مندرجات کا رخ کریں

سات سمندر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سات سمندر (Seven Seas) فقرہ محاورہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سات سمندر پار سفر کا استعمال ادب میں کافی زیادہ ہے۔ بین الاقوامی آب نگاری تنظیم نے سو سے زیادہ اجسام آب اور بحیرات کی فہرست تیار کی ہے۔

سات سمندر کی اصطلاح 2300 قبل مسیح میں سمیری تہذیب کی انانا دیوی کے بارے میں ملتی ہے۔

فونیقی تہذیب میں سات سمندر سے مراد بحیرہ روم کے سات سمندر ہیں۔ اصل سات سمندر یہ ہیں۔

چین کا راستہ

[ترمیم]

نویں صدی عیسوی کا مصنف اور جغرافیہ دان یعقوبی لکھتا ہے کہ:

"جو بھی چین کو جانا چاہتا ہے اسے سات سمندروں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلا بحیرہ فارس ہے جو سیراف سے نکلنے بعد ملتا ہے اور یہ راس ال جمعہ تک جاتا ہے۔ یہ ایک آبنائے ہے جہاں موتی ملتے ہیں۔ دوسرا سمندر راس ال جمعہ سے شروع ہوتا ہے اور اس کا نام لاروی ہے۔ یہ ایک بڑا سمندر ہے۔ اس میں جزیرہ وقواق اور دیگر جزائر ہیں جو زنج کی ملکیت ہیں۔ ان جزائر کے بادشاہ ہیں۔ اس سمندر میں سفر صرف ستاروں کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ اس میں بڑی بڑی مچھلیاں اور بہت سے عجائبات ہیں جو وضاحت سے بالا ہیں۔ تیسرا سمندر ہرکند ہے۔ اس میں جزیرہ سراندیپ ہے جس میں قیمتی پتھر اور یاقوت ہیں۔ یہاں کے جزائر کے بادشاہ ہیں، مگر ان کے اوپر بھی ایک بادشاہ ہے۔ اس سمندر کے جزائر میں بانس اور رتن کی پیدارار ہوتی ہے۔ چوتھے سمندر کو کلاح کہا جاتا ہے یہ کم گہرا اور بہت بڑے سانپوں سے بھرا ہوا ہے کبھی کبھی تو یہ ہوا میں تیرتے ہوئے بحری جہاز سے بھی ٹکراتے ہیں۔ ان جزائر پر کافور کے درخت اگتے ہیں۔ پانچویں سمندر کو سلاہط کہا جاتا ہے یہ بہت بڑا اور عجائبات سے بھرا پڑا ہے۔ چھٹے سمندر کو کردنج کہا جاتا ہے جہاں اکثر بارش ہوتی ہے۔ ساتویں سمندر کا نام بحیرہ صنجی ہے جسے کنجلی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چین کا سمندر ہے۔ جنوبی ہواوں کے زور پر میٹھے پانی کی خلیج تک پہنچا جاتا ہے، جس کے ساتھ ساتھ قلعہ بند مقامات اور شہر ہیں، یہاں تک کہ خانفو آ جائے۔"

اس پیرا میں سات سمندر کے نام قرون وسطی کے عربی ادب کے حوالے سے ہیں۔ آج کے دور میں ان کے نام یہ ہیں۔

  1. بحیرہ فارس - خلیج فارس
  2. لاروی - خلیج کھمبات
  3. ہرکند - خلیج بنگال
  4. کلاح - آبنائے ملاکا
  5. سلاہط - آبنائے سنگاپور
  6. کردنج - خلیج تھائی لینڈ
  7. بحیرہ صنجی - بحیرۂ جنوبی چین

رومی

[ترمیم]

تمام رومی سات سمندر (لاطینی: septem maria) استعمال نہیں کرتے تھے، یہ شاید آج ایک نئی بحث کو جنم دے سکتی ہے۔ دریائے پو کا ملاحت پزیر جال اور اس کا دھانہ جو نمکیں دلدل میں جاتا تھا اور ایڈریاٹک کا ساحل مجموعی طور پر قدیم رومی دور میں سات سمندر کہلاتا تھا۔

قرون وسطی کا عرب استعمال اور ادب

[ترمیم]

عرب اور ان کے قریبی پڑوسی سات سمندر ( بحار العالم، سبعة البحار) ان کو گردانتے تھے جن کا سامنا انھیں مشرق کے سفر میں ہوتا تھا۔

  1. خلیج فارس - بحیرہ فارس
  2. خلیج کھمبات - بحیرہ لاروی (گجرات، بھارت)
  3. خلیج بنگال - بحیرہ ھرکند
  4. آبنائے ملاکا - بحیرہ کلاح (سماٹرا اور ملایا کے درمیان)
  5. آبنائے سنگاپور - بحیرہ سلاهط
  6. خلیج تھائی لینڈ - بحیرہ کردنج
  7. بحیرۂ جنوبی چین - بحیرہ صنجی

عرب اور فونیقی جہازران دیگر قریبی اہم سمندروں کو سات سمندر گردانتے تھے۔

سات سمندر قرون وسطی کے یورپی ادب میں

سات سمندر کے تصور کی بنیاد قرون وسطی میں یونان اور روم سے ملتی ہے۔ قرون وسطی کے یورپی ادب میں سات مسندر ان کو کہا جاتا تھا:

قرون وسطی کے سات سمندروں میں یہ بھی شامل ہیں:

نشاتِ ثانیہ دور میں متوسط معیاری پیکرنگاری کی گئی اور دنیا کو چار براعظم اور چار دریاوں میں تقسیم کیا گیا۔

اہل فارس سات سمندر کی اصطلاح ان ندیوں کے لیے استعمال کرتے تھے جن سے مل کر دریائے جیحوں بنتا ہے۔

سترہویں صدی کے کلیسا قرن و محقق جان لائٹ فٹ سمندروں کے ایک بہت مختلف مجموعہ کا ذکر کیا ہے۔ اس کی کتاب کے ایک باب کا عنوان سات سمندر تلمودیوں کے مطابق یہ ہیں:

شرق الہند

[ترمیم]

نوآبادیاتی دور میں تیز رو جہازوں سے چائے کی تجارت کے لیے چین سے انگلستان جانے کا راستہ دنیا کا سب سے طویل تجارتی راستہ تھا۔ ولندیزی شرق الہند کے قریب ملاحوں کو سات سمندروں سے گذرنا پڑتا تھا۔

  1. بحیرہ باندا
  2. بحیرہ سلیبس
  3. بحیرہ فلورس
  4. بحیرہ جاوا
  5. بحیرہ جنوبی چین
  6. بحیرہ سولو
  7. بحیرہ تیمور

جدید

[ترمیم]

یورپ کے امریکا دریافت کے بعد کچھ لوگ اصطلاح 'سات سمندر' کا استعمال دنیا کے بڑے اجسام آب کے لیے کرتے ہیں۔

جدید جغرافیائی درجہ بندی میں دنیا کے سات بحار شامل ہیں۔[1]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "the seven seas"۔ Oxford Dictionaries Online۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2012 
  2. Rudyard Kipling (1896)۔ "'The Seven Seas'"۔ 12 مارچ 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 مارچ 2015