شینا زبان
شینا | |
---|---|
Shina | |
200px | |
مقامی | پاکستان، بھارت |
علاقہ | گلگت بلتستان، چترال |
مقامی متکلمین
|
(500,000 cited 1981–1998)e18 |
عربی رسم الخط | |
زبان رموز | |
آیزو 639-3 | کوئی ایک: scl – Shina plk – کوہستانی شینا |
گلوٹولاگ | shin1264 Shina[1]kohi1248 کوہستانی شینا[2] |
![]() |
|
شینازبان ایک قدیم زبان ہے۔ وادیٔ سندھ سے آریائی تہذیب کے ایک قبیلہ ’’درد‘‘ اپنے ساتھ اس زبان کو لے کر وادیٔ سندھ سے ہجرت کرکے شمالی مشرق کی طرف کوچ کرگیا۔ زمانے کے ہاتھوں دھکے کھاتے کھاتے اوربھٹکتے بھٹکتے یہ قبیلہ آخرکار دردستان (شمالی علاقہ جات) میں پھیل گیا۔ دورانِ سفر اس کا بہت سارے لوگوں سے ملنا جلنا ہوا ہوگا اور آہستہ آہستہ کچھ لوگ تو نئے لوگوں میں ہی گھل مل گئے ہوں گے اور جو بچے کھچے شمالی علاقہ جات میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے وہاں پر نئے سرے سے زندگی شروع کی۔ اس دوران انہیں اپنی زبان کوتحریری طور محفوظ رکھنے کا خاص خیال نہیں رہا اور یہ زبان سے بولی بن کر رہ گئی۔ حالانکہ یہ زبان کافی اہم اور مشہور زبان ہے۔ اس میں سنسکرت اور فارسی کے اکثر الفاظ موجود ہیں جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس زبان میں سنسکرت کا اثر زیادہ رہا ہوگا۔ چونکہ قدیم زمانے میں سنسکرت ہی زیادہ مشہورزبان رہی ہے اور اس کے بعد فارسی کا دور دورہ شروع ہوا۔ شینا زبان اب زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں ہی رائج ہے ۔ یہ قوم سندھ سے ہجرت کے بعد دریائے سندھ کے بالائی حصوں ،اس کے معاون دریائوں کے کناروں ،کشن گنگا ،دراس، استور، گلگت، ہنزا، نگر میں آباد ہوئے۔ شینا کا تمام علاقہ بشمول گلگت ،ہنزا، نگر، دریل ،استور، اسکردو وغیرہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں۔ کشن گنگا، دراس، تلیل ،گریز اور لداخ کے بروکشت قبیلے ہندوستان کے زیر انتظام ہیں۔ ڈاکٹربدرس کے مطابق ڈوماکی (سازندوں کی زبان)کی تکمیل وتشکیل میں بھی ایک ایسی ہی زبان استعمال ہوئی ہے جو اب صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہے۔ ان کے بقول شینا اور بروشکی دونوں میں اس معدوم زبان کے الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر گریرسن پساچ کی زبان کو درد اقوام کے آبا واجداد کی زبان قرار دیتاہے۔ ڈاکٹر بدرس کے بقول شینا زبان کے ذخیرہ الفاظ کا ستّرفیصد سنسکرت سے ماخوذ ہے ۔
کس قدر بیدار اور ذہین تھے وہ لوگ جنہوں نے دو اڑھائی ہزارسال پہلے اپنی زبان کوحروف کالباس پہنایا کہ ان زبانوں نے ارتقائی منزلیں طے کیں اورر فتہ رفتہ یہ اقوام صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں لیکن اپنے آثار اورنقوش ،طرز معاشرت اور عقائدکے بارے میں چھوڑے گئے ان آثارکے ذریعہ دنیا کو اُن کے بارے میں علم ہوا۔ آج وہ قومیں جن کا کوئی فرددنیا میں موجود نہیں اور وہ زبانیں جنہیں بولنے والا کوئی شخص بقیدِ حیات نہیں،اُن کی وسیع وعریض سلطنتیں اور حکومتیں فنا ہوئیں لیکن یہ کیا کم ہے کہ انہوں نے فناہوتے ہوتے اپنی زبان اور اپنے فکر وفن کو نوشتوں کی وساطت سے ایک بے حد ترقی یافتہ مستقبل تک پہنچایا اور آنے والی نسلوں کو مطلع کیا اورثابت کر دیا کہ ماضی کبھی مرتا نہیں۔ اگر وہ بھی بس کھانے پینے، سونے جاگنے، دولت سمیٹنے کو ہی زندگی کا مقصد وغایت گردانتے اور علوم وفن کی طرف متوجہ نہ ہوتے تو ان کا دوربھی کئی دیگر ہم عصر تہذیبوں اور قوموں کی طرح فنا اور بے نام ونشان ہوتا۔ قومیں مٹتی ہیں مگر آنے والی نسلوں کے فکر وفن ،معاشرے اور سوچ میں اثر انداز ہوجاتی ہیں۔ ان کے زبان وادب کی باقیات نئی زبانوں میں مدغم ہو کرایک نیا روپ دھارلیتی ہیں ۔
موجودہ دورمیں شینا زبان بھی اپنی آخری سانس لے رہی ہے۔ اگر شینازبان سے وابستہ ذی ہوش افراد اب بھی نہ جاگے تو آنے والی نسلیں انہیں شاید کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اس ضمن میں دراس میں ہمارے چند نوجوان قلم کاروں نے شینا زبان میں لکھنا شروع کیاہے اور انشاء اللہ آنے والے چند مہینوں میں شینا قاعدہ او رگرائمر بھی منظر عام پر لانے کی بھر پور کوشش جاری ہے۔ شینا زبان کے ساتھ تعلق رکھنے والے اور اس زبان میں لکھنے کا شوق رکھنے والے حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنا کچھ وقت شینا زبان کی خدمت کے لیے بھی وقف کریں تاکہ اس زبان کو باقاعدہ تحریر میں لایا جاسکے۔ "شنا” صوتیات میں بہت سی آوازیں ایسی ہیں جن کا اظہار اردو ،عربی اور فارسی حروف سے ممکن نہیں۔ لفظ” شنا "پر ہی غور کر لیں۔ پہلے حرف ش سے جو آواز نکلتی ہے ،اصل تلفظ سے مختلف ہے۔ اسی طرح ترازو ،بارش ،آبشار ،سر ،انڈا اور گدھا جیسے الفاظ کے لیے "شنا” میں جو لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ انہیں بول تو سکتے تھے مگر لکھتے ہوئے اردو سے حروف مستعار لیتے تھے۔ مذکورہ بالا تینوں اہلِ قلم اور ان کے علاوہ بھی "شنا "لسانیات کے ماہرین نے ان مخصوص اصوات کے لیے حروف وضع تو کیے تھے مگر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے "شنا” لکھنے پڑھنے کا چلن عام نہیں ہو سکا تھا۔ مگر2017کا سال "شنا” کے لیے خوش بختی کا پیغام لے کر آیا ہے۔ پہلے قانون ساز اسمبلی میں مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے اسے تدریس میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ پھر حکومت اور انتظامیہ کی سر پرستی میں دو روزہ قومی ادبی میلہ بھی منعقد ہوا۔ زبان و ثقافت اور فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لیے گلگت، بلتستان لینگویج ،کلچر اینڈ آرٹ اکیڈ می کے قیام کا اصولی فیصلہ بھی ہوا۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق اس کا پی سی ون بھی منظور ہوا ہے۔ ان کے علاوہ مادری زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے ایک ریجنل لینگویجز کمیٹی بھی قائم کی گئی۔ جس نے نہایت اہم اور موثر کا م بھی کیا ہے۔ جی بی کی پانچ بڑی زبانوں کے اہلِ قلم اور ماہرینِ لسانیات اس میں شامل ہیں۔ ابتدا ئی چندنشستوں کی بحث و تمحیص کے بعد تمام زبانو ں کے لیے ایک قابل قبول ،مانوس اور بہت حد تک مشترک حروفِ تہجی کی تشکیل پر اتفاقِ رائے ہوا ۔
![]() |
شینا زبان آزمائشی ویکیپیڈیا، ویکیمیڈیا انکوبیٹر پر |
- ↑ ہیمر اسٹورم، ہرالڈ؛ فورکل، رابرٹ؛ ہاسپلمتھ، مارٹن, ویکی نویس (2017ء)۔ "Shina"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری۔
- ↑ ہیمر اسٹورم، ہرالڈ؛ فورکل، رابرٹ؛ ہاسپلمتھ، مارٹن, ویکی نویس (2017ء)۔ "کوہستانی شینا"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری۔