ام ایمن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ام ایمن
أم أیمن
برکہ بنت ثعلبہ
معلومات شخصیت
مدفن جنت البقیع  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر نام ام ایمن
شریک حیات
اولاد ایمن بن عبید (بیٹا)
اسامہ بن زید (بیٹا)
والدین ثعلبہ بن عمرو

آپ کا نام ”برکۃ ”ہے۔آپ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باندی تھیں۔ جو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو آپ کے والد ماجد کی میراث میں سے ملی تھیں۔انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی بچپن میں بہت زیادہ خدمت کی ہے ۔ یہی آپ کو کھانا کھلایا کرتی تھیں ، کپڑے پہنایا کرتی تھیں، کپڑے دھویا کرتی تھیں ۔اعلان نبوت کے بعد جلد ہی انھوں نے اسلام قبول کر لیا پھر آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا۔ ان کے بطن سے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے جن سے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اس قدر زیادہ محبت فرماتے تھے کہ عام طور پرصحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ”محبوب رسول”کہا کرتے تھے ۔ برکہ بنت ثعلبہ' جنہیں عام طور ام ایمن کے نام سے جانا جاتا ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے والد بزرگوار عبد اللہ بن عبد المطلب کی خادمہ تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ سے نکاح ہوا اور خلافت عثمان غنی میں وفات پائی ۔[1]

نام و نسب[ترمیم]

برکۃ نام، اُمّ ایمن کنیت، اُمّ الظباء عرف، سلسلہ نسب یہ ہے : برکۃ بنت ثعلبہ بن عمرو بن حصن بن مالک بن سلمہ بن عمر و بن نعمان۔ حبشہ کی رہنے والی تھیں اور عبد اللہ (پدرِ آنحضرت ) کی کنیز تھیں، بچپن سے عبد اللہ کے ساتھ رہیں اور جب انھوں نے انتقال کیا تو حضرت آمنہ کے پاس رہنے لگیں۔ اس کے بعد خود سرورِ کائنات کے حلقۂ غلامی میں داخل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ آنحضرت کی ان ہی نے پرورش اور پرداخت کی تھی۔

نکاح[ترمیم]

حارث بن خزرج کے خاندان میں عبید بن زید ایک شخص تھے ، اُمّ ایمن کا ان ہی کے ساتھ عقد ہوا۔ لیکن جب انھوں نے وفات پائی تو آنحضرت نے زید بن حارثہ سے جو محبوبِ خاص تھے ، نکاح پڑھایا ، یہ بعثت کے بعد کا واقعہ ہے۔[2] :[3][4]

اسلام[ترمیم]

زید بن حارثہ چونکہ مسلمان ہو چکے تھے۔ اُمّ ایمن نے بھی اسلام قبول کیا۔

عام حالات[ترمیم]

جب مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو وہ بھی گئیں اور وہاں سے ہجرت کے بعد مدینہ واپس آئیں۔ غزوۂ اُحد میں شرکت کی اس موقع پر وہ لوگوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی تیمار داری کرتی تھیں، غزوۂ خیبر میں بھی شریک ہوئیں۔ 11ھ میں آنحضرت نے انتقال فرمایا اُمّ ایمن سخت مغموم تھیں اور رو رہی تھیں۔ ابوبکر اور عمر رضی اللّٰہ عنہما نے سمجھایا کہ رسول اللہ کے لیے خدا کے پاس بہتر چیز موجود ہے، جواب ملا: ’’یہ خوب معلوم ہے۔ ‘‘ اور یہ رونے کا سبب بھی نہیں رونے کا اصلی سبب یہ ہے کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ اور عمر رضی اللّٰہ عنہ پر اس جواب کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ بھی ان کے ساتھ مل کر زار و قطار رونے لگے۔ 23ھ میں عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ نے شہادت پائی، اُمّ ایمن کو معلوم ہوا تو بہت روئیں، لوگوں نے کہا: اب کیوں روتی ہو؟ بولیں :’’اب اس لیے کہ اسلام کمزور پڑ گیا۔ ‘‘[5] [3] [6]

رسول اللہ کی پرورش[ترمیم]

جب حضرت محمدﷺ بی بی حلیمہ کے گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو ام ایمن جو آپ کے والد ماجد کی باندی تھیں۔ آپ ﷺ کی خاطر داری و خدمت گزاری میں دن رات جی جان سے مصروف رہنے لگیں یہی آپ ﷺ کو کھانا کھلاتی تھیں 'کپڑے پہناتی تھیں ' کپڑے دھوتی تھیں جب آپ ﷺ بڑے ہوئے تو آپﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ سے ان کا نکاح کر دیا جن سے اسامہ بن زید پیدا ہوئے بی بی ام ایمن حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے بعد کافی دنوں تک مدینہ میں زندہ رہیں اور ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما اپنی اپنی خلافتوں کے دوران بی بی ام ایمن کی زیارت و ملاقات کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اور ان کی خبر گیری فرماتے تھے ۔[7][8] ایک بار ام ایمن نے آٹا چھانا اور اس کی چپاتیاں تیار کر کے، آپ ﷺ كی خدمت میں پیش کیں۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ بولیں ہمارے ملک میں اس کا رواج ہے میں نے چاہا کہ آپ ﷺ کے لیے بھی اس قسم کی چپاتیاں تیار کروں۔ لیکن آپ نے کمال زہد و ورع سے فرمایا کہ آٹے میں چوکر ملالو پھر گوندھو۔[9] [10]

فضل وکمال[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کی ہیں، راویوں میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، حنش بن عبد اللہ صنعانی اور ابو یزید رضی اللہ عنہ مدنی داخل ہیں۔

اخلاق[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نہایت عزت کرتے اور فرماتے تھے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا میری ماں ہیں، اکثر ان کے مکان تشریف لے جاتے، ایک مرتبہ تشریف لائے تو انھوں نے شربت پیش کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (کسی وجہ سے) مترود ہوئے، اس پر ام ایمن رضی اللہ عنہا ناراض ہوئیں۔ [11] حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کرنے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک قسم کا ناز تھا، یہ خفگی اسی محبت کی خفگی تھی۔ [12] انصار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے نخلسان دیے تھے، جب بنو قریظہ اور بنو نضیر پر فتح حاصل ہوئی تو آپ نے انصار رضی اللہ عنہم کوان کے نخلستان واپس کرنا شروع کیے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے کچھ باغ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور آپ نے ام ایمن رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائے تھے، حضرت انس رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے ان کے واپس کرنے سے انکار کر دیا، اس پر مصر رہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر اُن کو باغ سے دس گنا زیادہ عطا فرمایا۔[13] [14]

وفات[ترمیم]

اُمّ ِ ایمنؓ 20 برس تک حضرت زید بن حارثہؓ کے نکاح میں رہیں۔ تقریباً 12سال مکّے میں اور لگ بھگ 8 سال مدینہ منوّرہ میں دونوں میاں بیوی دن رات آنحضرت کی خدمت پر مامور رہے۔ جنگِ موتہ میں حضرت زیدؓ کی شہادت کے بعد انھوں نے نکاح نہیں کیا ۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت کے ابتدائی دَور میں مدینہ منوّرہ میں وفات پائی اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. الجامع الصغير، السيوطي، 8730.
  2. رواه مسلم، فضائل أم أيمن، 2454.
  3. ^ ا ب أم أيمن بركة بنت ثعلبة 01/05/2006 قصة الإسلامآرکائیو شدہ 2017-10-01 بذریعہ وے بیک مشین
  4. ابن سعد: الطبقات الكبرى 2/332
  5. سیر الصحابیات، مؤلف، مولانا سعید انصاری 78،مشتاق بک کارنر لاہور
  6. تاريخ مدينة دمشق، ج11، ص. 221.
  7. الاستیعاب ،کتاب کنی النساء، باب الألف، رقم3557، ام أیمن خادمۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ج4، ص478
  8. جنتی زیور، عبد المصطفٰی اعظمی، صفحہ514، ناشر؛ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ، کراچی۔
  9. سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الحوّاری، الحدیث:3336، ج4، ص42
  10. تاريخ مدينة دمشق، ج11، ص. 221.
  11. (مسلم:2/341)
  12. (نووی شرح مسلم)
  13. سانچہ:استشهاد بويكي بيانات
  14. (صحیح بخاری۔ زرقانی:3/337)