میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا۔ اللہ بہت بڑا ہے اس نے چاند کو پیدا کیا ہے اور ستاروں کو چاند کے ساتھ بطورپہرہ دار بنایا ہے اور چاند کی روشنی ہر جگہ پہنچے گی میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ با لکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا(8)۔ مثنوی کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی ذخیرہ ہے اس حوالے سے تقریبا سارے رومان مثنوی میں ہیں البتہ حمد کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’’یار من ہمیں‘‘ایک رومان ہے مگر اس کے اشعار میں حمد کا وجود نہیں ملتا البتہ تصوف کی گنجاش ہے۔ کیونکہ رومان یا مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے تو شائد اس رومان کی ابتدا بھی حمد سے ہوئی ہو مگر تمام تمام شعر دستیاب نہیں مختلف محققین نے اس کے مختلف شعر درج کیے ہیں اور ابتدائی اشعار بھی طے نہیں ہو سکے۔ تاج محمد فگار کی ایک حمدیہ مثنوی کے تیرہ میں سے دو شعرپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ اللہیئے کا پورہ کوئی تہ سار غیر مہ حاجتو رحم کو روم کہ ریتاؤ کہ کھنار شیر تہ رحمتو اے مہ غفور الرحیم اوہ بو گنہگار اسوم اگر کہ گنہگار تہ رحمتو امیدوار اسوم (18)
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی حاجتیں پوری کرنے والا نہیں اگر وہ رحم کرے تو اس کے لیے رحم کرنا مشکل نہیں۔ تو ایک اللہ ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تیرا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں۔ مترجم (محمد انور چترالی) سی حرفی کو کھوار ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جوہند کو میں ہے البتہ اس کی چند ایک مثالیں ضرور مل جاتی ہیں مگر حمد کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ چاربیتہ کی صنف کھوار ادب میں پشتو ادب سے آئی اور اس نے یہاں خوب ترقی کی۔ اس حوالے سے کھوار میں قابل ذکر کام ہوا ہے۔ رحمت عزیزچترالی ایک چاربیتہ حاض رہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: پرندے تیری حمد و ثنا میں مصروف ہیں اور بلبل بھی ان کا ہمنواہے۔ کانٹے بھی تیری حمدوثنا سے خالی نہیں اور پھول بھی ان کے ساتھ ہیں۔ رحمت عزیز تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ معافی کی التجا میں اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی رحمت گل بھی ساتھ ہے (59)۔
کھوار ادب میں اردو میں مروجہ تمام اضاف ادب موجود ہیں البتہ کھوار گیتوں کی صنف قدیم شاعری میں سب سے نمایاں اور کثرت سے ہے۔ مگر جدید شاعری میں اب نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی اضاف کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے دیکھیں تو کھوار ادب کی معلوم تاریخ کا پہلا شاعر ہی غزل گو ہے اور ان کی غزل اس سطع پر تھی جہاں ان کی فارسی شاعری تھی۔ یعنی اتالیق محمد شکور غریب نے اپنے دیوان کے آخر پر جو ’کھوار ادب‘ کا باب شامل کیا ہے اس میں غزل زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف فارسی شعری روایت کے اساتذہ میں سے تھے بلکہ فارسی غزل کے نامور شاعر تھے۔ اس لیے جب وہ اپنی مادری زبان کی طرف رجوع ہوئے تو ان کی کھوار غزل میں فارسی غزل کا تمام تجربہ اور فن منتقل ہو گیا۔ مگر پہ کام فارسی زدہ سا لگتا ہے ان کے بعد مولانامحمد سیئر سیئر اور باچہ خان ہما نے غزل کو بلند مقام ہے تجمل شاہ محوی، حبیب اللہ فدا برنسوی، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب ایوب اور عزیرالرحمن بیغش نے کھوار غزل میں انپے قلم کے جوہر دکھائے۔ جدید ادب میں بھی غزل کا جادہ سر چڑھ کر بول رہا ہے البتہ روایتی مضامین کی جگہ جدید مضامین نے لے لی ہے۔ جدید غزل لکھنے والوں میں امین الرحمن چغتائی کا مقام کسی تعارف کا معتاج نہیں۔ ان کی غزل میں تنوع،جدت،نازک خیالی،ندرت اور چابک دستی کا حسین امتنراج ہے۔ ذاکر محمد زخمی، پروفسیراسرارلدین، فضل الرحمن بیغش، سعادت حسین مخفی، جمشید حسین مخفی اور محمد چنگیز خان طریقی جدید غزل کے اہم شعراہیں ان کی غزل بلاشبہ اردو اور فارسی غزل کی ہمسری کا دعوی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں بھی غزل کا سفر جاری ہے جس میں بے شمار نئے لکھنے والے اپنا اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں : پروفیسر اسرارالدین،جاوید حیات کا کا خیل، جاوید حیات، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، سبحان عالم سبحان، انورالدین انور، محمد شریف شکیب رب نواز خان نوازاور عطا حسین اظہر شامل ہیں۔ سبحان عالم ساغر کی غزل سے تین حمدیہ اشعارپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ہر دورا،ہر زمانہ جلوہ تہ نمایان شیر طورا، چاہ کنعانہ، جلوہ تہ نمایان شیر گمبو دیو خاموشیہ، ہو رنگو چ ووریا بلبلو ہے ترانہ، جلوہ تہ نمایان شیر زندہ کرے ماریس تو،ماری اجی زندہ کوس بہار اوچے خزاں،جلوہ تہ نمایان شیر(70) ترجمہ: ہر دور میں ہر زمانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے، کوہ طور میں، چاہ کنعان میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ پھول کی خاموشی میں، اس کے رنگ اور خوشبو میں اور بلبل کے ترانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ زندہ کر کے مارے گا بھی تو ہی اور مار کر زندہ بھی تو ہی کرے گا، بہار اور خزاں میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔
کھوار حمد نگاری میں صنفی اشتراک کھوار ایک قدیم زبان ہے مگر اس کی ادبی تاریخ تین سو سال سے زیادہ قدیم نہیں البتہ لوک ادب کی قدامت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کھوارلوک ادب زیادہ تر گیتوں پا مشتمل ہے جسے ’’باشونو‘‘کہا جاتا ہے (36)۔ باشونو کو آگے کئی سابقوں کے ساتھاہم موقعوں کی مناسبت سے گائے جانے والے گیتوں کو الگ الگ نام دیا جاتا ہے جن میں آشور جان جیسی مقبول صنف بھی شامل ہے جو نہ صرف ہر لعزیز ہے بلکہ ہر عمر کے فرد کو کچھ نہ کچھ یاد ہے(37)۔ کھوار ادب میں ماں سے متعلق تمام گیتوں کو مہرو شونو (38) کہا جاتاہے اس میں ذیلی طور پر لوری )ہووئینی(شامل ہے جسے مائیں بچوں کو سلانے کے لیے گاتی ہیں۔ اس میں بچوں کے لیے نیک تمنائیں اور کامیابی کی دعائیں مانگی گئی ہوتی ہیں۔ کھوار لوری میں حمد یہ عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ جیسے:۔ ترجمہ: دم دارستارہ آسمان کی ایک سمت سے چل کے دوسری طرف جائے گا میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا۔ اللہ بہت بڑا ہے اس نے چاند کو پیدا کیا ہے اور ستاروں کو چاند کے ساتھ بطورپہرہ دار بنایا ہے اور چاند کی روشنی ہر جگہ پہنچے گی میرا بیٹا بہت ہی اچھا ہے۔ یہ بالکل روئے گا نہیں بلکہ سوئے گا(39)۔
کھوار ادب میں اردو میں مروجہ تمام اضاف ادب موجود ہیں البتہ کھوار گیتوں کی صنف قدیم شاعری میں سب سے نمایاں اور کثرت سے ہے۔ مگر جدید شاعری میں اب نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی اضاف کا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ غزل کے حوالے سے دیکھیں تو کھوار ادب کی معلوم تاریخ کا پہلا شاعر ہی غزل گو ہے اور ان کی غزل اس سطع پر تھی جہاں ان کی فارسی شاعری تھی۔ یعنی اتالیق محمد شکور غریب نے اپنے دیوان کے آخر پر جو ’کھوار ادب‘ کا باب شامل کیا ہے اس میں غزل زیادہ ہے۔ وہ نہ صرف فارسی شعری روایت کے اساتذہ میں سے تھے بلکہ فارسی غزل کے نامور شاعر تھے۔ اس لیے جب وہ اپنی مادری زبان کی طرف رجوع ہوئے تو ان کی کھوار غزل میں فارسی غزل کا تمام تجربہ اور فن منتقل ہو گیا۔ مگر پہ کام فارسی زدہ سا لگتا ہے ان کے بعد مولانامحمد سیئر سیئر اور باچہ خان ہما نے غزل کو بلند مقام ہے تجمل شاہ محوی، حبیب اللہ فدا برنسوی، مرزا فردوس فردوسی، بابا ایوب ایوب اور عزیرالرحمن بیغش نے کھوار غزل میں انپے قلم کے جوہر دکھائے۔ جدید ادب میں بھی غزل کا جادہ سر چڑھ کر بول رہا ہے البتہ روایتی مضامین کی جگہ جدید مضامین نے لے لی ہے۔ جدید غزل لکھنے والوں میں امین الرحمن چغتائی کا مقام کسی تعارف کا معتاج نہیں۔ ان کی غزل میں تنوع،جدت،نازک خیالی،ندرت اور چابک دستی کا حسین امتنراج ہے۔ ذاکر محمد زخمی، پروفسیراسرارلدین، فضل الرحمن بیغش، سعادت حسین مخفی، جمشید حسین مخفی اور محمد چنگیز خان طریقی جدید غزل کے اہم شعراہیں ان کی غزل بلاشبہ اردو اور فارسی غزل کی ہمسری کا دعوی کر سکتی ہے۔ موجودہ دور میں بھی غزل کا سفر جاری ہے جس میں بے شمار نئے لکھنے والے اپنا اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں : پروفیسر اسرارالدین،جاوید حیات کا کا خیل، جاوید حیات، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، سبحان عالم سبحان، انورالدین انور، محمد شریف شکیب رب نواز خان نوازاور عطا حسین اظہر شامل ہیں۔ سبحان عالم ساغر کی غزل سے سے ایک حمدپیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: ہر دور میں ہر زمانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے، کوہ طور میں، چاہ کنعان میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ پھول کی خاموشی میں، اس کے رنگ اور خوشبو میں اور بلبل کے ترانے میں تیرا جلوہ نمایاں ہے۔ زندہ کر کے مارے گا بھی تو ہی اور مار کر زندہ بھی تو ہی کرے گا، بہار اور خزاں میں تیرا جلوہ نمایاں ہے(40)۔
نظم کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی کام ہوا ہے اور اس کام کو نثر سے زیادہ وقیع کہا جا سکتا ہے۔ اس میں اگر غزل کے علاوہ تمام قسم کی شاعری کو شامل کر لیا جائے تو یہ کام قابل فخر ہے۔ اس میدان میں مثنوی کے حوالے سے اتالیق محمد شکور غریب کا نام ابتدائی حوالہ ہے جبکہ مثنوی کی صنف قدیم ہے۔ قطعات کے حوالے سے بھی اتالیق کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مرز امحمدسیئر کو بھی مثنوی اور نظم کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے جبین، آمان، زیارت خان زیرک گل اعظم خان وغیرہ کو گیتوں کی وجہ سے اہم مقام حاصل ہے جدید ادب میں نظم کے حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی، گل نواز خاکی ،سلطان علی، صالع نظام، مبارک خان، عبد الولی خان عابد، محمد عرفان عرفان، محمد جناح الدین پروانہ، امتیاز احمد امتیاز، صمصام علی رضا اور سیلم الٰہی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ رحمت عزیز چترالی کی حمدیہ نظم کا ترجمہ پیش ہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: اے میرے پرودگار! یہ زمین تیری تخلیق ہے اور آسمان بھی تیری ہی تخلیق ہے۔ یہ چرند،پرند،حیوان اور انسان بھی تیری تخلیق ہیں۔ تمام روحوں کو بھی تو نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہمارے جسموں میں یہ جانیں بھی تیری ہی تخلیق ہیں یہ ناشکرا انسان پھر اس آیت کا مطب نہیں سمجھتا اور تیرا شکر ادا نہیں کرتا کہا’’تم انپے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے‘‘(41)مترجم( رحمت عزیز چترالی)
مثنوی کے حوالے سے کھوار ادب میں کافی ذخیرہ ہے اس حوالے سے تقریبا سارے رومان مثنوی میں ہیں البتہ حمد کے حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ ’’یار من ہمیں‘‘ایک رومان ہے مگر اس کے اشعار میں حمد کا وجود نہیں ملتا البتہ تصوف کی گنجاش ہے۔ کیونکہ رومان یا مثنوی کی ابتدا حمد سے ہوتی ہے تو شائد اس رومان کی ابتدا بھی حمد سے ہوئی ہو مگر تمام تمام شعر دستیاب نہیں مختلف محققین نے اس کے مختلف شعر درج کیے ہیں اور ابتدائی اشعار بھی طے نہیں ہو سکے۔ تاج محمد فگار کی ایک مثنوی نما حمد کے تیرہ میں سے دو شعرپیش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی حاجتیں پوری کرنے والا نہیں اگر وہ رحم کرے تو اس کے لیے رحم کرنا مشکل نہیں۔ تو ایک اللہ ہے تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تیرا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں اور نہ صفات میں (42) مترجم (محمد انور چترالی)
سی حرفی کو کھوار ادب میں وہ مقام نہیں مل سکا جوہند کو میں ہے البتہ اس کی چند ایک مثالیں ضرور مل جاتی ہیں مگر حمد کے حوالے سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ چاربیتہ کی صنف کھوار ادب میں پشتو ادب سے آئی اور اس نے یہاں خوب ترقی کی۔ اس حوالے سے کھوار میں قابل ذکر کام ہوا ہے۔ رحمت عزیزچترالی ایک چاربیتہ حاض رہے۔ وہ لکھتے ہیں:۔ ترجمہ: پرندے تیری حمد و ثنا میں مصروف ہیں اور بلبل بھی ان کا ہمنواہے۔ کانٹے بھی تیری حمدوثنا سے خالی نہیں اور پھول بھی ان کے ساتھ ہیں۔ رحمت عزیز تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے۔ معافی کی التجا میں اکیلا نہیں بلکہ اس کا بڑا بھائی رحمت گل بھی ساتھ ہے (43)۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
بیرونی روابط
Grammar and Vocabulary of Khowar Language by O'Brien
- کھوار زبان و ادب: ایک تعارفآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ https (Error: unknown archive URL)
- ضلع چترال
- چترال کی زبانیں
- پاکستان کی زبانیں
- افغانستان کے نسلی گروہ
- ایشیا کے نسلی گروہات
- بھارت کے نسلی گروہ
- پاکستان کے نسلی گروہ
- جموں و کشمیر کی زبانیں
- جموں و کشمیر کے معاشرتی گروہ
- جنوبی ایشیا
- چترالی
- خیبر پختونخوا کے معاشرتی گروہ
- خطرہ معدومیت
- داردی اقوام
- ہند یورپی زبانیں
- خیبر پختونخوا کی زبانیں
- کھوار
- داردی زبانیں
- گلگت بلتستان کی زبانیں
- ایتھنولوگ کے علاوہ دیگر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے آیزو زبان کے مضامین